
زندگی
میں بلند مقاصد کے حصول کیلئے حوصلہ کا بلند ہونا نہایت اہم ہے۔کسی کی حوصلہ
افزائی کرنا اسے منزل کے قریب کردیتا ہے لیکن اگر حوصلہ شکنی کا سامنا ہوجائے تو
منزل کے قریب پہنچنے کے باوجود انسان کامیابی سے محروم بھی رہ سکتا ہے۔ گھر، اسکول،
دفتر، نجی بیٹھکیں غرض ہر طرف حوصلہ شکنی کے مناظر عام ہیں۔
آئیے
حوصلہ شکنی کے اسباب،صورتیں اور حل پر ایک نظر ڈالتے ہیں:
حوصلہ شکنی کے اسباب: منفی سوچ کا حامل ہونا،کسی کی ترقی
برداشت نہ کرسکنا،بے جا تنقید کی عادت، غیر ضروری تبصرے کو اپنا فرض منصبی سمجھنا۔
حوصلہ شکنی کی صورتیں: کسی کی کامیابی پر اپنی کامیابیوں کی
فہرست گنوا دینا، کسی کو مصیبت میں دیکھ کر بجائے حوصلہ بڑھانے کا مایوسی کا اظہار
کرنا، کسی کے کارنامے پر اس میں کیڑے نکالتے رہنا، کسی کی کمزوری کو بنیاد بنا کر
اس پر طنز کے تیر برساتے رہنا، کسی کے اونچے خوابوں کو خیالی پلاؤ قرار دیتے ہوئے
اس کا مذاق اڑاتے رہنا وغیرہ۔
حوصلہ شکنی کے نتائج: حوصلہ شکنی کامیابی کی راہ میں رکاوٹ
بنتی ہے، انسان ذہنی تناؤ کا شکار ہو جاتا ہے، مسلسل تنقیدی رائے سنتے رہنے کی بنا
پر انسان اپنی ذات کو ہی غلط سمجھنے لگتا ہے خواہ وہ درست ہی کیوں نہ ہو، اچھے کام
پر حوصلہ شکنی انسان کو برے کام کی طرف راغب کرتی ہے، بات بات پر حوصلہ شکنی آپس
کے تعلقات اور محبتوں کو ٹھیس پہنچاتی ہے۔ حوصلہ شکنی کے منفی تاثرات انسان کی صحت
پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔
حوصلہ شکنی کا مقابلہ کیسے کریں: اپنی ذات کا
جائزہ لیجیے۔جو رائے آپ اپنے حق میں پسند نہیں کرتے دوسرے کے حق بھی دینے سے
احتیاط کیجئے، لوگ کیا کہیں گے؟اس سوچ سے چھٹکارا حاصل کیجئے، لوگوں کی رائے پر بے
جا اعتماد ترک کر دیجئے، محنت اتنی خاموشی سے کیجئے کہ کامیابی شور مچا دے، منفی
لوگوں سے دور رہیے۔مشورہ ہمیشہ مثبت لوگوں سے ہی طلب کیجئے، اللہ پاک پر توکل پختہ
کیجئے اور بزرگان دین رحمہم اللہ کی سیرت کا مطالعہ کیجئے۔

قارئین!
ہماری سوشل لائف میں خوبیوں کے ساتھ ساتھ بہت سی کمزوریاں بھی موجود ہیں، جن میں
سے ایک حوصلہ شکنی بھی ہے۔ یاد رکھیے! ہماری تھپکی کسی کو پہاڑ پر چڑھنے کا حوصلہ
بھی دے سکتی ہے، جبکہ دل شکنی کسی کو کھائی میں گرا سکتی ہے۔ کسی کی زندگی سنوارنے
کے لیے بہت محنت کرنا پڑتی ہے اور مشکلوں سے گزرنا پڑتا ہے جبکہ صرف اس کی ہمت
توڑنے کی دیر ہوتی ہے اسے حوصلہ شکنی کہتے ہیں۔
حوصلہ
شکنی ایک ایسا عمل ہے جس میں کسی دوسرے کے حوصلے یا اعتماد کو توڑا جاتا ہے، جس سے
وہ شخص ذہنی یا جذباتی طور پر کمزور پڑ جاتا ہے یہ عمل نہ صرف فرد کی خود اعتمادی
کو متاثر کرتا ہے بلکہ اس سے معاشرتی تعلقات میں بھی دراڑیں آ سکتی ہیں۔
حوصلہ
شکنی کئی صورتوں میں ہو سکتی ہے، جیسے
1) زبان سے: کسی کو اپنی گفتگو سے نیچا دکھانا یا کسی کا مذاق
اڑانا وغیرہ۔
2) منفی رائے یا تنقید: کوشش کرنے والے کی کوشش اور محنت پر
داد نہ دینا یا اس کی اس کاوش کو تسلیم نہ کرنا یا اس پر مسلسل منفی رائے دینا۔
3) نظر انداز کرنا: کسی کی کوششوں اور کامیابیوں کو مسلسل
نظر انداز کرنا یا کسی کے خیالات اور رائے کو مسلسل بے وقعت سمجھنا۔
اسلام میں حوصلہ شکنی کی مذمت: اسلام میں
حوصلہ شکنی کی مذمت کی گئی ہے اور مسلمانوں کو ایک دوسرے کی حوصلہ افزائی کرنے کی
ترغیب دی گئی ہے، چنانچہ اللہ پاک قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ
اٰمَنُوْا لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰۤى اَنْ یَّكُوْنُوْا خَیْرًا
مِّنْهُمْ وَ لَا نِسَآءٌ مِّنْ نِّسَآءٍ عَسٰۤى اَنْ یَّكُنَّ خَیْرًا
مِّنْهُنَّۚ-وَ لَا تَلْمِزُوْۤا اَنْفُسَكُمْ (پ 26،
الحجرات: 11)ترجمہ کنز العرفان: اے ایمان والو! مرد دوسرے مردوں پر نہ ہنسیں،
