اللہ پاک
نے مال کو ایک حکمت اور مقصد کیلئے پیدا فرمایا ہے اور وہ یہ ہے کہ اس سے مخلوق کی
ضروریات پوری ہوں لہذا مال ہونے کے باوجود اسے ضروریات میں خرچ نہ کرنا بخل ہے۔ اب
سوال یہ ہے کہ خرچ کرنے کی واجب مقدار کیا ہے جسے خرچ نہ کرنے سے انسان بخل (کنجوسی)
میں مبتلا ہوجاتا ہے؟ تو جواب یہ ہے کہ اس کی دو قسمیں ہیں۔ ایک وہ جو شریعت کی طرف
سے واجب ہے مثلا زکوة، فطرہ، عشر وغیرہ اور دوسری وہ جو عادت اور مروت کی وجہ سے واجب
ہے جیسے دوست احباب اور عزیز رشتہ داروں پر خرچ کرنا۔ تو جو شخص ان قسموں میں سے کسی
جگہ خرچ نہ کرے، وہ بخیل یعنی کنجوس کہلائے گا۔ (احیاء علوم الدین، کتاب ذمّ البخل
وذمّ حبّ المال، بیان حدّ السخاء والبخل وحقیقتہما، ۳ / ۳۲۰،
ملخصاً)
خیال رہے
کہ جہاں خرچ کرنا شرعاً واجب ہو وہاں بخل کرنا زیادہ مذموم اور عذابِ الہی کا باعث
ہے۔
قرآن پاک اور احادیث
مبارکہ میں متعدد مقامات پر بخل کی مذمت کی گئی ہے۔ یہاں ذیل میں بخل کی مذمت پر مشتمل
5 فرامینِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم درج کیے جاتے ہیں:
1_بخیل
اللہ سے دور ہے، جنت سے دور ہے، لوگوں سے دور ہے، آگ کے قریب ہے اور یقیناً جاہل سخی
کنجوس عابد سے افضل ہے۔ (ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی السخاء، ۳ / ۳۸۷، الحدیث: ۱۹۶۸)
2_بخل
سے بچو کیونکہ بخل نے تم سے پہلے والوں کو ہلاک کردیا۔ اسی بخل نے انہیں خونریزی کرنے
اور حرام کو حلال ٹھہرانے پر آمادہ کیا۔ (مسلم، کتاب البر و الصلة و الآداب، باب تحریم
الظلم، ص ١٣٩۴، حدیث ٢۵٧٨)
3_مالدار
بخل کرنے کی وجہ سے بلا حساب جہنم میں داخل ہوں گے۔ (فردوس الاخبار، باب السین، ۱ / ۴۴۴، الحدیث: ۳۳۰۹)
4_اللہ
پاک نے فرمایا: مجھے اپنی عزت، عظمت اور جلال کی قسم! لالچی اور بخیل جنت میں داخل
نہیں ہوگا۔ (کنز العمال، کتاب الاخلاق، الباب الثانی فی الاخلاق و الافعال المذمومة،
١٨٢/٣، حدیث ٧۴٠۴)
5_اللہ
پاک اس شخص کو ناپسند فرماتا ہے جو زندگی بھر بخل اور مرتے وقت سخاوت کرے۔ (کنز العمال،
کتاب الاخلاق، الباب الثانی فی الاخلاق و الافعال المذمومة، ١٨٠/٣، حدیث ٧٣٧٣)
جب بخل اس قدر
مذموم صفت ہے تو بندے کو چاہئے کہ بخل کے اسباب پر غور کرکے انہیں دور کرنے کی کوشش
کرے، جیسے بخل کا بہت بڑا سبب مال کی محبت ہے، مال سے محبت نفسانی خواہش اور لمبی عمر
تک زندہ رہنے کی امید کی وجہ سے ہوتی ہے، اسے قناعت اور صبر کے ذریعے اور بکثرت موت
کی یاد اور دنیا سے جانے والوں کے حالات پر غور کر کے دور کرے۔ یونہی بخل کی مذمت اور
سخاوت کی فضیلت، حُبّ مال کی آفات پر مشتمل اَحادیث و روایات اور حکایات کا مطالعہ
کر کے غورو فکر کرنا بھی ان شاء اللہ اس مُہلِک مرض سے نجات حاصل کرنے میں معاون ثابت
ہو گا۔ (کیمیائے سعادت، رکن سوم، اصل ششم، علاج بخل، ۲ / ۶۵۰-۶۵۱،
ملخصاً)
اللہ پاک ہمیں
بخل اور کنجوسی سے بچنے اور اپنی راہ میں خوشدلی کے ساتھ خرچ کرنے کی سعادت نصیب فرمائے۔
آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم