حوصلہ
رکھو انتہائی مختصر لیکن انتہائی مضبوط جملہ۔کوئی عزیز وفات پا گیا گیا تو حوصلہ
رکھو،کوئی مشکل پڑی تو حوصلہ رکھو،درد شدت اختیار کر جائے تو حوصلہ رکھو۔مگر یہ
حوصلہ رکھو جملہ انسان جب خود سے کہتا ہے تو اتنا کارآمد نہیں ہوتاجتنا دوسرے
انسان کے کہنے سے اس میں خوبصورتی اور مضبوطی آجاتی ہے۔ اسے حوصلہ مندی کہتے ہیں۔ انسان
اس دنیا میں ہر وقت لمحہ بہ لمحہ آزمائش سے گزرتا رہتا ہے کبھی روزگار کا مسئلہ، کبھی
ماں باپ اور بیوی بچوں کو چھوڑ کر پردیس میں زندگی گزار رہا ہو تو زندگی دن میں
ایک مشین کی طرح ہوتی ہے۔جذبات و احساسات سے عاری مگر رات کو جب گھر میں آتا ہے تو
بیٹی بابا بابا کرتی گلے سے نہیں لپٹتی اس وقت انسان کا نفس اسے کہتا ہے حوصلہ
رکھو۔
اللہ
تعالیٰ نے اسی ہمدردی دکھ درد کو بانٹنے کے لیے ہی تو انسان کو بنایا ہے۔ ورنہ
فرشتے جو ہم نافرمانوں سے زیادہ اللہ کی عبادت کرتے ہیں بعض رات بھر دن بھر سجدے
میں، بعض رکوع میں اور بعض اللہ کی تسبیح بیان کرتے ہیں۔ اس کے حکم کے بغیر ایک
کام بھی نہیں کرتے کیا وہ اللہ کے لیے کم تھے۔ نہیں اللہ کے لیے کم تو نہیں تھے تو پھر کیوں
انسان کو اس دنیا میں بھیجا۔کیوں اسے اشرف المخلوقات کہا گیا۔ہمدردی۔ جواب ہے
انسانیت۔
اللہ
نے ہمیں فطری طور پر بااحساس بنایا ہے۔ انسان ایک درخت کی مانند ہوتا ہے جسے پروان
چڑھنے کے لیے سردی گرمی طوفان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ اس نے
کیا جھیلا اور اس نے مزید کیا جھیلنا ہے۔بس سامنے مضبوط درخت نظر آتا ہے جو گرمیوں
میں چھاؤں ہر طرح کے پھل اور پرندوں کو گھر بنانے کے لیے جگہ فراہم کرتا ہے۔ مگر
خزاں درخت کی زندگی میں ایک خزاں ضرور آتی ہے۔ جو درخت کے سارے خوبصورت پتوں کو
توڑتی، اس کی خوبصورتی کو کم کرتی،اسے مایوس کر دیتی ہے۔پھر بہار آتی ہے جو اس
درخت میں ایک نئی جان پیدا کر دیتی ہے۔ لیکن اس سے پہلے آنے والے بادل،چلنےوالی
ہوائیں،درخت کو ایک امید دلاتے ہیں کہ جلد ہی تمہارے اوپر پہلے سے بھی زیادہ
خوبصورت پھل لگیں گے۔ انسان کے لیے اس دکھ
میں وہ چھوٹی سی امید،وہ چھوٹا سا دلاسا کیا ہے۔دوسرے انسان کی طرف سے ملنے والا
دلاسہ،حوصلہ ہمت۔