انبیاء کرام علیہم السلام کائنات کی عظیم ترین ہستیاں اور انسانوں میں ہیروں موتیوں کی طرح جگمگاتی شخصیات ہیں جنہیں خدا نے وحی کے نور سے روشنی بخشی اور حکمتوں کے سرچشمے ان کے دلوں میں جاری فرمائے اور وہ بلندیاں عطا فرمائیں جن کی تابانی سے مخلوق کی آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں انہی انبیاء اکرام علیہم السلام میں حضرت ادریس علیہ السلام بھی ہیں اللہ عزوجل نے آپ کو بہت سے کمالات، معجزات اور صفات سے نوازا ہے قرآن پاک میں بیان کی گئیں آپ علیہ السلام کی 5 صفات آپ بھی پڑھئے اور علم و عمل میں اضافہ کیجئے:

(1) آپ علیہ السلام بہت سچے تھے: ارشاد باری تعالیٰ ہے: ترجَمۂ کنزُالایمان: اور کتاب میں ادریس کو یاد کرو بےشک وہ صدیق تھا۔(پ16، مریم:56) تمام انبیاء کرام علیہم السلام سچے اور صدیق ہیں لیکن اس آیت مبارکہ میں حضرت ادریس کی صداقت و صدیقیت کو بطور خاص بیان کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ میں اس وصف کا ظہور بہت نمایاں تھا۔

(2) نبوت سے فیض یاب: ارشاد باری تعالیٰ ہے: ترجمہ کنز الایمان: (بےشک وہ) غیب کی خبریں دیتا۔

حضرت ادریس علیہ السلام اللہ عزوجل کے ان برگزیدہ اور نیک بندوں میں سے ہیں جن کو اللہ عزوجل نے نبوت کے اعلیٰ منصب سے فیضیا ب فرمایا۔

(3)صبر کرنے والے: ارشاد باری تعالیٰ ہے: ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اسمٰعیل اور ادریس ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر والے تھے۔(پ17، الانبیآء:85)

حضرت ادریس علیہ السلام راه خدا میں آنے والی مشقتوں پر صبر کرتے تھے اس لیے آیت مبارکہ میں آپ علیہ السلام کو دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کے ساتھ صابرین میں شمار فرمایا۔

(4)دخولِ رحمت: اللہ تعالیٰ نے حضرت ادریس علیہ السلام کو اپنی خاص رحمت میں داخل فرمایا، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ترجَمۂ کنزُالایمان: اور انہیں ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا ۔(پ17، الانبیآء: 86)

(5)قرب الٰہی پانے والے: ارشاد باری تعالیٰ ہے: ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک وہ ہمارے قربِ خاص کے سزاواروں میں ہیں۔(پ17، الانبیآء: 86)

اسی آیت مبارکہ میں دیگر انبیاء اکرام علیہم السلام کے ساتھ ساتھ آپ علیہ السلام کو بھی اللہ عزوجل نے اپنے قرب والے بندوں میں شمار فرمایا۔

اللہ پاک ہمیں انبیاء کرام علیہم السلام کی صفات کے صدقے نیکیاں کرنے اور گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


اللہ پاک نے لوگوں کی ہدایت کے لیے چار آسمانی کتابیں نازل فرمائی توریت، زبور، انجیل، قرآن پاک۔ ان کتابوں میں انسانوں کی ہدایت کے لیے مختلف احکام شریعہ اور امتوں کے قصے بھی بیان فرمائے ہیں، اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآنِ کریم جن انبیاء و رسل کے نام و اوصاف بیان فرمائے ہیں، ان میں سے ایک حضرت ادریس علیہ السلام بھی ہیں، آیئے! قرآن مجید میں بیان کئے گئے ان کے اوصاف کا مطالعہ کرتے ہیں:

حضرت ادریس علیہ السلام کا تعارف:

نام و لقب: آپ علیہ السلام کا اصل نام خنوخ یا اخنوخ ہے اور لقب ادریس ہے۔(سیرت الانبیاء، ص 148)

نسب:آپ حضرت نوح علیہ السلام کے والد کے دادا ہیں اور آپ کے والد حضرت شیث بن آدم علیہ السلام ہیں اور حضرت آدم علیہ السلام کے بعد آپ ہی پہلے رسول ہیں۔(عجائب القرآن غرائب القرآن، ص17)

ولادت:علامہ احمد بن محمد قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: حضرت ادریس علیہ السلام نے حضرت آدم علیہ السلام کی مبارک زندگی کے 308 سال پائے ہیں۔(سیرت الانبیاء، ص149)

قرآنی اوصاف:

(1، 2)بہت سچے اور نبی ہیں: وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِدْرِیْسَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّاۗۙ(56) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور کتاب میں ادریس کو یاد کرو بےشک وہ صدیق تھا غیب کی خبریں دیتا۔(پ16، مریم:56)

تمام انبیاء کرام سچے ہیں لیکن آپ علیہ السلام میں یہ وصف بہت نمایاں تھا اس لئے اللہ پاک نے خاص طور پر آپ کے اس وصف کو قرآنِ کریم میں بیان فرمایا۔

(3)صبر کرنے والے: وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ(85) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اسمٰعیل اور ادریس ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر والے تھے۔(پ17، الانبیآء:85)

حضرت ادریس علیہ السلام عبادتِ الٰہی میں آنے والی پریشانی پر صبر کرتے رہے یہاں تک کہ اللہ پاک نے آپ کا ذکر صابرین میں فرمایا۔

(4)قرب الٰہی کے لائق: وَ اَدْخَلْنٰهُمْ فِیْ رَحْمَتِنَاؕ-اِنَّهُمْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(86) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور انہیں ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا بےشک وہ ہمارے قربِ خاص کے سزاواروں میں ہیں۔ (پ17، الانبیآء:86)

دعا ہے کہ اللہ پاک ان کے صدقے تمام مسلمانوں کی خیر فرمائے اور جہاں جہاں مسلمان ظلم و ستم کا شکار ہیں ان سب کی غیبی مدد فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


انبیاء کرام علیہمُ السّلام وہ انسان ہیں جن کے پاس اللہ پاک کی طرف سے وحی آتی ہےاور اُنہیں اللہ پاک مخلوق کی ہدایت اور راہنمائی کے لئے بھیجتا ہے، انبیائےکرام علیہمُ السّلام شرک وکفر بلکہ ہرقسم کے گناہوں سے پاک ہوتے ہیں، انبیاء کرام علیہم السلام میں سے اللہ پاک کے پیارے نبی حضرت ادریس علیہ السلام بھی ہیں جن کے کچھ قرآنی اوصاف کا اس مضمون میں ذکر کیا جائے گا۔

تعارف: آپ علیہ السلام کا اصل نام خنوخ یا اخنوخ ہے اور آپ علیہ السلام کا لقب ادریس ہے۔ اللہ پاک کے وعدے کے مطابق آپ علیہ السلام کو ابھی تک موت نہیں آئی ہے اور آپ علیہ السلام اس وقت آسمانوں میں زندہ ہیں اور جب اللہ پاک چاہے گا آپ علیہ السلام ضرور وصال فرمائیں گے۔ آپ علیہ السلام حضرت نوح علیہ السلام کے والد کے دادا ہیں اور حضرت آدم اور حضرت شیث علیہما السلام کی نبوت کے بعد آپ ہی منصب نبوت پر فائز ہوئے۔ آپ علیہ السلام کی ولادت کے بارے میں یہ ہے کہ آپ علیہ السلام نے حضرت آدم علیہ السلام کی مبارک زندگی کے 308 سال پائے تھے۔(سیرت الانبیاء، ص 148، 149)

اوصاف:

(1)سچے اور نبی: آپ علیہ السلام بہت سچے اور نبی تھے،اللہ پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِدْرِیْسَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّاۗۙ(56) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور کتاب میں ادریس کو یاد کرو بےشک وہ صدیق تھا غیب کی خبریں دیتا۔(پ16، مریم:56)

نوٹ: تمام انبیاء کرام علیہم السلام سچے ہیں لیکن آپ علیہ السلام میں اس وصف کا ظہور بہت نمایاں تھا، اس لئے قرآن کریم میں آپ علیہ السلام کے اس وصف کو خاص طور پر بیان کیا گیا۔

(2)صبر کرنے والے: آپ علیہ السلام صبر کرنے والے تھے،اللہ پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ(85) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اسمٰعیل اور ادریس ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر والے تھے۔(پ17، الانبیآء:85)

(3)قرب الٰہی کے لائق: آپ علیہ السلام اللہ پاک کا خاص قرب پانے والے بندوں میں سے تھے،اللہ پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: وَ اَدْخَلْنٰهُمْ فِیْ رَحْمَتِنَاؕ-اِنَّهُمْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(86) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور انہیں ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا بےشک وہ ہمارے قربِ خاص کے سزاواروں میں ہیں۔ (پ17، الانبیآء:86)

(4)آسمان پر اٹھا لیا: آپ علیہ السلام کو اللہ پاک نے آسمان پر اٹھا لیا، اللہ پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:

وَّ رَفَعْنٰهُ مَكَانًا عَلِیًّا(57) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ہم نے اسے بلند مکان پر اٹھالیا۔(پ16، مریم:57)

