انبیاء کرام علیہم السلام کائنات کی عظیم ترین ہستیاں اور انسانوں میں ہیروں موتیوں کی طرح جگمگاتی شخصیات ہیں جنہیں خدا نے وحی کے نور سے روشنی بخشی اور حکمتوں کے سرچشمے ان کے دلوں میں جاری فرمائے اور وہ بلندیاں عطا فرمائیں جن کی تابانی سے مخلوق کی آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں انہی انبیاء کرام علیہم السلام میں حضرت ادریس علیہ السلام بھی ہیں اللہ عزوجل نے آپ کو بہت سے کمالات، معجزات اور صفات سے نوازا ہے قرآن پاک کی روشنی میں آپ علیہ السلام کی 5 صفات ذکر کرنے کی کوشش کروں گا آپ بھی پڑھئے اور علم و عمل میں اضافہ کیجئے:

(1، 2) آپ علیہ السلام بہت سچے اور نبی تھے: ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِدْرِیْسَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّاۗۙ(56) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور کتاب میں ادریس کو یاد کرو بےشک وہ صدیق تھا غیب کی خبریں دیتا۔(پ16، مریم:56)

تمام انبیاء کرام علیہم السلام سچے اور صدیق ہیں لیکن اس آیت مبارکہ میں حضرت ادریس علیہ السلام کی صداقت و صدیقیت کو بطور خاص بیان کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ علیہ السلام میں اس وصف کا ظہور بہت نمایاں تھا۔

حضرت ادریس علیہ السلام اللہ عزوجل کے ان برگزیدہ اور نیک بندوں میں سے ہیں جن کو اللہ عزوجل نے نبوت کے اعلیٰ منصب سے فیض یاب فرمایا اور حضرت آدم علیہ السلام کے بعد آپ علیہ السلام ہی پہلے رسول تھے۔

(3)صبر کرنے والے:ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ(85) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اسمٰعیل اور ادریس ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر والے تھے۔(پ17، الانبیآء:85)

حضرت ادریس علیہ السلام راهِ خدا میں آنے والی مشقتوں پر صبر کرتے تھے اس لیے آیت مبارکہ میں آپ علیہ السلام کو دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کےساتھ بطور نام کے ساتھ خاص صابرین میں شمار فرمایا۔

(4)داخلِ رحمت: حضرت ادریس علیہ السلام کی صفات میں سے ایک صفت یہ بھی ہے کہ اللہ عزوجل نے آپ علیہ السلام کو اپنی خاص رحمت میں داخل فرمایا۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَ اَدْخَلْنٰهُمْ فِیْ رَحْمَتِنَاؕ- ترجَمۂ کنزُالایمان: اور انہیں ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا۔(پ17، الانبیآء:86)

(5)قرب الٰہی پانے والے: دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کے ساتھ ساتھ آپ علیہ السلام کو بھی اللہ عزوجل نے اپنے قرب والے بندوں میں شمار فرمایا۔ جیساکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: اِنَّهُمْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(86) ترجَمۂ کنزُالایمان:بےشک وہ ہمارے قربِ خاص کے سزاواروں میں ہیں۔(پ17، الانبیآء:86)

اللہ عزوجل ہمیں انبیاء کرام علیہم السلام کی صفات کے صدقے نیکیاں کرنے اور گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔

قرآن کریم میں حضرت ادریس علیہ السلام کے 4 اوصاف بیان کیے گئے ہیں:

(1، 2) آپ علیہ السلام بہت سچے اور نبی تھے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِدْرِیْسَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّاۗۙ(56) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور کتاب میں ادریس کو یاد کرو بےشک وہ صدیق تھا غیب کی خبریں دیتا۔(پ16، مریم:56)

تمام انبیاء کرام علیہم السلام سچے اور صدیق ہیں لیکن یہاں حضرت ادریس علیہ السلام کی صداقت و صدیقیت کو بطور خاص بیان کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ میں اس وصف کا ظہور بہت نمایاں تھا اور سچائی یقیناً اللہ تعالیٰ کو پسند اور اس کے پسندیدہ بندوں کا قابلِ تعریف وصف ہے۔ غیر انبیاء میں سب سے بڑے صدیق سیدنا ابو بکر صدیق رَضِی اللہ عنہ ہیں جن کا لقب ہی صدیق اکبر ہے۔

(3، 4) آپ علیہ السلام صبر کرنے والے اور قرب الٰہی کے لائق بندوں میں سے تھے، جیسا کہ ارشاد فرمایا: وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ(85) وَ اَدْخَلْنٰهُمْ فِیْ رَحْمَتِنَاؕ-اِنَّهُمْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(86) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اسمٰعیل اور ادریس ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر والے تھے۔اور انہیں ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا بےشک وہ ہمارے قربِ خاص کے سزاواروں میں ہیں۔(پ17، الانبیآء:85، 86)

حضرت ادریس علیہ السلام استقامت کے ساتھ کتاب الٰہی کا درس دیتے، عبادت الٰہی میں مصروف رہتے اور اس راہ میں آنے والی مشقتوں پر صبر کرتے تھے، اس لیے آپ علیہ السلام کو بھی بطورِ خاص صابرین میں شمار فرمایا گیا۔

انعاماتِ الٰہی: اللہ تعالٰ نے آپ علیہ السلام پر جو انعامات فرمائے ان میں سے دو کا تذکرہ قرآن پاک میں بھی موجود ہے:

(1) آپ علیہ السلام کو اپنی خاص رحمت میں داخل فرمایا، ارشاد باری تعالیٰ ہے:وَ اَدْخَلْنٰهُمْ فِیْ رَحْمَتِنَاؕ-اِنَّهُمْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(86)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور انہیں ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا۔ (پ17، الانبیآء:86)

(2) آپ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھا لیا، فرمانِ باری تعالیٰ ہے:وَّ رَفَعْنٰهُ مَكَانًا عَلِیًّا(57)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ہم نے اسے بلند مکان پر اٹھالیا۔(پ16، مریم:57)

رفعتِ ادریس علیہ السلام:بلند مکان پر اٹھا لینے کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ اس سے آپ علیہ السلام کے مرتبے کی بلندی مراد ہے اور ایک قول یہ ہے کہ آپ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھالیا گیا ہے اور زیادہ صحیح یہی دوسرا قول ہے۔(خازن، مریم، تحت الآیۃ:57، 3/238)

آسمان پر جانے کے واقعہ سے متعلق اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