ہوسکتا ہے کہ وہ ان ہنسنے والوں سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں دوسری عورتوں پر ہنسیں،
ہوسکتا ہے کہ وہ ان ہنسنے والیوں سے بہتر ہوں اور آپس میں کسی کو طعنہ نہ دو۔
بسا
اوقات کسی مسلمان سے بغض ہونے کی وجہ سے بھی اسکی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے، چنانچہ
مسلمان سے بغض رکھنے سے متعلق حدیث مبارکہ میں ہے: آپس کے بغض و عداوت سے بچو
کیونکہ یہ (دین کو) مونڈنے والی(یعنی تباہ کر دینے والی) ہے۔ (گناہوں کی معلومات،
ص 130)
اسی
طرح ارشاد پاک ہے: جو کسی مومن کو ضرر پہنچائے یا اس کے ساتھ مکر اور دھوکہ بازی
کرے وہ ملعون (لعنت کیا گیا) ہے۔ (گناہوں کی معلومات، ص 160) کسی کی حوصلہ شکنی
کرنا اسے نقصان پہنچانے کا سبب ہے۔
حوصلہ شکنی کی صورتیں: اب یہاں آپ کے سامنے حوصلہ شکنی کی
ایسی مثالیں پیش کی جائیں گی جن سے حوصلہ شکنی ہو سکتی ہے:
1)
اچھی کارکردگی پر حوصلہ افزائی نہ کرنا۔ 2) دوسروں کے سامنے اپنے بچوں کی صرف منفی
باتیں بیان کرنا اور مثبت باتوں کو چھوڑ دینا۔ 3) بچوں کو نئے نئے تجربات کرنے سے
ڈرانا۔ 4)کوئی مشورہ دے تو اس کا مذاق اڑانا۔ 5) کسی کی پہلی غلطی پر اسے مکمل
ناکام قرار دے دینا۔ 6) کسی کا دوسروں سے بلا ضرورت تقابل کرنا۔
غلطی کی نشاندہی کا طریقہ: حوصلہ شکنی سے بچنے کا ہرگز یہ
مطلب نہیں کہ کسی کو کچھ سمجھایا ہی نہ جائے، نہ اسے اس کی غلطیاں بتا کر درستگی
کی طرف اس کی رہنمائی کی جائے بلکہ کسی کی غلطی کی نشاندہی کرنے کا احسن انداز
ہونا چاہیے کہ سب سے پہلے اس کے کام میں اس کی سچی خوبیوں کو شمار کر کے اس کی
حوصلہ افزائی کی جائے، پھر مناسب انداز و الفاظ سے اسے اس کے کام میں ہونے والی
خرابیوں اور خامیوں کی طرف توجہ دلائی جائے۔ سبحان اللہ! اصلاح کرنے کا یہی انداز
میرے پیر و مرشد کا ہے جنہیں آج کے اس پرفتن دور میں دنیا امیر اہلسنت، امیر دعوت
اسلامی کے نام سے جانتی ہے۔
اصلاح کا حسین انداز: آخری نبی محمد عربی ﷺ کو جب کسی کی
کوئی نا گوار بات معلوم ہوتی تو اس کا پردہ بھی رکھتے اور اصلاح کے لیے یوں فرماتے
(یعنی) لوگوں کو کیا ہو گیا جو ایسی ایسی بات کہتے ہیں۔(ابو داود، 4/ 328، حدیث: 4788)
حوصلہ شکنی کے نقصانات: حوصلہ افزائی سے مثبت سوچ پروان چڑھتی
ہے جبکہ حوصلہ شکن رویوں سے منفی سوچ پیدا ہوتی ہے، جس کی وجہ سے معاشرتی و
نفسیاتی نقصانات ہوتے ہیں مثلاً نا امیدی، احساس کمتری، ڈپریشن، ذہنی تناؤ اور
ناکامی کا خوف بڑھتا ہے۔ گھر، دفتر اور اداروں کا ماحول خراب ہوتا ہے۔ جس کی حوصلہ
شکنی کی جاتی ہے وہ آئندہ آپ کے قریب آنے سے بھی کتراتا ہے اور آپ سے اپنے مسائل
بھی کہنا چھوڑ دیتا ہے۔
کس کی حوصلہ شکنی ضروری ہے؟ اگر کسی کا کوئی برا کام دیکھیں
تو اسکی حوصلہ شکنی ضرور کریں تاکہ وہ آئندہ اس کام سے باز رہے مثلاً بچے نے کسی
کو مارا، گالی دی یا اسکول میں دوسرے بچے کی کوئی چیز چرا لی تو والدین کو چاہیے
کہ اسکا نوٹس لیں تا کہ بچہ آئندہ کبھی ایسی حرکت نہ کرے، اگر ابھی بچے کی غلطی
نظر انداز کر دی تو وہ آئندہ اس سے بھی بڑی بڑی غلطیاں کر سکتے ہیں۔ اللہ نہ کرے
وہ بچے بڑے ہو کر چوریاں کریں، ڈکیتیاں کریں۔پھر پچھتانے سے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔

جب چل پڑے ہو سفر کو تو پھر حوصلہ رکھو
صحرا کہیں کہیں پہ سمندر بھی آئیں گے
ہماری
زندگی میں بہت سی خوبیوں کے ساتھ ساتھ خامیاں بھی موجود ہیں جن میں ایک حوصلہ شکنی
بھی ہے حوصلہ شکنی محض دشمنی کی بنا پر نہیں ہوتی بلکہ کسی سے ہمدردی کرتے ہوئے
بھی اس کی حوصلہ شکنی ہو جاتی ہے حوصلہ شکنی ایسا مسئلہ ہے جو ہمیں آگے بڑھنے سے اور
کامیاب ہونے سے روکتا ہے جب ہم حوصلہ شکن ہو جاتے ہیں تو ہم اپنے آپ پر شک کرنے
