قرآن ِکرىم  مىں انبىا علیہم السلام کى بعثت اور اس سے متعلق مسائل کے بارے مىں بہت آىتیں موجودہىں۔ظاہر ہے ان تمام آىتوں پر تحقىقى بحث ممکن نہیں ، لہٰذا ان آىات مىں کى گئى اہم بحثوں کا انتخاب کىا گیا ہے، اور حسبِ ضرورت ان مباحث سے متعلق آىات کى وضاحت کی جائے گی۔ آئىے! بعثتِ انبیا کے اہداف ومقاصد قرآنى آىتوں کی روشنى میں پڑھتے ہیں۔دراصل قرآنِ کرىم مىں نبوت کا مسئلہ انسان کى خلقت کے ساتھ ہی بحث میں آیا ہے۔کیونکہ ا س کی زندگی کی بنیادمذہبی راہ نمائی پر ختم ہوتی ہے۔اس دنیا میں انسان کی خلقت کے مقصد کو دیکھتے ہوئے اس بات کو قبول کرنا واضح ہے۔جب ہمیں یہ معلوم ہوگیا کہ انسان کو عالم مادہ میں اس لئے بھیجا گیا کہ اس کی پسند کا ایک راستہ اس کے سامنے ہو تو ظاہر ہے خدا کی جانب سے بھی اس کے سامنے ایک ایسا راستہ ہونا چاہئے جس کے دو پہلو ہوں،ایک پہلو کمال کا ہو اور دوسرا پہلو نقص کا،ایک کی انتہا کامیابی اور نجات پر ہو اور دوسرے کا اختتام ناکامی و بدبختی پر تاکہ اپنے آزادانہ انتخاب کے ذریعے انسان ان میں سے کسی ایک راستے کو چن لے۔قرآنِ کرىم کى بعض آىات سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت آدم علیہم السلام جس وقت زمىن پر تشرىف لاتے اسى وقت پر وحى ہوئى کہ جب خدا کى جانب سے تمہارى راہ نمائى ہو تو اس کو قبول کرنا، اگر قبول کىا اور اس پر عمل کىا تو نجات پاؤگے اور اگر مخالفت کى تو حد سے بڑھنے والے ہوجاؤ گے، چنانچہ سورۃ البقرۃ آیت نمبر38 مىں ارشاد ہوتا ہے: ترجمۂ کنزالاىمان، کہا ہم نے اترو اس سے تم سب پس اگر تمہارے پاس مىرى طرف سے کوئى ہداىت آئے تو جس نے مىرى پىروى کى پس ان پر کوئى ڈر نہىں اور نہ ہى وہ غمگىن ہوں گے۔تفسىر ِنعىمى میں ہے:ىہاں اھبطوا سے مراد اولادِ آدم ہے کىونکہ آىت مىں آگے احکام کا ذکر ہے۔ آىتِ مبارکہ سے ىہ مفہوم واضح ہوا کہ انسان کے سامنے دو صورتىں ہىں، یا توپىروى کرکے نجات پا جائے ىا مخالفت کرکے بعدبخت ہوجا ئے۔ىعنى زمىن پر حضرت آدم علیہم السلام کى آمد کے آغاز سے بھى ىہ بات روشن کردى گئى تھى کہ آپ کے سامنے دوراستے ہوں گے اور خدا پاک کى طرف سے ہى راہ نمائى کى جائے گى ۔اسى طرح سورة الاعراف ،آىت نمبر 35 میں ہے: ترجمۂ کنزالاىمان : اے اولاد آدم! اگر آئے تمہارے پاس تم مىں کے رسول مىرى آىتىں پڑھتے توپرہىز گارى کرے اورسنوارے تو اس پر نہ کچھ خوف ہوگا نہ کچھ غم۔لہٰذا وحىِ نبوت کے ذرىعے ہداىت کا مسئلہ اىک اىسى چىز ہے جو خلقت مىں مضمر ہے اور شامل ہے، اس کے بغىر روئے زمىن پر انسان کى رہائش ممکن نہىں کىونکہ اىسا ہونا حکمتِ الہٰى کے خلاف ہے اس چىز کے پىشِ نظر خدانے ہر قوم اور ہر آبادى کے لىے اىک پىغمبر بھىجا۔سورة الفاطر آیت نمبر 24 مىں ارشاد ہے:ترجمۂ کنزالایمان: اے محبوب بے شک ہم نے تمہىں حق کے ساتھ بھىجا ، خوشخبرى سناتا اور ڈر سناتا۔انبىا علیہم السلام کى تعداد کے بارے مىں مختلف آرا ہىں ۔بہرحال انبىا علیہم السلام کى ایک بڑى تعداد ہے۔فتاوی رضویہ میں چھبیس لکھا ہے: فرداًفرداً خواہ بتصریح اسماء یہ صرف چھبیس کے لئے ہے:آدم، ادریس، نوح، ہود، صالح، ابراہیم، اسحق، اسمٰعیل، لوط ، یوسف، ایوب، شعیب، موسٰی ، ہارون، الیاس، الیسع، ذوالکفل، داؤد،سلیمان، عزیر، یونس،زکریا، یحٰیی، عیسیٰ، محمد صلی اﷲ علیہ وعلیہم وبارک وسلم۔