حوصلہ
شکنی از بنت ملک رشید احمد اعوان،فیضان ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ

ہماری
معاشرتی زندگی میں خوبیوں کے ساتھ ساتھ بہت سی کمزوریاں بھی موجود ہیں، جن میں سے
ایک حوصلہ شکنی بھی ہے۔ یاد رکھئے! ہماری تھپکی کسی کو پہاڑ پر چڑھنے کا حوصلہ بھی
دے سکتی ہے جبکہ ایک دل شکنی کسی کو کھائی میں بھی گرا سکتی ہے۔کسی کی زندگی
سنوارنے کے لیے بہت محنت کرنا پڑتی ہے اور مشکلوں سے گزرنا پڑتا ہے جبکہ بگاڑنا
بہت آسان ہے صرف اس کی ہمت توڑنے کی دیر ہوتی ہے اسی کو حوصلہ شکنی کہتے ہیں۔
ہمیں
غور کرنا چاہیے کہ آج تک ہماری وجہ سے کتنے لوگوں کی حوصلہ شکنی ہو چکی ہے۔ بلکہ
بعضوں کی تو دل آزاری بھی ہوئی ہوگی۔ جب آنکھ کھلی ہوا سویرا اب تو جاگ جائیں اور اپنا حوصلہ شکن رویہ تبدیل کر
لیجئے۔ جن کا دل دکھایا ان سے معافی مانگ لیجئے۔ بالخصوص وہ حضرات جن کے ماتحت کچھ
نہ کچھ لوگ ہوتے ہیں جیسے ماں باپ، استاذ،مرشد، نگران، سپروائزر، منیجر، باس،پرنسپل
انہیں خوب اختیاط کرنی چاہیے کہ ان کی بات زیادہ اثر کرتی ہے۔
امیر
اہل سنت دامت برکاتہم العالیہ نے استاتذہ کو نصیحت فرمائی ہے کہ کسی طالب علم سے
یہ نہ کہیں کہ تم نہیں پڑھ سکتے پھر وہ واقعی ہی نہیں پڑھ سکے گا۔ کیونکہ وہ سوچے
گا کہ اب مجھے پڑھانے والے استاد نے کہہ دیا ہے تو میں کبھی نہیں پڑھ سکتا!
حوصلہ شکنی کے نقصانات: حوصلہ افزائی سے مثبت سوچ پروان چڑھتی
ہے جبکہ حوصلہ شکن رویوں سے منفی سوچ پیدا ہوتی ہے جس کی وجہ سے معاشرتی و نفسیاتی
نقصانات ہوتے ہیں، مثلاً ناامیدی،احساس کمتری، ڈپریشن، ذہنی انتشار، پست ہمتی،
ناکامی کا خوف پھیلتا ہے، گھر دفتر، ادارے اور کلاس روم کا ماحول خراب ہوتا ہے جس
کی آپ حوصلہ شکنی کرتے ہیں وہ آئندہ آپ کے قریب انے سے کتراتا ہے۔ اور آپ سے اپنے
مسائل شیئر کرنا چھوڑ دیتا ہے۔
اس
دنیا میں دو طرح کے لوگ ہیں: (1)حوصلہ افزائی کرنے والے (2) حوصلہ شکنی کرنے والے۔
ہم خود پر غور کریں کہ ہمارا شمار کن لوگوں میں ہوتا ہے۔ شاید آپ کہیں کہ ہم نے
کبھی کسی کی حوصلہ شکنی نہیں کی۔تو گزارش ہے! کہ یہ کہہ کر کسی کا حوصلہ نہیں توڑا
جاتا کہ میں تمہاری حوصلہ شکنی کر رہی ہوں بلکہ ہمارا چپ رہنے کی جگہ پر بولنا اور
بولنے کے موقع پرچپ رہنا اور ہماری باڈی لینگویج، مناسب رپلائی نہ دینا وغیرہ بھی
کسی کی حوصلہ شکنی کر جاتا ہے پھر حوصلہ شکنی دشمنی کی بنیاد پر نہیں ہوتی بلکہ
کسی سے ہمدردی جتاتے ہوئے بھی اس کی حوصلہ شکنی ہو جاتی ہے لیکن ہمیں اس کا شعور
اور احساس بھی نہیں ہوتا۔
اب ہم
جان لیتے ہیں کہ حوصلہ شکنی کیسے ہوتی ہے؟ چنانچہ میں آپ کے سامنے چند صورتیں اور
مثالیں رکھتی ہوں کہ کس کس طرح سے حوصلہ شکنی ہو سکتی ہے، مثلاًاچھی کارکردگی پر
حوصلہ افزائی نہ کرنا، کوئی کیسے ہی عمدہ کوشش کرے اس کے ہر کام میں کیڑے نکالنا
پھر خود کو ماہر نقاد قرار دینا، ایک فیلڈ میں غلطی کرنے پر ہر فیلڈ کے لیے مس فٹ
قرار دے دینا، مختلف تبصرے کرنا کہ تو نہیں پڑھ سکتا تجھ سے نہیں ہوگا! تیرے بس کی
بات نہیں، تم نکمے ہو، نا اہل ہو، تمہارے دماغ میں بھس بھرا ہوا ہے وغیرہ۔ کسی کی
پہلی غلطی پر مکمل ناکام قرار دے دینا ایسوں کو سوچنا چاہیے کہ انسان بچپن میں
پہلا قدم اٹھاتے ہی دوڑنے کے قابل نہیں ہو جاتا بلکہ گرتا ہے پھر اٹھتا ہے اور ایک
وقت آتا ہے کہ دوڑنا شروع کر دیتا ہے، کلاس روم میں سبق سنانے میں اٹکنے پر اسے
اپنی غلطی دور کرنے کا موقع دیئے بغیر کسی اور طالب علم کو سبق پڑھنے کا کہہ دینا،
کسی کی معذرت کو قبول نہ کرنا بلکہ بہانہ قرار دے دینا، دوسروں کے سامنے اپنے بچے
کی صرف خامیاں ہی بیان کرنا، کسی کا دوسرے سے بلا ضرورت مقابلہ کر کے حوصلہ شکنی
کرنا دیکھو وہ کیسے کیسے کامیابیاں سمیٹ رہا ہے اور تم ٹھہرے نکمے کے نکمے، ایک ہی
طرح کی کارکردگی دکھانے والے دو افراد میں سے ایک کی تعریف کرنا، امتحان میں فیل
ہونے والے کو کہنا کہ اور کرو ادھر ادھر کے کاموں میں وقت ضائع یہ تو ہونا ہی تھا،
مصیبت زدہ کی دل جوئی کرنے کے بجائے اس کو اسی کا ذمہ دار ٹھہرانا شروع کر دینا
جیسے کسی نے اپنے بخار کے بارے میں بتایا تو فورا تبصرہ کرنا کہ اور کھاؤ گول گپے۔
غلطی
کہ نشان دہی کا طریقہ: حوصلہ شکنی سے بچنے کا مطلب یہ نہیں کہ کسی کو سمجھایا ہی
نہ جائے یااس کی غلطی کی نشاندہی نہ کی جائے کہ وہ آئندہ اس سے بچ سکے اس کا طریقہ
یہ ہو سکتا ہے۔
کہ پہلے
اس کے کام کی سچی خوبیاں شمار کروا کر حوصلہ افزائی کر دی جائے پھر مناسب الفاظ
میں خامیوں اور غلطیوں کی نشاندہی کر دی جائے جیسا کہ ہمارے پیارے مرشد امیر اہل سنت دامت برکاتہم
العالیہ کا حیسن انداز ہے۔

حوصلہ
شکنی کا مطلب ہے کہ کسی کے حوصلے کو توڑنا، اس کا اعتماد ختم کرنا یا اسے نہیں
کرنے کے لئے کہنا۔ کسی کو حوصلہ شکنی سے بچنے کے لئے، آپ ان سے کہہ سکتے ہیں کہ وہ
آپ کے حوصلے کو توڑنے کی کوشش نہ کریں۔ آپ انہیں یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ آپ کو ان
کی حوصلہ شکنی کی ضرورت نہیں ہے۔
حوصلہ
شکنی ایک ایسا عمل ہے جو کسی شخص کی خود اعتمادی، حوصلے اور عزم کو کمزور کرتا ہے۔
یہ عام طور پر منفی تبصروں، تنقید، یا کسی بھی قسم کی غیر معاونت کے ذریعے ہوتا
ہے۔ حوصلہ شکنی کا اثر فرد کی ذہنی صحت، کارکردگی اور زندگی کے مختلف پہلوؤں پر پڑ
سکتا ہے۔
حوصلہ
شکنی کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں، جیسے کہ معاشرتی دباؤ، منفی ماحول، یا کبھی کبھار
لوگوں کی اپنی ناکامیاں۔ یہ عمل خاص طور پر نوجوانوں میں زیادہ عام ہے، جہاں وہ
اپنی صلاحیتوں کو ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ حوصلہ شکنی کے نتیجے میں
افراد میں خود اعتمادی کی کمی، مایوسی، اور بعض اوقات ڈپریشن بھی پیدا ہو سکتا ہے۔
اس کے
مقابلے میں، حوصلہ افزائی ایک مثبت عمل ہے جو لوگوں کو ان کی صلاحیتوں کا بھرپور
استعمال کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔
اگر
آپ حوصلہ شکنی کا شکار ہو رہے ہیں تو یہاں کچھ مشورے ہیں جو آپ کی مدد کر سکتے
ہیں:
1۔ اپنی کامیابیوں کو یاد کریں: اپنی ماضی کی
کامیابیوں پر غور کریں۔ یہ آپ کو یہ یاد دلائے گا کہ آپ نے پہلے بھی چیلنجز کا
سامنا کیا ہے اور کامیاب ہوئے ہیں۔
2۔مثبت ماحول بنائیں: اپنے آس پاس ایسے لوگوں کا انتخاب کریں
جو آپ کو سپورٹ کرتے ہیں اور آپ کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ منفی لوگوں سے دور رہنے
کی کوشش کریں۔
3۔ چھوٹے قدم اٹھائیں: بڑے مقاصد کو چھوٹے، قابل حصول مراحل
میں تقسیم کریں۔ یہ آپ کو کامیابی کا احساس دلائے گا اور آپ کی حوصلہ افزائی کو
بڑھائے گا۔
4۔ آرام کریں: کبھی کبھی تھوڑی دیر کے لیے آرام کرنا
ضروری ہوتا ہے۔ اپنے آپ کو وقت دیں تاکہ آپ دوبارہ توانائی حاصل کر سکیں۔
5۔ نئی چیزیں آزما کر دیکھیں: کبھی کبھار نئی سرگرمیوں یا
مشاغل میں مشغول ہونے سے آپ کی سوچ میں تازگی آ سکتی ہے اور آپ کو نئے حوصلے مل
سکتے ہیں۔ ہمیں غور کرنا چاہیے کہ آج تک ہماری وجہ سے کتنے لوگوں کی حوصلہ شکنی
ہوئی ہے بلکہ بعضوں کی تو دل آزاری بھی ہوئی ہو گی، آپ غور کیجیے اور یاد کیجیے کس
کس موقع پر کب کب آپ نے کس کس کی حوصلہ شکنی کی تھی کس کس کی دل آزاری کی تھی پھر
وہ چاہے کوئی بھی ہو بہن بھائی، ماں باپ، دوست احباب، وغیرہ کوئی بھی۔ گفتگو ایسے
کیجئے کہ امید کے دیے جلیں نہ کہ دل۔
اللہ
پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں کسی کی حوصلہ شکنی سے ہمیشہ محفوظ فرمائے۔ آمین

حوصلہ
شکنی کے لغوی معنی ہیں کسی کی ہمت توڑ دینا، مایوس کر دینا حوصلہ شکنی ایک بہت بری
خصلت ہے۔
حوصلہ
افزائی سے مثبت سوچ پروان چڑھتی ہے جبکہ حوصلہ شکن رویوں سے منفی سوچ پیدا ہوتی ہے
جو ہر انسانی ذہنیت کے لئے سخت نقصان دہ ہے، اسکی وجہ سے معاشرتی و نفسیاتی
نقصانات ہوتے ہیں مثلا ناامیدی، احساس کمتری، ڈپریشن ذہنی انتشار، پست ہمتی وغیرہ
جیسی بہت سی بیماریوں کا انسانی ذہن میں پروان چڑھتا ہے۔لہذا ایک مسلان کے لیے یہی
لازم ہے کہ کسی کی بھی حوصلہ شکنی کرنے کی بجائے حوصلہ افزائی کریں۔
اگر
ہمارے معاشرے میں کوئی شخص فلاح عام کا کام انجام دے رہا ہو، یا کوئی دینی ماحول
بنا کر کسی نیک کام کو فروغ دے رہا ہو، یا تربیتی نقطہ نظر سے کسی طرح کا کوئی عمل
انجام دے رہا ہو جو شریعت کے مطابق اور اسکے مزاج کے موافق ہو تو ضرور ایسے شخص کی
تحسین و تعریف ہونی چاہیے، بلکہ وقتا فوقتا اس کی اس کام پر حوصلہ افزائی کے لئے
اسے انعام سے بھی نوازنا چاہیے تاکہ دوسرے لوگوں میں بھی کار خیر کا جذبہ پیدا ہو۔
یاد
رکھئے! الفاظ وہ نہیں ہوتے جو زبان سے نکالے جائیں بلکہ الفاظ وہ ہوتے ہیں جو دل
میں اتر جائیں۔ ہمارے الفاظ اور انداز ایسے ہونے چاہئیں کہ بچہ بچہ ہم سے سیکھ جائے
علم دین کی راہ نکلے، نہ یہ کہ ہمارے الفاظ کسی کے دل میں حوصلہ شکنی کی صورت
اختیار کرتے ہوئے اتر جائیں اور کوئی وہ جو ہمت سے ایک نیک کام کرنے جا رہا تھا وہ
ذہنی بیماری کا شکار ہو کر پیچھے ہٹ جائے۔
الفاظ
کا ذخیرہ تو ہر ایک کے پاس ہوتا ہے مگر الفاظ کا چناؤ ان الفاظ کو انمول بنا دیتا
ہے۔ یاد رکھئے! آپ کے وہ الفاظ بھی تحفہ ہیں جو دوسروں کو آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتے
ہیں اور بعض مرتبہ ارادہ بھی نہیں ہوتا لیکن آپ کے الفاظ کسی کے دل میں اس طرح سے
اتر جاتے ہیں کہ انکا حوصلہ پست ہو جاتا ہے، مثلا کوئی کسی نیک کام کا ارادہ کرتے
ہوئے کوئی کام شروع کرے اور آپ کے ساتھ مشورہ کر لے اور آپ normaly
یوں کہہ دو کہ یہ ہوگا ہی نہیں، یہ تو ممکن ہی نہیں، تم کر ہی نہیں سکتے، تمہارے
لیے یہ possible
نہیں پھر بھی تم چاہو تو کر کے دیکھ لو! اس طرح کے الفاظ بری طرح کسی کے ارادوں
اور اچھے کام میں بڑھنے والے قدم کو روکتے ہیں۔
ہمیں
غور کرنا چاہیے کہ آج تک ہماری وجہ سے کتنے لوگوں کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے بلکہ
بعضوں کی تو دل آزاری بھی ہوئی ہوگی، آپ غور کیجیے اور یاد کیجیے کس کس موقع پر کب
کب آپ نے کس کس کی حوصلہ شکنی کی تھی کس کس کی دل آزاری کی تھی پھر وہ چاہے کوئی
بھی ہو بہن بھائی، ماں باپ، دوست احباب، وغیرہ کوئی بھی۔ گفتگو ایسے کیجئے کہ امید
کے دیے جلیں نہ کہ دل۔

حوصلہ
شکنی ایک ایسا رویہ ہے جو کسی فرد کی ترقی، خوداعتمادی اور کامیابی کے راستے میں
بڑی رکاوٹ بن سکتا ہے۔ یہ رویہ کسی کے خوابوں اور امنگوں کو توڑنے کا سبب بنتا ہے
اور انسان کے اندر موجود تخلیقی صلاحیتوں اور عزم کو ختم کر دیتا ہے۔
حوصلہ
شکنی مختلف صورتوں میں سامنے آ سکتی ہے۔ یہ کبھی دوستوں یا رشتہ داروں کی تنقید کی
شکل میں ہوتی ہے، تو کبھی سماجی دباؤ یا مایوس کن حالات کے سبب۔ مثلاً، اگر ایک
طالب علم کو اس کی محنت کے باوجود بار بار ناکامی کا سامنا کرنا پڑے اور اس کے
قریبی لوگ اس کا حوصلہ بڑھانے کی بجائے اس کی خامیوں کی نشاندہی کریں، تو یہ اس کے
اعتماد کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
حوصلہ شکنی کے اثرات: حوصلہ شکنی نہ صرف ایک فرد کو جذباتی
طور پر متاثر کرتی ہے بلکہ اس کی کارکردگی اور صحت پر بھی منفی اثر ڈال سکتی ہے۔
یہ انسان کو مایوسی، ناامیدی، اور بے مقصدیت کی طرف دھکیل سکتی ہے۔ بہت سے لوگ
حوصلہ شکنی کے باعث اپنے خوابوں اور مقاصد سے دستبردار ہو جاتے ہیں۔
حوصلہ شکنی کا مقابلہ کیسے کریں؟
1 خود پر یقین رکھیں: یہ جاننا ضروری ہے کہ ناکامی ایک عارضی
مرحلہ ہے، اور محنت اور استقامت کے ذریعے آپ اپنی منزل حاصل کر سکتے ہیں۔
2 مثبت سوچ اپنائیں: منفی باتوں کو نظرانداز کریں اور اپنی
کامیابیوں پر غور کریں۔
3 حوصلہ افزا لوگوں کے ساتھ وقت گزاریں: ایسے لوگوں کے
ساتھ رہیں جو آپ کو سمجھتے ہیں اور آپ کے خوابوں کی قدر کرتے ہیں۔
4 ناکامیوں سے سبق سیکھیں: اپنی غلطیوں سے سیکھنا اور
انہیں درست کرنا کامیابی کی کنجی ہے۔
5 اللہ پر بھروسہ کریں: دعا اور عبادت کے ذریعے روحانی سکون
حاصل کریں اور اپنے دل کو مضبوط بنائیں۔
یاد
رکھیں، حوصلہ شکنی وقتی رکاوٹ ہے، لیکن آپ کا عزم اور جدوجہد اس رکاوٹ کو عبور کر
کے آپ کو کامیابی کی منزل تک پہنچا سکتی ہے۔

حوصلہ
شکنی ایک ایسی کیفیت ہے جو انسان کو اپنے مقاصد اور منصوبوں سے دور کر دیتی ہے۔ یہ
ایک ایسی ذہنی کیفیت ہے جو انسان کو اپنے آپ پر اعتماد نہیں کرنے دیتی اور اسے
اپنے مقاصد کو حاصل کرنے سے روکتی ہے۔
حوصلہ شکنی کی وجوہات: ناکامی کا خوف، اعتماد کی کمی، اپنے
آپ پر شک، دوسروں کی رائے کا خوف، اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے ضروری وسائل کی
کمی۔
حوصلہ شکنی سے بچنے کے لیے کچھ مشورے: اپنے مقاصد
کو واضح اور حقیقی بنائیں، اپنے آپ پر اعتماد کریں، ناکامی کا خوف نہ کریں، دوسروں
کی رائے کا خوف نہ کریں، اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے ضروری وسائل کو حاصل کریں،
اپنے آپ کو مثبت سوچنے کی عادت ڈالیں، اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے ایک منصوبہ
بنائیں، اپنے آپ کو حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے تو دوسروں سے مدد لیں، اپنے آپ کو یہ
یاد دلائیں کہ ناکامی ایک حصہ ہے کامیابی کی راہ میں، اپنے آپ کو یہ یاد دلائیں کہ
آپ کامیاب ہو سکتے ہیں اگر آپ اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے محنت کریں۔

حوصلہ
شکنی کا مطلب ہے کہ کسی کے حوصلے کو توڑنا، اس کا اعتماد ختم کرنا یا اسے نہیں
کرنے کے لئے کہنا۔
کسی
کو حوصلہ شکنی سے بچنے کے لئے، آپ ان سے کہہ سکتے ہیں کہ وہ آپ کے حوصلے کو توڑنے
کی کوشش نہ کریں۔ آپ انہیں یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ آپ کو ان کی حوصلہ شکنی کی
ضرورت نہیں ہے۔
حوصلہ
شکنی ایک ایسا عمل ہے جو کسی شخص کی خود اعتمادی، حوصلے اور عزم کو کمزور کرتا ہے۔
یہ عام طور پر منفی تبصروں، تنقید، یا کسی بھی قسم کی غیر معاونت کے ذریعے ہوتا
ہے۔ حوصلہ شکنی کا اثر فرد کی ذہنی صحت، کارکردگی، اور زندگی کے مختلف پہلوؤں پر
پڑ سکتا ہے۔
حوصلہ
شکنی کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں، جیسے کہ معاشرتی دباؤ، منفی ماحول، یا کبھی کبھار
لوگوں کی اپنی ناکامیاں۔ یہ عمل خاص طور پر نوجوانوں میں زیادہ عام ہے، جہاں وہ
اپنی صلاحیتوں کو ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ حوصلہ شکنی کے نتیجے میں
افراد میں خود اعتمادی کی کمی، مایوسی، اور بعض اوقات ڈپریشن بھی پیدا ہو سکتا ہے۔
اس کے
مقابلے میں، حوصلہ افزائی ایک مثبت عمل ہے جو لوگوں کو ان کی صلاحیتوں کا بھرپور
استعمال کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ اگر آپ کسی کی حوصلہ افزائی کرنا چاہتے ہیں تو ان
کی کوششوں کی تعریف کریں، ان کی کامیابیوں کا ذکر کریں، اور انہیں یہ احساس دلائیں
کہ وہ اہم ہیں۔ اس طرح، آپ نہ صرف ان کی حوصلہ افزائی کریں گے بلکہ ان کے اعتماد
میں بھی اضافہ کریں گے۔
اگر
آپ حوصلہ شکنی کا شکار ہو رہے ہیں تو یہاں کچھ مشورے ہیں جو آپ کی مدد کر سکتے
ہیں:
1۔ اپنی کامیابیوں کو یاد کریں: اپنی ماضی کی
کامیابیوں پر غور کریں۔ یہ آپ کو یہ یاد دلائے گا کہ آپ نے پہلے بھی چیلنجز کا
سامنا کیا ہے اور کامیاب ہوئے ہیں۔
2۔ مثبت ماحول بنائیں: اپنے آس پاس ایسے لوگوں کا انتخاب کریں
جو آپ کو سپورٹ کرتے ہیں اور آپ کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ منفی لوگوں سے دور رہنے
کی کوشش کریں۔
3۔ چھوٹے قدم اٹھائیں: بڑے مقاصد کو چھوٹے، قابل حصول مراحل
میں تقسیم کریں۔ یہ آپ کو کامیابی کا احساس دلائے گا اور آپ کی حوصلہ افزائی کو
بڑھائے گا۔
4۔ آرام کریں: کبھی کبھی تھوڑی دیر کے لیے آرام کرنا ضروری
ہوتا ہے۔ اپنے آپ کو وقت دیں تاکہ آپ دوبارہ توانائی حاصل کر سکیں۔
5۔ نئی چیزیں آزما کر دیکھیں: کبھی کبھار نئی سرگرمیوں یا
مشاغل میں مشغول ہونے سے آپ کی سوچ میں تازگی آ سکتی ہے اور آپ کو نئے حوصلے مل
سکتے ہیں۔ یہ مشورے آپ کی حوصلہ افزائی کو بحال کرنے میں مدد کر سکتے ہیں۔

حوصلہ
شکنی ایک ایسا عمل یا رویہ ہے جس میں کسی شخص کی ہمت، جذبے یا حوصلے کو کمزور کیا
جاتا ہے۔ یہ رویہ دانستہ ہو سکتا ہے، جیسے کسی کی محنت یا کوششوں کو نظر انداز
کرنا، یا نادانستہ طور پر، جیسے غیر ضروری تنقید یا مایوس کن باتیں کرنا۔
اسلام
میں حوصلہ افزائی اور دوسروں کی مدد کرنے کی بہت تاکید کی گئی ہے اور حوصلہ شکنی
کو ایک ناپسندیدہ عمل قرار دیا گیا ہے۔ قرآن و حدیث میں ایسے اعمال کی سخت وعیدیں
موجود ہیں جو کسی کو مایوس کرنے یا اس کی راہ میں رکاوٹ بننے کا سبب بنتے ہیں۔
اللہ
تعالیٰ فرماتا ہے: وَ لَا تَایْــٴَـسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِؕ-اِنَّهٗ لَا یَایْــٴَـسُ
مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْكٰفِرُوْنَ(۸۷) (پ 13، یوسف:
87) ترجمہ کنز العرفان: اور اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، بیشک اللہ کی رحمت سے
کافر لوگ ہی ناامید ہوتے ہیں۔
کسی
کی مدد کرنا اور حوصلہ بڑھانا اللہ کی رضا کا سبب ہے، جبکہ حوصلہ شکنی انسان کو
گناہ کی طرف لے جا سکتی ہے۔
حوصلہ
شکنی نفرت کا باعث بنتی ہے اسلام ہمیں حوصلہ افزائی اور محبت کا درس دیتا ہے۔ کسی
کی حوصلہ شکنی کرنا نہ صرف اس شخص کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ اس عمل پر اللہ کی
ناراضگی کا خطرہ بھی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہمیشہ دوسروں کو اچھے کاموں کی ترغیب دیں
اور ان کی مدد کریں تاکہ معاشرہ ترقی کرے اور اللہ کی رضا حاصل ہو۔
حوصلہ شکنی کے اثرات:
اعتماد کی کمی، کام میں دلچسپی کی کمی، مایوسی اور دباؤ وغیرہ۔
حوصلہ شکنی سے بچاؤ کے طریقے: دوسروں کے لیے حوصلہ افزائی کے
الفاظ استعمال کریں۔ کسی کی محنت کو سراہیں، چاہے نتیجہ امید کے مطابق نہ ہو۔ اگر
رہنمائی ضروری ہو تو دوستانہ اور مددگار انداز اپنائیں۔ مشکلات کے وقت لوگوں کو ان
کی صلاحیتوں کی یاد دلائیں۔

حوصلہ
شکنی کا مطلب ہے کسی کی حوصلہ افزائی کو کم کرنا یا اسے مایوس کرنا۔ یہ عموماً
منفی باتوں، تنقید یا مایوسی کے احساسات کے ذریعے ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص کسی کام
میں کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہو اور اس کے ارد گرد لوگ اس کی کوششوں کو
نظر انداز کریں یا اس کی قابلیت پر سوال اٹھائیں تو یہ حوصلہ شکنی کہلاتا ہے۔
حوصلہ
شکنی سے بچنے کے لیے، خود پر یقین رکھنا اور مثبت لوگوں کے ساتھ وقت گزارنا ضروری
ہے۔ اگر آپ یا کوئی اور اس صورتحال کا سامنا کر رہا ہے، تو یہ یاد رکھنا ضروری ہے
کہ ہر ناکامی ایک سیکھنے کا موقع ہوتی ہے اور حوصلہ افزائی سے بھرپور ماحول میں
رہنا بہت مددگار ثابت ہوتا ہے۔
حوصلہ
شکنی ایک ایسا عمل ہے جو کسی فرد کے اعتماد، خود اعتمادی یا حوصلے کو متاثر کرتا
ہے۔ یہ مختلف طریقوں سے ہو سکتا ہے، مثلاً:
1 منفی تبصرے: جب لوگ کسی کی کوششوں یا کامیابیوں پر
تنقید کرتے ہیں یا ان کی قابلیت پر سوال اٹھاتے ہیں، تو یہ حوصلہ شکنی کا باعث
بنتا ہے۔
2 مقابلہ: بعض اوقات، لوگوں کا ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ کرنا