آپ (علیہ السلام) کے واقعہ میں علماء کو اختلاف ہے، اتنا تو ایمان ہے کہ آپ آسمان پر تشریف فرما ہیں۔ قرآن کریم میں ہے:وَّ رَفَعْنٰهُ مَكَانًا عَلِیًّا(57) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ہم نے اسے بلند مکان پر اٹھالیا۔(پ16، مریم:57)

حضرت ادریس علیہ السلام زندہ ہیں: اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: چار نبی زندہ ہیں کہ اُن کو وعدۂ الٰہیہ ابھی آیا ہی نہیں۔یوں تو ہر نبی زندہ ہے (جیسا کہ حدیث پاک میں ہے):اِنَّ اللهَ حَرَّمَ عَلَى الْاَرْضِ اَنْ تَاْكُل اَجْسَادَ الْاَنْبِيَاءِ فَنَبِيُّ اللهِ حَى يُرْزَقُ بیشک اللہ (عزوجل) نے حرام کیا ہے زمین پر کہ انبیاء علیہم الصلوة والسلام کے جسموں کو خراب کرے، تو اللہ (عزوجل) کے نبی زندہ ہیں، روزی دیئے جاتے ہیں۔ (ابن ماجہ، 2/291، حدیث:1637)

انبیاء کرام علیہم الصلوة والسلام پر ایک آن کو محض تصدیق وعدۂ الٰہیہ کے لیے موت طاری ہوتی ہے، بعد اس کے پھر اُن کو حیاتِ حقیقی حسی دنیوی عطا ہوتی ہے۔ خیر ان چاروں میں سے دو آسمان پر ہیں اور دو زمین پر۔ خضر و الیاس علیہماالسّلام زمین پر ہیں اور ادریس و عیسیٰ (علیہماالسلام) آسمان پر۔ (در منثور، 5/432-ملفوظات اعلیٰ حضرت، ص 484)

حضرت ادریس علیہ السلام کو موت ضرور آئے گی: اسی مقام پر سیدی اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ سے سوال ہوا: حضور ان پر موت طاری ہو گی ؟ اس کے جواب میں فرمایا: ضرور (کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:) كُلُّ نَفْسٍ ذَآىٕقَةُ الْمَوْتِؕ ترجَمۂ کنزُالایمان:ہر جان کو موت چکھنی ہے۔(پ4، آل عمرٰن:185)

رفعتِ ادریس اور رفعت مصطفیٰ میں فرق: یہاں بعض علماء نے ایک بڑی پیاری بات لکھی ہے کہ حضرت ادریس کو جو رفعت عطا کی گئی اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: وَّ رَفَعْنٰهُ مَكَانًا عَلِیًّا(57) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ہم نے اسے بلند مکان پر اٹھالیا ۔ (پ16، مریم:57)

اور سید المرسلين صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اس سے کہیں زیادہ افضل اور کامل رفعت عطا کی گئی کیونکہ اللہ تعالیٰ نےدنیاو آخرت میں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ذکر بلند کر دیا جیسا کہ ارشاد فرمایا: وَ رَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَؕ(4)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ہم نے تمہارے لیے تمہارا ذکر بلند کردیا۔ (پ 30،الم نشرح: 4)

کوئی خطیب اور کوئی نمازی ایسا نہیں جو یہ ندانہ دیتاہو اَشْهَدُ ان لا الٰهَ اِلَّا اللہ وَاَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللہ یوں اللہ تعالیٰ نے زمین کے مشرقوں اور مغربوں میں حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے نام کو اپنے نام کے ساتھ ملادیا۔(البدایہ والنہایہ قصتہ حبس الشمس علی یوشع، 4/702 ملخصا)

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔

قرآن کریم میں حضرت ادریس علیہ السلام کے 4 اوصاف بیان کیے گئے ہیں:

(1، 2) آپ علیہ السلام بہت سچے اور نبی تھے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِدْرِیْسَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّاۗۙ(56) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور کتاب میں ادریس کو یاد کرو بےشک وہ صدیق تھا غیب کی خبریں دیتا۔(پ16، مریم:56)

تمام انبیاء کرام علیہم السلام سچے اور صدیق ہیں لیکن یہاں حضرت ادریس علیہ السلام کی صداقت و صدیقیت کو بطور خاص بیان کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ میں اس وصف کا ظہور بہت نمایاں تھا اور سچائی یقیناً اللہ تعالیٰ کو پسند اور اس کے پسندیدہ بندوں کا قابلِ تعریف وصف ہے۔ غیر انبیاء میں سب سے بڑے صدیق سیدنا ابو بکر صدیق رَضِی اللہ عنہ ہیں جن کا لقب ہی صدیق اکبر ہے۔

(3، 4) آپ علیہ السلام صبر کرنے والے اور قرب الٰہی کے لائق بندوں میں سے تھے، جیسا کہ ارشاد فرمایا: وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ(85) وَ اَدْخَلْنٰهُمْ فِیْ رَحْمَتِنَاؕ-اِنَّهُمْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(86) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اسمٰعیل اور ادریس ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر والے تھے۔اور انہیں ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا بےشک وہ ہمارے قربِ خاص کے سزاواروں میں ہیں۔(پ17، الانبیآء:85، 86)

حضرت ادریس علیہ السلام استقامت کے ساتھ کتاب الٰہی کا درس دیتے، عبادت الٰہی میں مصروف رہتے اور اس راہ میں آنے والی مشقتوں پر صبر کرتے تھے، اس لیے آپ علیہ السلام کو بھی بطورِ خاص صابرین میں شمار فرمایا گیا۔

انعاماتِ الٰہی: اللہ تعالٰ نے آپ علیہ السلام پر جو انعامات فرمائے ان میں سے دو کا تذکرہ قرآن پاک میں بھی موجود ہے:

(1) آپ علیہ السلام کو اپنی خاص رحمت میں داخل فرمایا، ارشاد باری تعالیٰ ہے:وَ اَدْخَلْنٰهُمْ فِیْ رَحْمَتِنَاؕ-اِنَّهُمْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(86)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور انہیں ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا۔ (پ17، الانبیآء:86)

(2) آپ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھا لیا، فرمانِ باری تعالیٰ ہے:وَّ رَفَعْنٰهُ مَكَانًا عَلِیًّا(57)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ہم نے اسے بلند مکان پر اٹھالیا۔(پ16، مریم:57)