لگتے ہیں اور اپنی منزل کو پانے کی ہمت
کھو دیتے ہیں۔ یاد رکھیے!ہماری ایک تھپکی کسی کو کامیابی کی اونچائیوں تک پہنچا
سکتی ہے جبکہ ایک دل شکنی کسی کو کامیابی سے ناکامی کی کھائی میں گرا سکتی ہے کسی
کے اخلاق کو سنوارنے کے لیے بہت محنت کرنی پڑتی ہے اور مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے
جبکہ بگاڑنا بہت آسان ہے جو انسان کی ہمت کو توڑ دیتی ہے اس کو حوصلہ شکنی کہتے
ہیں۔
ایک
حدیث پاک مروی ہے: لوگوں میں سب سے بہترین وہ ہے جو دوسروں کو نفع دے۔ (کنز
العمال، جز: 16، 8/54، حدیث: 44147)
حوصلہ شکنی کیسے پروان چڑھتی ہے؟ کسی کی پہلی
غلطی پر مکمل ناکام قرار دے دینا: اس سے متعلق ہمیں سوچنا چاہیے کہ بچہ جب چلتا ہے
تو پہلے اس کے قدم ڈگمگاتے ہیں پھر چلنا سیکھتا ہے، اچھی کارکردگی پر حوصلہ افزائی
نہ کرنا، مختلف تبصرے کرنا: جیسے تو نہیں کر سکتا، تیرے بس کا کام نہیں، تو کسی
کام کا نہیں،گوار کہنا، کسی کی معذرت قبول نہ کرنا، کسی سے تقابل کرنا: وہ کر سکتا
ہے تم نہیں کر سکتے، ایک ہی طرح کی کارکردگی دکھانے والے دو افراد میں ایک ہی ایک
کی تعریف کرنا، ہر غلطی پر پرانی غلطیوں کی لسٹ کھول لینا، مصیبت زدہ کی دلجوئی
کرنے کے بجائے ذمہ ٹھہرا دینا، کسی کی کامیابی پر خوش ہونے کی بجائے طنزیہ کہہ
دینا یہ کون سا بڑا کام ہے، مشورہ دینے پر مذاق اڑانا وغیرہ۔
حوصلہ شکنی کے نقصانات و نتائج: حو صلہ افزائی
سے مثبت سوچ پروان چڑھتی ہے جب کہ حوصلہ شکنی سے منفی سوچ پروان چڑھتی ہے جس کی
وجہ سے معاشرتی نفسیاتی نقصانات ہوتے ہیں مثلا نا امیدی،احساس کمتری،ڈپریشن،
ناکامی کا خوف پھیلتا ہے۔ حوصلہ شکنی سے دماغی تناؤ بڑھ سکتا ہے جس کی وجہ سے
کمزوری نیند کی کمی جیسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے،صلاحیتوں میں کمی ہو
سکتی ہے، جس کی وجہ سے آپ کسی کے سامنے کھل کر بات نہیں کر سکتے، ذہنی کمزوری کا
باعث بن سکتی ہے جس کی وجہ سے آپ حوصلہ شکنی کرتے ہیں آئندہ وہ آپ کے قریب نہیں
آئے گا اور اپنے مسائل شیئر کرنا چھوڑ دے گا۔

قارئین!
ہماری سوشل لائف میں خوبیوں کیساتھ ساتھ بہت سی کمزوریاں بھی موجود ہیں جن میں سے
ایک حوصلہ شکنی بھی ہے یاد رکھیے! ہماری ایک تھپکی کسی ہو پہاڑ پر چڑھنے کا حوصلہ
بھی دے سکتی ہے جبکہ ایک دل شکنی کھائی میں گرا سکتی ہے کسی کی زندگی سنوارنے
کیلیے بہت محنت کرنا پڑتی اور مشکلوں سے گزرنا پڑتا ہے جبکہ بگاڑنا بہت آسان ہے
صرف اسکی ہمت توڑنے کی دیر ہوتی ہے اسی کو حوصلہ شکنی کہتے ہیں۔
حوصلہ شکنی کے نقصانات: حوصلہ افزائی سے مثبت سوچ پروان چڑھتی
ہے جبکہ حوصلہ شکن رویوں سے منفی سوچ پیدا ہوتی ہے جسکی وجہ سے نفسیاتی اور
معاشرتی نقصانات ہوتے ہیں مثلا:ناامیدی، احساس کمتری، ڈپریشن، پست ہمتی اور ناکامی
کا خوف پھیلتا ہے گھر، دفتر، اور کلاس روم کا ماحول خراب ہوتا ہے جسکی آپ حوصلہ
شکنی کرتے ہیں وہ آئندہ آپکے قریب آنے سے کتراتا ہے اور آپ سے اور آپ سب اپنے
مسائل شیئر کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔
ہمارا
شمار کن لوگوں میں ہوتا ہے اس دنیا میں دونوں طرح کے لوگ ہیں: حوصلہ افزائی کرنے
والے اور حوصلہ شکنی کرنے والے ہم غور کریں ہمارا شمار کن لوگوں میں ہوتا؟ شاید آپ
یہ کہیں کہ کے ہم نے کبھی کسی کی حوصلہ شکنی نہیں کی تو گزارش ہے کہ یہ کہہ کر کسی
کا حوصلہ نہیں توڑا جاتا کہ میں تمہاری حوصلہ شکنی کر رہی ہوں بلکہ حوصلہ شکنی
کیسے ہوتی ہے؟ میں آپکے سامنے چند صورتیں اور مثالیں رکھتی ہوں کہ کس کس طرح حوصلہ
شکنی ہو سکتی ہے چنانچہ
اچھی
کارکردگی پر حوصلہ افزائی نہ کرنا، مختلف
تبصرے کرنا مثلا تو نہیں پڑھ سکتا، تجھ سے نہیں ہوگا، تیرے بس کی بات نہیں، تم