اللہ پاک ہمیں انبیاء کرام علیہم السلام کی مبارک سیرت پر عمل کرنے اور ان کی مبارک زندگی سے علم و عمل کے موتی چننے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


محترم قارئین کرام! لوگوں کی اصلاح اور تربیت کیلئے اللہ کریم نے دنیا میں وقتا فوقتا مختلف انبیاء و رسل علیہم السلام کو بھیجا اور پھر اللہ پاک نے ان انبیا و رسل علیہم السلام کو طرح طرح کے اوصاف و کمالات و معجزات سے نوازا، انہیں انبیاء علیہم السلام میں سے اللہ تبارک و تعالیٰ کے ایک نبی حضرت ادریس علیہ الصلوٰة والسلام بھی ہیں، آیئے! قرآن مجید میں حضرت ادریس علیہ السلام کے اوصاف ملاحظہ کرتے ہیں:

اللہ تبارک و تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِدْرِیْسَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّاۗۙ(56) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور کتاب میں ادریس کو یاد کرو بےشک وہ صدیق تھا غیب کی خبریں دیتا۔(پ16، مریم:56)

اس آیت مبارکہ میں حضرت سیدنا ادریس علیہ الصلوٰة والسلام کے دو اوصاف بیان کئے گئے کہ آپ بہت سچے اور نبی تھے، ویسے تو تمام انبیاء کرام علیہم السلام ہی سچے ہیں لیکن یہاں حضرت ادریس علیہ السلام کی صداقت و صدیقیت کو بطور خاص بیان کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ میں اس وصف کا ظہور بہت نمایاں تھا اور سچائی یقیناً اللہ پاک کو پسند اور اس کے پسندیدہ بندوں کا قابل تعریف وصف ہے۔

صدیقیت کے مراتب:

(1)زبان کا صدق (2)نیت و ارادہ میں صدق (3)عزم میں صدق(4)عدم کو پورا کرنے میں صدق (5)عمل میں صدق(6) دین کے تمام مقامات (جیسے خوف، امید، تعظیم،زہد)کی تحقیق میں صدق۔(احیاء العلوم، كتاب النیۃ والاخلاص والصدق، الباب الثالث فی الصدق۔۔۔۔۔الخ، 5/117)

ان مراتب کو بیان کرنے کے بعد امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جو شخص صدیقیت کے ان تمام مراتب کے ساتھ متصف ہو تو وہ صدیق ہے کیونکہ وہ صدق میں انتہا کو پہنچا ہوا ہے۔

ایک مقام پر اللہ پاک قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ(85) وَ اَدْخَلْنٰهُمْ فِیْ رَحْمَتِنَاؕ-اِنَّهُمْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(86) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اسمٰعیل اور ادریس ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر والے تھے۔اور انہیں ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا بےشک وہ ہمارے قربِ خاص کے سزاواروں میں ہیں۔(پ17، الانبیآء:85، 86)

اس آیت مبارکہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت ادریس علیہ السلام کے مزید دو اوصاف بیان فرمائے کہ آپ صبر کرنے والے اور قربِ الٰہی کے لائق بندوں سے تھے۔

حضرت ادریس علیہ السلام استقامت کے ساتھ کتابِ الٰہی کا درس دیتے، عبادتِ الٰہی میں مصروف رہتے اور اس راہ میں آنے والی مشقتوں پر صبر کرتے تھے اس لئے آپ علیہ السلام کو بھی بطور خاص صابرین میں شمار کیا گیا ہے۔

دعا ہے کہ ہم سب کو انبیاء کرام علیہم السلام کی سیرت پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


اللہ تعالیٰ نے جن مبارک ہستیوں کو مخلوق کی رشد و ہدایت کے لیے منتخب فرمایا ان کو نبی کہا جاتا ہے۔ ان میں ایک ہستی حضرت سیدنا ادریس علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی ہیں۔ آپ کو کثرت سے درس دینے کی وجہ سے ادریس کہا جاتا ہے حالانکہ آپ کا اصل نام اخنوخ تھا  

خصائص:

کچھ اشیاء وہ ہیں کہ جن کی ابتداء آپ سے ہوئی، جیسے ٭سب سے پہلے قلم سے لکھنے والے آپ ہیں٭سب سے پہلے کپڑوں کو سینے والے ٭سلے ہوئے کپڑوں کو پہننے والے آپ علیہ الصّلوٰۃُوالسّلام ہی ہیں۔ اللہ پاک نے قرآن پاک میں آپ کے چار اوصاف کا خاص طور پر ذکرفرمایا ہے:

(1)انبیائے کرام علیہم السلام سچ کو پسند کرتے ہیں، اسی وجہ ہے انہیں صدیق کہا جاتا ہے۔ یہی وصف قرآن پاک میں آپ کا بیان کیا گیا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِدْرِیْسَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّاۗۙ(56) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور کتاب میں ادریس کو یاد کرو بےشک وہ صدیق تھا غیب کی خبریں دیتا۔(پ16، مریم:56)

(2)چاہے انسان پر کسی بھی طرح کی آزمائش آئے اسے صبر، صبر اور بس صبر ہی کرنا چاہیے۔انبیائے کرام علیہم السلام پر طرح طرح کی آزمائشیں آئیں لیکن ان مبارک ہستیوں نے صبر کا دامن کبھی نہ چھوڑا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ادریس علیہ السلام کا خاص یہ وصف ذکر فرمایا کہ آپ علیہ السلام صابر یعنی صبر کرنے والے تھے۔ قرآن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ(85) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اسمٰعیل اور ادریس ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر والے تھے۔ (پ17، الانبیآء:85)

(3)انسان کی حقیقی منزل خدا کا قرب پانا ہے،اسی منزل کو پانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا فرمایا۔اور بارگاہ خدا وندی میں مقبول ہستیاں اس مقصد کے پیش نظر اپنے سارے اعمال کرتے ہیں۔ حضرت ادریس علیہ السلام کا شمار بھی ان پاک ہستیوں میں ہوتا ہے۔ اس وصف کو خاص طور پر حضرت ادریس علیہ السلام کی طرف سے بیان کیا گیا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: وَ اَدْخَلْنٰهُمْ فِیْ رَحْمَتِنَاؕ-اِنَّهُمْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(86) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور انہیں ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا بےشک وہ ہمارے قربِ خاص کے سزاواروں میں ہیں۔ (پ17، الانبیآء: 86)

(4)مخلوقات میں سب سے افضل رتبہ نبی و رسول کا ہے۔ حضرت ادریس علیہ السلام کا شمار بھی ان میں ہوتا ہے اور حضرت ادریس علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نبی و رسول فرمایا۔ جیسا کہ قرآن پاک میں ہے: وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِدْرِیْسَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّاۗۙ(56) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور کتاب میں ادریس کو یاد کرو بےشک وہ صدیق تھا غیب کی خبریں دیتا۔(پ16، مریم:56)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ حضرت ادریس علیہ السلام کی صداقت، صبر اورقرب خداوندی کے واسطے ہمیں بھی ان اوصاف کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِدْرِیْسَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّاۗۙ(56) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور کتاب میں ادریس کو یاد کرو بےشک وہ صدیق تھا غیب کی خبریں دیتا۔(پ16، مریم:56) ارشاد فرمایا کہ اے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! آپ ہماری اس کتاب میں حضرت ادریس علیہ الصّلوٰۃُوالسّلام کا ذکر فرمائیں بے شک وہ بہت ہی سچے نبی تھے۔

حضرت ادریس علیہ السلام کا مختصر تعارف: آپ علیہِ السّلام کا نام اخنوخ ہے اور آپ علیہ السلام حضرت نوح علیہ السلام کے والد کے دادا ہیں۔حضرت آدم علیہ السلام کے بعد آپ ہی پہلے رسول ہیں۔ آپ علیہ السلام کے والد حضرت شیث بن آدم علیہما السلام ہیں۔

چند خصوصیات:

سب سے پہلے قلم کا استعمال: سب سے پہلے جس شخص نے قلم استعمال فرمایا یعنی قلم سے لکھا وہ حضرت ادریس علیہ السلام ہی ہیں۔

کپڑوں کا سِلنا/سِلوانا: کپڑوں کو سینے اور سلے ہوئے کپڑے پہننے کی ابتداء بھی آپ ہی سے ہوئی، آپ سے پہلے لوگ کھالیں پہنتے تھے۔

سب سے پہلے ہتھیار بنایا: سب سے پہلے ہتھیار بنانے والے بھی یہی تھے۔

ترازو اور پیمانہ: ترازو اور پیمانہ قائم کرنے والے بھی یہی تھے۔نیز علم نجوم اور علم حساب میں نظر فرمانے والے بھی آپ ہی ہیں۔

صحیفوں کی تعداد: اللہ تعالیٰ نے آپ پر تیس صحیفے نازل کئے اور الله تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والے صحیفوں کا کثرت سے درس دینے کی وجہ سے آپ کا نام ادر یس ہوا۔

