انبیاء کرام علیہم السلام کائنات کی عظیم ترین ہستیاں اور انسانوں میں ہیروں موتیوں کی طرح جگمگاتی شخصیات ہیں جنہیں خدا نے وحی کے نور سے روشنی بخشی اور حکمتوں کے سرچشمے ان کے دلوں میں جاری فرمائے اور وہ بلندیاں عطا فرمائیں جن کی تابانی سے مخلوق کی آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں انہی انبیاء اکرام علیہم السلام میں حضرت ادریس علیہ السلام بھی ہیں اللہ عزوجل نے آپ کو بہت سے کمالات، معجزات اور صفات سے نوازا ہے قرآن پاک میں بیان کی گئیں آپ علیہ السلام کی 5 صفات آپ بھی پڑھئے اور علم و عمل میں اضافہ کیجئے:

(1) آپ علیہ السلام بہت سچے تھے: ارشاد باری تعالیٰ ہے: ترجَمۂ کنزُالایمان: اور کتاب میں ادریس کو یاد کرو بےشک وہ صدیق تھا۔(پ16، مریم:56) تمام انبیاء کرام علیہم السلام سچے اور صدیق ہیں لیکن اس آیت مبارکہ میں حضرت ادریس کی صداقت و صدیقیت کو بطور خاص بیان کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ میں اس وصف کا ظہور بہت نمایاں تھا۔

(2) نبوت سے فیض یاب: ارشاد باری تعالیٰ ہے: ترجمہ کنز الایمان: (بےشک وہ) غیب کی خبریں دیتا۔

حضرت ادریس علیہ السلام اللہ عزوجل کے ان برگزیدہ اور نیک بندوں میں سے ہیں جن کو اللہ عزوجل نے نبوت کے اعلیٰ منصب سے فیضیا ب فرمایا۔

(3)صبر کرنے والے: ارشاد باری تعالیٰ ہے: ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اسمٰعیل اور ادریس ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر والے تھے۔(پ17، الانبیآء:85)

حضرت ادریس علیہ السلام راه خدا میں آنے والی مشقتوں پر صبر کرتے تھے اس لیے آیت مبارکہ میں آپ علیہ السلام کو دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کے ساتھ صابرین میں شمار فرمایا۔

(4)دخولِ رحمت: اللہ تعالیٰ نے حضرت ادریس علیہ السلام کو اپنی خاص رحمت میں داخل فرمایا، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ترجَمۂ کنزُالایمان: اور انہیں ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا ۔(پ17، الانبیآء: 86)

(5)قرب الٰہی پانے والے: ارشاد باری تعالیٰ ہے: ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک وہ ہمارے قربِ خاص کے سزاواروں میں ہیں۔(پ17، الانبیآء: 86)

اسی آیت مبارکہ میں دیگر انبیاء اکرام علیہم السلام کے ساتھ ساتھ آپ علیہ السلام کو بھی اللہ عزوجل نے اپنے قرب والے بندوں میں شمار فرمایا۔

اللہ پاک ہمیں انبیاء کرام علیہم السلام کی صفات کے صدقے نیکیاں کرنے اور گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