نکمے ہو، نا اہل ہو وغیرہ، کسی کی پہلی غلطی پر ناکام قرار دے دینا۔ ایسوں کو
سوچنا چاہیے کی انسان پچپن میں پہلا قدم اٹھاتے ہی دوڑنے نہیں لگ جاتا بلکہ گرتا
ہے پھر اٹھتا ہے اور ایک وقت آتا ہے کہ وہ دوڑنا شروع کرتا ہے، کلاس روم میں سنانے
میں اٹکنے پر اسکو اپنی غلطی دور کرنے کا موقع دیئے بغیر کسی اور طالب علم کو سبق
پڑھنے کا کہہ دینا، کسی کی معذرت قبول نہ کرنا بلکہ بہانے قرار دینا، دوسروں کے
سامنے اپنے پچوں کی صرف خامیاں ہی بیان کرنا اور کسی سے اہم بات کے دوران فون یا
کسی اور کے ساتھ غیر اہم باتوں میں مصروف ہو جانا۔
ہمیں
غور کرنا چاہیے کہ آج تک ہم سے کتنے لوگوں کی حوصلہ شکنی ہو چکی ہے بلکہ بعضوں کی
دل آزاری بھی ہوئی ہو گی، چلئے! جب آنکھ
کھلی ہوا سویرا اب جاگ جائیے اور اپنا
حوصلہ شکن رویہ تبدیل کر لیجیے، جنکا دل دکھایا ان سے معافی مانگ لیجیے بالخصوص وہ
حضرات جن کے ماتحت کچھ نہ کچھ لوگ ہوتے ہیں جیسے ماں باپ، استاد، مرشد، نگران،
پرنسپل، انہیں خوب احتیاط کرنی چائیے کہ انکی بات زیادہ اثر کرتی ہے۔
حوصلہ
شکنی کے منفی اثرات اور نقصانات سے بچنے کیلیے مفید ٹپس پیش خدمت ہیں:
1۔
جہاں سے حوصلہ افزائی کی امید ہو وہیں سے حوصلہ شکنی ہو جائے تو خود کو سنبھالنا
مشکل ہو جاتا اس لیے اگر اس شعر کے مصداق بن جائیں گے تو ایزی رہیں گے
نہ ستائش کی تمنا مجھے نہ خطرۂ ذم
نہ کسی واہ کی خواہش نہ کسی آہ کا غم
(یعنی
مجھے تعریف کی خواہش ہے نا مذمت کا خوف اسی طرح مجھے اپنی واہ واہ کروانے کی تمنا
نہ کسی آہ کا غم ہے)
2۔ اپنا
مزاج دریا کی طرح بنا لیجیے جو رکتا نہیں ہے بلکہ پتھروں اور چٹانوں کے درمیان سے
راستہ بنا کر چلتا رہتا ہے
3۔ دل
بڑا رکھیے، چکنا شیشہ نہیں بلکہ فوم کے گدے کی طرح بنیں جس پر گرم یا ٹھنڈا جو بھی
پانی گرے اسے پی جاتا ہے۔
4۔
ناکامی اور حوصلہ شکنی کامیابی کے راستے میں آنے والے نوکیلے پتھر ہیں، ان سے
خوفزدہ ہوں گے تو کامیابی کا سفر رک جائے گا اس لئے اپنے دل سے ناکامی کا خوف اور
حوصلہ شکنی کا ڈر جتنا نکال سکتے ہیں نکال دیجیے۔
5۔
حوصلہ شکنی اسی کی ہوتی ہے جس سے غلطی ہوتی ہے اور غلطی اسی سے ہوتی ہے جو کام
کرتا، حادثہ اسی کار کو پیش آسکتا ہے جو روڈ پر آتی ہے گیرج میں کھڑی گاڑی کو نہیں
اس لئے ہمت بڑی رکھئے۔
6۔ آپ
پہلے اور آخری فرد نہیں جسکی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ حوصلہ شکنی کے واقعات سے تاریخ
بھری پڑی ہے۔
ہمارے
مکی مدنی آقا ﷺ کی کفار کیطرف سے کیسی کیسی حوصلہ شکنی کی گئی (معاذ اللہ) مجنون
کہہ کر پکارا گیا، یہی نہیں بلکہ بعض رشتی دار مخالفت پر اتر آئے جن میں ابو لہب
جو آپکا چچا تھا پیش پیش تھا، طائف کے سفر میں آپ پر پتھر برسائے گئے مشرکین کے
ناروا سلوک کیوجہ سے اپنا شہرمیلاد مکہ مکرمہ چھوڑ کر مدینہ جانا پڑا، آپکو اتنا
ستایا گیا کہ فرمایا اللہ کی راہ میں، میں سب سے زیادہ ستایا گیا ہوں۔ (ترمذی، 4/213،
حدیث: 2480) لیکن آپ نے اس ہمت اور صبر سے حالات سے مقابلہ کیا کہ عقلیں حیران رہ
جاتی ہیں۔
پھر
صحابہ کرام علیہم الرضوان کو اسلام پر حوصلہ شکن رویوں کا سامنا کرنا پڑا، کسی کی
ماں نے بات چیت چھوڑ دی تو کسی کو باپ نے ظلم کا نشانہ بنایا، کسی کو تپتی ریت پر
لٹا کر سینے پر وزن رکھ دیا جاتا اور مطالبہ کیا جاتا اسلام چھوڑ دو لیکن راہ حق
پر چلنے والوں کے قد ذرا بھی نا ڈگمگائے۔
بزرگان
دین کے حالات و واقعات پڑھیے تو آپکو سینکڑوں مثالیں مل جائیں گی کہ حوصلہ شکنی کو
خاطر میں نہیں لائے اور اپنے مقصد کو پانے میں کامیاب رہے۔ موجودہ زمانے میں
امیراہلسنت علامہ محمد الیاس قادری دامت برکاتہم العالیہ کو دیکھ لیجیے آپ دنیائے
اسلام کی عظیم تحریک دعوت اسلامی کے بانی اور امیر ہیں، کم و بیش 43 سال پہلے جب