بہت سے انبىا علیہم السلام معروف نہىں مگر عقىدہ اور اىمان یہ ہونا چاہىے کہ اللہ پاک کے تمام ا نبىا علیہم السلام جتنے بھى دنىا مىں مبعوث فرمائے گئے، ان پر ہمارا اىمان ہے۔ مندرجہ بالا آىتوں سے ىہ بات بھى واضح ہوگئى کہ انبىا علیہم السلام کى بعثت کا مقصد کىا تھا، اور چونکہ ىہ بات بھى واضح ہوگئى کہ انسان کو خود ہى آزادانہ طور پر سعادت ىا شقاوت کا راستہ اختیار کرنا ہے اس لىے انسان کے لىے دونوں راستوں کى شناخت ضرورى ہے۔انسان کى عقل و حواس صحىح ىا غلط کى شناخت کے لىے کافى نہىں ہے، لہٰذا ہماری ضرورت کے پىشِ نظر انبىا علیہم السلام کو مبعوث فرماىا گىا کہ ان کے ذرىعے اللہ پاک انسانوں کو دونوں راستوں مىں فرق سکھادے اور چونکہ اللہ پاک نے انسانوں کو اس لىے خلق فرماىا کہ وہ ذمہ دارى قبول کرے، ىعنى صحىح اور غلط راہ خود منتخب کرے تاکہ اپنے اعمال کے نتیجے تک پہنچ سکے تاکہ وہ جو راستہ بھی اختیار کرے پوری سمجھ بوجھ سے اختیار کرے دوسرے الفاظ میں یوں کہاجاسکتا ہے کہ انبیا علیہم السلام کے آنے کا مقصد یہ بھی تھا کہ لوگوں پر حجت تمام ہوجائے،چنانچہ سورۃ النساء آیت نمبر165 میں ہے:ترجمۂ کنز الایمان:رسول خوشخبری دیتے اور ڈر سناتے کہ رسولوں کے اللہ کے یہاں لوگوں کو عذر نہ رہے اور اللہ غالب حکمت والا ہے۔اس آیتِ مبارکہ سے واضح ہوا کہ تمام حجت حکمتِ الٰہی کا لازمہ ہے یعنی رسولوں کو بھیجنے کا مقصدیہ بھی تھا کہ انسان کے پاس کوئی عذر نہ رہے کہ ہم تک کوئی راہ نما نہ آیا اس سے ملتی جلتی ایک اور آیت ہے البتہ یہ آیت جس کا ذکر کیا جارہا ہے بعض میں مخاطب یہ مخصوص قوم ہے یا کہیں اہلِ کتاب سے خطاب ہے یا مشرکین مکہ مخاطب ہیں لیکن مضمون سب کا ایک ہی ہے،چنانچہ ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:ترجمہ:کبھی کہو کہ کتاب تو ہم سے پہلے دو گروہوں پر اتری تھی اور ہمیں ان کے پڑھنے پڑھانے کی کچھ خبر نہ تھی یا کہو کہ اگر ہم پر کتاب اترتی تو ہم ان سے زیادہ ٹھیک راہ پر ہوتے تو تمہارے پاس تمہارے رب کی روشن دلیل اور ہدایت اور رحمت آئی۔ (الانعام:156،157)اسی طرح کی اور آیات بھی قرآنِ کریم میں موجود ہیں جن میں یہ بات واضح ہے کہ اللہ پاک کی طرف سے انسانوں کی ہدایت اور راہ نمائی کے لئے پیغمبر ہر قوم اور ہر زمانے میں آتے رہے ۔تو اب حضرت انسان کے پاس یہ عذر باقی نہ رہا کہ ان کے پاس کوئی ہدایت والا نہ آیا اور قرآن کریم میں ایک مقام پر ارشاد ہے:ترجمہ:اور انہوں نے اللہ کی قسم کھائی اپنے حلف میں پوری کوشش سے کہ اگر ان کے پاس کوئی نشانی آئی تو ضرور اس پر ایمان لائیں گے۔(الانعام:109)انبیا علیہم السلام کی بعثت کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ جن لوگوں نے بڑی بڑی قسمیں کھائی تھیں اللہ کی طرف سے آتی ہوئی ہدایت پر ایمان لانے کی اس مقصد کے تحت انبیا کو بھیجا گیا کہ ان کی جھوٹی قسموں کی حقیقت ظاہر کریں۔ترجمہ:اور نہ بھیجا ہم نے کسی بستی میں کوئی بنی مگر یہ کہ اس کے لوگوں کو سختی اور تکلیف میں پکڑا وہ کسی طرح زاری کریں۔ (الاعراف:96)اللہ پاک نے کسی بھی قوم یا بستی میں نبی کو اس لئے بھیجا کہ اس کے لوگ برائیوں اور بداعمالیوں میں مبتلا ہوتے تو اللہ پاک ان پر کسی نبی کو مبعوث فرماتا کہ وہ لوگ اس نبی پر ایمان لاکر نجات پاجائیں۔