رفعتِ ادریس علیہ السلام:بلند مکان پر اٹھا لینے کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ اس سے آپ علیہ السلام کے مرتبے کی بلندی مراد ہے اور ایک قول یہ ہے کہ آپ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھالیا گیا ہے اور زیادہ صحیح یہی دوسرا قول ہے۔(خازن، مریم، تحت الآیۃ:57، 3/238)

آسمان پر جانے کے واقعہ سے متعلق اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

آپ (علیہ السلام) کے واقعہ میں علماء کو اختلاف ہے، اتنا تو ایمان ہے کہ آپ آسمان پر تشریف فرما ہیں۔ قرآن کریم میں ہے:وَّ رَفَعْنٰهُ مَكَانًا عَلِیًّا(57) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ہم نے اسے بلند مکان پر اٹھالیا۔(پ16، مریم:57)

حضرت ادریس علیہ السلام زندہ ہیں: اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: چار نبی زندہ ہیں کہ اُن کو وعدۂ الٰہیہ ابھی آیا ہی نہیں۔یوں تو ہر نبی زندہ ہے (جیسا کہ حدیث پاک میں ہے):اِنَّ اللهَ حَرَّمَ عَلَى الْاَرْضِ اَنْ تَاْكُل اَجْسَادَ الْاَنْبِيَاءِ فَنَبِيُّ اللهِ حَى يُرْزَقُ بیشک اللہ (عزوجل) نے حرام کیا ہے زمین پر کہ انبیاء علیہم الصلوة والسلام کے جسموں کو خراب کرے، تو اللہ (عزوجل) کے نبی زندہ ہیں، روزی دیئے جاتے ہیں۔ (ابن ماجہ، 2/291، حدیث:1637)

انبیاء کرام علیہم الصلوة والسلام پر ایک آن کو محض تصدیق وعدۂ الٰہیہ کے لیے موت طاری ہوتی ہے، بعد اس کے پھر اُن کو حیاتِ حقیقی حسی دنیوی عطا ہوتی ہے۔ خیر ان چاروں میں سے دو آسمان پر ہیں اور دو زمین پر۔ خضر و الیاس علیہماالسّلام زمین پر ہیں اور ادریس و عیسیٰ (علیہماالسلام) آسمان پر۔ (در منثور، 5/432-ملفوظات اعلیٰ حضرت، ص 484)

حضرت ادریس علیہ السلام کو موت ضرور آئے گی: اسی مقام پر سیدی اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ سے سوال ہوا: حضور ان پر موت طاری ہو گی ؟ اس کے جواب میں فرمایا: ضرور (کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:) كُلُّ نَفْسٍ ذَآىٕقَةُ الْمَوْتِؕ ترجَمۂ کنزُالایمان:ہر جان کو موت چکھنی ہے۔(پ4، آل عمرٰن:185)

رفعتِ ادریس اور رفعت مصطفیٰ میں فرق: یہاں بعض علماء نے ایک بڑی پیاری بات لکھی ہے کہ حضرت ادریس کو جو رفعت عطا کی گئی اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: وَّ رَفَعْنٰهُ مَكَانًا عَلِیًّا(57) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ہم نے اسے بلند مکان پر اٹھالیا ۔ (پ16، مریم:57)

اور سید المرسلين صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اس سے کہیں زیادہ افضل اور کامل رفعت عطا کی گئی کیونکہ اللہ تعالیٰ نےدنیاو آخرت میں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ذکر بلند کر دیا جیسا کہ ارشاد فرمایا: وَ رَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَؕ(4)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ہم نے تمہارے لیے تمہارا ذکر بلند کردیا۔ (پ 30،الم نشرح: 4)

کوئی خطیب اور کوئی نمازی ایسا نہیں جو یہ ندانہ دیتاہو اَشْهَدُ ان لا الٰهَ اِلَّا اللہ وَاَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللہ یوں اللہ تعالیٰ نے زمین کے مشرقوں اور مغربوں میں حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے نام کو اپنے نام کے ساتھ ملادیا۔(البدایہ والنہایہ قصتہ حبس الشمس علی یوشع، 4/702 ملخصا)

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔

انبیاء کرام علیہ السلام کائنات کی عظیم ترین ہستیاں اور انسانوں میں ہیروں موتیوں کی طرح جگمگاتی شخصیات ہیں جنہیں خدا نے وحی کے نور سے روشنی بخشی، حکمتوں کے سرچشمے ان کے دلوں میں جاری فرمائے اور سیرت و کردار کی وہ بلندیاں عطا فرمائیں جن کی تابانی(نور) سے مخلوق کی آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں ان میں سے ایک حضرت ادریس علیہ السلام ہیں جو حضرت آدم اور حضرت شیث علیہما السلام کے بعد تشریف لائے۔ آپ علیہ السلام حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے آباء و اجداد میں سے ہیں۔

مختصر تعارف: آپ علیہ السلام کا اصل نام خنوخ یا اخنوخ ہے۔آپ علیہ السلام پر 30 صحیفے نازل ہوئے ان صحیفوں کا بکثرت درس دینے کی وجہ سے آپ کا لقب ادریس ہوا۔ آپ علیہ السلام حضرت نوح علیہ السلام کے دادا کے والد ہیں۔(سیرت الانبیاء، ص148)

آپ علیہ السلام کی عملی زندگی: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:حضرت ادریس علیہ السلام کپڑے سلائی کیا کرتے اور ہر ٹانکے پر سبحان اللہ کہتے ہیں، جب شام ہو جاتی تو اس وقت تک روئے زمین پر کوئی بھی شخص عمل کے لحاظ سے آپ علیہ السلام سے افضل نہ ہوتا۔ (سیرت الانبیاء، ص 149)

آپ علیہ السلام کی اولیات و ایجادات:٭آپ علیہ السلام نے ہی سب سے پہلے قلم سے لکھا ٭کپڑوں کو سینے اور سلے ہوئے کپڑے پہننے کی ابتدا کرنے والے ٭سب سے پہلے ہتھیار بنانے والے ٭ترازو اور پیمانہ قائم کرنے والے ٭علم نجوم اور علم حساب میں نظر فرمانے والے بھی آپ علیہ السلام ہی ہیں۔(سیرت الانبیاء، ص 150)

قرآن پاک میں آپ علیہ السلام کے وصف:

قرآن پاک میں جہاں دیگر انبیاء کرام کے اوصاف بیان ہوئے ہیں وہیں حضرتِ ادریس علیہ السلام کے اوصاف و کمالات بھی بیان ہوئے ہیں ان میں سے چند ملاحظہ فرمائیں:

(1)اور (2)آپ علیہ السلام سچے اور نبی تھے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِدْرِیْسَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّاۗۙ(56) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور کتاب میں ادریس کو یاد کرو بےشک وہ صدیق تھا غیب کی خبریں دیتا۔(پ16، مریم:56)

تمام انبیاء کرام علیہم السلام سچے صدیق ہیں۔ لیکن یہاں آپ علیہ السلام کی صداقت وصدیقیت کو بطور خاص بیان کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ میں اس وصف کا ظہور بہت نمایاں تھا اور سچائی یقیناً اللہ تعالیٰ کو پسند ہے اور اس کے پسندیدہ بندوں کا قابلِ تعریف وصف ہے۔ (سیرت الانبیاء، ص 152)

(3) اور (4) آپ علیہ السلام صبر کرنے والے اور قرب الہٰی کے لائق بندوں میں سے تھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ(85) وَ اَدْخَلْنٰهُمْ فِیْ رَحْمَتِنَاؕ-اِنَّهُمْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(86) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اسمٰعیل اور ادریس ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر والے تھے۔اور انہیں ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا بےشک وہ ہمارے قربِ خاص کے سزاواروں میں ہیں۔(پ17، الانبیآء:85، 86)

آپ علیہ السلام کا صبر : حضرت ادریس علیہ السلام استقامت کے ساتھ کتاب الٰہی کا درس دیتے، عبادت الٰہی میں مصروف رہتے اور اس راہ میں آنے والی مشقتوں پر صبر کرتے تھے، اس لیے آپ علیہ السلام کو بھی بطور خاص صابرین میں شمار فرمایا گیا۔(سیرت الانبیاء، ص153)

(5)آپ علیہ السلام زندہ ہیں: وَّ رَفَعْنٰهُ مَكَانًا عَلِیًّا(57) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ہم نے اسے بلند مکان پر اٹھالیا۔(پ16، مریم:57)

حضرت ادریس عَلَیْہِ السَّلَام کو بلند مکان پر اٹھا لینے کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ اس سے آپ عَلَیْہِ السَّلَام کے مرتبے کی بلندی مراد ہے اور ایک قول یہ ہے کہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام کو آسمان پر اٹھالیا گیا ہے اور زیادہ صحیح یہی قول ہے کہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام کو آسمان پر اٹھالیا گیا ہے۔

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: چار نبی زندہ ہیں کہ ان کو وعدۂ الٰہیہ (یعنی وفات) ابھی آئی ہی نہیں۔ حضرت خضر والیاس علیہما السلام زمین پر ہیں اور حضرت ادریس وعیسیٰ علیہما السلام آسمان پر زندہ ہیں۔ (سیرت الانبیاء، ص 154)

آپ علیہ السلام کا آسمان پر ہونا: جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کو معراج ہوئی تو حضرت ادریس علیہ السلام نے چوتھے آسمان پر حضور کا تعظیم و اکرام واستقبال فرمایا۔ (سیرت الانبیاء، ص 157)

حضرت ادریس علیہ السلام کے ان قرآنی واقعات سے آپ علیہ السلام کی عظمت اور رفعت واضح ہوتی ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں آپ علیہ السلام کی مبارک سنت پر عمل کرتے ہوئےکثرت کے ساتھ درس دینے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔

حضرت ادریس علیہ السلام حضرت آدم اور حضرت شیث علیہما السلام کے بعد تشریف لائے، آپ علیہ السلام حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے آباء و اجداد میں سے ہیں، آپ علیہ السلام کا اصل نام خنوخ یا اخنوخ ہے، بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو سب سے پہلے آپ علیہ السلام نے ایجاد فرمائیں اور آپ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق ابھی تک موت نہیں آئی اس وقت آپ علیہ السلام زندہ ہیں اور جب اللہ تبارک و تعالیٰ چاہے گا اس وقت آپ علیہ السلام ضرور وصال فرمائیں گے۔ قرآن و حدیث میں آپ کا ذکر موجود ہے، قرآن مجید فرقان حمید میں آپ علیہ السلام کا تذکرہ دو سورتوں میں ملتا ہے، آپ علیہ السلام کے جو اوصاف لاریب کتاب میں بیاں ہوئے ہیں ان میں سے چند عرض کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔

درج ذیل آیت مبارکہ میں آپ علیہ السلام کے دو اوصاف ذکر کیے گئے ہیں:پہلا، آپ بہت سچے انسان تھے۔ دوسرا، آپ اللہ عزوجل کے نبی تھے۔چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِدْرِیْسَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّاۗۙ(56)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور کتاب میں ادریس کو یاد کرو بےشک وہ صدیق تھا غیب کی خبریں دیتا۔(پ16، مریم:56)

یہاں یہ بات یاد رکھئے کہ تمام انبیاء کرام علیہم السلام سچے اور صدیق ہیں لیکن یہاں حضرت ادریس علیہ السلام کی صداقت اور صدیقیت کو بطور خاص بیان کیا گیا ہے تو اس بات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ علیہ السلام میں اس بات کا وصف بہت ہی نمایاں تھا اور یقیناً اللہ تبارک و تعالیٰ سچائی کو بہت پسند فرماتا ہے اور سچائی اس کے پسندیدہ بندوں کا قابل تعریف وصف ہے اور غیر انبیاء میں سب سے بڑے صدیق وہ جناب سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آپ کی ذاتِ مبارکہ ہے جن کا لقب ہی صدیق اکبر ہے صدیقیت کے علماء نے بہت سے مراتب بیان فرمائے ہیں خیر یہ ایک لمبی بحث ہے اس کی طرف ہم نہیں جاتے۔

تو ہم حضرت ادریس علیہ السلام کے حوالے سے ذکر کر رہے تھے آپ علیہ السلام کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے بہت ہی شانوں سے نوازا جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: وَّ رَفَعْنٰهُ مَكَانًا عَلِیًّا(57) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ہم نے اسے بلند مکان پر اٹھالیا۔(پ16، مریم:57)

رفعت ادریس:

آپ علیہ السلام کے بارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہم نے اسے ایک بلند مکان پر اٹھا لیا، بلند مقام پر اٹھا لینے سے مراد علماء کرام کے مختلف اقوال ہیں، ان میں سے ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد آپ علیہ السلام کے مرتبے کی بلندی ہے اور دوسرا قول یہ ہے کہ آپ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھا لیا گیا اور زیادہ صحیح یہی دوسرا قول ہے۔آسمان پر جانے کے واقعے سے متعلق سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:حضرت ادریس علیہ السلام کے اٹھا لینے میں علماء کا اختلاف ہے اتنا تو ایمان ہے کہ آپ علیہ السلام آسمان پر تشریف فرما ہیں۔

