اللہ تعالیٰ نے حضرت انسان کو اشرف المخلوقات بنایا اور اس
کو بے شمار نعمتوں سے نوازا جیسے بدن، عقل، شعور، وغیرہ۔ وہ ذاتِ باری تعالیٰ خود
اپنے کلام میں فرماتا ہے: وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ لَا
تُحْصُوْهَاؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(18) ترجَمۂ
کنزُالایمان: اور
اگر اللہ کی نعمتیں گنو تو انہیں شمار نہ کرسکو گے بےشک اللہ بخشنے والا مہربان
ہے۔(پ14،
النحل: 18)
انہی نعمتوں میں سے ایک نعمت انبیاء کرام علیہم السلام کو
بحیثیت معلم و رہبر بنا کر مبعوث فرمانا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے کئی
انبیاء کرام علیہم السلام کا تذکرہ فرمایا، جیسے حضرت سیدنا آدم، حضرت سیدنا نوح،
حضرت موسیٰ، حضرت عیسیٰ، حضرت ہارون، حضرت یوسف، حضرت داؤد، حضرت سلیمان وغیرھم
علیہم السلام۔ ان میں سے اللہ تعالیٰ کے مبعوث کردہ نبی حضرتِ ادریس علیہ السلام
بھی ہیں۔
نام و لقب و تعارف: آپ علیہ السلام کا نام خنوخ یا
اخنوخ تھا جبکہ لقب ادریس تھا۔(سیرت الانبياء،صفحہ 148، مکتبۃ المدینہ کراچی) اللہ
تعالیٰ نے اپنے مقدس کلام میں ان کو اسی نام سے یاد فرمایا ہے۔ آپ نوح علیہ السلام
کے والد کے دادا جبکہ حضرت آدم و شیث علیہما السلام کے بعد نبوت سے سرفراز
ہوئے۔(سیرت الانبياء، صفحہ 149، مکتبۃ المدینہ کراچی)
ادریس کہنے کی وجہ: آپ علیہ السلام پر اللہ تعالیٰ نے
30 صحائف نازل فرمائے آپ علیہ السلام ان کا بہت کثرت سے درس دیتے تھے ، اسی لئے
ادریس (بہت زیادہ درس دینے والے) کہلائے۔(سیرت الانبیاء، صفحہ148، 149)
قرآن مجید میں موجود خصائص:
آپ علیہ السلام کے خصائص و کمال اور رب العزت کی جانب سے
کیے گئے انعامات کو قرآن مجید ذکر فرماتا ہے جیسا کہ
(١)آپ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے نبی ہیں (٢)آپ بہت سچ بولنے والے ہیں اگرچے تمام انبیاء کرام
علیہم السلام ہی سچے ہیں لیکن ان کی اس صفت کو خاص طور پر ذکر فرمایا گیا ہے،
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِدْرِیْسَ٘-اِنَّهٗ كَانَ
صِدِّیْقًا نَّبِیًّاۗۙ(56) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور کتاب
میں ادریس کو یاد کرو بےشک وہ صدیق تھا غیب کی خبریں دیتا۔(پ16، مریم:56)
(٣)قرآن مجید ان کے تیسرے وصف کو متصلاً (ساتھ ہی) ذکر
فرماتا ہے: وَّ
رَفَعْنٰهُ مَكَانًا عَلِیًّا(57) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ہم نے
اسے بلند مکان پر اٹھالیا۔(پ16، مریم:57)
حضرت ادریس علیہ السلام کو بلند مکان پر اٹھالینے کے بارے
میں ایک قول یہ ہے کہ اس سے آپ علیہ الصّلوٰۃُوالسّلام کے مرتبے کی بلندی مراد ہے
اور ایک قول یہ ہے کہ آپ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھالیا گیا ہے اور زیادہ صحیح
یہی قول ہے کہ آپ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھالیا گیا ہے۔(خازن، مریم، تحت
الآیۃ:57، 3/238)
(٤)آپ علیہ السلام کا ایک وصف صابر ہونا ہے: (٥)جبکہ قربِ الٰہی بھی آپ کو حاصل ہے آپ اس میں بھی
اپنا منفرد مقام رکھتے ہیں رب فرماتا ہے: وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-كُلٌّ
مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ(85) وَ اَدْخَلْنٰهُمْ فِیْ
رَحْمَتِنَاؕ-اِنَّهُمْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(86) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور
اسمٰعیل اور ادریس ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر والے تھے۔اور انہیں ہم نے اپنی
رحمت میں داخل کیا بےشک وہ ہمارے قربِ خاص کے سزاواروں میں ہیں۔(پ17، الانبیآء:85،
86)
حضرت ادریس علیہ السلام کے صابر ہونے سے مراد آپ علیہ
السلام کے درس دینے کے سبب جو مشکلات آئیں ان پر صبر کیا اور مشکلات کے باوجود
اصلاح و درس نہ چھوڑا۔
(٦)اسی (مذکورہ بالا) آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان کا
ایک اور وصف بیان فرمایا کہ آپ اللہ کی رحمت میں داخل بھی ہیں۔ اور محبوبین میں سے
ایک ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے انبیاء و اولیاء، محبوبین و مقربین
کی محبت عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم
یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح
کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا
ذمہ دار نہیں۔