بِعْثَتْ کے لُغَوی معنیٰ بھیجنے کے
ہیں جبکہ اَنبیا نبی کی جمع ہے۔ نبی اُس بَشَر(اِنسان) کو
کہتے ہیں جس کی طرف اللہ پاک نے مخلوق کی ہِدایت اور رَاہ نُمائی کے لیے وَحی
بھیجی ہواور اُن میں سے جو نئی شریعت یعنی اِسلامی قانون اور خُدائی اَحکام لے کر
آئے، اُسے رَسُول کہتے ہیں۔(سیرتُ الانبیا،صفحہ نمبر :29،مطبوعہ
:مکتبۃ المدینہ)جیسا کہ مندَرَجہ بالا تعریف سے اَنبیا علیہم
السلام کی بعثت کا ایک مقصد بَخُوبی سمجھاجاسکتا
ہے، یعنی مخلوق کی ہدایت و رَاہ نُمائی۔ البتہ قرآنِ پاک کی کئی آیات نے بھی اِن
کی بِعثت کے مقاصد کو بیان فرمایا ہے۔ جِن میں سے چند یہ ہیں :(1)تَرجَمہ:اور
ہم نے تُم سے پہلے جتنے رَسُول بھیجے سب مَرد ہی تھے، جِنہیں ہم وحی کرتے۔ (پارہ:13،سُورۃ
یُوسُف،آیت نمبر:109)اِس آیت میں رَبّ کریم نے انبیا علیہم السلام کی بِعثت کے مقصد کو واضح طور پر بیان فرمایا ہے(وحی
کرنا)۔
نبی ہونے کے لیے اُس پر وحی ہونا ضروری ہے۔ وحی کا لُغَوی معنیٰ ہے :پیغام بھیجنا،
دِل میں بات ڈالنا، خُفیہ بات کرنا۔ شریعت کی اِصطلاح میں وحی وہ خاص قِسم کا کلام
ہے جو کسی نبی پر اللہ پاک کے طرف سے نازِل ہوا۔ نیز وحیِ نُبُوَّت انبیا علیہم
السلام کے لیے خاص ہے، جو اِسے کسی غیرِ نبی کے
لیے مانے، وہ کافِر ہے۔ (سیرتُ الانبیاء، صفحہ نمبر :29،مطبوعہ
:مکتبۃ المدینہ)(2)تَرجَمہ:اور ہم نے ہر رَسُول اس کی قوم
ہی کی زَبان میں بھیجاکہ وہ اِنھیں صاف بتائے۔
(پارہ 13،سورۃ اِبراہیم، آیت نمبر:4)اِس آیت میں انبیائے کرام علیہم
السلام کی بعثت کے مقاصد کو کو صَراحۃً بیان کیا
گیا ہے۔ نبی کُفْر سے نِکال کر روشنیِ ایمان میں مخلوق کو داخِل کرتے ہیں۔ کفر،
ضلالت ،بدعَمَلی، ہر خَرابی سے نکالنا، پیغمبر ہی کا کام ہے،اِن کی مدد کے بِغیر
کُچھ نہیں ہو سکتا۔ (تفسیر نُورُالعِرفان،صفحہ نمبر :407،مطبوعہ :پیر
بھائی کمپنی لاہور)(3)انبیا و مُرسَلین علیہم السلام کی تشریف آوری کا ایک بُنیادی مَقصَد غیب کی
خَبَر دینا ہے، جیسے اُخرَوی حِساب کِتاب، جَنَّت و دوزخ، ثواب عَذاب، حَشر نَشر
اور فرِشتے وغیرہ سب غیب ہی کی خبریں ہیں جو خُدا کی عطا کَردہ ہیں۔ ارشادِ باری
ہے:تَرجَمہ:اور(اے
عام لوگو!) اللہ تمہیں غیب پر مطلع نہیں کرتا البتہ اللہ اپنے رسولوں کو مُنتَخَب
فرما لیتا ہے جنہیں پسند فرماتا ہے۔(پارہ 4،سُورۃ آلِ عِمران، آیت
نمبر:179)جبکہ
اللہ پاک کا اپنا عِلم ذاتی ہے، جِس کی کوئی حَدّ نہیں اور یہ ہمیشہ سے ہے۔(سیرتُ
الانبیا،صفحہ نمبر :43،مطبوعہ :مکتبۃ المدینہ)(4)اللہ پاک
کا ارشاد ہے:تَرجَمہ:یُوں
کہو کہ ہم ایمان لائے اللہ پر اور
اُس پر جو ہماری طرف اُترا اور جو اُتارا گیا اِبراہیم و اِسماعیل و اِسحٰق و
یعقُوب اور اِن کی اولاد پر اور جو عطا کیے گئے مُوسٰی و عیسٰی اور جو عطا کیے گئے
باقی انبیا اپنے رَبّ کے پاس سے، ہم اِن میں کسی پر ایمان میں فَرق نہیں کرتے اور
ہم اللہ کے حُضُور گردن رکھے ہیں۔ (پارہ:1،سورۃ
البَقَرۃ، آیت نمبر:136) اِس آیتِ مبارکہ سے انبیا علیہم
السلام کی بعثت کے چند مَقَاصِد واضح ہوئے:*سارے
نبیوں پر ایمان لایا جائے، اِن کی
