انسان
کو زندگی میں حوصلہ افزائی کرنے والے اور حوصلہ شکنی کرنے والے دونوں قسم کے لوگوں
سے واسطہ پڑتا رہتا ہے البتہ یہ ہمارے اختیار میں ہے کہ ہم حوصلہ شکنی کے کرتے ہیں
یا حوصلہ افزائی۔
حوصلہ
شکنی کے معنی اثرات اور نقصانات سے جتنا ہو سکتے ہیں بچیے کہ حوصلہ شکنی سے کسی کی
زندگی کامیابی کی منزلیں طہ کرتی ہوئی ناکامی کے گڑھے میں بھی گر سکتی ہے جی ہاں
جن بچوں یا بڑوں کی کسی بھی اچھے کام میں حوصلہ افزائی کی بجائے حوصلہ شکنی ہوتی
ہے وہ ذہنی طور پر بھی پریشان اور زندگی اداسی کی طرف بڑھتی ہے اور کامیابی کو
روکنے والا کام ہے۔
ناکامی
اور حوصلہ شکنی کامیابی کے راستے میں آنے والے پتھر ہیں اگر ان سے خوفزدہ ہوں گے
تو آپ کی کامیابی رک جائے گی اور سفر بھی اس لئے اپنے دل سے ناکامی کا خوف اور
حوصلہ شکنی کا ڈر نکال سکتے ہیں۔
اب جو
حوصلہ شکنی کرتے ہیں ہر دفعہ لازم نہیں کہ وہی غلط ہوں بعض دفعہ کام کرنے والا
واقعی کام غلط کر رہا ہوتا ہے جسکی وجہ سے اسکا ما تحت اگراسے ڈانٹتا یا حوصلہ
شکنی کرتا ہے تو وہ اسے اسکی غلطی کا احساس دلا رہا ہوتا ہے اور بعض لوگ خود پر کی
جانے والی تنقید کو حوصلہ شکنی سمجھتے ہیں ایسا نہیں ہے کیونکہ تم میری تنقید
حوصلہ شکنی نہیں ہوتی ایسی تنقید کرنے والا اگربچہ بھی ہو تو غور ضرور کیجیے شاید
وہ دوست کہہ رہا ہو۔
خوبیوں
کے ساتھ ساتھ بہت سی کمزوریاں بھی موجود ہے جن میں سے ایک حوصلہ شکنی بھی دے سکتے
ہیں کسی کو زندگی سنوارنے کے لئے بہت ہی محنت کرنا پڑتی ہے اور بہت سی مشکلوں سے
گزرنا پڑتا ہے جبکہ بھاگنا بہت آسان ہے صرف اس کی ہمت توڑنے کی دیر ہوتی ہے اور
اسی کو حوصلہ شکنی کہتے ہیں۔
جہاں
حوصلہ افزائی سے بہت زیادہ فائدہ ہوتا ہے جیسے محنت میں زیادتی، دل میں خوشی داخل
ہونا، دل میں محبت کا بڑھنا، کام میں لگن، توجہ، کام میں دل لگنا، مزید کامیابی کی
طرف بڑھنا وغیرہ اور بہت سے فوائد ہیں اسی
طرح حوصلہ شکنی کے بہت زیادہ نقصانات بھی سامنے آتے ہیں مثلاً ناامیدی۔ڈپریشن، دل
نہ لگنا، بدگمانی پیدا ہونا، کام سے نفرت ہونا، ذہنی انتشار، باہمی ہم آہنگی کا نہ
ہونا، دل دکھانا، کام سے بیزاری اور محنت کی طرف راغب نہ ہونا وغیرہ۔
تعلیم
دنیاوی ہو یا دینی حوصلہ شکنی سے بچا جائے لیکن خاص کر ہمارے معاشرے میں دینی
تعلیم کو ایک مقام حاصل نہیں علم دین سے دوری کی بنا پر لوگ دینی طلباء کی حوصلہ
شکنی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
علم
دین سے محبت رکھنے والی تحریک دعوت اسلامی سے وابستہ ہونے والے اپنی اولاد کو دینی
تعلیم دلوانے کی کوشش اور حوصلہ افزائی کرتے ہیں لیکن معاشرے کے عام افراد کا بچوں
کو دینی تعلیم دلوانے کا ذہین بہت کم ہوتا ہے بلکہ بچہ اگر دینی تعلیم حاصل کر ریا
ہو تو اسے طرح طرح کے طعنے دئیے جاتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ کیا مولوی بن کر مسجد
کی روٹیاں کھائے گا؟ عالم بن کر کھائے گا کیا؟ M A
یا ڈاکٹر یا انجینئر وغیرہ بن تاکہ اچھا روزگار ملے۔ یہ بات صرف طعنوں کی حد تک
رہتی ہے بلکہ بعض اوقات دینی تعلیم سے روکنے کے لئے باقاعدہ حربے استعمال کئے جاتے
ہیں علم دین کی راہوں میں کانٹے بچھائے جاتے ہیں طرح طرح کی مشکلات پیدا کی جاتی
ہیں۔ پیسے کمانے کا اپنا خرچہ خود سنبھالنےکا اور گھرکا خرچہ اٹھانےکا مطالبہ کیا
جاتا ہے جبکہ یہی بچہ اگر دنیاوی تعلیم حاصل کر رہا ہو تو اسے ہر طرح سے سپورٹ
ملتا اور اخراجات دئیے بھی جاتے اٹھائے بھی جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ گلی گلی اسکول
کھلے ہیں اور اسکولوں کے مقابلے میں دینی مدارس و جامعات بہت کم ہیں والدین اور
اساتذہ کرام سے گزارش ہے کہ دنیا ہی سب کچھ نہیں اصل تو آخرت کی زندگی ہے اور آخرت
میں ڈاکٹر یا انجینئر بیٹا کام نہیں آئے گا بلکہ حافظ قرآن یا عالم دین بیٹا شفاعت
کرے گا جیسا کہ سرکار مدینہ ﷺ کا فرمان عالیشان ہے: قیامت کے دن عالم و عابد کو
اٹھایا جائے گا عابد سے کہا جائے گا کہ جنت میں داخل ہو جاؤ جبکہ عالم سے کہا جائے
گا کہ جب تک لوگوں کی شفاعت نہ کرو ٹھہرے رہو۔ (شعب الایمان، 2/268، حدیث: 1717)
یہ
کہنا کہ مولوی بن کر کھائے گا کیا؟ یہ محض شیطانی وسوسہ ہے اللہ پاک نے سب کا رزق
اپنے ذمہ کرم پر لیا ہوا ہے اور بے شک دینی تعلیم حاصل کرنے والے دنیوی تعلیم
والوں کے مقابلے میں زیادہ سکون کی زندگی گزارتے ہیں۔ لہذا اپنی آخرت کو پیش نظر
رکھتے ہوئے سارے ہی بچوں کو عالم دین اور حافظ قرآن بنانے کی کوشش کرنی چائیے اور
اگر ایسا ممکن نہ ہو تو کم ازکم ایک بچے کو تو عالم دین بنانے کی ضرور کوشش
فرمائیے اللہ پاک نے چاہا تو عالم دین بننے والا گھر بلکہ سارے خاندان والوں کی
بخشش کا ذریعہ بن سکتاہے۔