درس قرآن اور درس علم دین: حضرت ادر یس علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والے صحیفوں کا کثرت سے درس دیا کرتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کا درس دینا انبیاء کرام علیہم الصلوٰة والسلام کی سنت ہے۔

درس دینے کی فضیلت: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو لوگ اللہ تعالیٰ کہ گھروں میں سے کسی گھر میں جمع ہوتے ہیں اور وہ قرآن مجید کی تلاوت کرتے اور ایک دوسرے کو اس کا درس دیتے ہیں تو اُن پر سکون نازل ہوتا ہے، رحمت انہیں ڈھانپ لیتی ہے اور اللہ تعالیٰ ان کا ذکر فرشتوں میں فرماتا ہے۔(مسلم، كتاب الذكر والدعاء التوبة والاستغفار باب فضل الاجمتاع على تلاوة القرآن وعلى الذكرة)

فرمان باری تعالیٰ ہے: وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ(85) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اسمٰعیل اور ادریس ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر والے تھے۔(پ17، الانبیآء:85)

درس و تبلیغ پر صبر کرنا: یہا ں پر حضرت ادریس علیہ السلام کا یہ وصف بیان کیا گیا کہ آ پ صبر کرنے والے تھے۔ یعنی لوگوں کو وعظ و نصیحت کرتے اور درس دیتے تھے اور لوگ ستاتے تو اس پر صبر کرتےتھے۔

رحمتِ الٰہی کا حقدار کون؟: جو شخص اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے اور اس کی نافرمانی سے بچنے پر صبر کرے یونہی جو شخص اپنے مال، اہل اور جان میں آنے والی کسی مصیبت پر صبر کرے تو وہ اپنے صبر کی مقدار کے مطابق نعمت، رتبہ اور مقام پاتا ہے اور اسی حساب سے وہ اللہ پاک کی رحمت کا حقدار ہوتا ہے۔(روح البیان)

فرمان باری تعالیٰ ہے: وَّ رَفَعْنٰهُ مَكَانًا عَلِیًّا(57) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ہم نے اسے بلند مکان پر اٹھالیا۔(پ16، مریم:57)

بلند مقام سے مراد: حضرت ادریس علیہ السلام کو بلند مکان پر اٹھا لینے کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ اس سے آپ کے مرتبے کی بلندی مراد ہے۔ اور ایک قول یہ ہے کہ آپ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھا لیا گیا اور زیادہ صحیح یہی قول ہے کہ آپ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھا لیا گیا ہے۔(خازن، مریم، تحت الآیۃ:57، 3/238)

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


اللہ پاک نے جب دنیا کو تخلیق فرمایا تو انہی میں اشرف المخلوقات (انسان) کو بھی تخلیق فرمایا اور انسانوں کی اصلاح کیلئے اپنے محبوب بندوں (نبیوں اور رسولوں) کو مبعوث فرمایا کہ وہ ان انسانوں کی اصلاح کریں۔ انہی شخصیات میں سے حضرت ادریس علیہ السلام بھی ہیں، ان کا ذکر خیر اللہ پاک نے قرآن کریم میں متعدد جگہ فرمایا چنانچہ ہم بھی ان کا تذکرہ کرتےہوئے ان کی صفات کو پڑھتے ہیں !

(1)صدیق: وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِدْرِیْسَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّاۗۙ(56)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور کتاب میں ادریس کو یاد کرو بےشک وہ صدیق تھا۔(پ16، مریم:56)

(2)غیب کی خبریں دینے والے:ترجمہ کنز الایمان: (بےشک وہ) غیب کی خبریں دیتا۔(پ16، مریم:56)

تفسیر: اس آیت میں اللہ پاک نے حضرت ادریس علیہ السلام کی دو صفات کو ذکر فرمایا کہ حضرت ادریس علیہ السلام کو صدیق اور غیب کی خبریں دینا والا نبی فرمایا۔

(3)آپ علیہ السلام کو بلند مقام عطا فر مایا: وَّ رَفَعْنٰهُ مَكَانًا عَلِیًّا(57) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ہم نے اسے بلند مکان پر اٹھالیا۔ (پ16، مریم:57)

تفسیر:حضرت ادریس علیہ الصّلوٰۃُوالسّلام کو بلندمکان پر اٹھالینے کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ اس سے آپ علیہ الصّلوٰۃُوالسّلام کے مرتبے کی بلندی مراد ہے اور ایک قول یہ ہے کہ آپ علیہ الصّلوٰۃُوالسّلام کوآسمان پر اٹھالیا گیا ہے اور زیادہ صحیح یہی قول ہے کہ آپ علیہ الصّلوٰۃُوالسّلام کو آسمان پر اٹھالیا گیا ہے۔(خازن، مریم، تحت الآیۃ:57، 3/238)

