بخل کی تعریف: بخل کے لغوی معنیٰ کنجوسی کے ہیں اور جہاں شرعاً یا عرف وعادت کے اعتبار سے خرچ کرنا واجب ہو، وہاں خرچ نہ کرنا بخل ہے ۔(ظاہری گناہوں کی معلومات، ص 113) بخل مہلک(یعنی ہلاک کرنے والا) مرض ہے۔

آیتِ مبارکہ کا ترجمہ:اور جو بخل کرتے ہیں اس چیز میں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دی، ہرگز اسے اپنے لئےاچھا نہ سمجھیں بلکہ وہ ان کے لئے برا ہے، عنقریب وہ جس میں بخل کیا تھا قیامت کے دن ان کے گلے کا طوق ہو گا ۔(پ 4، آل عمران: 180)

5 فرامینِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم:

1۔ اللہ پاک نے اس بات پر قسم فرمائی ہے، جنت میں کوئی بخیل داخل نہ ہوگا۔(کنزالعمال، کتاب الاخلاق، قسم الاقوال، الجزء 181/2،3 ، حدیث: 7372)

2۔بخل نہ کرو، ورنہ تم پر تنگی کردی جائے گی۔(بخاری، کتاب الزکوۃ، باب التحریض علی الصدقۃ۔۔الخ، ص400، حدیث: 1433)

3۔ لالچ سے بچتے رہو، کیونکہ تم سے پہلی قومیں لالچ کی وجہ سے ہلاک ہوئیں، لالچ نے انہیں بخل پر آمادہ کیا تو وہ بخل کرنے لگے اور جب قطع رحمی کا خیال آیا تو انہوں نے قطع رحمی کی اور جب گناہ کا حکم دیا تو وہ گناہ میں پڑ گئے۔(باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 129، 130)

4۔اللہ نے بخل کو اپنے غضب سے پیدا کیا اور اس کی جڑ کو زقوم(جہنم کے ایک درخت) کی جڑ میں راسخ کیا اور اس کی بعض شاخیں زمین میں جھکا دیں تو جو شخص بخل کی کسی ٹہنی کو پکڑ لیتا ہے، اللہ پاک اسے جہنم میں داخل کر لیتا ہے، سن لو! بیشک بخل ناشکری ہے اور ناشکری جہنم میں ہے۔(ظاہری گناہوں کی معلومات، ص 114)

5۔ جنت میں نہ تو دھوکہ باز داخل ہوگا، نہ بخیل اور نہ صدقہ کرکے احسان جتانے والا۔(ترمذی شریف)

اسباب:مال کی محبت، لمبی امید، تنگدستی کا خوف، نفس کی خواہشات کا غلبہ، بچوں کے روشن مستقبل کی فکر۔

بخل سے چھٹکارا پانے کے لئے:قبر و آخرت کو یاد کیجئے کہ میرا یہ مال قبر میں میرے کسی کام نہ آئے گا، ان شاءاللہ دل سے مال و دولت کی محبت دور ہوگی اور قبر و آخرت کی تیاری کرنے کا ذہن بنے گا، یہ بات بھی ذہن میں بٹھا لیجئے کہ راہِ خدا میں مال خرچ کرنے سے کمی نہیں آتی، بلکہ اضافہ ہی ہوتا ہے، تنگدستی بخل کی وجہ سے ہوتی ہے، اس سلسلے میں امیر اہلسنت کا رسالہ گناھوں کا علاج پڑھنا مفید ہے۔

اللہ پر بھروسہ رکھنے میں اپنے یقین کو مزید پختہ کریں کہ جس ربّ نے میرا مستقبل بہتر بنایا ہے، وہی ربّ میرے بچوں کے مستقبل کو بھی بہتر بنانے پر قادر ہے۔

نوٹ:بخل کے بارے میں تفصیلی معلومات کے لئے احیاء العلوم جلد سوم، صفحہ 698تا 819 کا مطالعہ کیجئے۔