دعوت اسلامی کے کام کو بڑھانے کیلیے کوشاں تھے حوصلہ افزائی کرنے والے کم اور
حوصلہ شکنی کرنے والے لوگ زیادہ تھے لیکن امیراہلسنت دامت برکاتہم العالیہ کی اپنے
مقصد سے سچی لگن، کام کرنے کی دھن اور مسلمانوں کو نیکی کے راستے پر گامزن کرنے کی
کڑھن رنگ لائی اور الحمد للہ آج دنیا بھر میں دعوت اسلامی سے لاکھوں کروڑوں عاشقان
رسول وابستہ ہیں۔
پیاری
پیاری اسلامی بہنو! اس طرح کے کئی واقعات خود آپ یا آپکے جاننے والوں کیساتھ پیش
آئے ہوں گے۔ اس لیے دل بڑا رکھیے اور اپنا ذہن بنا لیجیے کہ حوصلہ شکنی کرنے والے
نے اپنا کام کیا، اسکے بعد آپکو چاہیے کہ کامیابی کیطرف اپنا سفر تیز کر دیں۔ اللہ
کریم ہمیں نیک و جائز مقاصد میں کامیابی نصیب فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین

حوصلہ
شکنی کا معنی(ہمت توڑنے والا مایوس کن بزدل بنانے والا )موجودہ دور میں اکثر لوگ
شخصیتی بحران (identity
crisis )کے شکار ہیں جس کی وجہ سے وہ محفلوں میں
بھی تنہائی محسوس کرتے ہیں اور اپنے اندر حوصلے کی اور اعتماد کی کمی پاتے ہیں اس
کی ایک وجہ حوصلہ افزائی کی کمی ہے آج ہم میں سے اکثر لوگ آپس میں طنز تو بہت کرتے
ہیں لیکن حوصلہ افزائی بہت کم اسی طرح چاپلوسی بےجا تعریف تو بہت کرتے ہیں لیکن
رہنمائی بہت کم، ہم حقوق اللہ تو ادا کرتے ہیں لیکن حقوق العباد بھول جاتے ہیں کہ
بندوں کے حقوق سب سے پہلے ہیں مسلمانوں کی دل آزاری کی جاتی ہے اور ان کے حوصلوں
کو توڑا جاتا ہے جس کے سبب سے بہت تکلیف ہوتی ہے اور مومن کو تکلیف دینا گناہ اور
جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔ قرآن پاک میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ الَّذِیْنَ
یُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ بِغَیْرِ مَا اكْتَسَبُوْا فَقَدِ
احْتَمَلُوْا بُهْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا۠(۵۸) (پ
22، الاحزاب: 58) ترجمہ کنز الایمان: اور جو ایمان والے مردوں اور عورتوں کو بے کئے
ستاتے ہیں انہوں نے بہتان اور کھلا گناہ اپنے سر لیا۔
ہم سب
ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے مسلمان بھائی کو کوئی بھی تکلیف
نہ پہنچائیں جو اس کی دل آزاری اور حوصلہ شکنی کا باعث بنے ہمارے بزرگوں کی سیرت
سے ہمیں سیکھنے کو ملتا ہے کہ حوصلہ شکنی کے بجائے حوصلہ افزائی کی جائے چنانچہ
ایک بار حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے ایک آیت کی تفسیر کے بارے میں
سوال کیا؟ لوگ جواب نہ دے سکے لیکن آپ کے شاگرد حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ
نے عرض کیا کہ اس کے متعلق میرے ذہن میں کچھ ہے آپ رضی اللہ عنہ نے ان کی حوصلہ
افزائی کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: اے میرے بھتیجے! اگر تمہیں معلوم ہے تو ضرور بتاؤ
اور اپنے آپ کو حقیر نہ سمجھو۔ (بخاری، 3/186، حدیث: 4538)
ہم سب
کو اکثر یہ احساس ہوتا ہے کہ ہمیں کوئی سراہے ہمارے حوصلے کو بڑھائے ہمارے جذبے کو
ہماری ہمت کو (boost
up) کرے اسے انرجی دے اسے صحیح سمت دے لیکن ہم
بھول جاتے ہیں کہ اگر ہمیں کسی کے حوصلوں کی ضرورت ہے تو کسی کو ہمارے حوصلوں کی
بھی ضرورت ہے ہمیں اس مثبت سوچ کو بیدار کرنا ہوگا پروان چڑھانا ہوگا کہ ہم لوگوں
کی حوصلہ افزائی کریں اور حوصلہ شکنی سے باز رہیں۔
حوصلہ
شکنی کے درج ذیل نقصانات ہوتے ہیں: حوصلہ افزائی سے مثبت سوچ پروان چڑھتی ہے جبکہ
حوصلہ شکن رویوں سے منفی سوچ بیدار ہوتی ہے جس کی وجہ سے معاشرتی اور نفسانی
نقصانات ہوتے ہیں، حوصلہ شکنی سے خود
اعتمادی میں کمی آتی ہے نا امیدی، احساس کمتری، ڈپریشن، ذہنی انتشار، پست ہمتی اور