(4)صبر کرنے والے:الله پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ (85) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اسمٰعیل اور ادریس ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر والے تھے۔(پ17، الانبیآء:85)

(5)اپنی رحمت میں داخل فرمایا: الله پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: وَ اَدْخَلْنٰهُمْ فِیْ رَحْمَتِنَاؕ-اِنَّهُمْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ (86) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور انہیں ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا بےشک وہ ہمارے قربِ خاص کے سزاواروں میں ہیں۔ (پ17، الانبیآء: 86)

اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ ہمیں انبیاء کرام کی سیرت پڑھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


اللہ پاک نے محلوق کی راہنمائی کے لیے بہت سے انبیاء اکرام بھیجے۔ ان میں سے ایک حضرت ادریس علیہ السلام بھی ہیں۔ آپ علیہ السلام کا اصل نام خنوخ یا اخنوخ ہے۔ اللہ پاک کے صحیفوں کا بکثرت درس دینے کی وجہ سے آپ کا لقب ادریس ہے۔ بہت سی ایسی چیزیں ہے جو آپ نے سب سے پہلے ایجاد فرمائیں۔

حضرت ادریس علیہِ السّلام سچے نبی تھے، چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:ترجَمۂ کنزُالایمان: اور کتاب میں ادریس کو یاد کرو بےشک وہ صدیق تھا غیب کی خبریں دیتا۔(پ16، مریم:56)ارشاد فرمایا کہ اے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! آپ ہماری اس کتاب میں حضرت ادریس علیہ الصّلوٰۃُوالسّلام کا ذکر فرمائیں، بیشک وہ بہت ہی سچے نبی تھے۔

آپ علیہ السلام صبر کرنے والوں میں سے تھے، جیساکہ اللہ پاک نےارشاد فرمایا:ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اسمٰعیل اور ادریس ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر والے تھے۔(پ17، الانبیآء:85)

اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے اوراس کی نافرمانی سے بچنے پر صبر کرے، یونہی جو شخص اپنے مال، اہل اور جان میں آنے والی کسی مصیبت پر صبر کرے تو وہ اپنے صبر کی مقدار کے مطابق نعمت، رتبہ اور مقام پاتا ہے اور اسی حساب سے وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا حق دار ہوتا ہے۔(روح البیان، الانبیآء، تحت الآیۃ:85، 5/515)

آپ علیہ السلام کو اللہ پاک نے اپنی رحمت میں داخل فرمایا، اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ترجَمۂ کنزُالایمان: اور انہیں ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا بےشک وہ ہمارے قربِ خاص کے سزاواروں میں ہیں۔(پ17، الانبیآء:86)

آپ علیہ السلام کو ایک بلند مقام پر اٹھا لیا گیا، چنانچہ قراٰنِ کریم میں ہے: ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ہم نے اسے بلند مکان پر اٹھالیا۔(پ16، مریم:57)

حضرت ادریس علیہ الصّلوٰۃُوالسّلام کو بلند مکان پر اٹھا لینے کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ اس سے آپ علیہ الصّلوٰۃُ والسّلام کے مرتبے کی بلندی مراد ہے اور ایک قول یہ ہے کہ آپ علیہ الصّلوٰۃُوالسّلام کو آسمان پر اٹھا لیا گیا ہے اور زیادہ صحیح یہی قول ہے کہ آپ علیہ الصّلوٰۃُوالسّلام کو آسمان پر اٹھالیا گیا ہے۔(خازن، مریم، تحت الآیۃ: 57، 3/238)

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء کرام علیہم السلام کو بہت سی فضیلت عطا کی ہیں،اللہ تعالیٰ کے انبیاء کرام علیہم السلام کی تعداد کم و پیش ایک لاکھ 24 ہزار ہے اور ان میں سے ایک حضرت ادریس علیہ السلام ہیں، آئیے! ان کے کچھ قراٰنی صفات پڑھتے ہیں:

اللہ تعالیٰ قراٰن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِدْرِیْسَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّاۗۙ(56) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور کتاب میں ادریس کو یاد کرو بےشک وہ صدیق تھا غیب کی خبریں دیتا۔(پ16، مریم:56)

حضرت ادریس علیہ السلام کا مختصر تعارف: ٭آپ علیہ السلام کا نام اخنوخ ہے اور آپ علیہ السلام حضرت نوح علیہ السلام کے والد کے دادا ہیں۔آپ علیہ السلام کے والد حضرت شیث بن آدم علیہما السلام ہیں۔