آپ علیہ السلام صبر کرنے والے اور قرب الٰہی کے لائق بندوں میں سے تھے جیسا کہ پروردگار عالم عزوجل ارشاد فرماتا ہے: وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ(85) وَ اَدْخَلْنٰهُمْ فِیْ رَحْمَتِنَاؕ-اِنَّهُمْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(86)

ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اسمٰعیل اور ادریس ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر والے تھے۔اور انہیں ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا بےشک وہ ہمارے قربِ خاص کے سزاواروں میں ہیں۔(پ17، الانبیآء:85، 86)

آپ علیہ السلام انتہائی صبر گزار تھے، آپ علیہ السلام استقامت کے ساتھ کتاب الٰہی کا درس دیتے، عبادت الٰہی میں مصروف رہتے اور اس راہ میں آنے والی مشقتوں پر صبر کرتے تھے اس لیے آپ علیہ السلام کو بطور خاص صابرین میں شمار فرمایا گیا۔

سراپائے اقدس: حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: حضرت ادریس علیہ السلام کا رنگ سفید، قد لمبا اور سینہ چوڑا تھا، آپ علیہ السلام کے جسم اقدس پر بال کم اور سر پر زیادہ تھے، آپ علیہ السلام کے سینے مبارک پر ایک سفید نشان تھا اور یہ نشان برص کا نہ تھا۔

ولادت: علامہ احمد بن محمد قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: حضرت ادریس علیہ السلام نے حضرت آدم علیہ السلام کی مبارک زندگی کے 308 سال پائے تھے۔

عملی زندگی: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: حضرت ادریس علیہ السلام کپڑے سلائی کیا کرتے اور ہر ٹانکے پر سبحان اللہ کہتے تھے، جب شام ہوتی تو اس وقت تک روئے زمین پر کوئی بھی شخص عمل کے لحاظ سے آپ علیہ السلام سے افضل نہ ہوتا۔

نام و لقب: آپ علیہ السلام کا اصل نام خنوخ یا اخنوخ اور لقب ادریس ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام پر 30 صحیفے نازل فرمائے اور ان صحیفوں کا کثرت سے درس دینے کی وجہ سے آپ علیہ السلام کا لقب ادریس یعنی (بہت درس دینے والا) ہوا۔ آپ علیہ السلام حضرت نوح علیہ السلام کے والد کے دادا ہیں اور حضرت آدم اور حضرت شیث علیہما السلام کی نبوت کے بعد آپ ہی منصب نبوت پر فائز ہوئے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے انبیاء کرام علیہم السلام کے صحیح صحیح معنوں میں اوصاف بیان کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔

حضرت شیث بن آدم علیہِ السّلام کی اولاد میں پانچویں پشت پر حضرت ادریس علیہِ السّلام کا اسم گرامی بیان کیا گیا ہے۔ حضرت آدم علیہِ السّلام اور حضرت شیث علیہِ السّلام کے بعد آپ تیسرے نبی ہیں۔ آپ کا ذکر قرآن پاک میں بھی آیا ہے۔ویسے تو اللہ پاک نے آپ کو بہت سی صفات سے نوازا ہے لیکن آپ کی جن صفات کا ذکر قرآن پاک میں آیا ہے ان کو تحریر کرنے کی سعادت حاصل کرتا ہوں۔

سچے نبی: اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِدْرِیْسَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّاۗۙ(56) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور کتاب میں ادریس کو یاد کرو بےشک وہ صدیق تھا غیب کی خبریں دیتا۔(پ16، مریم:56)

بلند مقام پر فائز: اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَّ رَفَعْنٰهُ مَكَانًا عَلِیًّا(57) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ہم نے اسے بلند مکان پر اٹھالیا۔(پ16، مریم:57)

صبر کرنے والے: اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ(85) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اسمٰعیل اور ادریس ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر والے تھے۔(پ17، الانبیآء:85)

اللہ کا احسان: اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ ترجَمۂ کنزُالایمان: یہ ہیں جن پراللہ نے احسان کیا غیب کی خبریں بتا نے والوں میں سے۔(پ16، مریم:58)

اللہ پاک کی رحمت میں داخل: اللہ پاک فرماتا ہے: وَ اَدْخَلْنٰهُمْ فِیْ رَحْمَتِنَاؕ- ترجَمۂ کنزُالایمان: اور انہیں ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا۔(پ17، الانبیآء: 86)

اللہ پاک کے قرب خاص کے لائق بندے: اللہ پاک فرماتا ہے: اِنَّهُمْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(86)ترجَمۂ کنزُالایمان:بےشک وہ (یعنی حضرت ادریس علیہ السّلام) ہمارے قربِ خاص کے سزاواروں میں ہیں۔ (پ17، الانبیآء: 86)

آپ علیہ السلام نے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے ملاقات بھی کی ہے۔اور آپ علیہِ السّلام زندہ ہیں۔چنانچہ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: چار نبی زندہ ہیں کہ ان کو وعدۂ الٰہیہ ابھی آیا ہی نہیں۔یوں تو ہر نبی زندہ ہے۔ان چار میں سے دو آسمان پر ہیں اور دو زمین پر۔خضر و الیاس علیہمااسلام زمین پر اور ادریس و عیسیٰ علیہمااسلام آسمان پر۔(ملفوظات اعلیٰ حضرت، ص484)

آپ علیہِ السّلام کی سیرت کا تفصیلی مطالعہ کرنے کے لیے سیرت الانبیاء صفحہ 148 تا 168 ملاحضہ فرمائیں۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں انبیاء کی سیرت پڑھ کر اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرماۓ۔اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔

حضرت ادریس علیہ السلام اللہ تبارک وتعالیٰ کے ایک عظیم پیغمبر تھے، آپ علیہ السلام لوگوں کو نیکی، توحید، اور اخلاقی اصولوں کی تعلیم دیتے تھے۔ قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے کچھ آیات مبارکہ میں آپ علیہ السلام کا ذکر فرمایا۔ آئیں قرآن کریم اور تفسیر کی روشنی میں حضرت ادریس علیہ السلام کے بارے میں چند باتیں جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

(1)حضرت ادریس علیہ السلام کا نامِ مبارک اور انبیاء کرام علیہم السلام کے ساتھ آپ علیہ السلام کا تعلق:

آپ علیہ الصّلوٰۃُوالسّلام کا نام اخنوخ ہے اور آپ علیہ الصّلوٰۃُوالسّلام حضرت نوح علیہ الصّلوٰۃُوالسّلام کے والد کے دادا ہیں۔ حضرت آدم علیہ الصّلوٰۃُوالسّلام کے بعد آپ ہی پہلے رسول ہیں۔ آپ علیہ الصّلوٰۃُوالسّلام کے والد حضرت شیث بن آدم علیہما الصّلوٰۃُوالسّلام ہیں۔(خازن، مریم، تحت الآیۃ:57، 3/238-مدارک، مریم، تحت الآیۃ:56، ص677- روح البیان، مریم، تحت الآیۃ:56، 5/341 ملتقطاً)

(2)دنیاوی اعتبار سے آپ علیہ السلام کے انسانیت پر احسانات:سب سے پہلے جس شخص نے قلم سے لکھا وہ حضرت ادریس علیہ السلام ہی ہیں۔ کپڑوں کو سینے اور سلے ہوئے کپڑے پہننے کی ابتدا بھی آپ علیہ السلام ہی سے ہوئی، آپ علیہ السلام سے پہلے لوگ کھالیں پہنتے تھے۔ سب سے پہلے ہتھیار بنانے والے، ترازو اور پیمانے قائم کرنے والے اور علمِ نُجوم اور علمِ حساب میں نظر فرمانے والے بھی آپ ہی ہیں اور یہ سب کام آپ علیہ السلام ہی سے شروع ہوئے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ پر تیس صحیفے نازِل کئے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والے صحیفوں کا کثرت سے درس دینے کی وجہ سے آپ علیہ السلام کا نام ادریس ہوا۔(خازن، مریم، تحت الآیۃ:57، 3/238-مدارک، مریم، تحت الآیۃ:56، ص677- روح البیان، مریم، تحت الآیۃ:56، 5/341 ملتقطاً)

(3)مرتبہ کی بلندی: اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: وَّ رَفَعْنٰهُ مَكَانًا عَلِیًّا(57) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ہم نے اسے بلند مکان پر اٹھالیا۔(پ16، مریم:57)

حضرت ادریس علیہ الصّلوٰۃُوالسّلام کو بلند مکان پر اٹھا لینے کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ اس سے آپ علیہ السّلام کے مرتبے کی بلندی مراد ہے اور ایک قول یہ ہے کہ آپ علیہ السّلام کو آسمان پر اٹھالیا گیا ہے۔(خازن، مریم، تحت الآیۃ: 57، 3/238)

(4)درس دینا آپ علیہ السلام کی خصوصی سنت: اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا: وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ(85) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اسمٰعیل اور ادریس ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر والے تھے۔ (پ17، الانبیآء:85)

ارشاد فرمایا کہ اے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! آپ حضرت اسماعیل، حضرت ادریس اور حضرت ذوالکفل علیہمُ الصّلوٰۃُ والسّلام کو یاد کریں، وہ سب عبادات کی مشقتوں اور آفات و بَلِیّات کو برداشت کرنے پر کامل صبر کرنے والے تھے۔ حضرت اسماعیل علیہ الصّلوٰۃُوالسّلام نے اپنے ذبح کئے جانے کے وقت صبر کیا، حضرت ادریس علیہ الصّلوٰۃُوالسّلام نے درس دینے پر صبر کیا اور حضرت ذوالکفل علیہ الصّلوٰۃُوالسّلام نے دن کاروزہ رکھنے،رات کوقیام کرنے اور اپنے دورِ حکومت میں لوگوں کی طرف سے دی گئی تکلیفوں پر صبر کیا۔ (روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ:85، 5/515)

اس سے معلوم ہوا کہ حضرت ادریس علیہ السلام نے اپنی زندگی کا اکثر حصہ درس دیتے ہوئے گزارا اور کثرت سے درس دینے کی وجہ سے آپ علیہ السلام کا نام ادریس ہوگیا۔

اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں انبیاء کرام علیہم السلام کی سیرت سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، تمام عالم اسلام کو صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور تمام مسلمین مسلمات مؤمنین مؤمنات کی مغفرت فرمائے، اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت انسان کو اشرف المخلوقات بنایا اور اس کو بے شمار نعمتوں سے نوازا جیسے بدن، عقل، شعور، وغیرہ۔ وہ ذاتِ باری تعالیٰ خود اپنے کلام میں فرماتا ہے: وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَاؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(18) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اگر اللہ کی نعمتیں گنو تو انہیں شمار نہ کرسکو گے بےشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔(پ14، النحل: 18)

انہی نعمتوں میں سے ایک نعمت انبیاء کرام علیہم السلام کو بحیثیت معلم و رہبر بنا کر مبعوث فرمانا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے کئی انبیاء کرام علیہم السلام کا تذکرہ فرمایا، جیسے حضرت سیدنا آدم، حضرت سیدنا نوح، حضرت موسیٰ، حضرت عیسیٰ، حضرت ہارون، حضرت یوسف، حضرت داؤد، حضرت سلیمان وغیرھم علیہم السلام۔ ان میں سے اللہ تعالیٰ کے مبعوث کردہ نبی حضرتِ ادریس علیہ السلام بھی ہیں۔

نام و لقب و تعارف: آپ علیہ السلام کا نام خنوخ یا اخنوخ تھا جبکہ لقب ادریس تھا۔(سیرت الانبياء،صفحہ 148، مکتبۃ المدینہ کراچی) اللہ تعالیٰ نے اپنے مقدس کلام میں ان کو اسی نام سے یاد فرمایا ہے۔ آپ نوح علیہ السلام کے والد کے دادا جبکہ حضرت آدم و شیث علیہما السلام کے بعد نبوت سے سرفراز ہوئے۔(سیرت الانبياء، صفحہ 149، مکتبۃ المدینہ کراچی)

ادریس کہنے کی وجہ: آپ علیہ السلام پر اللہ تعالیٰ نے 30 صحائف نازل فرمائے آپ علیہ السلام ان کا بہت کثرت سے درس دیتے تھے ، اسی لئے ادریس (بہت زیادہ درس دینے والے) کہلائے۔(سیرت الانبیاء، صفحہ148، 149)

قرآن مجید میں موجود خصائص:

آپ علیہ السلام کے خصائص و کمال اور رب العزت کی جانب سے کیے گئے انعامات کو قرآن مجید ذکر فرماتا ہے جیسا کہ

