قرآن کریم میں حضرت ادریس علیہ السلام کے 4 اوصاف بیان کیے گئے ہیں:

(1، 2) آپ علیہ السلام بہت سچے اور نبی تھے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِدْرِیْسَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّاۗۙ(56) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور کتاب میں ادریس کو یاد کرو بےشک وہ صدیق تھا غیب کی خبریں دیتا۔(پ16، مریم:56)

تمام انبیاء کرام علیہم السلام سچے اور صدیق ہیں لیکن یہاں حضرت ادریس علیہ السلام کی صداقت و صدیقیت کو بطور خاص بیان کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ میں اس وصف کا ظہور بہت نمایاں تھا اور سچائی یقیناً اللہ تعالیٰ کو پسند اور اس کے پسندیدہ بندوں کا قابلِ تعریف وصف ہے۔ غیر انبیاء میں سب سے بڑے صدیق سیدنا ابو بکر صدیق رَضِی اللہ عنہ ہیں جن کا لقب ہی صدیق اکبر ہے۔

(3، 4) آپ علیہ السلام صبر کرنے والے اور قرب الٰہی کے لائق بندوں میں سے تھے، جیسا کہ ارشاد فرمایا: وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ(85) وَ اَدْخَلْنٰهُمْ فِیْ رَحْمَتِنَاؕ-اِنَّهُمْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(86) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اسمٰعیل اور ادریس ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر والے تھے۔اور انہیں ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا بےشک وہ ہمارے قربِ خاص کے سزاواروں میں ہیں۔(پ17، الانبیآء:85، 86)

حضرت ادریس علیہ السلام استقامت کے ساتھ کتاب الٰہی کا درس دیتے، عبادت الٰہی میں مصروف رہتے اور اس راہ میں آنے والی مشقتوں پر صبر کرتے تھے، اس لیے آپ علیہ السلام کو بھی بطورِ خاص صابرین میں شمار فرمایا گیا۔

انعاماتِ الٰہی: اللہ تعالٰ نے آپ علیہ السلام پر جو انعامات فرمائے ان میں سے دو کا تذکرہ قرآن پاک میں بھی موجود ہے:

(1) آپ علیہ السلام کو اپنی خاص رحمت میں داخل فرمایا، ارشاد باری تعالیٰ ہے:وَ اَدْخَلْنٰهُمْ فِیْ رَحْمَتِنَاؕ-اِنَّهُمْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(86)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور انہیں ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا۔ (پ17، الانبیآء:86)

(2) آپ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھا لیا، فرمانِ باری تعالیٰ ہے:وَّ رَفَعْنٰهُ مَكَانًا عَلِیًّا(57)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ہم نے اسے بلند مکان پر اٹھالیا۔(پ16، مریم:57)

رفعتِ ادریس علیہ السلام:بلند مکان پر اٹھا لینے کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ اس سے آپ علیہ السلام کے مرتبے کی بلندی مراد ہے اور ایک قول یہ ہے کہ آپ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھالیا گیا ہے اور زیادہ صحیح یہی دوسرا قول ہے۔(خازن، مریم، تحت الآیۃ:57، 3/238)

آسمان پر جانے کے واقعہ سے متعلق اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

آپ (علیہ السلام) کے واقعہ میں علماء کو اختلاف ہے، اتنا تو ایمان ہے کہ آپ آسمان پر تشریف فرما ہیں۔ قرآن کریم میں ہے:وَّ رَفَعْنٰهُ مَكَانًا عَلِیًّا(57) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ہم نے اسے بلند مکان پر اٹھالیا۔(پ16، مریم:57)

حضرت ادریس علیہ السلام زندہ ہیں: اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: چار نبی زندہ ہیں کہ اُن کو وعدۂ الٰہیہ ابھی آیا ہی نہیں۔یوں تو ہر نبی زندہ ہے (جیسا کہ حدیث پاک میں ہے):اِنَّ اللهَ حَرَّمَ عَلَى الْاَرْضِ اَنْ تَاْكُل اَجْسَادَ الْاَنْبِيَاءِ فَنَبِيُّ اللهِ حَى يُرْزَقُ بیشک اللہ (عزوجل) نے حرام کیا ہے زمین پر کہ انبیاء علیہم الصلوة والسلام کے جسموں کو خراب کرے، تو اللہ (عزوجل) کے نبی زندہ ہیں، روزی دیئے جاتے ہیں۔ (ابن ماجہ، 2/291، حدیث:1637)

انبیاء کرام علیہم الصلوة والسلام پر ایک آن کو محض تصدیق وعدۂ الٰہیہ کے لیے موت طاری ہوتی ہے، بعد اس کے پھر اُن کو حیاتِ حقیقی حسی دنیوی عطا ہوتی ہے۔ خیر ان چاروں میں سے دو آسمان پر ہیں اور دو زمین پر۔ خضر و الیاس علیہماالسّلام زمین پر ہیں اور ادریس و عیسیٰ (علیہماالسلام) آسمان پر۔ (در منثور، 5/432-ملفوظات اعلیٰ حضرت، ص 484)

حضرت ادریس علیہ السلام کو موت ضرور آئے گی: اسی مقام پر سیدی اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ سے سوال ہوا: حضور ان پر موت طاری ہو گی ؟ اس کے جواب میں فرمایا: ضرور (کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:) كُلُّ نَفْسٍ ذَآىٕقَةُ الْمَوْتِؕ ترجَمۂ کنزُالایمان:ہر جان کو موت چکھنی ہے۔(پ4، آل عمرٰن:185)

رفعتِ ادریس اور رفعت مصطفیٰ میں فرق: یہاں بعض علماء نے ایک بڑی پیاری بات لکھی ہے کہ حضرت ادریس کو جو رفعت عطا کی گئی اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: وَّ رَفَعْنٰهُ مَكَانًا عَلِیًّا(57) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ہم نے اسے بلند مکان پر اٹھالیا ۔ (پ16، مریم:57)

اور سید المرسلين صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اس سے کہیں زیادہ افضل اور کامل رفعت عطا کی گئی کیونکہ اللہ تعالیٰ نےدنیاو آخرت میں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ذکر بلند کر دیا جیسا کہ ارشاد فرمایا: وَ رَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَؕ(4)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ہم نے تمہارے لیے تمہارا ذکر بلند کردیا۔ (پ 30،الم نشرح: 4)

کوئی خطیب اور کوئی نمازی ایسا نہیں جو یہ ندانہ دیتاہو اَشْهَدُ ان لا الٰهَ اِلَّا اللہ وَاَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللہ یوں اللہ تعالیٰ نے زمین کے مشرقوں اور مغربوں میں حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے نام کو اپنے نام کے ساتھ ملادیا۔(البدایہ والنہایہ قصتہ حبس الشمس علی یوشع، 4/702 ملخصا)

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