یا ان کی کامیابیوں کو کم اہمیت دینا بھی حوصلہ شکنی کا سبب بن سکتا ہے۔
3 غیر حوصلہ افزائی: اگر کسی کو اس کی محنت کے باوجود تسلیم
نہ کیا جائے یا اس کی کوششوں کی قدر نہ کی جائے تو یہ بھی حوصلہ شکنی کا باعث بنتا
ہے۔
حوصلہ شکنی کے اثرات:
ذاتی زندگی: یہ فرد کی خود اعتمادی کو کم کر سکتا
ہے، جس سے وہ نئے چیلنجز کا سامنا کرنے سے کتراتا ہے۔
پیشہ ورانہ زندگی: کام کے ماحول میں حوصلہ شکنی کرنے والے
عوامل ملازمین کی کارکردگی میں کمی لا سکتے ہیں، جس سے مجموعی پیداواریت متاثر
ہوتی ہے۔
ذہنی صحت: مسلسل حوصلہ شکنی ذہنی دباؤ، اضطراب یا افسردگی کا
باعث بن سکتی ہے۔
حوصلہ شکنی سے بچنے کے طریقے:
خود اعتمادی بڑھائیں: اپنی کامیابیوں کو یاد رکھیں اور خود
پر یقین رکھیں۔
مثبت ماحول: ایسے لوگوں کے ساتھ وقت گزاریں جو آپ کی
حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
تنقید کو مثبت طور پر لیں: اگر کوئی تنقید کرتا ہے تو اسے
سیکھنے کا موقع سمجھیں، نہ کہ حوصلہ شکنی کے طور پر۔

ہر
مسلمان کے دوسرے مسلمان پر کچھ حقوق ہوتے ہیں حدیث پاک میں مومنوں کو ایک جسم
فرمایا گیا ہے کسی مسلمان کی کامیابی پر آپ کی تھوڑی سی مسکراہٹ اس کے دل میں خوشی
کا سبب بن سکتی ہے اور اسی طرح اگر آپ اس کے کام میں عیب نکالیں یا یہ کہیں کہ یہ
تو سب کر سکتے ہیں تو یہ اسکی حوصلہ شکنی کا باعث ہے کسی کی حوصلہ افزائی بھی حسن
سلوک میں سے ہے۔
حوصلہ
شکنی کیسے ہوتی ہے؟ میں آپ کے سامنے چند صورتیں اور مثالیں رکھتی ہوں کہ کس کس طرح
سے حوصلہ شکنی ہوسکتی ہے، چنانچہ
(1)اچھی
کارکردگی پر حوصلہ افزائی نہ کرنا (2)کوئی کیسی ہی عمدہ کوشش کرے اس کے ہر کام میں
کیڑے نکالنا، پھر خود کو ماہر نقاد قرار دینا (3)ایک فیلڈ میں غلطی کرنے پر ہر
فیلڈ کیلئے مس فٹ قرار دے دینا (4)مختلف تبصرے کرنا:تو نہیں پڑھ سکتا، تجھ سے نہیں
ہوگا، تیرے بس کی بات نہیں، تم نکمے ہو، نااہل ہو، تمہارے دماغ میں بھس بھرا ہوا
ہے وغیرہ (5)کسی کی پہلی غلطی پر مکمل ناکام قرار دے دینا، ایسوں کو سوچنا چاہئے
کہ انسان بچپن میں پہلا قدم اٹھاتے ہی دوڑنے کے قابل نہیں ہوجاتا بلکہ گرتا ہے پھر
اٹھتا ہے اور ایک وقت آتا ہے کہ وہ دوڑنا شروع کردیتا ہے (6)کلاس روم میں سبق
سنانے میں اٹکنے پر اسے اپنی غلطی دور کرنے کا موقع دئیے بغیر کسی اور طالب علم کو
سبق پڑھنے کا کہہ دینا (7)کسی کی معذرت قبول نہ کرنا بلکہ بہانہ قرار دے دینا
(8)دوسروں کے سامنے اپنے بچّے کی صرف خامیاں ہی بیان کرنا (9)کسی کا دوسروں سے
بلاضرورت تقابل کرکے حوصلہ شکنی کرنا کہ دیکھو وہ کیسی کیسی کامیابیاں سمیٹ رہا ہے
اور تم ٹھہرے نکمے کے نکمے! (10)ایک ہی طرح کی کارکردگی دکھانے والے دو افراد میں
سے صرف ایک کی تعریف و تحسین کرنا۔
دوسروں
کے لئے خوشی کا سبب بنیں تاکہ لوگ آپ کو یاد رکھیں کیونکہ آپ جیسا تأثر دیں گے لوگ
ویسا ہی یاد رکھیں گے۔
ہمارا
شمار کن لوگوں میں ہوتا ہے؟ اس دنیا میں دونوں طرح کے لوگ ہیں:(1)حوصلہ افزائی
کرنے والے اور (2)حوصلہ شکنی کرنے والے! ہم خود پر غور کریں کہ ہمارا شمار کن
لوگوں میں ہوتا ہے؟ شاید آپ کہیں کہ ہم نے کبھی کسی کی حوصلہ شکنی نہیں کی، تو
گزارش ہے کہ یہ کہہ کر کسی کا حوصلہ نہیں توڑا جاتا کہ میں تمہاری حوصلہ شکنی
کررہا ہوں بلکہ ہمارا چپ رہنے کی جگہ پر بولنا، بولنے کے موقع پر نہ بولنا، ہماری
باڈی لینگوئج، مناسب رپلائی نہ دینا وغیرہ بھی کسی کی حوصلہ شکنی کرجاتا ہے۔ پھر
حوصلہ شکنی محض دشمنی کی بنیاد پر نہیں ہوتی بلکہ کسی سے ہمدردی جتاتے ہوئے بھی اس
کی حوصلہ شکنی ہوجاتی ہے لیکن ہمیں اس کا شعور اور احساس بھی نہیں ہوتا۔
حوصلہ
شکنی کو دل پر نہ لیں کسی کہنے سے آپ نہ رکیں کیونکہ آپ کو کامیابی اللہ پاک نے
دینی ہے لوگوں نے نہیں۔
کچھ
لوگوں کا انداز ہوتا ہے کہ انہیں کیسا ہی بہترین کام کرکے دکھا دیں وہ حوصلہ شکنی
کئے بغیر رہ نہیں سکتے اس میں نیا کیا ہے؟کچھ خاص نہیں!مزہ نہیں آیا!قابل تعریف
نہیں ہے! اس طرح کے جملے ان کے ہونٹوں سے نکلتے رہتے ہیں۔ ایسوں کا حل یہی ہے کہ
اول تو انہیں سیریس نہ لیجئے یا اگر آپ میں ہمت ہے تو ان سے فریاد کیجئے کہ اس کام
میں جو فالٹ ہے اس کی نشاندہی کرکے درست بھی کردیجئے۔
حوصلہ
شکنی اسی کی ہوتی ہے جس سے غلطی ہوتی ہے اور غلطی اسی سے ہوتی جو کام کرتا ہے،
حادثہ اسی کار کو پیش آسکتا ہے جو روڈ پر آتی ہے گیرج میں کھڑی گاڑی کو نہیں، اس
لئے ہمت بڑی رکھئے۔
جب ہم
اپنے اردگرد کے لوگوں سے انعام، یا اثبات چاہتے ہیں تو ہم بڑی آسانی کے ساتھ حوصلہ
شکنی کا شکار ہو سکتے ہیں۔ اگر ہماری خدمت اور تابعداری کی بنیاد فوری تسکین پر
مبنی ہے تو ہم غالباً اپنے آپ کو حوصلہ شکنی کے لیے پیش کر رہے ہوتے ہیں۔

حوصلہ
شکنی ایک ایسا عمل ہے جس میں کس شخص کی خود اعتمادی یا حوصلے کو کمزور کیا جاتا
