محمد حدير
فرجاد (درجۂ خامسہ جامعۃُ المدينہ فيضان ابو عطّار ملير كراچی، پاکستان)
اللہ پاک نے لوگوں کی ہدایت کے لیے چار آسمانی کتابیں نازل
فرمائی توریت، زبور، انجیل، قرآن پاک۔ ان کتابوں میں انسانوں کی ہدایت کے لیے
مختلف احکام شریعہ اور امتوں کے قصے بھی بیان فرمائے ہیں، اللہ تبارک و تعالیٰ نے
قرآنِ کریم جن انبیاء و رسل کے نام و اوصاف بیان فرمائے ہیں، ان میں سے ایک حضرت
ادریس علیہ السلام بھی ہیں، آیئے! قرآن مجید میں بیان کئے گئے ان کے اوصاف کا
مطالعہ کرتے ہیں:
حضرت ادریس علیہ السلام کا تعارف:
نام و لقب: آپ علیہ السلام کا اصل نام خنوخ
یا اخنوخ ہے اور لقب ادریس ہے۔(سیرت الانبیاء، ص 148)
نسب:آپ حضرت نوح علیہ السلام کے والد کے دادا ہیں اور
آپ کے والد حضرت شیث بن آدم علیہ السلام ہیں اور حضرت آدم علیہ السلام کے بعد آپ
ہی پہلے رسول ہیں۔(عجائب القرآن غرائب القرآن، ص17)
ولادت:علامہ احمد بن محمد قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے
ہیں: حضرت ادریس علیہ السلام نے حضرت آدم علیہ السلام کی مبارک زندگی کے 308 سال
پائے ہیں۔(سیرت الانبیاء، ص149)
قرآنی اوصاف:
(1، 2)بہت سچے اور نبی ہیں: وَ
اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِدْرِیْسَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّاۗۙ(56) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور کتاب میں ادریس کو یاد کرو بےشک
وہ صدیق تھا غیب کی خبریں دیتا۔(پ16، مریم:56)
تمام انبیاء کرام سچے ہیں لیکن آپ علیہ السلام میں یہ وصف
بہت نمایاں تھا اس لئے اللہ پاک نے خاص طور پر آپ کے اس وصف کو قرآنِ کریم میں
بیان فرمایا۔
(3)صبر کرنے والے: وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ
اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ(85) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور
اسمٰعیل اور ادریس ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر والے تھے۔(پ17، الانبیآء:85)
حضرت ادریس علیہ السلام عبادتِ الٰہی میں آنے والی پریشانی
پر صبر کرتے رہے یہاں تک کہ اللہ پاک نے آپ کا ذکر صابرین میں فرمایا۔
(4)قرب الٰہی کے لائق: وَ اَدْخَلْنٰهُمْ فِیْ
رَحْمَتِنَاؕ-اِنَّهُمْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(86) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور انہیں
ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا بےشک وہ ہمارے قربِ خاص کے سزاواروں میں ہیں۔
(پ17، الانبیآء:86)
دعا ہے کہ اللہ پاک ان کے صدقے تمام مسلمانوں کی خیر
فرمائے اور جہاں جہاں مسلمان ظلم و ستم کا شکار ہیں ان سب کی غیبی مدد فرمائے۔
اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح
کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا
ذمہ دار نہیں۔