تعداد مُقَرَّر نہ کی جائے، کیونکہ انبیائے
کرام علیہم
السلام کی تعداد کسی قطعی دَلیل سے ثابِت نہیں۔*سب
نبیوں پر ایمان لانا فرض ہے، ایک کا اِنکار بھی کُفر ہے۔*اپنی طرف سے نبیوں کے
مَراتب میں فَرق نہ کیا جائے، اللہ پاک نے جو فَرق رکھا ہے، اُسے مانا جائے۔(تفسیر
نُورُالعِرفان ،صفحہ نمبر :31،مطبوعہ :پیر بھائی کمپنی لاہور)(5)تَرجَمہ:اُن
کے پاس اُن کے رَسُول آئے روشن دلیلیں
اور صحیفے اور چمکتی کِتاب لے کر۔(پارہ :22،سُورۃ الفاطِر،آیت نمبر:25)یہاں
روشن دَلیلوں سے مُراد نُبُوَّت پر دَلالت کرنے والے معجزات ہیں۔
(تفسیر خزائن العرفان ،صفحہ نمبر :787،مطبوعہ :پاک کَمپنی لاہور)یعنی
وہ معجزات جن سے اِن کی نُبُوَّت ثابِت ہو۔(تفسیر
نُورُالعِرفان،صفحہ نمبر :697،مطبوعہ:پیر بھائی کمپنی لاہور)
اِس آیت میں بھی انبیا علیہم السلام کی بِعثَت کے مَقاصِد بیان ہوئے(روشن
دَلائل، صَحیفوں اور چمکتی کِتاب کا لانا)(6)تَرجَمہ:اور
ہم نے کوئی رَسُول نہ بھیجا مگر اِس لیے کہ اللہ کے حُکم سے اس کی اِطاعَت کی
جائے۔ (پارہ:5،سُورَۃُالنِّساء،آیت
نمبر:64)یعنی
اگرچہ ہم بھی دُنیا میں آئےاور نبی بھی
مگر دونوں آمَدوں کی منشاء میں فرق ہے۔ ہم نبی و رَسُول کی اِطاعَت و فرمانبرداری
کے لیے اور وہ ہم پر حُکُومت کرنے کے لیے آئے۔نیز
اِس سے یہ بھی مَعلُوم ہوا! نبی کے ہر قول کی اِطاعَت اور ہر فِعل کی اِتِّباع
چاہیے۔(تفسیر
نُورُالعِرفان،صفحہ نمبر :138،مَطبوعہ:پیر بھائی کَمپنی لاہور)(7)تَرجَمہ:اور
زَمین جَگمگا اُٹھے گی اپنے رَبّ کے نُور سے اور رَکھی جائے
گی کِتاب اور لائے جائیں گے
انبیا۔(پارہ
:24،سُورۃُالزُّمَر،آیت نمبر:69)اِس آیتِ مبارکہ میں انبیائے کرام علیہم
السلام کی بِعثَت کے ایک شاندار مَقصَد کو بَیان
کیا گیا ہے جو اِن کا بروزِ قِیامت مُدعَی کی حَیثیت سے تشریف لانا ہے۔(تَفسیر
نُورُالعِرفان،صفحہ نمبر:743،مَطبُوعہ :پیر بھائی کمپنی لاہور)(8)انبیا
علیہم
السلام کی بِعثَت کے مَقاصِد میں سے ایک مَقصَد
یہ بھی ہے کہ دینِ اِسلام کو دَلائل اور قُوت دونوں اِعتِبار سے دیگر تمام اَدیان
پر غالِب کر دیا جائے۔ ارشادِ باری
ہے:تَرجَمہ:وہی
ہے جِس نے اَپنا رَسُول ہِدایَت اور سَچے دین کے ساتھ بھیجا تاکہ اِسے تمام دینوں
پر غالِب کردے اگرچہ مُشرِک ناپسند کریں۔(سیرتُ
الانبیا،صَفحہ نمبر:51،مَطبُوعہ :مکتبۃ المدینہ)ارشاد ربّ کریم
ہے:تَرجَمہ:عَدل
والی کِتاب اللہ کے سَخت عَذاب سے ڈَرائے اور ایمان
والوں کو جو نیک کام کریں بشارَت دے کہ اُن کے لیے اچھا ثَواب ہے۔(پارہ:15،سُورَۃَالکَھَف،آیت
نمبر:2)یہاں
عَدل والی کِتاب سے قرآنِ پاک مُراد ہے۔(تَفسیر نُورُالعِرفان ،صفحہ
نمبر :467،مطبوعہ :پیر بھائی کَمپنی لاہور)یہاں خاص مصطفٰےجانِ
رَحمَت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم
کی بِعثَت کے مَقَاصِد بَیان ہوئے کیونکہ قرآنِ
پاک آپ ہی پر نازل ہوا۔(9)آپ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کُفّار یا غافِلوں کو دُنیاوی یا
اُخرَوی عَذابوں سے ڈَرائیں۔(10)نیک مُؤمنین کو خُوشخَبری دیں۔(تَفسیر
نُورُالعِرفان ،صَفحہ نمبر:467،مَطبُوعہ :پیر بھائی کمپنی لاہور)