حضرت ادریس علیہ السلام کی خصوصیات: ٭حضرت آدم علیہ السلام کے بعد آپ ہی پہلے رسول ہیں۔ ٭قلم سے سب سے پہلے لکھنے والے بھی آپ ہی ہیں۔ ٭کپڑوں کو سینے کی ابتدا بھی آپ سے ہوئی۔ ٭کپڑے کو پہننے کی ابتدا بھی آپ سے ہوئی۔ (یہاں پر سلے ہوئے کپڑے مراد ہیں)٭سب سے پہلے ہتھیار بھی آپ نے بنائے۔ ٭حضرت ادریس علیہ السلام پر 30 صحیفے نازل ہوئے۔

ادریس لقب کیسے ملا: جو آپ پر صحیفے نازل ہوئے تھے ان کا کثرت سے درس دینے کی وجہ سے آپ کا نام ادریس ہوا۔(روح البیان، مریم۔ تحت الآیۃ: 56، 5/341) اللہ تعالیٰ نے آپ پر جو ان انعامات فرمائے ان میں سے دو کا تذکرہ قرآن پاک میں موجود ہے:

آپ علیہ السلام کو اپنی خاص رحمت میں داخل فرمایا:

(1) وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ(85) وَ اَدْخَلْنٰهُمْ فِیْ رَحْمَتِنَاؕ-اِنَّهُمْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(86)

ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اسمٰعیل اور ادریس ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر والے تھے۔اور انہیں ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا بےشک وہ ہمارے قربِ خاص کے سزاواروں میں ہیں۔(پ17، الانبیآء:85، 86)

(2)وَّ رَفَعْنٰهُ مَكَانًا عَلِیًّا(57) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ہم نے اسے بلند مکان پر اٹھالیا۔(پ16، مریم:57)بلند مکان پر اٹھا لینے سے مراد یہ ہے کہ آپ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھا لیا گیا ہے ۔

اللہ تعالیٰ ہمیں انبیاء کرام علیہم السلام کی سیرت کا مطالعہ کرنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور دوسروں تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


الله تعالیٰ نے اپنے آخری نبی محمد عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر قراٰن پاک جیسی مبارک کتاب نازل فرمائی جس میں اپنے محبوب بندوں کے اوصاف و کمالات کا بھی ذکر فرمایا۔ ان پسندیدہ بندوں میں سے ایک حضرت ادریس علیہ السلام بھی ہیں۔ آپ علیہ السلام کا اصل نام اخنوخ ہے۔ آپ علیہ السلام پر تیس صحیفے نازل ہوئے جن کا کثرت سے درس دینے کی وجہ سے آپ کا لقب ادریس ہوا ۔حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت شیث علیہ السلام کے بعد منصب نبوت پر آپ ہی فائز ہوئے۔قراٰن پاک میں آپ علیہ السلام کے درج ذیل اوصاف بیان کئے گئے ہیں:

صدیق اور اللہ تعالیٰ کے نبی علیہِ السّلام: حضرت ادریس علیہ السلام بہت ہی سچے اور اللہ تعالیٰ کے نبی تھے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِدْرِیْسَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّاۗۙ(56) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور کتاب میں ادریس کو یاد کرو بےشک وہ صدیق تھا غیب کی خبریں دیتا۔(پ16، مریم:56) ویسے تو انبیاءکرام بے شمار اوصاف کے مالک ہوتے ہیں لیکن ادھر حضرت ادریس علیہ السلام کا ذکر بطور خاص سچائی کے ساتھ کیا گیا کیونکہ آپ علیہ السلام میں اس وصف کا ظہور بہت نمایاں تھا۔

صابر اور قربِ الٰہی کے لائق بندے: اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ(85) وَ اَدْخَلْنٰهُمْ فِیْ رَحْمَتِنَاؕ-اِنَّهُمْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(86) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اسمٰعیل اور ادریس ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر والے تھے۔اور انہیں ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا بےشک وہ ہمارے قربِ خاص کے سزاواروں میں ہیں۔(پ17، الانبیآء:85، 86)

حضرت اسماعیل علیہ السلام اور حضرت ذوالکفل علیہ السلام کے ساتھ حضرت ادریس علیہ السلام کے اوصاف بیان فرمائے کہ آپ عبادات کی مشقتوں اور آفات و بلیات کو برداشت کرنے اور درس دینےپر کامل صبر فرمانے والے تھے اور قرب خاص کےلائق بندوں میں سے تھے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اچھے اوصاف اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


