ہماری معاشرتی زندگی میں خوبیوں کے ساتھ ساتھ بہت سی کمزوریاں بھی موجود ہیں، جن میں سے ایک حوصلہ شکنی بھی ہے۔ یاد رکھئے! ہماری تھپکی کسی کو پہاڑ پر چڑھنے کا حوصلہ بھی دے سکتی ہے جبکہ ایک دل شکنی کسی کو کھائی میں بھی گرا سکتی ہے۔کسی کی زندگی سنوارنے کے لیے بہت محنت کرنا پڑتی ہے اور مشکلوں سے گزرنا پڑتا ہے جبکہ بگاڑنا بہت آسان ہے صرف اس کی ہمت توڑنے کی دیر ہوتی ہے اسی کو حوصلہ شکنی کہتے ہیں۔

ہمیں غور کرنا چاہیے کہ آج تک ہماری وجہ سے کتنے لوگوں کی حوصلہ شکنی ہو چکی ہے۔ بلکہ بعضوں کی تو دل آزاری بھی ہوئی ہوگی۔ جب آنکھ کھلی ہوا سویرا اب تو جاگ جائیں اور اپنا حوصلہ شکن رویہ تبدیل کر لیجئے۔ جن کا دل دکھایا ان سے معافی مانگ لیجئے۔ بالخصوص وہ حضرات جن کے ماتحت کچھ نہ کچھ لوگ ہوتے ہیں جیسے ماں باپ، استاذ،مرشد، نگران، سپروائزر، منیجر، باس،پرنسپل انہیں خوب اختیاط کرنی چاہیے کہ ان کی بات زیادہ اثر کرتی ہے۔

امیر اہل سنت دامت برکاتہم العالیہ نے استاتذہ کو نصیحت فرمائی ہے کہ کسی طالب علم سے یہ نہ کہیں کہ تم نہیں پڑھ سکتے پھر وہ واقعی ہی نہیں پڑھ سکے گا۔ کیونکہ وہ سوچے گا کہ اب مجھے پڑھانے والے استاد نے کہہ دیا ہے تو میں کبھی نہیں پڑھ سکتا!

حوصلہ شکنی کے نقصانات: حوصلہ افزائی سے مثبت سوچ پروان چڑھتی ہے جبکہ حوصلہ شکن رویوں سے منفی سوچ پیدا ہوتی ہے جس کی وجہ سے معاشرتی و نفسیاتی نقصانات ہوتے ہیں، مثلاً ناامیدی،احساس کمتری، ڈپریشن، ذہنی انتشار، پست ہمتی، ناکامی کا خوف پھیلتا ہے، گھر دفتر، ادارے اور کلاس روم کا ماحول خراب ہوتا ہے جس کی آپ حوصلہ شکنی کرتے ہیں وہ آئندہ آپ کے قریب انے سے کتراتا ہے۔ اور آپ سے اپنے مسائل شیئر کرنا چھوڑ دیتا ہے۔

اس دنیا میں دو طرح کے لوگ ہیں: (1)حوصلہ افزائی کرنے والے (2) حوصلہ شکنی کرنے والے۔ ہم خود پر غور کریں کہ ہمارا شمار کن لوگوں میں ہوتا ہے۔ شاید آپ کہیں کہ ہم نے کبھی کسی کی حوصلہ شکنی نہیں کی۔تو گزارش ہے! کہ یہ کہہ کر کسی کا حوصلہ نہیں توڑا جاتا کہ میں تمہاری حوصلہ شکنی کر رہی ہوں بلکہ ہمارا چپ رہنے کی جگہ پر بولنا اور بولنے کے موقع پرچپ رہنا اور ہماری باڈی لینگویج، مناسب رپلائی نہ دینا وغیرہ بھی کسی کی حوصلہ شکنی کر جاتا ہے پھر حوصلہ شکنی دشمنی کی بنیاد پر نہیں ہوتی بلکہ کسی سے ہمدردی جتاتے ہوئے بھی اس کی حوصلہ شکنی ہو جاتی ہے لیکن ہمیں اس کا شعور اور احساس بھی نہیں ہوتا۔

