محترم قارئین کرام! لوگوں کی اصلاح اور تربیت کیلئے اللہ کریم نے دنیا میں وقتا فوقتا مختلف انبیاء و رسل علیہم السلام کو بھیجا اور پھر اللہ پاک نے ان انبیا و رسل علیہم السلام کو طرح طرح کے اوصاف و کمالات و معجزات سے نوازا، انہیں انبیاء علیہم السلام میں سے اللہ تبارک و تعالیٰ کے ایک نبی حضرت ادریس علیہ الصلوٰة والسلام بھی ہیں، آیئے! قرآن مجید میں حضرت ادریس علیہ السلام کے اوصاف ملاحظہ کرتے ہیں:

اللہ تبارک و تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِدْرِیْسَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّاۗۙ(56) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور کتاب میں ادریس کو یاد کرو بےشک وہ صدیق تھا غیب کی خبریں دیتا۔(پ16، مریم:56)

اس آیت مبارکہ میں حضرت سیدنا ادریس علیہ الصلوٰة والسلام کے دو اوصاف بیان کئے گئے کہ آپ بہت سچے اور نبی تھے، ویسے تو تمام انبیاء کرام علیہم السلام ہی سچے ہیں لیکن یہاں حضرت ادریس علیہ السلام کی صداقت و صدیقیت کو بطور خاص بیان کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ میں اس وصف کا ظہور بہت نمایاں تھا اور سچائی یقیناً اللہ پاک کو پسند اور اس کے پسندیدہ بندوں کا قابل تعریف وصف ہے۔

صدیقیت کے مراتب:

(1)زبان کا صدق (2)نیت و ارادہ میں صدق (3)عزم میں صدق(4)عدم کو پورا کرنے میں صدق (5)عمل میں صدق(6) دین کے تمام مقامات (جیسے خوف، امید، تعظیم،زہد)کی تحقیق میں صدق۔(احیاء العلوم، كتاب النیۃ والاخلاص والصدق، الباب الثالث فی الصدق۔۔۔۔۔الخ، 5/117)

ان مراتب کو بیان کرنے کے بعد امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جو شخص صدیقیت کے ان تمام مراتب کے ساتھ متصف ہو تو وہ صدیق ہے کیونکہ وہ صدق میں انتہا کو پہنچا ہوا ہے۔

ایک مقام پر اللہ پاک قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ(85) وَ اَدْخَلْنٰهُمْ فِیْ رَحْمَتِنَاؕ-اِنَّهُمْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(86) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اسمٰعیل اور ادریس ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر والے تھے۔اور انہیں ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا بےشک وہ ہمارے قربِ خاص کے سزاواروں میں ہیں۔(پ17، الانبیآء:85، 86)

اس آیت مبارکہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت ادریس علیہ السلام کے مزید دو اوصاف بیان فرمائے کہ آپ صبر کرنے والے اور قربِ الٰہی کے لائق بندوں سے تھے۔

حضرت ادریس علیہ السلام استقامت کے ساتھ کتابِ الٰہی کا درس دیتے، عبادتِ الٰہی میں مصروف رہتے اور اس راہ میں آنے والی مشقتوں پر صبر کرتے تھے اس لئے آپ علیہ السلام کو بھی بطور خاص صابرین میں شمار کیا گیا ہے۔

دعا ہے کہ ہم سب کو انبیاء کرام علیہم السلام کی سیرت پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