ہے۔ یہ عمل مختلف طریقوں سے ہو سکتا ہے جیسے کہ منفی تبصرے، مذاق، یا کسی کی
کامیابیوں کو نظرانداز کرنا۔ حوصلہ شکنی کا اثر فرد کی ذہنی صحت پر بھی پڑ سکتا ہے
جس سے وہ خود کو کمزور محسوس کر سکتا ہے یا اپنی صلاحیتوں پرسے یقین کھو سکتا ہے۔
حوصلہ
شکنی کی وجوہات مختلف ہو سکتی ہیں مثلاً:
1 مسابقت: بعض اوقات لوگ دوسروں کی کامیابیوں سے حسد کرتے
ہیں اور اس کے نتیجے میں حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔
2 ذاتی مسائل: کسی کی ذاتی زندگی یا مسائل بھی انہیں
دوسروں کو نیچا دکھانے پر مجبور کر سکتے ہیں۔
3 ثقافتی یا سماجی دباؤ: بعض معاشروں میں کامیابی کے معیار بہت
بلند ہوتے ہیں جس کی وجہ سے لوگ دوسروں کی کامیابیوں کو کمزور کرنے کی کوشش کرتے
ہیں۔
اس کے
اثرات سے بچنے کے لیے خود اعتمادی کو بڑھانا، مثبت لوگوں کے ساتھ رہنا اور اپنی
کامیابیوں کو تسلیم کرنا ضروری ہے۔ اگر آپ کو کسی کی حوصلہ شکنی کا سامنا ہے تو آپ
کو اپنے آپ پر یقین رکھنا چاہیے اور خود کو مثبت چیزوں میں مشغول رکھنا چاہیے۔
قارئین!ہماری
سوشل لائف میں خوبیوں کے ساتھ ساتھ بہت سی کمزوریاں بھی موجود ہوتی ہیں جن میں سے
ایک حوصلہ شکنی بھی ہے۔یاد رکھیے! ہماری معمولی سی تھپکی کسی کو پہاڑ پر چڑھنے کا
حوصلہ بھی دے سکتی ہے جبکہ ایک دل شکنی کسی کو کھائی میں گرا سکتی ہے۔ کسی کی
زندگی سنوارنے کیلئے بہت محنت کرنا پڑتی ہے اور مشکلوں سے گزرنا پڑتا ہے جبکہ
بگاڑنا بہت آسان ہے صرف اس کی ہمت توڑنے کی دیر ہوتی ہے اسی کو حوصلہ شکنی کہتے
ہیں۔ہمیں غور کرنا چاہئے کہ آج تک ہماری وجہ سے کتنے لوگوں کی حوصلہ شکنی ہو چکی
ہے بلکہ بعضوں کی دل آزاری بھی ہوئی ہو گی چلئے! جب آنکھ کھلی ہوا سویرا اب تو جاگ
جائیے اور اپنا حوصلہ شکن رویّہ تبدیل کرلیجئے جن کا دل دکھایا ان سے معافی مانگ
لیجئے۔ بالخصوص وہ حضرات جن کے ماتحت کچھ نہ کچھ لوگ ہوتے ہیں جیسے ماں باپ، استاد،
مرشد، نگران، سپر وائزر، منیجر، باس، پرنسپل، انہیں خوب احتیاط کرنی چاہئے کہ ان
کی بات زیادہ اثر کرتی ہے۔ انٹرنیشنل اسلامک اسکالر امیر اہل سنّت حضرت علّامہ
مولانا محمد الیاس عطّاؔر قادری دامت برکاتہم العالیہ نے اساتذہ (Teachers)
کو نصیحت فرمائی ہے کہ کسی طالب علم سے یہ نہ کہیں کہ تم نہیں پڑھ سکتے۔ پھر وہ واقعی ہی نہیں پڑھ سکے گا کیونکہ وہ
سوچے گا کہ جب مجھے پڑھانے والے استاد نے یہ کہہ دیا تو میں کبھی نہیں پڑھ سکتا۔
حوصلہ
شکنی کے واقعات سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ہمارے پیارے آقا ﷺ کی کفار کی طرف سے کیسی
کیسی حوصلہ شکنی کی گئی (معاذاللہ)مجنون کہہ کر پکارا گیا، یہی نہیں بلکہ بعض رشثہ
دار مخالفت پر اتر آئے جن میں ابو لہب جو آپ کا چچا تھا پیش پیش تھا،تین سال تک آپ
کا اور آپ کے خاندان والوں کا سوشل بائیکاٹ کیا گیا اس دوران آپ شعب ابی طالب میں
محصور رہے، سجدے کی حالت میں اونٹنی کی بچہ دانی مبارک کمر پر رکھ دی گئی، طائف کے
سفر میں نادانوں نے پتھر برسائے، مشرکین مکہ کے ناروا سلوک کی وجہ سے آپ کو اپنا
شہر مبارک مکۂ مکرمہ چھوڑ کر مدینہ طیبہ جانا پڑا، آپ کو اتنا ستایا گیا کہ آپ ﷺ نے
فرمایا:اللہ کی راہ میں، میں سب سے زیادہ ستایا گیا ہوں۔ (ترمذی، 4 / 213، حدیث: 2480)لیکن
آپ ﷺ نے اس ہمت اور صبر سے حالات کا مقابلہ کیا کہ عقلیں حیران رہ جاتی ہیں۔
پھر
صحابۂ کرام کو اسلام آوری پر حوصلہ شکن رویوں کا سامنا کرنا پڑا، کسی کی ماں نے
بات چیت چھوڑ دی، تو کسی کو باپ نے ظلم کا نشانہ بنایا، کسی کو تپتی ریت پر لٹا کر
سینے پر وزن رکھ دیا جاتا اور مطالبہ کیا جاتا اسلام چھوڑدو لیکن راہ حق پر چلنے
والوں کے قدم ذرا بھی نہیں ڈگمگائے۔حوصلہ شکنی کا مطلب ہے کسی شخص کے عزم، حوصلے
یا خود اعتمادی کو کمزور کرنا یا ختم کرنا۔ یہ عمل مختلف طریقوں سے ہو سکتا ہے
جیسے کہ منفی باتیں کرنا، مذاق اڑانا، یا کسی کی کوششوں کو نظرانداز کرنا۔ حوصلہ
شکنی کا اثر خاص طور پر نوجوانوں اور بچوں پر زیادہ ہو سکتا ہےکیونکہ وہ خود
اعتمادی اور حوصلے کی تلاش میں ہوتے ہیں۔
درج
ذیل چیزیں اور حالات واقعات حوصلہ شکنی کے اثرات میں شامل ہو سکتے ہیں:
1 ذاتی ترقی میں رکاوٹ: جب کسی کا حوصلہ توڑا جاتا ہے تو وہ
اپنی صلاحیتوں کو بہتر بنانے یا نئے چیلنجز کا سامنا کرنے میں ہچکچاتے ہیں۔
2 ذہنی صحت پر اثر: حوصلہ شکنی سے ذہنی دباؤ، اضطراب، اور
ڈپریشن جیسی حالتیں پیدا ہو سکتی ہیں۔
3 رشتوں میں دراڑ: اگر کسی شخص کو مسلسل حوصلہ شکنی کا
سامنا کرنا پڑےتو اس کے رشتے متاثر ہو سکتے ہیں اور وہ دوسروں سے دور ہو سکتے ہیں۔
حوصلہ
شکنی سے بچنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے اور دوسروں کے لیے مثبت گفتگو کریں
