قاری محمد علی نواز مدنی (مرکزی جامعۃُ المدینہ فیضانِ
مدینہ جوہر ٹاؤن لاہور، پاکستان)
وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِدْرِیْسَ٘-اِنَّهٗ كَانَ
صِدِّیْقًا نَّبِیًّاۗۙ(56) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور کتاب
میں ادریس کو یاد کرو بےشک وہ صدیق تھا غیب کی خبریں دیتا۔(پ16، مریم:56) ارشاد
فرمایا کہ اے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! آپ ہماری اس کتاب میں حضرت
ادریس علیہ الصّلوٰۃُوالسّلام کا ذکر فرمائیں بے شک وہ بہت ہی سچے نبی تھے۔
حضرت ادریس علیہ السلام کا مختصر تعارف: آپ علیہِ السّلام کا نام
اخنوخ ہے اور آپ علیہ السلام حضرت نوح علیہ السلام کے والد کے دادا ہیں۔حضرت آدم
علیہ السلام کے بعد آپ ہی پہلے رسول ہیں۔ آپ علیہ السلام کے والد حضرت شیث بن آدم
علیہما السلام ہیں۔
چند خصوصیات:
سب سے
پہلے قلم کا استعمال: سب سے پہلے جس شخص نے قلم استعمال فرمایا یعنی قلم سے لکھا وہ حضرت ادریس
علیہ السلام ہی ہیں۔
کپڑوں کا سِلنا/سِلوانا: کپڑوں کو سینے اور سلے ہوئے کپڑے
پہننے کی ابتداء بھی آپ ہی سے ہوئی، آپ سے پہلے لوگ کھالیں پہنتے تھے۔
سب سے پہلے ہتھیار بنایا: سب سے پہلے ہتھیار بنانے
والے بھی یہی تھے۔
ترازو
اور پیمانہ: ترازو
اور پیمانہ قائم کرنے والے بھی یہی تھے۔نیز علم نجوم اور علم حساب میں نظر فرمانے
والے بھی آپ ہی ہیں۔
صحیفوں کی تعداد: اللہ تعالیٰ نے آپ پر تیس صحیفے
نازل کئے اور الله تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والے صحیفوں کا کثرت سے درس دینے کی
وجہ سے آپ کا نام ادر یس ہوا۔
درس قرآن اور درس علم دین: حضرت ادر یس علیہ السلام
اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والے صحیفوں کا کثرت سے درس دیا کرتے تھے۔ اس سے
معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کا درس دینا انبیاء کرام علیہم الصلوٰة والسلام
کی سنت ہے۔
درس دینے کی فضیلت: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے
روایت ہے کہ نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو لوگ اللہ
تعالیٰ کہ گھروں میں سے کسی گھر میں جمع ہوتے ہیں اور وہ قرآن مجید کی تلاوت کرتے
اور ایک دوسرے کو اس کا درس دیتے ہیں تو اُن پر سکون نازل ہوتا ہے، رحمت انہیں
ڈھانپ لیتی ہے اور اللہ تعالیٰ ان کا ذکر فرشتوں میں فرماتا ہے۔(مسلم، كتاب الذكر
والدعاء التوبة والاستغفار باب فضل الاجمتاع على تلاوة القرآن وعلى الذكرة)
فرمان باری تعالیٰ ہے: وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ
اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ(85) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور
اسمٰعیل اور ادریس ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر والے تھے۔(پ17،
الانبیآء:85)
درس و تبلیغ پر صبر کرنا: یہا ں پر حضرت ادریس علیہ
السلام کا یہ وصف بیان کیا گیا کہ آ پ صبر کرنے والے تھے۔ یعنی لوگوں کو وعظ و
نصیحت کرتے اور درس دیتے تھے اور لوگ ستاتے تو اس پر صبر کرتےتھے۔
رحمتِ الٰہی کا حقدار کون؟: جو شخص اللہ تعالیٰ کی
اطاعت کرنے اور اس کی نافرمانی سے بچنے پر صبر کرے یونہی جو شخص اپنے مال، اہل اور
جان میں آنے والی کسی مصیبت پر صبر کرے تو وہ اپنے صبر کی مقدار کے مطابق نعمت،
رتبہ اور مقام پاتا ہے اور اسی حساب سے وہ اللہ پاک کی رحمت کا حقدار ہوتا ہے۔(روح
البیان)
فرمان باری تعالیٰ ہے: وَّ رَفَعْنٰهُ مَكَانًا
عَلِیًّا(57) ترجَمۂ
کنزُالایمان: اور
ہم نے اسے بلند مکان پر اٹھالیا۔(پ16، مریم:57)
بلند
مقام سے مراد: حضرت ادریس علیہ السلام کو بلند مکان پر اٹھا لینے کے بارے میں ایک قول یہ
ہے کہ اس سے آپ کے مرتبے کی بلندی مراد ہے۔ اور ایک قول یہ ہے کہ آپ علیہ السلام
کو آسمان پر اٹھا لیا گیا اور زیادہ صحیح یہی قول ہے کہ آپ علیہ السلام کو آسمان
پر اٹھا لیا گیا ہے۔(خازن، مریم، تحت الآیۃ:57، 3/238)
یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح
کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا
ذمہ دار نہیں۔