حسنین وکیل احمد صدیقی (درجہ ثانیہ جامعۃُ المدينہ فيضان
ابو عطّار ملير كراچی، پاکستان)
حضرت ادریس علیہ السلام اللہ تبارک وتعالیٰ کے ایک عظیم
پیغمبر تھے، آپ علیہ السلام لوگوں کو نیکی، توحید، اور اخلاقی اصولوں کی تعلیم
دیتے تھے۔ قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے کچھ آیات مبارکہ میں آپ علیہ
السلام کا ذکر فرمایا۔ آئیں قرآن کریم اور تفسیر کی روشنی میں حضرت ادریس علیہ
السلام کے بارے میں چند باتیں جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
(1)حضرت ادریس علیہ السلام کا نامِ مبارک اور
انبیاء کرام علیہم السلام کے ساتھ آپ علیہ السلام کا تعلق:
آپ علیہ الصّلوٰۃُوالسّلام کا نام اخنوخ ہے اور آپ علیہ
الصّلوٰۃُوالسّلام حضرت نوح علیہ الصّلوٰۃُوالسّلام کے والد کے دادا ہیں۔ حضرت آدم
علیہ الصّلوٰۃُوالسّلام کے بعد آپ ہی پہلے رسول ہیں۔ آپ علیہ الصّلوٰۃُوالسّلام کے
والد حضرت شیث بن آدم علیہما الصّلوٰۃُوالسّلام ہیں۔(خازن، مریم، تحت الآیۃ:57،
3/238-مدارک، مریم، تحت الآیۃ:56، ص677- روح البیان، مریم، تحت الآیۃ:56، 5/341
ملتقطاً)
(2)دنیاوی اعتبار سے آپ علیہ السلام کے انسانیت
پر احسانات:سب
سے پہلے جس شخص نے قلم سے لکھا وہ حضرت ادریس علیہ السلام ہی ہیں۔ کپڑوں کو سینے
اور سلے ہوئے کپڑے پہننے کی ابتدا بھی آپ علیہ السلام ہی سے ہوئی، آپ علیہ السلام
سے پہلے لوگ کھالیں پہنتے تھے۔ سب سے پہلے ہتھیار بنانے والے، ترازو اور پیمانے
قائم کرنے والے اور علمِ نُجوم اور علمِ حساب میں نظر فرمانے والے بھی آپ ہی ہیں
اور یہ سب کام آپ علیہ السلام ہی سے شروع ہوئے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ پر تیس
صحیفے نازِل کئے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والے صحیفوں کا کثرت
سے درس دینے کی وجہ سے آپ علیہ السلام کا نام ادریس ہوا۔(خازن، مریم، تحت
الآیۃ:57، 3/238-مدارک، مریم، تحت الآیۃ:56، ص677- روح البیان، مریم، تحت
الآیۃ:56، 5/341 ملتقطاً)
(3)مرتبہ کی بلندی: اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن کریم
میں ارشاد فرمایا: وَّ رَفَعْنٰهُ مَكَانًا عَلِیًّا(57) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ہم نے
اسے بلند مکان پر اٹھالیا۔(پ16، مریم:57)
حضرت ادریس علیہ الصّلوٰۃُوالسّلام کو بلند مکان پر اٹھا
لینے کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ اس سے آپ علیہ السّلام کے مرتبے کی بلندی مراد
ہے اور ایک قول یہ ہے کہ آپ علیہ السّلام کو آسمان پر اٹھالیا گیا ہے۔(خازن،
مریم، تحت الآیۃ: 57، 3/238)
(4)درس دینا آپ علیہ السلام کی خصوصی سنت: اللہ تبارک وتعالیٰ نے
قرآن مجید میں ارشاد فرمایا: وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-كُلٌّ
مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ(85) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اسمٰعیل اور ادریس
ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر والے تھے۔ (پ17، الانبیآء:85)
ارشاد فرمایا کہ اے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم!
آپ حضرت اسماعیل، حضرت ادریس اور حضرت ذوالکفل علیہمُ الصّلوٰۃُ والسّلام کو یاد
کریں، وہ سب عبادات کی مشقتوں اور آفات و بَلِیّات کو برداشت کرنے پر کامل صبر
کرنے والے تھے۔ حضرت اسماعیل علیہ الصّلوٰۃُوالسّلام نے اپنے ذبح کئے جانے کے وقت
صبر کیا، حضرت ادریس علیہ الصّلوٰۃُوالسّلام نے درس دینے پر صبر کیا اور حضرت
ذوالکفل علیہ الصّلوٰۃُوالسّلام نے دن کاروزہ رکھنے،رات کوقیام کرنے اور اپنے دورِ
حکومت میں لوگوں کی طرف سے دی گئی تکلیفوں پر صبر کیا۔ (روح البیان، الانبیاء، تحت
الآیۃ:85، 5/515)
اس سے معلوم ہوا کہ حضرت ادریس علیہ السلام نے اپنی زندگی
کا اکثر حصہ درس دیتے ہوئے گزارا اور کثرت سے درس دینے کی وجہ سے آپ علیہ السلام
کا نام ادریس ہوگیا۔
اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں انبیاء کرام علیہم
السلام کی سیرت سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، تمام عالم اسلام
کو صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور تمام مسلمین مسلمات مؤمنین مؤمنات
کی مغفرت فرمائے، اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم۔