تمام تعریفیں اللہ عزوجل کے لئے ہیں، جو اپنے کشادہ رزق کے باعث حمد کے لائق ہے، وہ ناامیدی کے بعد تکلیف کو دور کرنے والا ہے، اس نے مخلوق کو پیدا کیا اور انہیں وسیع رزق عطا فرمایا، دنیا کے فتنے بہت کثیر ہیں اور نہایت وسیع اور فراخ ہیں، ان فتنوں میں سب سے بڑا فتنہ مال کا ہے، جو زیادہ آزمائش کا باعث ہے، خلاصہ کلام یہ ہے کہ مال کے فائدے بھی ہیں اور آفتیں بھی، جس کا انجام نقصان کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔

بخل کی تعریف: جہاں شرعاً یا عرف و عادت کے اعتبار سے خرچ کرنا واجب ہو، وہاں خرچ نہ کرنا بخل(کنجوسی) ہے۔

1۔اللہ پاک نے بخل کو اپنے غضب سے پیدا کیا اور اس کی جڑ کو زقوم(جہنم کے ایک درخت) کی جڑ میں راسخ کیا اور اس کی بعض شاخیں زمین کی طرف جھکا دیں تو جو شخص بخل کی کسی ٹہنی کو پکڑ لیتا ہے، اللہ پاک اسے جہنم میں داخل فرما دیتا ہے، سن لو! بے شک بخل نا شکری ہے اور ناشکری جہنم میں ہے۔

تشریح:

اس حدیث پاک میں بیان ہوا ہے کہ بخل جہنم میں ایک درخت ہے، جو بخیل ہوا، اس نے اس درخت کی شاخ پکڑی کہ وہ اسے تب تک نہ چھوڑے گی، جب تک اسے جہنم میں داخل نہ کر دے، انسان کے پاس جو مال ہے، وہ اس میں بخل کرتا ہے اور اس کی ناشکری کرتا ہے اور ناشکری کرنے والا جہنم کا حقدار ہوتا ہے۔(کتاب البخلاء، وصف رسول اللہ الخاءوالبخل، صفحہ 48، حدیث 17، الجفان والجابی)

2۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:مالدار بخل کرنے کی وجہ سے بلا حساب جہنم میں داخل ہوں گے۔(فردوس الاخبار، باب السین1/444، حدیث3309) اس حدیث پاک میں یہ بیان ہوا ہے، مالدار یعنی جس کے پاس مال ہو گا، مگر وہ اس کو راہِ خدا میں خرچ کرنے میں بخل کرتا ہے تو وہ بلا حساب یعنی اس کا کوئی حساب کتاب نہ ہوگا اور اسے جہنم میں داخل کر دیا جائے گا۔

3۔حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:کوئی بخیل جنت میں نہیں جائے گا۔(معجم الاوسط، باب العین من اسمہ علی ، ج 3 ، ص 125 ، ح 4066)

تشریح:

اس حدیث میں بیان ہوا ہے کہ مالدار ہونے کے باوجود بخل کرنے والا حدیث میں داخل نہیں ہوگا، یعنی اللہ تعالیٰ نے انسان کو اتنا مال دیا، لیکن وہ مال و دولت کی حرص اور دنیاوی محبت کی وجہ سے اللہ پاک(عزوجل)کی راہ میں خرچ نہیں کرتا، اس میں بخل کرتا ہے تو ایسا شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا۔

4۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:بخیل اللہ سے دور ہے، جنت سے اور آدمیوں سے دور، جبکہ جہنم کے قریب ہے۔(جامع ترمذی، کتاب البر و الصلۃ ، باب ماجاء فی السخاء، ج 3، ص 387، ح 1968) اس حدیث کی شرح یہ ہے کہ بخل کرنے والا اللہ عزوجل سے دور ہے، کیونکہ بخل اللہ عزوجل نے اپنے غضب سے پیدا کیا ہے، جب کہ یہ اللہ سے دور ہے اور جنت سے بھی دور ہے اور آدمیوں سے دور ہے، جبکہ جہنم سے قریب ہے۔

5۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:آدمی کی دو عادتیں بری ہیں،بخیلی جو رولانے والی ہے، بزدلی جو ذلیل کرنے والی ہے۔(ابو داؤد، کتاب جہاد، باب فی الجراۃ الجبن 18/3 ،ح 2511) اس حدیث کی شرح کچھ اس طرح ہے کہ آدمی کے اندر دو بری عادتیں پائی جاتی ہیں، ایک بخل جس کی وجہ سے یہ اللہ عزوجل سے دور ہے اور جہنم کے قریب ہے اور یہ اسے رلانے والی ہے اور دوسری بزدلی، جو انسان کو ذلیل کر دیتی ہے۔

اور جو بخل کرتے ہیں اس چیز میں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دی، ہرگز اسے لئےاچھا نہ سمجھیں بلکہ وہ ان کے لئے برا ہے، عنقریب وہ جس میں بخل کیا تھا قیامت کے دن ان کے گلے کا طوق ہو گا۔

محترم قارئین! اپنے آپ کو بخل یعنی کنجوسی کرنے سے بچائیں اور بخل کی مذمت پر غور کرتے ہوئے اللہ عزوجل کی راہ میں خوش دلی سے خرچ کرنے کا ذہن بنائیں، بخل کی مذمت کے بارے میں جوعذابات قرآن و حدیث میں بیان کئے گئے ہیں، ان پر غور کرکے اپنے آپ کو بخل کرنے سے بچائیں اور اپنے اعمال کو نیکیوں والا بنائیں، کیونکہ ہمارے ساتھ جو چیز جائے گی، وہ ہمارے اعمال ہی ہیں، چاہے وہ اچھے ہوں یا برے، مال و دولت تو سب دنیا میں ہی رہ جائیں گے، یہ فقط دنیا کا سازوسامان ہیں، اللہ عزوجل کی راہ میں خوش دلی سے اپنے مال کو خرچ کریں، بخل ہلاک کرنے والا مرض ہے، بخل بعض اوقات کئی گناہوں کا سبب بن جاتا ہے، لہذا ہر مسلمان کو اس سے بچنا لازم ہے۔

اس میں مبتلا ہونے کے بعض اسباب مال کی محبت اور لمبی امید کا ہونا ہے، ان سے بچنے کے لئے قبروآخرت کو کثرت سے یاد کیجئے کہ میرا مال قبر میں میرے کسی کام نہیں آئے گا، ان شاءاللہ دل سے مال و دولت کی محبت دور ہوگی، بخل کے بارے میں تفصیلی معلومات کے لئے احیاء العلوم، جلد سوم، صفحہ 698 تا819 کا مطالعہ کیجئے۔