محمد مدثر رضوی عطاری
(درجۂ خامسہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
اللہ پاک نے جب دنیا کو تخلیق فرمایا تو انہی میں اشرف
المخلوقات (انسان) کو بھی تخلیق فرمایا اور انسانوں کی اصلاح کیلئے اپنے محبوب
بندوں (نبیوں اور رسولوں) کو مبعوث فرمایا کہ وہ ان انسانوں کی اصلاح کریں۔ انہی
شخصیات میں سے حضرت ادریس علیہ السلام بھی ہیں، ان کا ذکر خیر اللہ پاک نے قرآن
کریم میں متعدد جگہ فرمایا چنانچہ ہم بھی ان کا تذکرہ کرتےہوئے ان کی صفات کو
پڑھتے ہیں !
(1)صدیق: وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ
اِدْرِیْسَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّاۗۙ(56)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور
کتاب میں ادریس کو یاد کرو بےشک وہ صدیق تھا۔(پ16، مریم:56)
(2)غیب کی خبریں دینے والے:ترجمہ کنز الایمان: (بےشک
وہ) غیب کی خبریں دیتا۔(پ16، مریم:56)
تفسیر: اس آیت میں اللہ پاک نے حضرت ادریس علیہ السلام کی
دو صفات کو ذکر فرمایا کہ حضرت ادریس علیہ السلام کو صدیق اور غیب کی خبریں دینا
والا نبی فرمایا۔
(3)آپ علیہ السلام کو بلند مقام عطا فر مایا: وَّ
رَفَعْنٰهُ مَكَانًا عَلِیًّا(57) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ہم نے اسے بلند مکان پر
اٹھالیا۔ (پ16، مریم:57)
تفسیر:حضرت ادریس علیہ الصّلوٰۃُوالسّلام کو بلندمکان پر
اٹھالینے کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ اس سے آپ علیہ الصّلوٰۃُوالسّلام کے مرتبے
کی بلندی مراد ہے اور ایک قول یہ ہے کہ آپ علیہ الصّلوٰۃُوالسّلام کوآسمان پر
اٹھالیا گیا ہے اور زیادہ صحیح یہی قول ہے کہ آپ علیہ الصّلوٰۃُوالسّلام کو
آسمان پر اٹھالیا گیا ہے۔(خازن، مریم، تحت الآیۃ:57، 3/238)
(4)صبر
کرنے والے:الله
پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-كُلٌّ
مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ (85) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اسمٰعیل اور ادریس
ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر والے تھے۔(پ17، الانبیآء:85)
(5)اپنی رحمت میں داخل فرمایا: الله پاک قرآن کریم میں
ارشاد فرماتا ہے: وَ
اَدْخَلْنٰهُمْ فِیْ رَحْمَتِنَاؕ-اِنَّهُمْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ (86) ترجَمۂ
کنزُالایمان: اور
انہیں ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا بےشک وہ ہمارے قربِ خاص کے سزاواروں میں ہیں۔
(پ17، الانبیآء: 86)
اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ ہمیں انبیاء کرام کی
سیرت پڑھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ
النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح
کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا
ذمہ دار نہیں۔