انبیاء کرام علیہ السلام کائنات کی عظیم ترین ہستیاں اور انسانوں میں ہیروں موتیوں کی طرح جگمگاتی شخصیات ہیں جنہیں خدا نے وحی کے نور سے روشنی بخشی، حکمتوں کے سرچشمے ان کے دلوں میں جاری فرمائے اور سیرت و کردار کی وہ بلندیاں عطا فرمائیں جن کی تابانی(نور) سے مخلوق کی آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں ان میں سے ایک حضرت ادریس علیہ السلام ہیں جو حضرت آدم اور حضرت شیث علیہما السلام کے بعد تشریف لائے۔ آپ علیہ السلام حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے آباء و اجداد میں سے ہیں۔

مختصر تعارف: آپ علیہ السلام کا اصل نام خنوخ یا اخنوخ ہے۔آپ علیہ السلام پر 30 صحیفے نازل ہوئے ان صحیفوں کا بکثرت درس دینے کی وجہ سے آپ کا لقب ادریس ہوا۔ آپ علیہ السلام حضرت نوح علیہ السلام کے دادا کے والد ہیں۔(سیرت الانبیاء، ص148)

آپ علیہ السلام کی عملی زندگی: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:حضرت ادریس علیہ السلام کپڑے سلائی کیا کرتے اور ہر ٹانکے پر سبحان اللہ کہتے ہیں، جب شام ہو جاتی تو اس وقت تک روئے زمین پر کوئی بھی شخص عمل کے لحاظ سے آپ علیہ السلام سے افضل نہ ہوتا۔ (سیرت الانبیاء، ص 149)

آپ علیہ السلام کی اولیات و ایجادات:٭آپ علیہ السلام نے ہی سب سے پہلے قلم سے لکھا ٭کپڑوں کو سینے اور سلے ہوئے کپڑے پہننے کی ابتدا کرنے والے ٭سب سے پہلے ہتھیار بنانے والے ٭ترازو اور پیمانہ قائم کرنے والے ٭علم نجوم اور علم حساب میں نظر فرمانے والے بھی آپ علیہ السلام ہی ہیں۔(سیرت الانبیاء، ص 150)

قرآن پاک میں آپ علیہ السلام کے وصف:

قرآن پاک میں جہاں دیگر انبیاء کرام کے اوصاف بیان ہوئے ہیں وہیں حضرتِ ادریس علیہ السلام کے اوصاف و کمالات بھی بیان ہوئے ہیں ان میں سے چند ملاحظہ فرمائیں:

(1)اور (2)آپ علیہ السلام سچے اور نبی تھے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِدْرِیْسَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّاۗۙ(56) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور کتاب میں ادریس کو یاد کرو بےشک وہ صدیق تھا غیب کی خبریں دیتا۔(پ16، مریم:56)

تمام انبیاء کرام علیہم السلام سچے صدیق ہیں۔ لیکن یہاں آپ علیہ السلام کی صداقت وصدیقیت کو بطور خاص بیان کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ میں اس وصف کا ظہور بہت نمایاں تھا اور سچائی یقیناً اللہ تعالیٰ کو پسند ہے اور اس کے پسندیدہ بندوں کا قابلِ تعریف وصف ہے۔ (سیرت الانبیاء، ص 152)

(3) اور (4) آپ علیہ السلام صبر کرنے والے اور قرب الہٰی کے لائق بندوں میں سے تھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ(85) وَ اَدْخَلْنٰهُمْ فِیْ رَحْمَتِنَاؕ-اِنَّهُمْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(86) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اسمٰعیل اور ادریس ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر والے تھے۔اور انہیں ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا بےشک وہ ہمارے قربِ خاص کے سزاواروں میں ہیں۔(پ17، الانبیآء:85، 86)

آپ علیہ السلام کا صبر : حضرت ادریس علیہ السلام استقامت کے ساتھ کتاب الٰہی کا درس دیتے، عبادت الٰہی میں مصروف رہتے اور اس راہ میں آنے والی مشقتوں پر صبر کرتے تھے، اس لیے آپ علیہ السلام کو بھی بطور خاص صابرین میں شمار فرمایا گیا۔(سیرت الانبیاء، ص153)

(5)آپ علیہ السلام زندہ ہیں: وَّ رَفَعْنٰهُ مَكَانًا عَلِیًّا(57) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ہم نے اسے بلند مکان پر اٹھالیا۔(پ16، مریم:57)

حضرت ادریس عَلَیْہِ السَّلَام کو بلند مکان پر اٹھا لینے کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ اس سے آپ عَلَیْہِ السَّلَام کے مرتبے کی بلندی مراد ہے اور ایک قول یہ ہے کہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام کو آسمان پر اٹھالیا گیا ہے اور زیادہ صحیح یہی قول ہے کہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام کو آسمان پر اٹھالیا گیا ہے۔

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: چار نبی زندہ ہیں کہ ان کو وعدۂ الٰہیہ (یعنی وفات) ابھی آئی ہی نہیں۔ حضرت خضر والیاس علیہما السلام زمین پر ہیں اور حضرت ادریس وعیسیٰ علیہما السلام آسمان پر زندہ ہیں۔ (سیرت الانبیاء، ص 154)

آپ علیہ السلام کا آسمان پر ہونا: جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کو معراج ہوئی تو حضرت ادریس علیہ السلام نے چوتھے آسمان پر حضور کا تعظیم و اکرام واستقبال فرمایا۔ (سیرت الانبیاء، ص 157)

حضرت ادریس علیہ السلام کے ان قرآنی واقعات سے آپ علیہ السلام کی عظمت اور رفعت واضح ہوتی ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں آپ علیہ السلام کی مبارک سنت پر عمل کرتے ہوئےکثرت کے ساتھ درس دینے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