ناکامی کا خوف پھیلتا ہے اور جس کی آپ حوصلہ
شکنی کرتے ہیں وہ آئندہ آپ کے قریب آنے سے کتراتا ہے اور آپ سے اپنے مسائل شیئر
کرنا چھوڑ دیتا ہے۔
حوصلہ
شکنی کس کی کی جائے؟ اگر کوئی برا کام کرے تو اس کی حوصلہ شکنی کریں اور یہ حوصلہ
شکنی جائز ہے اور تھوڑا سختی کے ساتھ سمجھائیں تاکہ وہ آئندہ اس کام سے باز رہے
مثلا بچے نے کسی کو مارا گالی دی یا سکول میں کوئی برا کام کیا تو والدین کو چاہیے
کہ اس کو سمجھائیں تاکہ وہ آئندہ ایسی حرکت نہ کریں اسی طرح اگر کوئی گناہوں بھرے
کام کر رہا ہے تو اسے گناہوں سے روکا جائے اس کی حوصلہ شکنی کی جائے تاکہ وہ
گناہوں سے باز آجائیں یہ حوصلہ شکنی جائز ہے اور حرام کام پر بھی حوصلہ شکنی کی
جائے تاکہ حرام سے بچ کر نیکیوں والی زندگی گزاریں۔
ہمارے
پیارے آقا ﷺ کی کفار کی طرف سے کیسی کیسی حوصلہ شکنی کی گئی معاذ اللہ مجنون کہہ
کر پکارا گیا یہی نہیں بلکہ بعض رشتہ دار تو مخالفت پر اتر آئے جن میں ابو لہب جو
آپ کا چچا تھا پیش پیش تھا تین سال تک آپ کا اور خاندان والوں کا سوشل بائیکاٹ کیا
گیا اسی دوران آپ شعب ابی طالب نام کے علاقے میں محصور رہے سجدے کی حالت میں
اونٹنی کی بچہ دانی مبارک کمر پر رکھ دی گئی طائب کے سفر میں آپ پر پتھر برسائے
گئے کہ آپ کو مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ جانا پڑا آپ کو اتنا ستایا گیا
کہ فرمایا اللہ کی راہ میں میں سب سے زیادہ ستایا گیا ہوں۔ (ترمذی، 4/213، حدیث:
2480) لیکن آپ نے اس ہمت اور صبر سے حالات کا مقابلہ کیا کہ عقلیں حیران رہ جاتی
ہیں۔
اے
عاشقان رسول! اس طرح کے کئی واقعات خود آپ یا آپ کے جاننے والوں کے ساتھ پیش آئے ہوں
گے اس لیے دل بڑا رکھیے اور اپنا ذہن بنا لیجئے کہ حوصلہ شکنی کرنے والے نے اپنا
کام کیا اس کے بعد آپ کو چاہیے کہ کامیابی کی طرف اپنا سفر تیز کر دیں اللہ پاک
ہمیں نیک و جائز مقاصد میں کامیابی نصیب کرے۔ آمین

اللہ
پاک کا بہت بڑا فضل و احسان ہے کہ جس نے ہمیں مسلمان بنایا اور لا تعداد نعمتوں سے
نوازا، ان نعمتوں پر اللہ پاک کا جتنا شکر ادا کریں کم ہے۔ اللہ پاک کی ان نعمتوں
میں سے ایک نعمت زبان بھی ہے اور اس کا اچھا استعمال کرنا اس کا شکر ادا کرنا ہے، جیسا
کہ تصوف کے امام، امام غزالی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: زبان کا شکر یہ ہے کہ اس
نعمت پر اللہ پاک کی حمد و ثنا بیان کی جائے تو اسی طرح گفتگو کرنا بھی ایک بہت
بڑا فن ہے اسکو با قاعدہ سیکھا جاتا ہے اور سیکھنا بھی چاہیے کیونکہ گفتگو ہماری
زندگی کا ایک خاص حصہ ہے۔
گفتگو
بھی ایک فن ہے جسے سیکھا جاتا ہے۔ آپ کی ذات کا پہلا تعارف آپکی گفتگو ہے۔ ایک
کہاوت ہے کہ بول کہ تو پہچانا جائے کبھی بھی شریعت کے خلاف مت بولئے زبان کے خلاف
جتنے بھی ممکنات گناہ ہیں اس سے ہمیں اپنے آپکو بچانا ہے۔ ہماری گفتگو کی سب سے
بڑی خوبی یہ ہونی چاہئے کہ زبان غیبت،چغلی،وعدہ خلافی، گالی گلوچ،حوصلہ شکنی، دھوکا
وغیرہ ان سب چیزوں سے خالی رہے۔
1۔ لوگوں
کی تعریف اور حوصلہ افزائی کیجئے: خواہ آپ کوئی شخصیت ہوں یا آپ کوئی مدنیہ ہوں یا
استاذ ہوں، جب ہماری ما تحت کوئی غلطی کرتی ہے تو ہم اس کی کیسی خبر لیتے ہیں اسے کتنا
ذلیل و رسوا کرتے ہیں اس کا حال برا کر دیتے ہیں، مگر جب وہی ہمارا ما تحت اگر
کوئی اچھا کام کرتا ہے تو ہم اسکی کتنی تعریف کرتے ہیں اور خاص طور پر اگر آپ Leading
منصب پر ہیں تو اپنی گفتگو میں حوصلہ افزائی زیادہ شامل کریں اور دل شکنی عام زبان
میں جسے کھنچائی کرنا کہتے ہیں پوچھ گچھ کرنا، سختی کرنا اس کا فیصد کم رکھنا
چاہیے اور یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کوئی طالب علم ہے وہ سکول نہیں جانا چاہتا اسی
