تمہیدی گفتگو:بخل بہت بُری اور بڑی باطنی بیماری ہے، بخل کی تعریف یہ ہے کہ جہاں شرعاً، عرف و عادت کے اعتبار سے خرچ کرنا واجب ہو، وہاں خرچ نہ کرنا بخل ہے، زکوۃ، صدقہ فطر وغیرہ میں خرچ کرنا شرعاً واجب ہے اور دوست احباب، عزیز رشتہ داروں پر خرچ کرنا عرف و عادت کے اعتبار سے واجب ہے۔

ایک بار حضرت یحییٰ علیہ السلام نے ابلیس کو اس کی اصلی شکل میں دیکھا تو اس سے فرمایا:اے ابلیس! مجھے بتا کہ تیرے نزدیک لوگوں میں سب سے پسندیدہ کون ہے؟ اس نے عرض کی:لوگوں میں مجھے سب سے زیادہ محبوب وہ مسلمان ہے، جو بخیل ہو اور سب سے زیادہ ناپسندیدہ وہ گناہگار ہے، جو سخی ہے، ارشاد فرمایا:ایسا کیوں؟اس نے عرض کی:بخیل کا بخل میرے لئے لئے کافی ہے، جبکہ گنہگار سخی کے بارے میں مجھے خوف ہے کہ اللہ تعالیٰ کہیں اس پر نظر ِکرم فرما کر اس کی سخاوت قبول نہ فرما لے۔

بخل کی مذمت: قرآن مجید اور دیگر احادیث مبارکہ میں بخل کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے، چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرَاۙ۳۶ ا۟لَّذِيْنَ يَبْخَلُوْنَ وَ يَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ وَ يَكْتُمُوْنَ مَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ١ؕ ترجمہ کنز الایمان:بے شک اللہ کو خوش نہیں آتا کوئی اترانے والا، برائی مارنے والا، جوآپ بخل کریں اور اسے بخل کے لئے کہیں اور اللہ نے جو انہیں اپنے فضل سے دیا ہے، اسے چھپائیں۔

شانِ نزول: یہ آیت یہود کے حق میں نازل ہوئی تو سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت بیان کرنے میں بخل کرتے اور چھپاتے۔

مسئلہ:اس سے معلوم ہوا کہ علم کو چھپانا مذموم ہے ۔

بخیل شخص دراصل اپنا ہی نقصان کرتا ہے، کیونکہ راہِ خدا عزوجل میں خرچ کیا ہوا مال بلاشبہ دنیا میں برکت اور آخرت میں اجر و ثواب کی صورت میں نفع بخش ہوتا ہے، جبکہ بخیل ان دونوں سے محروم رہتا ہے۔

احادیث مبارکہ:

1۔ ایسا کوئی دن نہیں، جس میں بندے سویرا کریں اور دوفرشتے نہ اتریں، جن میں سے ایک تو کہتا ہے، الہی! سخی کو زیادہ اچھا عوض دے اور دوسرا کہتا ہے، الہی! بخیل کو بربادی دے۔( شعب الایمان، باب الزکاۃ، رد المسائل، جلد 3، صفحہ 233، حدیث3412) اس حدیث کی شرح میں مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:یعنی سخی کے لئے دعا اور کنجوس کے لئے بددعا روزانہ فرشتوں کے منہ سے نکلتی ہے، جو یقیناً قبول ہے۔

2۔ رسولِ بےمثال صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں ایک عورت کی تعریف کی گئی، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی کہ وہ بہت روزے رکھنے والی اور رات کو قیام کرنے والی ہے، لیکن اس میں بخل کی عادت بھی ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:پھر اس میں کوئی بھلائی نہیں ہے۔

حضرت بشر رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:بخیل کو دیکھنا دل کو سخت کرتا ہے اور بخیل سے ملنا مؤمنوں کے دلوں پر شاق ہوتا ہے۔

3۔ ظلم سے بچو، کیونکہ ظلم قیامت کے دن اندھیریوں میں ہوگا اور کنجوسی سے بچو، کیونکہ کنجوسی نے تم سے پہلے لوگوں کو ہلاکت کا شکار کیا اور اس نے انہیں رغبت دی اور انہوں نے خونریزی کی اور حرام کو حلال جانا۔(صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ واادب، باب تحریم الظلم، صفحہ 1000، حدیث 2578)حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:ظلم کے لغوی معنیٰ ہیں،کسی چیز کو بے موقع استعمال کرنا اور کسی کا حق مارنا، قرابت داروں یا قرض خواہوں کو حق نہ دینا، ان پر ظلم کرنا، کسی کو ستانا، ایذا دینا، اس پرظلم، یہ حدیث سب کو شامل ہے۔

4۔ مؤمن میں دو خصلتیں کبھی جمع نہیں ہوتیں، کنجوسی، بدخلقی۔ اس حدیث کی شرح میں مفتی صاحب فرماتے ہیں:ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی کامل مؤمن بھی ہو اور ہمیشہ کا بخیل اور بدخلق بھی، اگر اتفاقاً کبھی اس سے بخل یا بدخلقی صادر ہوجائے تو وہ فوراً پشیمان ہو جاتا ہے۔

5۔ مالدار بخل کرنے کی وجہ سے بلا حساب جہنم میں داخل ہوں گے۔

بخل سے بچنے کا درس: بخل کا بڑا سبب مال کی محبت ہے، مال سے محبت، نفسانی خواہش اور لمبی عمر تک زندہ رہنے کی امید کی وجہ سے ہوتی ہے، اسے قناعت اور صبر کے ذریعے موت کی یاد اور دنیا سے جانے والوں کے حالات پر غور کرکے دور کرے، یوں ہی بخل کی مذمت اور سخاوت کی فضیلت، حبِ مال کی آفات پر مشتمل احادیث و روایات اور احکامات کا مطالعہ کرکے بھی اس مہلک مرض سے نجات حاصل کرنے میں ممد و معاون ثابت ہوگا۔