محمد جنید عطّاری (درجۂ خامسہ جامعۃ المدینہ فیضانِ عطار
اٹک، پاکستان)
وہ عظیم ہستیاں جن کو مرتبہِ نبوت سے سرفراز کیا گیا ان
میں سے ایک ہستی حضرت ادریس علیہ السلام بھی ہیں۔ آپ حضور نبی کریم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے آباء و اجداد میں سے تھے آپ حضرت آدم اور شیث علیہما السلام
کے بعد تشریف لائے۔آپ کو وعدۂ الٰہیہ کے مطابق ابھی تک موت نہیں اور آپ اس وقت
آسمانوں میں زندہ ہیں اور جب اللہ پاک چاہے گا اس وقت آپ ضرور وصال فرمائیں گے۔
اللہ پاک نے قرآن پاک میں آپ علیہ السلام کی صفات کو بیان فرمایا ہے۔ جیسے
(1، 2)آپ علیہ السلام بہت سچے اور نبی تھے چنانچہ اسی وصف
کو بیان کرتے ہوئے رب العالمین نے ارشاد فرمایا: وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ
اِدْرِیْسَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّاۗۙ(56) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور کتاب
میں ادریس کو یاد کرو بےشک وہ صدیق تھا غیب کی خبریں دیتا۔(پ16،
مریم:56)
تمام انبیاء کرام علیہم السلام سچے اور صدیق ہیں لیکن یہاں
حضرت ادریس علیہ السلام کی صداقت اور صدیقیت کو بطور خاص بیان کرنے سے معلوم ہوتا
ہے کہ آپ میں اس وصف کا ظہور بہت نمایاں تھا اور سچائی یقیناً اللہ پاک کو پسند
اور اس کے پسندیدہ بندوں کا قابلِ تعریف وصف ہے۔(سیرت الانبیاء، ص152)
(3، 4)حضرت ادریس علیہ السلام صبر کرنے والے اور قربِ
الٰہی کے لائق بندوں میں سے تھے، چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: وَ
اِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ(85) وَ اَدْخَلْنٰهُمْ فِیْ رَحْمَتِنَاؕ-اِنَّهُمْ مِّنَ
الصّٰلِحِیْنَ(86) ترجَمۂ
کنزُالایمان: اور
اسمٰعیل اور ادریس ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر والے تھے۔اور انہیں
ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا بےشک وہ ہمارے قربِ خاص کے سزاواروں میں ہیں۔(پ17،
الانبیآء:85، 86)
اللہ پاک نے درس دینے پر حضرت ادریس علیہ السلام کے صبر
کوبیان فرمایا اور اس کے بدلے آپ کو اپنے قربِ خاص سے نواز کر صالحین میں شمار
فرمایا۔
اللہ پاک ہمیں انبیاء کرام علیہم السلام کی سیرت
پڑھنے،سمجھنے کے سعادت نصیب فرمائے،اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔
یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح
کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا
ذمہ دار نہیں۔