اللہ پاک نے اپنے نبیوں کی خوبیوں اور خصوصیات کا ذکر قرآن پاک میں فرما کر ان حضرات کی عظمت کوخوب واضح کردیا کہ یہ عام لوگوں کی طرح نہیں ہیں بلکہ ان کو اللہ پاک کی بارگاہ میں بہت مرتبہ اور مقام حاصل ہے۔

بلند مکان پر اٹھانا: اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: وَّرَفَعْنٰهُ مَكَانًا عَلِیًّا(57) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ہم نے اسے بلند مکان پر اٹھالیا۔(پ16، مریم:57)

تفسیر صراط الجنان میں ہے: حضرت ادریس علیہ الصّلوٰۃُوالسّلام کو بلندمکان پر اٹھالینے کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ اس سے آپ علیہ الصّلوٰۃُوالسّلام کے مرتبے کی بلندی مراد ہے اور ایک قول یہ ہے کہ آپ علیہ الصّلوٰۃُوالسّلام کوآسمان پر اٹھالیا گیا ہے اور زیادہ صحیح یہی قول ہے کہ آپ علیہ الصّلوٰۃُوالسّلام کو آسمان پر اٹھالیا گیا ہے۔(خازن، مریم، تحت الآیۃ:57، 3/238)

صبر کرنے والے تھے: قرآن کریم میں اللہ پاک نے دیگر انبیائے کرام کے ساتھ حضرت ادریس علیہ السلام کے صبر کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ(85) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اسمٰعیل اور ادریس ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر والے تھے۔(پ17، الانبیآء:85)

رحمت میں داخل اور خاص بندے: قرآن کریم میں اللہ پاک نے دیگر انبیائے کرام کے ساتھ حضرت ادریس علیہ السلام کے رحمت میں داخل ہونے اور قرب خاص میں ہونے کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: وَ اَدْخَلْنٰهُمْ فِیْ رَحْمَتِنَاؕ-اِنَّهُمْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(86) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور انہیں ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا بےشک وہ ہمارے قربِ خاص کے سزاواروں میں ہیں۔ (پ17، الانبیآء:86)

اللہ پاک حضرت ادریس علیہ السلام کے صدقے ہمیں اپنا مخلص بندہ بنائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