عظمت فرید عطّاری (درجۂ سادسہ درجہ جامعۃُ المدینہ فیضان
مشتاق شاہ عالم مارکیٹ لاہور، پاکستان)
حضرت ادریس علیہ السلام حضرت آدم اور حضرت شیث علیہما
السلام کے بعد تشریف لائے، آپ علیہ السلام حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کے آباء و اجداد میں سے ہیں، آپ علیہ السلام کا اصل نام خنوخ یا اخنوخ ہے،
بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو سب سے پہلے آپ علیہ السلام نے ایجاد فرمائیں اور آپ علیہ
السلام کو اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق ابھی تک موت نہیں آئی اس وقت آپ علیہ
السلام زندہ ہیں اور جب اللہ تبارک و تعالیٰ چاہے گا اس وقت آپ علیہ السلام ضرور
وصال فرمائیں گے۔ قرآن و حدیث میں آپ کا ذکر موجود ہے، قرآن مجید فرقان حمید میں
آپ علیہ السلام کا تذکرہ دو سورتوں میں ملتا ہے، آپ علیہ السلام کے جو اوصاف لاریب
کتاب میں بیاں ہوئے ہیں ان میں سے چند عرض کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
درج ذیل آیت مبارکہ میں آپ علیہ السلام کے دو اوصاف ذکر
کیے گئے ہیں:پہلا، آپ بہت سچے انسان تھے۔ دوسرا، آپ اللہ عزوجل کے نبی تھے۔چنانچہ
ارشاد باری تعالیٰ ہے:وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِدْرِیْسَ٘-اِنَّهٗ كَانَ
صِدِّیْقًا نَّبِیًّاۗۙ(56)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور کتاب
میں ادریس کو یاد کرو بےشک وہ صدیق تھا غیب کی خبریں دیتا۔(پ16، مریم:56)
یہاں یہ بات یاد رکھئے کہ تمام انبیاء کرام علیہم السلام
سچے اور صدیق ہیں لیکن یہاں حضرت ادریس علیہ السلام کی صداقت اور صدیقیت کو بطور
خاص بیان کیا گیا ہے تو اس بات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ علیہ السلام میں اس بات کا
وصف بہت ہی نمایاں تھا اور یقیناً اللہ تبارک و تعالیٰ سچائی کو بہت پسند فرماتا
ہے اور سچائی اس کے پسندیدہ بندوں کا قابل تعریف وصف ہے اور غیر انبیاء میں سب سے
بڑے صدیق وہ جناب سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آپ کی ذاتِ مبارکہ ہے جن کا لقب
ہی صدیق اکبر ہے صدیقیت کے علماء نے بہت سے مراتب بیان فرمائے ہیں خیر یہ ایک لمبی
بحث ہے اس کی طرف ہم نہیں جاتے۔
تو ہم حضرت ادریس علیہ السلام کے حوالے سے ذکر کر رہے تھے
آپ علیہ السلام کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے بہت ہی شانوں سے نوازا جیسا کہ اللہ
تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: وَّ رَفَعْنٰهُ مَكَانًا عَلِیًّا(57) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور
ہم نے اسے بلند مکان پر اٹھالیا۔(پ16،
مریم:57)
رفعت ادریس:
آپ علیہ السلام کے بارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد
ہے کہ ہم نے اسے ایک بلند مکان پر اٹھا لیا، بلند مقام پر اٹھا لینے سے مراد علماء
کرام کے مختلف اقوال ہیں، ان میں سے ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد آپ علیہ السلام
کے مرتبے کی بلندی ہے اور دوسرا قول یہ ہے کہ آپ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھا لیا
گیا اور زیادہ صحیح یہی دوسرا قول ہے۔آسمان پر جانے کے واقعے سے متعلق سیدی اعلیٰ
حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:حضرت ادریس علیہ السلام کے اٹھا
لینے میں علماء کا اختلاف ہے اتنا تو ایمان ہے کہ آپ علیہ السلام آسمان پر تشریف
فرما ہیں۔
آپ علیہ السلام صبر کرنے والے اور قرب الٰہی کے لائق بندوں
میں سے تھے جیسا کہ پروردگار عالم عزوجل ارشاد فرماتا ہے: وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ
اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ(85) وَ
اَدْخَلْنٰهُمْ فِیْ رَحْمَتِنَاؕ-اِنَّهُمْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(86)
ترجَمۂ
کنزُالایمان: اور
اسمٰعیل اور ادریس ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر والے تھے۔اور انہیں
ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا بےشک وہ ہمارے قربِ خاص کے سزاواروں میں ہیں۔(پ17،
الانبیآء:85، 86)
آپ علیہ السلام انتہائی صبر گزار تھے، آپ علیہ السلام
استقامت کے ساتھ کتاب الٰہی کا درس دیتے، عبادت الٰہی میں مصروف رہتے اور اس راہ
میں آنے والی مشقتوں پر صبر کرتے تھے اس لیے آپ علیہ السلام کو بطور خاص صابرین
میں شمار فرمایا گیا۔
سراپائے اقدس: حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے
ہیں: حضرت ادریس علیہ السلام کا رنگ سفید، قد لمبا اور سینہ چوڑا تھا، آپ علیہ
السلام کے جسم اقدس پر بال کم اور سر پر زیادہ تھے، آپ علیہ السلام کے سینے مبارک
پر ایک سفید نشان تھا اور یہ نشان برص کا نہ تھا۔
ولادت: علامہ احمد بن محمد قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے
ہیں: حضرت ادریس علیہ السلام نے حضرت آدم علیہ السلام کی مبارک زندگی کے 308 سال
پائے تھے۔
عملی زندگی: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ
عنہما فرماتے ہیں: حضرت ادریس علیہ السلام کپڑے سلائی کیا کرتے اور ہر ٹانکے پر
سبحان اللہ کہتے تھے، جب شام ہوتی تو اس وقت تک روئے زمین پر کوئی بھی شخص عمل کے
لحاظ سے آپ علیہ السلام سے افضل نہ ہوتا۔
نام و لقب: آپ علیہ السلام کا اصل نام خنوخ
یا اخنوخ اور لقب ادریس ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام پر 30 صحیفے نازل
فرمائے اور ان صحیفوں کا کثرت سے درس دینے کی وجہ سے آپ علیہ السلام کا لقب ادریس
یعنی (بہت درس دینے والا) ہوا۔ آپ علیہ السلام حضرت نوح علیہ السلام کے والد کے
دادا ہیں اور حضرت آدم اور حضرت شیث علیہما السلام کی نبوت کے بعد آپ ہی منصب نبوت
پر فائز ہوئے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے انبیاء کرام علیہم
السلام کے صحیح صحیح معنوں میں اوصاف بیان کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن
بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم