حضرت ادریس علیہ الصّلوٰۃُوالسّلام کا اصل نام خنوخ یا اخنوخ ہے اور لقب ادریس ہے، اللہ تعالیٰ نے آپ پر 30 صحیفے نازل فرمائے اور ان صحیفوں کا کثرت سے درس دینے کی وجہ سے آپ علیہ السّلام کا لقب ادریس (یعنی درس دینے والا) ہوا۔ آپ علیہ السّلام حضرت نوح علیہ الصّلوٰۃُوالسّلام کے والد کے دادا ہیں۔ حضرت آدم علیہ الصّلوٰۃُوالسّلام کے بعد آپ ہی پہلے رسول ہیں۔ حضرت آدم و حضرت شیث علیہما السلام کی نبوت کے بعد آپ ہی منصب نبوت پر فائز ہوئے یعنی آپ علیہ السّلام تیسرے نبی اور دوسرے رسول ہیں۔ سب سے پہلے جس شخص نے قلم سے لکھا وہ آپ ہی ہیں۔ کپڑوں کو سینے اور سلے ہوئے کپڑے پہننے کی ابتدا بھی آپ ہی سے ہوئی، آپ سے پہلے لوگ کھالیں پہنتے تھے۔ سب سے پہلے ہتھیار بنانے والے، ترازو اور پیمانے قائم کرنے والے اور علمِ نُجوم اور علمِ حساب میں نظر فرمانے والے بھی آپ ہی ہیں اور یہ سب کام آپ ہی سے شروع ہوئے۔(خازن، مریم، تحت الآیۃ:57، 3/238-مدارک، مریم، تحت الآیۃ:56، ص677- روح البیان، مریم، تحت الآیۃ:56، 5/341 ملتقطاً)

حضرت ادریس علیہ السلام کی قرآنی صفات: حضرت ادریس علیہ السلام کا تذکرہ قرآن کریم کی دو سورتوں میں موجود ہے: وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِدْرِیْسَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّاۗۙ(56) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور کتاب میں ادریس کو یاد کرو بےشک وہ صدیق تھا غیب کی خبریں دیتا۔(پ16، مریم:56) وَّ رَفَعْنٰهُ مَكَانًا عَلِیًّا(57) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ہم نے اسے بلند مکان پر اٹھالیا۔(پ16، مریم:57)

اس میں آپ علیہ السلام کے دو اوصاف صدیق اور نبی اور ساتھ آپ علیہ السلام کو آسمان کی طرف اٹھانے کے واقعہ کی طرف اشارہ ہے ۔ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَۚۖ(85) وَ اَدْخَلْنٰهُمْ فِیْ رَحْمَتِنَاؕ-اِنَّهُمْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(86) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اسمٰعیل اور ادریس ذوالکفل کو (یاد کرو) وہ سب صبر والے تھے۔اور انہیں ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا بےشک وہ ہمارے قربِ خاص کے سزاواروں میں ہیں۔(پ17، الانبیآء:85، 86)

اس میں حضرت اسماعیل اور حضرت ذوالکفل علیہما السلام کے ساتھ آپ علیہ السلام کو صبر کرنے والا اور قرب الٰہی کے لائق بندوں میں شمار کیا گیا ہے۔

قرآنی اوصاف: (1)آپ علیہ السلام صدیق تھے(2)آپ علیہ السلام نبی تھے(3)آپ علیہ السلام کو آسمان کی طرف اٹھایا گیا (4)آپ علیہ السلام صبر کرنے والے تھے(5)آپ علیہ السلام قرب الٰہی والے تھے۔

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