ایک دوسرے کی حوصلہ افزائی کریں اور ناکامیوں کو سیکھنے کے مواقع کے طور پر
دیکھیں۔اگر ہم بھی اپنی سوچ مثبت(Positive) بنالیں اور کوئی کتنی ہی حوصلہ شکنی کرے اس
کی سنی ان سنی کردیں اور کامیابی کے لئے مزید محنت اور کوشش کریں تو اللہ کی رحمت
سے ایک دن آئے گا کہ حوصلہ شکنی کرنے والے ہماری کامیابی دیکھ کر حیران رہ جائیں
گے۔
تندیٔ باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لئے

انسان
کو زندگی میں حوصلہ افزائی کرنے والے اور حوصلہ شکنی کرنے والے دونوں قسم کے لوگوں
سے واسطہ پڑتا رہتا ہے البتہ یہ ہمارے اختیار میں ہے کہ ہم حوصلہ شکنی کے کرتے ہیں
یا حوصلہ افزائی۔
حوصلہ
شکنی کے معنی اثرات اور نقصانات سے جتنا ہو سکتے ہیں بچیے کہ حوصلہ شکنی سے کسی کی
زندگی کامیابی کی منزلیں طہ کرتی ہوئی ناکامی کے گڑھے میں بھی گر سکتی ہے جی ہاں
جن بچوں یا بڑوں کی کسی بھی اچھے کام میں حوصلہ افزائی کی بجائے حوصلہ شکنی ہوتی
ہے وہ ذہنی طور پر بھی پریشان اور زندگی اداسی کی طرف بڑھتی ہے اور کامیابی کو
روکنے والا کام ہے۔
ناکامی
اور حوصلہ شکنی کامیابی کے راستے میں آنے والے پتھر ہیں اگر ان سے خوفزدہ ہوں گے
تو آپ کی کامیابی رک جائے گی اور سفر بھی اس لئے اپنے دل سے ناکامی کا خوف اور
حوصلہ شکنی کا ڈر نکال سکتے ہیں۔
اب جو
حوصلہ شکنی کرتے ہیں ہر دفعہ لازم نہیں کہ وہی غلط ہوں بعض دفعہ کام کرنے والا
واقعی کام غلط کر رہا ہوتا ہے جسکی وجہ سے اسکا ما تحت اگراسے ڈانٹتا یا حوصلہ
شکنی کرتا ہے تو وہ اسے اسکی غلطی کا احساس دلا رہا ہوتا ہے اور بعض لوگ خود پر کی
جانے والی تنقید کو حوصلہ شکنی سمجھتے ہیں ایسا نہیں ہے کیونکہ تم میری تنقید
حوصلہ شکنی نہیں ہوتی ایسی تنقید کرنے والا اگربچہ بھی ہو تو غور ضرور کیجیے شاید
وہ دوست کہہ رہا ہو۔
خوبیوں
کے ساتھ ساتھ بہت سی کمزوریاں بھی موجود ہے جن میں سے ایک حوصلہ شکنی بھی دے سکتے
ہیں کسی کو زندگی سنوارنے کے لئے بہت ہی محنت کرنا پڑتی ہے اور بہت سی مشکلوں سے
گزرنا پڑتا ہے جبکہ بھاگنا بہت آسان ہے صرف اس کی ہمت توڑنے کی دیر ہوتی ہے اور
اسی کو حوصلہ شکنی کہتے ہیں۔
جہاں
حوصلہ افزائی سے بہت زیادہ فائدہ ہوتا ہے جیسے محنت میں زیادتی، دل میں خوشی داخل
ہونا، دل میں محبت کا بڑھنا، کام میں لگن، توجہ، کام میں دل لگنا، مزید کامیابی کی
طرف بڑھنا وغیرہ اور بہت سے فوائد ہیں اسی
طرح حوصلہ شکنی کے بہت زیادہ نقصانات بھی سامنے آتے ہیں مثلاً ناامیدی۔ڈپریشن، دل
نہ لگنا، بدگمانی پیدا ہونا، کام سے نفرت ہونا، ذہنی انتشار، باہمی ہم آہنگی کا نہ
ہونا، دل دکھانا، کام سے بیزاری اور محنت کی طرف راغب نہ ہونا وغیرہ۔
تعلیم
دنیاوی ہو یا دینی حوصلہ شکنی سے بچا جائے لیکن خاص کر ہمارے معاشرے میں دینی
تعلیم کو ایک مقام حاصل نہیں علم دین سے دوری کی بنا پر لوگ دینی طلباء کی حوصلہ
شکنی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
علم
دین سے محبت رکھنے والی تحریک دعوت اسلامی سے وابستہ ہونے والے اپنی اولاد کو دینی
تعلیم دلوانے کی کوشش اور حوصلہ افزائی کرتے ہیں لیکن معاشرے کے عام افراد کا بچوں
کو دینی تعلیم دلوانے کا ذہین بہت کم ہوتا ہے بلکہ بچہ اگر دینی تعلیم حاصل کر ریا
ہو تو اسے طرح طرح کے طعنے دئیے جاتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ کیا مولوی بن کر مسجد
کی روٹیاں کھائے گا؟ عالم بن کر کھائے گا کیا؟ M A
یا ڈاکٹر یا انجینئر وغیرہ بن تاکہ اچھا روزگار ملے۔ یہ بات صرف طعنوں کی حد تک
رہتی ہے بلکہ بعض اوقات دینی تعلیم سے روکنے کے لئے باقاعدہ حربے استعمال کئے جاتے
ہیں علم دین کی راہوں میں کانٹے بچھائے جاتے ہیں طرح طرح کی مشکلات پیدا کی جاتی
ہیں۔ پیسے کمانے کا اپنا خرچہ خود سنبھالنےکا اور گھرکا خرچہ اٹھانےکا مطالبہ کیا
جاتا ہے جبکہ یہی بچہ اگر دنیاوی تعلیم حاصل کر رہا ہو تو اسے ہر طرح سے سپورٹ
ملتا اور اخراجات دئیے بھی جاتے اٹھائے بھی جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ گلی گلی اسکول
کھلے ہیں اور اسکولوں کے مقابلے میں دینی مدارس و جامعات بہت کم ہیں والدین اور
اساتذہ کرام سے گزارش ہے کہ دنیا ہی سب کچھ نہیں اصل تو آخرت کی زندگی ہے اور آخرت
میں ڈاکٹر یا انجینئر بیٹا کام نہیں آئے گا بلکہ حافظ قرآن یا عالم دین بیٹا شفاعت
کرے گا جیسا کہ سرکار مدینہ ﷺ کا فرمان عالیشان ہے: قیامت کے دن عالم و عابد کو
اٹھایا جائے گا عابد سے کہا جائے گا کہ جنت میں داخل ہو جاؤ جبکہ عالم سے کہا جائے
گا کہ جب تک لوگوں کی شفاعت نہ کرو ٹھہرے رہو۔ (شعب الایمان، 2/268، حدیث: 1717)
یہ
کہنا کہ مولوی بن کر کھائے گا کیا؟ یہ محض شیطانی وسوسہ ہے اللہ پاک نے سب کا رزق
اپنے ذمہ کرم پر لیا ہوا ہے اور بے شک دینی تعلیم حاصل کرنے والے دنیوی تعلیم