طرح ملازم کام پر جانے سے بھی جی چراتا ہے اسکی کافی وجوہات ہو سکتی ہونگی لیکن
ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ انکی بے عزتی کا خدشہ طالب علم کو استاد سے اور ملازم
کو اپنے مالک سے۔
یاد
رکھیں اگر ہمیں اچھا گفتگو کرنے والا بننا ہے تو ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی گفتگو میں
حوصلہ افزائی زیادہ سے زیادہ رکھیں اسی طرح اگر آپ کسی بڑے منصب پر فائز ہیں Boss
ہیں، استاد ہیں۔ جب کسی سے آپ سختی سے بات کرتے ہیں تو کیوں کرتےہیں؟ کہ میرا ما
تحت صحیح انداز میں کام کرے اسکی Productivity بڑھے۔ یاد رکھئے Productivity
اس وقت بڑھے گی جب وہ ( آپ کاماتحت یا آپ کاطالب علم ) آپ سے محبت کریگا۔ جب وہ آپ
کے ساتھ کام کرنے میں خوشی محسوس کرے گا۔
وہ
ادارے جس میں ماتحت افراد خوش دلی سے کام نہیں کرتے خواہ آپ ان کوگالیاں دے لیں،
خواہ آپ ان کو بے عزت کر لیں، خواہ ان کی کھنچائی کر لیں، خواہ آپ جو مرضی کر لیں
وہ صرف اور صرف اپنی نوکری کو بچانے کی حد تک کام کریگا۔ اس سے بڑھ کر کوئی کام
نہیں کریگا۔ امیر اہلسنت جو ہمارے لئے اس زمانے میں بہترین مثال ہیں، جنہوں نے
لاکھوں کو اپنے پیچھے چلایا آپ فرماتے ہیں: میں نے دعوت اسلامی کا جو کام کیا اور
جو میں نے اسلامی بھائیوں کو آگے بڑھایا دونوں ہاتھوں سے پیٹھ تھپک کر بڑھایا!
ایک
غلط فہمی کا ازالہ: ایسا نہ ہو کہ استاد اپنے شاگرد سے پوچھ گچھ ہی نہ کرے اگر Boss ہے تو ماتحت سے کچھ بھی نہ پوچھے۔ جب آئے، جب جائے، ایسا بھی نہیں
ہوناچاہیے۔ پوچھ گچھ کیجئے، سوالات کیجئے، مگر اصولوں کے ساتھ، طریقہ سے یاد رکھئے!
پوچھ گچھ کرنا الگ ہے بے عزتی کرنا الگ ہے وقت پر کام طلب کرنا اور ہے بے عزتی
کرنا اور ہے اصلاح کرنی ہو تو سب کے سامنے مت کیجئے اور حوصلہ افزائی کرنا ہو تو
سب کے سامنے کیجئے۔
میرے
پیارے آقا مدینے کے داتا ﷺ جب کوئی غلطی دیکھتے یا کوئی ایسا کام دیکھتے جو مناسب
نہ ہوتا تو منبر اقدس پر تشریف لاتے اور لوگوں کو جمع فرماتے بغیر نام لئے ہوئے
ارشاد فرماتے: لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ ایسا ایسا کرتے ہیں۔ (ابو داود، 4/ 328، حدیث: 4788)مطلب
یہ ہے کہ There
is something wrong کچھ مسئلہ ہے مگر جس نے غلط
کیا سب کے سامنے اس کا بیان بھی نہ ہو۔ نہ جانے وہ اس وقت موجود ہو یا اگرنہ ہو تو
بھی اصلاح کرلے گا۔ ہم غور کریں کہ ہمارا انداز کیسا ہوتاہے کہ سب کے سامنے جھاڑ
دیتے ہیں اصلاح کی نیت سے۔
2۔
قطع تعلق والے جملے استعمال نہ کیجئے: بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ لوگ ایسا کہہ
دیتے ہیں کہ آج کے بعد تم کتنے ہی اچھے بن کر آجاؤ میرے دل میں جگہ نہیں بن سکتی
یقین کریں کہ یہ کہنے کے بعد گویا کہ آپ نے اس شخص کو ہمیشہ کے لیے اپنے آپ سے دور
کر لیا اب تم سونے (Gold) کے بھی بن کر آجاؤ میرے کسی کام کے نہیں پھر
ایسی گفتگو کرنے کے باعث لوگ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ کوئی میرے قریب نہیں آتا
معاشرہ سارا خراب ہو گیا و غیره۔ معاشرہ خراب ہوا یا نہیں ہوا الگ بات ہے مگر ان
کی گفتگو ضرور خراب ہوگئی یاد رکھئے! ایسے جملے کبھی نہیں کہنے چاہئیں جس سے آپ لوگوں
کو ہمیشہ کے لئےدور کر دیں۔
جب آپ
کسی کو اس طرح کے جملے ادا کر کے اپنے آپ سے دور کر دیتےہیں تو آہستہ آہستہ اکیلے
پن کا شکار ہونا شروع ہو جاتے ہیں
خاص
طور پر جو بڑے افراد ہوتے ہیں جن کی قدر Value ہوتی ہے جن کی گفتگو کو serious
لیا جاتا ہے انہیں اس بات کا احساس کرنا چاہیے دھیان رکھنا چاہیے والدین اپنے بچوں
کو بعض اوقات اس طرح کی باتیں کہہ دیتے ہیں بچے بڑےحساس ہوتے ہیں وہ والدین کی ایک
ایک بات کو بڑا اہمserious تصور کرتے ہیں۔ کیا پتہ آپ کا بچپن میں کہا
