بخل مہلک مرض ہے اور سببِ ہلاکت ہے۔بخل کے لغوی معنیٰ  کنجوسی کے ہیں اور جہاں خرچ کرنا شرعاً، عادتاً اور مروتاً لازم ہو، وہاں خرچ نہ کرنا بخل ہے، واجب کا ادا نہ کرنا بھی بخل ہے۔مثلاً کسی شخص پر زکوۃ واجب ہے، زکوۃ کا نہ ادا کرنا بھی بخل ہے، فطرہ واجب ہونے کے باوجود ادا نہ کرنا بھی بخل ہے۔

آیت مبارکہ: وَ لَا يَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ يَبْخَلُوْنَ بِمَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ هُوَ خَيْرًا لَّهُمْ١ؕ بَلْ هُوَ شَرٌّ لَّهُمْ١ؕ سَيُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِهٖ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ١ؕ وَ لِلّٰهِ مِيْرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌؒ۱۸۰

حکم: بخل ایک نہایت قبیح اور مذموم فعل ہے۔

5 فرامینِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم:

1۔لالچ سے بچتے رہو، کیونکہ تم سے پہلی قومیں لالچ کی وجہ سے ہلاک ہوئیں، لالچ نے انہیں بخل پر آمادہ کیا تو وہ بخل کرنے لگے اور جب قطع رحمی کا خیال آیا تو انہوں نے قطع رحمی کی اور جب گناہ کا حکم دیا تو وہ گناہ میں پڑ گئے۔(ابو داؤد، کتاب الزکوۃ، باب فرالشخ، جلد 2، صفحہ 185، حدیث1698)

2۔ کھاؤ اور پیو اور پہنو اور صدقہ کرو، نہ فضول خرچی کرو اور نہ کنجوسی کرو۔(رواہ احمد و ابوداؤد)

3۔بخل نہ کرو، ورنہ تم پر تنگی کردی جائے گی۔(مدینہ الادب، ص 10)

4۔اللہ پاک نے بخل کو اپنے غضب سے پیدا کیا اور اس کی جڑ کو زقوم سے اس کی جڑ میں راسخ کیا اور اس کی بعض شاخیں زمین میں جھکا دیں تو جو شخص بخل کی کسی ٹہنی کو پکڑ لیتا ہے، اللہ پاک اسے جہنم میں داخل کر لیتا ہے، سن لو! بیشک بخل ناشکری ہے اور ناشکری جہنم میں ہے۔

5۔بخل جہنم میں ایک درخت ہے، پس جو بخیل ہوا، اس نے اس کی ٹہنی پکڑ لی، وہ اسے نہ چھوڑے گی، یہاں تک کہ جہنم میں داخل کر دے اور سخاوت جنت میں درخت ہے، پس جو سخی ہوا، وہ اسے نہ چھوڑے گی، یہاں تک کہ جنت میں داخل کر دے۔(فیضان زکوۃ)

بخل میں مبتلا ہونے کے اسباب:مال کی محبت، لمبی امیدیں، تنگدستی کا خوف، نفسانی خواہشات وغیرہ۔

علاج: بخل کی مذمت پر غور کریں، راہِ خدا میں خرچ کرنے کی عادت بنائیں، بخل کے بارے میں اس سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کریں، انشاء اللہ کریم آسانی ہوگی، بخل زنجیروں سے بنا ہوا لباس ہے، جو اسے اختیار کرتا ہے وہ اس میں جکڑ جاتا ہے اور نکل نہیں پاتا۔

ربّ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں قناعت پر صبر کے ساتھ ثابت قدمی عطا فرمائے اور بخل سے بچائے۔آمین