اللہ پاک نے مخلوق کی راہنمائی کے لیے بہت سے انبیاء اکرام بھیجے، ان میں سے ایک حضرت ادریس علیہ السلام بھی ہیں، آپ علیہ السلام حضوراکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے آباء و اجداد میں سے ہیں۔ آپ علیہ السلام کا اصل نام خنوخ یا اخنوخ ہے، اللہ پاک کے صحیفوں کا کثرت سے درس دینے کی وجہ سے آپ کا لقب ادریس ہے۔ بہت سی ایسی چیزیں ہیں جو سب سے پہلے آپ نے ایجاد فرمائیں۔

حضرت ادریس علیہِ السّلام سچے نبی تھے: ترجَمۂ کنزُالایمان: اور کتاب میں ادریس کو یاد کرو بےشک وہ صدیق تھا غیب کی خبریں دیتا۔ (پ16، مریم:56)

ارشاد فرمایا کہ اے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! آپ ہماری اس کتاب میں حضرت ادریس علیہ الصّلوٰۃُوالسّلام کا ذکر فرمائیں، بیشک وہ بہت ہی سچے نبی تھے۔

آپ علیہ السلام صبر کرنے والے تھے: ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اسمٰعیل اور ادریس ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر والے تھے۔ (پ17، الانبیآء:85)

اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے اوراس کی نافرمانی سے بچنے پر صبر کرے، یونہی جو شخص اپنے مال،اہل اور جان میں آنے والی کسی مصیبت پر صبر کرے تو وہ اپنے صبر کی مقدارکے مطابق نعمت،رتبہ اور مقام پاتا ہے اور اسی حساب سے و ہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا حق دار ہوتا ہے۔(روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: 85، 5/515)

آپ علیہ السلام کو اللہ پاک نے اپنی رحمت میں داخل فرمایا: ترجَمۂ کنزُالایمان:اور انہیں ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا بےشک وہ ہمارے قربِ خاص کے سزاواروں میں ہیں۔(پ17، الانبیآء:86)

آپ علیہ السلام کو ایک بلند مقام پر اٹھا لیا گیا: ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ہم نے اسے بلند مکان پر اٹھالیا۔(پ16، مریم:57)

حضرت ادریس علیہ الصّلوٰۃُوالسّلام کو بلند مکان پر اٹھا لینے کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ اس سے آپ علیہ السّلام کے مرتبے کی بلندی مراد ہے اور ایک قول یہ ہے کہ آپ علیہ السّلام کو آسمان پر اٹھا لیا گیا ہے اور زیادہ صحیح یہی قول ہے کہ آپ علیہ السّلام کو آسمان پر اٹھالیا گیا ہے۔(خازن، مریم، تحت الآیۃ:57، 3/238)

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