ہر
مسلمان کے دوسرے مسلمان پر کچھ حقوق ہوتے ہیں حدیث پاک میں مومنوں کو ایک جسم
فرمایا گیا ہے کسی مسلمان کی کامیابی پر آپ کی تھوڑی سی مسکراہٹ اس کے دل میں خوشی
کا سبب بن سکتی ہے اور اسی طرح اگر آپ اس کے کام میں عیب نکالیں یا یہ کہیں کہ یہ
تو سب کر سکتے ہیں تو یہ اسکی حوصلہ شکنی کا باعث ہے کسی کی حوصلہ افزائی بھی حسن
سلوک میں سے ہے۔
حوصلہ
شکنی کیسے ہوتی ہے؟ میں آپ کے سامنے چند صورتیں اور مثالیں رکھتی ہوں کہ کس کس طرح
سے حوصلہ شکنی ہوسکتی ہے، چنانچہ
(1)اچھی
کارکردگی پر حوصلہ افزائی نہ کرنا (2)کوئی کیسی ہی عمدہ کوشش کرے اس کے ہر کام میں
کیڑے نکالنا، پھر خود کو ماہر نقاد قرار دینا (3)ایک فیلڈ میں غلطی کرنے پر ہر
فیلڈ کیلئے مس فٹ قرار دے دینا (4)مختلف تبصرے کرنا:تو نہیں پڑھ سکتا، تجھ سے نہیں
ہوگا، تیرے بس کی بات نہیں، تم نکمے ہو، نااہل ہو، تمہارے دماغ میں بھس بھرا ہوا
ہے وغیرہ (5)کسی کی پہلی غلطی پر مکمل ناکام قرار دے دینا، ایسوں کو سوچنا چاہئے
کہ انسان بچپن میں پہلا قدم اٹھاتے ہی دوڑنے کے قابل نہیں ہوجاتا بلکہ گرتا ہے پھر
اٹھتا ہے اور ایک وقت آتا ہے کہ وہ دوڑنا شروع کردیتا ہے (6)کلاس روم میں سبق
سنانے میں اٹکنے پر اسے اپنی غلطی دور کرنے کا موقع دئیے بغیر کسی اور طالب علم کو
سبق پڑھنے کا کہہ دینا (7)کسی کی معذرت قبول نہ کرنا بلکہ بہانہ قرار دے دینا
(8)دوسروں کے سامنے اپنے بچّے کی صرف خامیاں ہی بیان کرنا (9)کسی کا دوسروں سے
بلاضرورت تقابل کرکے حوصلہ شکنی کرنا کہ دیکھو وہ کیسی کیسی کامیابیاں سمیٹ رہا ہے
اور تم ٹھہرے نکمے کے نکمے! (10)ایک ہی طرح کی کارکردگی دکھانے والے دو افراد میں
سے صرف ایک کی تعریف و تحسین کرنا۔
دوسروں
کے لئے خوشی کا سبب بنیں تاکہ لوگ آپ کو یاد رکھیں کیونکہ آپ جیسا تأثر دیں گے لوگ
ویسا ہی یاد رکھیں گے۔
ہمارا
شمار کن لوگوں میں ہوتا ہے؟ اس دنیا میں دونوں طرح کے لوگ ہیں:(1)حوصلہ افزائی
کرنے والے اور (2)حوصلہ شکنی کرنے والے! ہم خود پر غور کریں کہ ہمارا شمار کن
لوگوں میں ہوتا ہے؟ شاید آپ کہیں کہ ہم نے کبھی کسی کی حوصلہ شکنی نہیں کی، تو
گزارش ہے کہ یہ کہہ کر کسی کا حوصلہ نہیں توڑا جاتا کہ میں تمہاری حوصلہ شکنی
کررہا ہوں بلکہ ہمارا چپ رہنے کی جگہ پر بولنا، بولنے کے موقع پر نہ بولنا، ہماری
باڈی لینگوئج، مناسب رپلائی نہ دینا وغیرہ بھی کسی کی حوصلہ شکنی کرجاتا ہے۔ پھر
حوصلہ شکنی محض دشمنی کی بنیاد پر نہیں ہوتی بلکہ کسی سے ہمدردی جتاتے ہوئے بھی اس
کی حوصلہ شکنی ہوجاتی ہے لیکن ہمیں اس کا شعور اور احساس بھی نہیں ہوتا۔
حوصلہ
شکنی کو دل پر نہ لیں کسی کہنے سے آپ نہ رکیں کیونکہ آپ کو کامیابی اللہ پاک نے
دینی ہے لوگوں نے نہیں۔
کچھ
لوگوں کا انداز ہوتا ہے کہ انہیں کیسا ہی بہترین کام کرکے دکھا دیں وہ حوصلہ شکنی
کئے بغیر رہ نہیں سکتے اس میں نیا کیا ہے؟کچھ خاص نہیں!مزہ نہیں آیا!قابل تعریف
نہیں ہے! اس طرح کے جملے ان کے ہونٹوں سے نکلتے رہتے ہیں۔ ایسوں کا حل یہی ہے کہ
اول تو انہیں سیریس نہ لیجئے یا اگر آپ میں ہمت ہے تو ان سے فریاد کیجئے کہ اس کام
میں جو فالٹ ہے اس کی نشاندہی کرکے درست بھی کردیجئے۔
حوصلہ
شکنی اسی کی ہوتی ہے جس سے غلطی ہوتی ہے اور غلطی اسی سے ہوتی جو کام کرتا ہے،
حادثہ اسی کار کو پیش آسکتا ہے جو روڈ پر آتی ہے گیرج میں کھڑی گاڑی کو نہیں، اس
لئے ہمت بڑی رکھئے۔
جب ہم
اپنے اردگرد کے لوگوں سے انعام، یا اثبات چاہتے ہیں تو ہم بڑی آسانی کے ساتھ حوصلہ
شکنی کا شکار ہو سکتے ہیں۔ اگر ہماری خدمت اور تابعداری کی بنیاد فوری تسکین پر
مبنی ہے تو ہم غالباً اپنے آپ کو حوصلہ شکنی کے لیے پیش کر رہے ہوتے ہیں۔