(١)آپ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے نبی ہیں (٢)آپ بہت سچ بولنے والے ہیں اگرچے تمام انبیاء کرام علیہم السلام ہی سچے ہیں لیکن ان کی اس صفت کو خاص طور پر ذکر فرمایا گیا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِدْرِیْسَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّاۗۙ(56) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور کتاب میں ادریس کو یاد کرو بےشک وہ صدیق تھا غیب کی خبریں دیتا۔(پ16، مریم:56)

(٣)قرآن مجید ان کے تیسرے وصف کو متصلاً (ساتھ ہی) ذکر فرماتا ہے: وَّ رَفَعْنٰهُ مَكَانًا عَلِیًّا(57) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ہم نے اسے بلند مکان پر اٹھالیا۔(پ16، مریم:57)

حضرت ادریس علیہ السلام کو بلند مکان پر اٹھالینے کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ اس سے آپ علیہ الصّلوٰۃُوالسّلام کے مرتبے کی بلندی مراد ہے اور ایک قول یہ ہے کہ آپ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھالیا گیا ہے اور زیادہ صحیح یہی قول ہے کہ آپ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھالیا گیا ہے۔(خازن، مریم، تحت الآیۃ:57، 3/238)

(٤)آپ علیہ السلام کا ایک وصف صابر ہونا ہے: (٥)جبکہ قربِ الٰہی بھی آپ کو حاصل ہے آپ اس میں بھی اپنا منفرد مقام رکھتے ہیں رب فرماتا ہے: وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ(85) وَ اَدْخَلْنٰهُمْ فِیْ رَحْمَتِنَاؕ-اِنَّهُمْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(86) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اسمٰعیل اور ادریس ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر والے تھے۔اور انہیں ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا بےشک وہ ہمارے قربِ خاص کے سزاواروں میں ہیں۔(پ17، الانبیآء:85، 86)

حضرت ادریس علیہ السلام کے صابر ہونے سے مراد آپ علیہ السلام کے درس دینے کے سبب جو مشکلات آئیں ان پر صبر کیا اور مشکلات کے باوجود اصلاح و درس نہ چھوڑا۔

(٦)اسی (مذکورہ بالا) آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان کا ایک اور وصف بیان فرمایا کہ آپ اللہ کی رحمت میں داخل بھی ہیں۔ اور محبوبین میں سے ایک ہیں۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے انبیاء و اولیاء، محبوبین و مقربین کی محبت عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


وہ عظیم ہستیاں جن کو مرتبہِ نبوت سے سرفراز کیا گیا ان میں سے ایک ہستی حضرت ادریس علیہ السلام بھی ہیں۔ آپ حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے آباء و اجداد میں سے تھے آپ حضرت آدم اور شیث علیہما السلام کے بعد تشریف لائے۔آپ کو وعدۂ الٰہیہ کے مطابق ابھی تک موت نہیں اور آپ اس وقت آسمانوں میں زندہ ہیں اور جب اللہ پاک چاہے گا اس وقت آپ ضرور وصال فرمائیں گے۔ اللہ پاک نے قرآن پاک میں آپ علیہ السلام کی صفات کو بیان فرمایا ہے۔ جیسے

(1، 2)آپ علیہ السلام بہت سچے اور نبی تھے چنانچہ اسی وصف کو بیان کرتے ہوئے رب العالمین نے ارشاد فرمایا: وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِدْرِیْسَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّاۗۙ(56) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور کتاب میں ادریس کو یاد کرو بےشک وہ صدیق تھا غیب کی خبریں دیتا۔(پ16، مریم:56)

تمام انبیاء کرام علیہم السلام سچے اور صدیق ہیں لیکن یہاں حضرت ادریس علیہ السلام کی صداقت اور صدیقیت کو بطور خاص بیان کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ میں اس وصف کا ظہور بہت نمایاں تھا اور سچائی یقیناً اللہ پاک کو پسند اور اس کے پسندیدہ بندوں کا قابلِ تعریف وصف ہے۔(سیرت الانبیاء، ص152)

(3، 4)حضرت ادریس علیہ السلام صبر کرنے والے اور قربِ الٰہی کے لائق بندوں میں سے تھے، چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ(85) وَ اَدْخَلْنٰهُمْ فِیْ رَحْمَتِنَاؕ-اِنَّهُمْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(86) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اسمٰعیل اور ادریس ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر والے تھے۔اور انہیں ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا بےشک وہ ہمارے قربِ خاص کے سزاواروں میں ہیں۔(پ17، الانبیآء:85، 86)

اللہ پاک نے درس دینے پر حضرت ادریس علیہ السلام کے صبر کوبیان فرمایا اور اس کے بدلے آپ کو اپنے قربِ خاص سے نواز کر صالحین میں شمار فرمایا۔

اللہ پاک ہمیں انبیاء کرام علیہم السلام کی سیرت پڑھنے،سمجھنے کے سعادت نصیب فرمائے،اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


اللہ پاک نے مخلوق کی راہنمائی کے لیے بہت سے انبیاء اکرام بھیجے، ان میں سے ایک حضرت ادریس علیہ السلام بھی ہیں، آپ علیہ السلام حضوراکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے آباء و اجداد میں سے ہیں۔ آپ علیہ السلام کا اصل نام خنوخ یا اخنوخ ہے، اللہ پاک کے صحیفوں کا کثرت سے درس دینے کی وجہ سے آپ کا لقب ادریس ہے۔ بہت سی ایسی چیزیں ہیں جو سب سے پہلے آپ نے ایجاد فرمائیں۔

حضرت ادریس علیہِ السّلام سچے نبی تھے: ترجَمۂ کنزُالایمان: اور کتاب میں ادریس کو یاد کرو بےشک وہ صدیق تھا غیب کی خبریں دیتا۔ (پ16، مریم:56)

ارشاد فرمایا کہ اے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! آپ ہماری اس کتاب میں حضرت ادریس علیہ الصّلوٰۃُوالسّلام کا ذکر فرمائیں، بیشک وہ بہت ہی سچے نبی تھے۔

آپ علیہ السلام صبر کرنے والے تھے: ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اسمٰعیل اور ادریس ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر والے تھے۔ (پ17، الانبیآء:85)

اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے اوراس کی نافرمانی سے بچنے پر صبر کرے، یونہی جو شخص اپنے مال،اہل اور جان میں آنے والی کسی مصیبت پر صبر کرے تو وہ اپنے صبر کی مقدارکے مطابق نعمت،رتبہ اور مقام پاتا ہے اور اسی حساب سے و ہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا حق دار ہوتا ہے۔(روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: 85، 5/515)