انبیا علیہم السلام کی بعثت کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ اللہ پاک کسی قوم یا بستی پر ان کی گمراہی و سرکشی کے باوجود اس وقت تک عذاب نہیں بھیجتا جب تک ان میں ہدایت کے لئے کوئی نبی نہیں بھیجتا۔اس بات کی مصداق یہ آیتِ مبارکہ بھی ہوسکتی ہے:ترجمہ:اور اگر اللہ لوگوں پر برائی ایسی جلدی بھیجتا جیسی وہ بھلائی کی جلدی کرتے ہیں تو ان کا وعدہ پورا ہوچکا ہوتا۔(یونس:11)پھر سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ہر قوم اور بستی پر الگ الگ انبیا علیہم السلام کیوں مبعوث نہ فرمائے گئے؟جواب یہ ہے کہ ہر قوم کے الگ ادوار واطوار تھے،ان کے حالات بھی الگ ہوتے تھے تو جس قوم میں جیسی برائی پائی جاتی اس کی ہدایت کے لئے کسی نبی کو بھیجا جاتا،پھر اگر وہ لوگ ایمان لے آتے تو نجات پاتے اور اگر انکار کرتے تو اللہ پاک کا عذاب ان پر نازل ہوتا جیسا کہ قرآنِ کریم میں ہے:ترجمہ:اور بے شک ہم نے تم سے پہلے سنگتیں ہلاک کردیں جب وہ حد سے بڑھےاور ان کے پاس ان کے رسول روشن دلیلیں لے کر آئے اور وہ ایسے تے ہی نہیں کہ ایمان لائے ہم یونہی بدلہ دیتے ہیں مجرموں کو۔(یونس:13) جب ایک قوم اپنی سرکشی کے باعث ہوجاتی تو دوسری قوم اس کی جگہ آجاتی ،پھر ان میں ان کے زمانے اورفطرت کے مطابق نبی بھیجے جاتے،اس طرح یکے بعد دیگرے انبیا علیہم السلام کے آنے کا سلسلہ جاری رہا اور اللہ پاک کی اپنے بندوں پر سب سے بڑی رحمت اور فضل رہا کہ اس نے اپنے بندوں کو سرکشی میں بھٹکتا ہوا نہیں چھوڑا بلکہ ہدایت اور راہ نمائی کے لئے اپنے انبیا علیہم السلام کو بھیجا اور غور کیا جائے تو دنیا کا بھی یہ دستور ہے کہ امتحان سے پہلے اس کی تیاری کروائی جاتی ہے اور ظاہر ہے کہ امتحان کی تیاری کوئی ایسا استاد کرواتا ہے جو تربیت یافتہ ہو جو صحیح راہ نمائی کرنے والا ہوکیونکہ استاداپنے شاگردوں کو آگے آنے والے خطرات سے آگاہ کرتا ہے اور یہ باور کرواتا ہے کہ میرے بعد کوئی اور استاد تمہاری راہ نمائی کے لئے آئے گا تو اس کی بھی اسی طرح ماننا جیسے میری مانتے ہو یعنی انبیا علیہم السلام نے اپنے بعد آنے والے نبی کی بشارت دیتے اور ہر نبی نے اپنے دور نبیِ ّخر الزمان صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے آنے کی بشارتیں دیں اس کا ذکر قرآنِ کریم میں اس طرح ہے:ترجمہ:اے نبی اسرائیل میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں اپنے سے پہلی کتاب تورات کی تصدیق کرتا ہوں اور ان رسول کی بشارت دیتا ہوں جو میرے بعد تشریف لائیں گے ان کا احمد ہے۔(الصف:6)یعنی تمام انبیا علیہم السلام نے اپنے سے پہلے آنے والے کی تصدیق کی اور اپنے بعد آنے والے کی بشارت دی اور انبیا علیہم السلام کی بعثت کا سلسلہ آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم پر ختم کردیا گیا کہ آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی بعثت کے بعد وہ دن آئے گا جب ہر انسان کو اللہ پاک کی طرف سے ان پیغمبروں کے ذریعے بھیجی گئی ہدایت کی پیروی کی جزا ملے اور انکار کرنے والوں کو ان کی سرکشی کی سزا ملے۔خلاصۂ مضمون یہ ہے کہ انبیا علیہم السلام کی بعثت اللہ پاک کی طرف سے اپنے بندوں پر فضل اور اس کی سب سے بڑی رحمت ہے کہ ان انبیا علیہم السلام کے ذریعے ہم اصل میں انسانیت کی معراج تک پہنچی ہیں۔