حضرات انبیائے کرام علیہمُ السّلام کائنات کی عظیم ترین ہستیاں اور انسانوں میں ہیرے موتیوں کی طرح جگمگاتی شخصیات ہیں جنہیں خدا نے وحی کے نور سےر وشنی بخشی، حکمتوں کے چشمے ان کے دلوں میں جاری فرمائے اور سیرت و کردار کی وہ بلندیاں عطا فرمائیں جن کی تابانی(نور) سے مخلوق کی آنکھیں خیرہ ہوجاتی ہیں، ان میں سے ایک حضرت ادریس علیہ السّلام ہیں جو حضرت آدم اور حضرت شیث علیہما السّلام کے بعد تشریف لائے۔ آپ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے آباء و اجداد میں سے ہیں۔

مختصر تعارف:حضرت ادریس علیہ السّلام کا اصل نام خنوخ یا اخنوح اور لقب ادریس ہے۔آپ علیہ السّلام پر 30 صحیفے نازل ہوئے، ان صحیفوں کا کثرت سے درس دینے کی وجہ سے آپ کا لقب ”ادریس“ ہوا۔ آپ علیہ السّلام حضرت نوح علیہ السّلام کے والد کے دادا ہیں۔(سیرت الانبیاء، ص148)

قراٰنِ پاک میں جہاں دیگر انبیائے کرام کے اوصاف بیان ہوئے ہیں وہیں حضرتِ ادریس علیہ السّلام کے اوصاف و کمالات بھی بیان ہوئے ہیں ان میں سے 5 ملاحظہ فرمائیں:

(1، 2)آپ علیہ السّلام کو صدیق کہا گیا، چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:﴿وَاذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِدْرِیْسَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّاۗۙ(56)﴾ ترجَمۂ کنز الایمان: اور کتاب میں ادریس کو یاد کرو بےشک وہ صدیق تھا غیب کی خبریں دیتا۔(پ16، مریم: 56) تمام انبیائے کرام علیہمُ السّلام سچے صدیق ہیں لیکن یہاں آپ علیہ السّلام کی صداقت و صدیقیت کو بطورِ خاص بیان کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ میں اس وصف کا ظہور بہت نمایاں تھا اور سچائی یقیناً اللہ پاک کو پسند ہے۔(سیرت الانبیاء، ص 152)

(3، 4)آپ علیہ السّلام صبر کرنے والے اور قُربِ الٰہی کے لائق بندوں میں سے تھے، چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَاِسْمٰعِیْلَ وَاِدْرِیْسَ وَذَا الْكِفْلِؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ(85) وَاَدْخَلْنٰهُمْ فِیْ رَحْمَتِنَاؕ-اِنَّهُمْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(86) ﴾ ترجَمۂ کنزالایمان: اور اسمٰعیل اور ادریس ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر والے تھے اور انہیں ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا بےشک وہ ہمارے قربِ خاص کے سزاواروں میں ہیں۔(پ17، الانبیآء:85، 86)

حضرت اسماعیل، ادریس اور ذوالکفل سب عبادت کی مشقتوں اور آفات و بلیات کو برداشت کرنے پر کامل صبر کرنے والے تھے۔(دیکھئے: صراط الجنان،6/364)

(5)آپ علیہ السّلام کو آسمان پر اٹھالیا گیا، چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَرَفَعْنٰهُ مَكَانًا عَلِیًّا(57)﴾ ترجَمۂ کنز الایمان : اور ہم نے اسے بلند مکان پر اٹھالیا۔ (پ16، مریم: 57) حضرت ادریس علیہ السّلام کو بلند مکان پر اٹھا لینے کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ اس سے آپ علیہ السّلام کے مرتبے کی بلندی مراد ہے اور ایک قول یہ ہے کہ آپ علیہ السّلام کو آسمان پر اٹھالیا گیا ہے اور زیادہ صحیح یہی قول ہے کہ آپ علیہ السّلام کو آسمان پر اٹھالیا گیا ہے۔(صراط الجنان، 6/126)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: چار نبی زندہ ہیں کہ ان کو وعدۂ الٰہیہ (یعنی وفات) ابھی آیا ہی نہیں۔ حضرت خضر والیاس علیہما السّلام زمین پر ہیں اور حضرت ادریس و عیسیٰ علیہما السّلام آسمان پر۔(سیرت الانبیاء، ص 154ملتقطاً) جب حُضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو معراج ہوئی تو حضرت ادریس علیہ السّلام نے چوتھے آسمان پر حُضور کی تعظیم و اکرام و استقبال فرمایا۔ (دیکھئے:سیرت الانبیاء، ص 157)

حضرت ادریس علیہ السّلام کے ان قراٰنی اوصاف سے آپ کی عظمت و رفعت واضح ہوتی ہے۔ اللہ پاک ہمیں نیک بندوں کی سیرت پڑھ کر اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