آپ علیہ السلام کو اللہ پاک نے اپنی رحمت میں داخل فرمایا: ترجَمۂ کنزُالایمان:اور انہیں ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا بےشک وہ ہمارے قربِ خاص کے سزاواروں میں ہیں۔(پ17، الانبیآء:86)

آپ علیہ السلام کو ایک بلند مقام پر اٹھا لیا گیا: ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ہم نے اسے بلند مکان پر اٹھالیا۔(پ16، مریم:57)

حضرت ادریس علیہ الصّلوٰۃُوالسّلام کو بلند مکان پر اٹھا لینے کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ اس سے آپ علیہ السّلام کے مرتبے کی بلندی مراد ہے اور ایک قول یہ ہے کہ آپ علیہ السّلام کو آسمان پر اٹھا لیا گیا ہے اور زیادہ صحیح یہی قول ہے کہ آپ علیہ السّلام کو آسمان پر اٹھالیا گیا ہے۔(خازن، مریم، تحت الآیۃ:57، 3/238)

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔

اللہ تبارک وتعالیٰ نے دنیا کے اندر ہدایت انسانی کیلئے کئی انبیاء علیہم السلام مبعوث فرمائے ان میں ایک حضرت ادریس علیہ السلام بھی ہیں، آیئے! حضرت ادریس علیہ السلام کی صفات کا مطالعہ کرتے ہیں۔

حضرت ادریس علیہ الصّلوٰۃُوالسّلام کا مختصر تعارف:

آپ علیہ الصّلوٰۃُوالسّلام کا نام اخنوخ ہے اور آپ علیہ الصّلوٰۃُوالسّلام حضرت نوح علیہ الصّلوٰۃُوالسّلام کے والد کے دادا ہیں۔ حضرت آدم علیہ الصّلوٰۃُوالسّلام کے بعد آپ ہی پہلے رسول ہیں۔ سب سے پہلے جس شخص نے قلم سے لکھا وہ آپ ہی ہیں۔ کپڑوں کو سینے اور سلے ہوئے کپڑے پہننے کی ابتدا بھی آپ ہی سے ہوئی، آپ سے پہلے لوگ کھالیں پہنتے تھے۔ سب سے پہلے ہتھیار بنانے والے، ترازو اور پیمانے قائم کرنے والے اور علمِ نُجوم اور علمِ حساب میں نظر فرمانے والے بھی آپ ہی ہیں اور یہ سب کام آپ ہی سے شروع ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ پر تیس صحیفے نازِل کئے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والے صحیفوں کاکثرت سے درس دینے کی وجہ سے آپ کا نام ادریس ہوا۔(خازن، مریم، تحت الآیۃ:57، 3/238-مدارک، مریم، تحت الآیۃ:56، ص677- روح البیان، مریم، تحت الآیۃ:56، 5/341 ملتقطاً)

وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِدْرِیْسَ:اور کتاب میں ادریس کو یاد کرو۔ ارشاد فرمایا کہ اے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! آپ ہماری اس کتاب میں حضرت ادریس علیہ الصّلوٰۃُوالسّلام کا ذکر فرمائیں، بیشک وہ بہت ہی سچے نبی تھے۔(پ16، مریم:56)

وَّ رَفَعْنٰهُ مَكَانًا عَلِیًّا(57) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ہم نے اسے بلند مکان پر اٹھالیا۔(پ16، مریم:57)

حضرت ادریس علیہ الصّلوٰۃُوالسّلام کو بلندمکان پر اٹھالینے کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ اس سے آپ علیہ الصّلوٰۃُوالسّلام کے مرتبے کی بلندی مراد ہے اور ایک قول یہ ہے کہ آپ علیہ الصّلوٰۃُوالسّلام کوآسمان پر اٹھالیا گیا ہے اور زیادہ صحیح یہی قول ہے کہ آپ علیہ الصّلوٰۃُوالسّلام کو آسمان پر اٹھالیا گیا ہے۔(خازن، مریم، تحت الآیۃ:57، 3/238)

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں تمام انبیائے کرام علیہم السلام کی سیرت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


الله عزوجل نے ہدایت انسانی کیلئے کئی انبیاء علیہم السلام مبعوث فرمائے جن میں سے ایک حضرت شیث علیہ السلام کے بیٹے انوش کی نسل میں سے حضرت ادر یس علیہ السلام بھی ہیں آپ علیہ السلام عراق کے شہر بابل میں پیدا ہوئے آپ حضرت آدم علیہ السلام کے 500 سال بعد اس دنیا میں تشریف لائے، آئیے! آپ علیہ السلام کے چند اوصاف کا مطالعہ کرتے ہیں:

(1)کثرت سے درس دینے والے: آپ علیہ السلام کا اصل نام اخنوخ تھا لیکن آپ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والے صحیفوں کا کثرت سے درس دیا کرتے تھے، اس لیے آپ کو ادریس یعنی درس دینے والا کہتے ہیں۔

(2)صدیق یعنی سچے: قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِدْرِیْسَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّاۗۙ(56)

ترجَمۂ کنزُالایمان: اور کتاب میں ادریس کو یاد کرو بےشک وہ صدیق تھا غیب کی خبریں دیتا۔(پ16، مریم:56)

( 3)صبر کرنے والے: حضرت ادریس علیہ السلام عبادات کی مشقتوں اور آفات وبلیات کو برداشت کرنے اور درس دینے پر کامل صبر کرنے والے تھے۔ اس لیے قرآن میں آپ کو صابر فرمایا گیا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ(85) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اسمٰعیل اور ادریس ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر والے تھے۔ (پ17، الانبیآء:85)

(4) مقرب بندے: حضرت ادریس علیہ السلام صالحین میں سے تھے جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:وَ اَدْخَلْنٰهُمْ فِیْ رَحْمَتِنَاؕ-اِنَّهُمْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(86) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور انہیں ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا بےشک وہ ہمارے قربِ خاص کے سزاواروں میں ہیں۔ (پ17، الانبیآء:86)

(5) بلندی درجات: اللہ تعالیٰ نے حضرت ادر یس علیہ السلام کو دنیا میں علو مرتبت عطا کیا یا آپ کو آسمان پر اٹھا لیا اور یہی صحیح تر ہے ۔(تفسیر خزائن العرفان) جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَّ رَفَعْنٰهُ مَكَانًا عَلِیًّا(57) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ہم نے اسے بلند مکان پر اٹھالیا۔(پ16، مریم:57)

اللہ تعالیٰ ہمیں انبیاء کرام کی سیرت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