اللہ کریم کے نام سے شروع جو تمام صفات کمالیہ کا جامع ہے اور درود ہواللہ پاک کے پیغمبروں پر جن کو مختلف اوصاف سے مشرف فرمایا ان بندگان خدا میں سے ایک ہستی جناب حضرت ادریس علیہ السلام بھی ہیں جن کی صفات کو اللہ کریم نے قرآن مجید میں ذکر فرمایا۔ آپ کی صفات کا ذکر کرنے سے پہلے مختصر سا تعارف ملاحظہ کرتے ہیں۔

تعارف حضرت ادریس علیہ السلام:

آپ علیہ السلام کا اصل نام خنوخ یا اخنوخ ہے، آپ علیہ السلام حضرت آدم اور حضرت شیث علیہما السلام کے بعد تشریف لائے، آپ علیہ السلام کی ذات پر نازل ہونے والے صحیفوں کی تعداد 30 ہے،ان صحیفوں کا کثرت سے درس دینے کی وجہ سے ہی آپ کو ادریس کا لقب دیا گیا۔ سب سے پہلے قلم سے جس ہستی نے لکھا وہ آپ علیہ السلام ہی ہیں۔ آپ علیہ السلام کو وعدۂ الٰہی کے مطابق ابھی موت نہیں آئی، آپ علیہ السلام آسمانوں میں زندہ ہیں اور جب اللہ تعالیٰ چاہے گا تو آپ ضرور وصال فرمائیں گے۔

قرآن کریم میں آپ علیہ السلام کے چار اوصاف بیان کئے گئے ہیں:

(1، 2)وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِدْرِیْسَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّاۗۙ(56) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور کتاب میں ادریس کو یاد کرو بےشک وہ صدیق تھا غیب کی خبریں دیتا۔(پ16، مریم:56)

تمام انبیاء کرام علیہم السلام سچے اور صدیق ہیں لیکن یہاں حضرت ادریس علیہ السلام کی صداقت و صدیقیت کو بطور خاص ذکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ میں اس وصف کا ظہور نمایاں تھا اور سچائی یقیناً اللہ کریم کو پسند ہے اور اس کے پسندیدہ بندوں کا قابل تعریف وصف ہے۔(سیرت الانبیاء، ص 152)

(3، 4)آپ علیہ السلام صبر کرنے والے اور قرب الٰہی کے لائق بندوں میں سے تھے، جیسا کہ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ(85) وَ اَدْخَلْنٰهُمْ فِیْ رَحْمَتِنَاؕ-اِنَّهُمْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(86) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اسمٰعیل اور ادریس ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر والے تھے۔اور انہیں ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا بےشک وہ ہمارے قربِ خاص کے سزاواروں میں ہیں۔(پ17، الانبیآء:85، 86)

حضرت ادریس علیہ السلام استقامت کے ساتھ کتاب الٰہی کا درس دیتے، عبادت الٰہی میں مصروف رہتے اور اسں راہ میں آنے والی مشقتوں پر صبر کرتے تھے، اس لیے آپ علیہ السلام کو بھی بطور خاص صابرین میں شمار فرمایا گیا۔

انعامات الٰہی عزوجل: اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام پر جو انعامات فرمائے ان میں سے دو کا تذکرہ قرآن پاک میں بھی موجود ہے۔

(1)آپ علیہ السلام کو اپنی خاص رحمت میں داخل فرمایا، ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ اَدْخَلْنٰهُمْ فِیْ رَحْمَتِنَاؕ- ترجَمۂ کنزُالایمان:اور انہیں ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا۔(پ17، الانبیآء: 86)

(2) آپ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھالیا، فرمانِ باری تعالیٰ ہے: وَّ رَفَعْنٰهُ مَكَانًا عَلِیًّا(57) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ہم نے اسے بلند مکان پر اٹھالیا۔(پ16، مریم:57)

رفعت ادریس علیہ السلام: بلند مکان پر اٹھالینے کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ اس سے آپ علیہ السلام کے مرتبے کی بلندی مراد ہےاور ایک قول یہ ہے کہ آپ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھا لیا گیا ہے اور زیادہ صحیح یہی دوسرا قول ہے۔ بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ بعد موت آپ آسمان پر تشریف لے گئے۔ (سیرت الانبیاء، ص 154 )

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے انبیاء کرام علیہم السلام کی سیرت اپنانے اور ان پاکیزہ ہستیوں کی صفات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