اب ہم جان لیتے ہیں کہ حوصلہ شکنی کیسے ہوتی ہے؟ چنانچہ میں آپ کے سامنے چند صورتیں اور مثالیں رکھتی ہوں کہ کس کس طرح سے حوصلہ شکنی ہو سکتی ہے، مثلاًاچھی کارکردگی پر حوصلہ افزائی نہ کرنا، کوئی کیسے ہی عمدہ کوشش کرے اس کے ہر کام میں کیڑے نکالنا پھر خود کو ماہر نقاد قرار دینا، ایک فیلڈ میں غلطی کرنے پر ہر فیلڈ کے لیے مس فٹ قرار دے دینا، مختلف تبصرے کرنا کہ تو نہیں پڑھ سکتا تجھ سے نہیں ہوگا! تیرے بس کی بات نہیں، تم نکمے ہو، نا اہل ہو، تمہارے دماغ میں بھس بھرا ہوا ہے وغیرہ۔ کسی کی پہلی غلطی پر مکمل ناکام قرار دے دینا ایسوں کو سوچنا چاہیے کہ انسان بچپن میں پہلا قدم اٹھاتے ہی دوڑنے کے قابل نہیں ہو جاتا بلکہ گرتا ہے پھر اٹھتا ہے اور ایک وقت آتا ہے کہ دوڑنا شروع کر دیتا ہے، کلاس روم میں سبق سنانے میں اٹکنے پر اسے اپنی غلطی دور کرنے کا موقع دیئے بغیر کسی اور طالب علم کو سبق پڑھنے کا کہہ دینا، کسی کی معذرت کو قبول نہ کرنا بلکہ بہانہ قرار دے دینا، دوسروں کے سامنے اپنے بچے کی صرف خامیاں ہی بیان کرنا، کسی کا دوسرے سے بلا ضرورت مقابلہ کر کے حوصلہ شکنی کرنا دیکھو وہ کیسے کیسے کامیابیاں سمیٹ رہا ہے اور تم ٹھہرے نکمے کے نکمے، ایک ہی طرح کی کارکردگی دکھانے والے دو افراد میں سے ایک کی تعریف کرنا، امتحان میں فیل ہونے والے کو کہنا کہ اور کرو ادھر ادھر کے کاموں میں وقت ضائع یہ تو ہونا ہی تھا، مصیبت زدہ کی دل جوئی کرنے کے بجائے اس کو اسی کا ذمہ دار ٹھہرانا شروع کر دینا جیسے کسی نے اپنے بخار کے بارے میں بتایا تو فورا تبصرہ کرنا کہ اور کھاؤ گول گپے۔

غلطی کہ نشان دہی کا طریقہ: حوصلہ شکنی سے بچنے کا مطلب یہ نہیں کہ کسی کو سمجھایا ہی نہ جائے یااس کی غلطی کی نشاندہی نہ کی جائے کہ وہ آئندہ اس سے بچ سکے اس کا طریقہ یہ ہو سکتا ہے۔

کہ پہلے اس کے کام کی سچی خوبیاں شمار کروا کر حوصلہ افزائی کر دی جائے پھر مناسب الفاظ میں خامیوں اور غلطیوں کی نشاندہی کر دی جائے جیسا کہ ہمارے پیارے مرشد امیر اہل سنت دامت برکاتہم العالیہ کا حیسن انداز ہے۔

اگر کوئی برا کام کرے تو اس کی حوصلہ شکنی کرے اور تھوڑا سختی کے ساتھ سمجھائے تاکہ وہ آئندہ اس کام سے باز رہے، مثلا بچے نے کسی کو مارا، گالی دی، یا اسکول میں دوسرے بچے کی کوئی چیز چرا لی تو والدین کو چاہیے کہ وہ اس کا نوٹس لے، تاکہ بچہ آئندہ کبھی ایسی حرکت نہ کرے اگر ابھی بچے کی غلطی نظر انداز کر دے تو وہ آئندہ اس سے بڑی بڑی غلطیاں کر سکتا ہے جبکہ یہ بالکل اسی طرح ہے کہ جب چٹان سے پانی رسنے لگے تو ہاتھ کا انگوٹھا رکھ کر روکا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر وہ چشمہ بن جائے تو چاہے ہاتھی کا بچہ اس کے منہ پر بٹھا دے تو وہ نہیں رکے گا۔