احمد حسن (درجۂ سادسہ
جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
الله عزوجل نے ہدایت انسانی کیلئے کئی انبیاء علیہم السلام
مبعوث فرمائے جن میں سے ایک حضرت شیث علیہ السلام کے بیٹے انوش کی نسل میں سے حضرت
ادر یس علیہ السلام بھی ہیں آپ علیہ السلام عراق کے شہر بابل میں پیدا ہوئے آپ
حضرت آدم علیہ السلام کے 500 سال بعد اس دنیا میں تشریف لائے، آئیے! آپ علیہ
السلام کے چند اوصاف کا مطالعہ کرتے ہیں:
(1)کثرت سے درس دینے والے: آپ علیہ السلام کا اصل
نام اخنوخ تھا لیکن آپ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والے صحیفوں
کا کثرت سے درس دیا کرتے تھے، اس لیے آپ کو ادریس یعنی درس دینے والا کہتے ہیں۔
(2)صدیق یعنی سچے: قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے
ارشاد فرمایا: وَ
اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِدْرِیْسَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّاۗۙ(56)
ترجَمۂ
کنزُالایمان: اور
کتاب میں ادریس کو یاد کرو بےشک وہ صدیق تھا غیب کی خبریں دیتا۔(پ16،
مریم:56)
( 3)صبر کرنے والے: حضرت ادریس علیہ السلام عبادات کی
مشقتوں اور آفات وبلیات کو برداشت کرنے اور درس دینے پر کامل صبر کرنے والے تھے۔
اس لیے قرآن میں آپ کو صابر فرمایا گیا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: وَ
اِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ(85) ترجَمۂ
کنزُالایمان: اور
اسمٰعیل اور ادریس ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر والے تھے۔ (پ17،
الانبیآء:85)
(4) مقرب بندے: حضرت ادریس علیہ السلام صالحین
میں سے تھے جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:وَ
اَدْخَلْنٰهُمْ فِیْ رَحْمَتِنَاؕ-اِنَّهُمْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(86) ترجَمۂ
کنزُالایمان: اور
انہیں ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا بےشک وہ ہمارے قربِ خاص کے سزاواروں میں ہیں۔
(پ17، الانبیآء:86)
(5) بلندی درجات: اللہ تعالیٰ نے حضرت ادر یس علیہ
السلام کو دنیا میں علو مرتبت عطا کیا یا آپ کو آسمان پر اٹھا لیا اور یہی صحیح تر
ہے ۔(تفسیر خزائن العرفان) جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَّ
رَفَعْنٰهُ مَكَانًا عَلِیًّا(57) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ہم نے اسے بلند مکان پر
اٹھالیا۔(پ16، مریم:57)
اللہ تعالیٰ ہمیں انبیاء کرام کی سیرت پر عمل کرنے کی
توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم
یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح
کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا
ذمہ دار نہیں۔