والوں کے مقابلے میں زیادہ سکون کی زندگی گزارتے ہیں۔ لہذا اپنی آخرت کو پیش نظر
رکھتے ہوئے سارے ہی بچوں کو عالم دین اور حافظ قرآن بنانے کی کوشش کرنی چائیے اور
اگر ایسا ممکن نہ ہو تو کم ازکم ایک بچے کو تو عالم دین بنانے کی ضرور کوشش
فرمائیے اللہ پاک نے چاہا تو عالم دین بننے والا گھر بلکہ سارے خاندان والوں کی
بخشش کا ذریعہ بن سکتاہے۔

حوصلہ
شکنی کا مطلب ہے کسی شخص کو مایوس کرنا یا اس کی حوصلہ افزائی کے بجائے اس کی قوت
ارادی اور عزم کو توڑنا۔ یہ عمل نہ صرف ذاتی ترقی کے راستے میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے
بلکہ اس سے فرد کی خود اعتمادی اور نفسیاتی صحت پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
حوصلہ شکنی مختلف شکلوں میں ہو سکتی ہے، جیسے لفظی حملے، طنز، مذاق، یا کسی کی
کوششوں کو غیر اہم یا بے فائدہ قرار دینا۔
حوصلہ شکنی کے اسباب:
1۔ مقابلے کا احساس: بہت سے لوگ اپنی ناکامیوں یا کمزوریوں
کو چھپانے کے لیے دوسروں کی کوششوں کو نظر انداز کرتے ہیں یا ان کی حوصلہ شکنی
کرتے ہیں۔ ایسا کرنے سے وہ خود کو بہتر محسوس کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
2۔ معاشرتی دباؤ: معاشرتی توقعات اور معاشی مشکلات بھی افراد
کو مایوس کرنے کا سبب بنتی ہیں۔ کبھی کبھار لوگوں کی توقعات اتنی زیادہ ہوتی ہیں
کہ وہ دوسروں کو حقیقت پسندانہ انداز میں مشورے دینے کے بجائے ان کی صلاحیتوں کو
تسلیم نہیں کرتے۔
3۔ پرسنل مسائل: بعض اوقات افراد اپنے ذاتی مسائل سے
گزر رہے ہوتے ہیں، جیسے ذہنی دباؤ یا خاندان میں مشکلات، جس کے باعث وہ دوسروں کو
حوصلہ دینے کی بجائے انہیں نیچے دھکیلنے کا رجحان رکھتے ہیں۔
حوصلہ شکنی کے اثرات:
1۔ نفسیاتی اثرات: مسلسل حوصلہ شکنی سے انسان کی خود
اعتمادی کم ہوتی ہے اور وہ خود کو ناکامی کا شکار سمجھنے لگتا ہے۔ اس کا نتیجہ
اکثر ڈپریشن یا اضطراب کی صورت میں نکلتا ہے۔
2۔ ذاتی ترقی میں رکاوٹ: جب انسان کو ہر قدم پر حوصلہ شکنی کا
سامنا ہوتا ہے، تو وہ نئے چیلنجز کا سامنا کرنے سے گریز کرتا ہے، جس سے اس کی ذاتی
ترقی رک جاتی ہے۔
3۔ رشتہ داریوں پر اثر: اگر کسی فرد کو اپنے قریب کے لوگوں سے
حوصلہ شکنی ملتی ہے تو اس کا ان افراد کے ساتھ رشتہ ٹوٹ سکتا ہے یا متاثر ہو سکتا
ہے۔
حوصلہ شکنی سے بچاؤ کے طریقے: مثبت سوچ اپنانا، صحت مند
تعلقات قائم کرنا، مفید تنقید کو قبول کرنا وغیرہ۔
حوصلہ
شکنی ایک ایسی خامی ہے جو فرد کی زندگی میں رکاوٹیں ڈال سکتی ہے، لیکن اس سے بچنے
کے لیے فرد کو خود پر یقین رکھنا اور مثبت رہنا ضروری ہے۔ معاشرتی سطح پر بھی ہمیں
ایک دوسرے کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے تاکہ ہر فرد اپنی صلاحیتوں کا بھرپور
استعمال کر سکے اور کامیاب ہو سکے۔
حوصلہ
شکنی ایک ایسا عمل ہے جو کسی فرد کی روحانی، نفسیاتی اور سماجی حالت پر منفی اثرات
مرتب کرتا ہے۔ قرآن و حدیث میں انسانوں کو حوصلہ دینے اور ایک دوسرے کے ساتھ حسن
سلوک کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ اسی تناظر میں حوصلہ شکنی کے بارے میں بھی اللہ پاک
اور حضرت محمد ﷺ کی تعلیمات میں رہنمائی ملتی ہے۔
اللہ
پاک ارشاد فرماتا ہے: مَاۤ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَةٍ اِلَّا بِاِذْنِ
اللّٰهِؕ-وَ مَنْ یُّؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ یَهْدِ قَلْبَهٗؕ- (پ 28، التغابن:
11) ترجمہ کنز الایمان: کوئی مصیبت
نہیں پہنچتی مگر اللہ کے حکم سے اور جو
اللہ پر ایمان لائے اللہ اس کے دل کو ہدایت فرمادے گا۔ اس آیت سے
واضح ہوتا ہے کہ مومن کے لئے ہر مشکل میں اللہ کی مدد اور رہنمائی موجود ہے، اس
لیے کسی کو مایوس کرنا یا اس کی حوصلہ شکنی کرنا اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ اللہ
پر ایمان رکھتے ہوئے انسان کو اپنی کوششیں جاری رکھنی چاہئیں۔
نبی
پاک ﷺ نے بھی ہمیشہ اپنے صحابہ کرام کو مشکلات میں حوصلہ دیا۔ ایک موقع پر حضرت
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر تم میں سے کسی کو
مصیبت پہنچے تو اسے یاد رکھنا کہ وہ تمہارے گناہوں کا کفارہ بنتی ہے۔ یہ حدیث
انسان کو بتاتی ہے کہ مشکلات کا سامنا کرنا اور صبر کرنا نہ صرف فرد کی روحانیت کے
لیے مفید ہے بلکہ اس کے گناہوں کے مٹانے کا ذریعہ بھی بنتی ہے۔
قرآن
اور حدیث میں حوصلہ شکنی سے بچنے اور ایک دوسرے کو حوصلہ دینے کی تعلیمات موجود
ہیں۔ اللہ و رسول کی رہنمائی کے مطابق ہمیں ایک دوسرے کا حوصلہ بڑھانے، صبر کرنے
اور اللہ کی مدد پر بھروسہ رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ مسلمانوں کو کبھی بھی مایوس
نہیں ہونا چاہیے، بلکہ انہیں ہمیشہ اپنی کوشش جاری رکھنی چاہیے اور اللہ کی رحمت
کی امید رکھنی چاہیے۔