گیا کوئی ایک جملہ انہیں بڑے ہونے تک یاد رہ جائے اور وہ آپ سے دوری کا سبب ہو
جائے لہذا ہمیں اس طرح کے جملوں سے بچناچاہیے اگر اس rule
کو ہم follow
کریں گے تو لوگوں کو خود سے دور کرنے سے بچیں گے۔
3۔ القاب
استعمال کیجئے: ہمیں یہ خیال رکھنا ہوتا ہے کہ ہم جس کے ساتھ بات کر رہے ہیں اگر
وہ کوئی قابل قدر شخص ہے جس کا کوئی لقب Title بنتا ہے تو ہمیں وہ لقب Title
استعمال کرناچاہیے اس کی بنیاد یہ ہے کہ دنیا میں 2 چیزیں ایسی ہیں جو خرچ کرنے سے
بڑھتی ہیں:
(1)
علم: جتنا آپ خرچ کریں گے جتنا آپ share کریں گے جتنا آپ لوگوں کودیں گے اللہ کی
رحمت سے اس سے بڑھ کر آپ کو ملے گا۔
(2)
عزت: عزت دینے سے بڑھتی ہے اگر آپ کسی کو عزت دیں گے آپکی عزت میں کمی نہیں ہوگی
بلکہ آپکی عزت میں اضافہ ہو گا جتنی محبت دیں گے جتنی عزت دیں گے ان شاء اللہ اس
سے بڑھ کر آپ کو ملے گا۔ بعض لوگ جب گفتگو کرتے ہیں تو یہ سوچتے ہیں جب تک آگے
والے کو نیچا نہ دکھائے اس کی بے عزتی اگر نہ کی دل آزاری نہ کی تو انکو لگتا ہے
مزہ نہیں آیا اور بعض لوگ تو معاذ اللہ گالیاں دیتے ہیں، دل شکنی کرتے ہیں برے نام
رکھتےہیں اور بعض لوگ کسی آگے والے کا مذاق اڑانا اسکے عادی ہوتے ہیں اگر چار لوگ
بیٹھے ہوں تو کسی نہ کسی ایک کو نشانہ target بنا لیتے ہیں مثلا اس کے لباس پر، اس کی شکل
پر، اس گفتگو پر کسی کمزور چیز کو لے کر اس کو برا بھلا کہیں گے۔ اور یہ سمجھتے
ہیں کہ میں بڑا فنکار ہوں، زبردست گفتگو کرنے والاہوں مگر ایسا نہیں۔
ہو
سکتا ہے کہ آپ کے سامنے مسکرا رہا ہے لیکن یاد رکھیں! یہ خوشی کی ہنسی نہیں بلکہ
کھسیانی ہنسی ہوتی ہے۔ کون چاہتا ہے کہ چار لوگوں کے سامنے کوئی اسکی بے عزتی کرے،
اسکا برا نام رکھاجائے، اسکا مذاق اڑایا جائے جیسے آپ نہیں چاہتے کہ کوئی آپ کے
ساتھ ایسا کرے اسی طرح کوئی بھی نہیں چاہتا کہ اس کے ساتھ یہ معاملہ ہو۔
فرمان
امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ: چھوٹے سے بچے کو بھی حوصلہ افزائی کی ضرورت
ہوتی ہے اور بڑی عمر کے شخص، بزرگ کو بھی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہوتی ہے حوصلہ
افزائی کا سب سے اہم حصہ وہ الفاظ ہوتے ہیں۔
اسکے چند طریقے:
(1)
سب سے پہلے ہمیں اپنا یہ ذہن بنانا ہے کہ آج کے بعد مجھے اپنی گفتگو میں حوصلہ
افزائی کرنی ہے ایک اس کا طریقہ یہ ہے کہ سامنے والے کا اگر کوئی لقب title
ہے تو اس کو پکاراجائے مثلا اگر کوئی مفتی صاحب ہے انکا کوئی نام بھی تو ہو گا آپ ان
کا نام لیکر بات کریں یا مفتی صاحب کہہ کر بات کریں یقینا انکا نام استعمال ہونے
پر اتنا خوش نہیں ہونگے جتنا ان کا لقب (مفتی صاحب)استعمال کرنے پر خوش ہونگے، اسی
طرح اگر کوئی حافظ قرآن ہے تو اگر اس کا نام لے کر بھی پکاریں گے تو بھی بات ہو
جائے گی لیکن جب ان کو حافظ صاحب کہہ کر مخاطب کریں گے تو بہت خوشی ملے گی۔ تو جس
کا title
ہو لیکن جھوٹ نہیں ہونا چاہیے بلا وجہ مبالغہ نہیں ہونا چاہیے اور وہ واقعی اس لقب
کا مستحق ہے تو استعمال کرنا چاہیے۔
کسی
نے کہا کہ ایک وقت تھا کہ لوگوں کو دیکھ کر القاب title
بنائے جاتے تھے کہ شمس العلماء (یعنی علماء میں مثل سورج ) یہ ایک بہت بڑے فقیہ کا
لقب ہے کہ انکا علم اتنازیادہ تھا کہ انکو شمس العلماء کا لقب خطاب دیا گیا اور آج
زمانہ یہ ہے کہ لوگ لقب کے ذریعے اپنی شخصیت بنانا چاہتے ہیں یہ خرابی ہے جسے ہمیں
اصلاح کرنی ہے کہ خواہ مخواہ کے لقب نہیں دینے کہ وہ مستحق ہی نہیں قابل ہی
نہیں ہم کہہ رہے ہیں علامہ صاحب اور اس کو
دو مسئلہ بھی نہیں آتے جو غلط ہے وہ غلط ہیں سب آگے نہیں بڑھانا ہے۔
اعتراض
کہ یہ تو علماء دین دار لوگوں کی بات ہو گی اب عام لوگوں میں بھی کیا یہی معاملہ
رکھنا ہے؟ جی ہاں! آپ کے بچوں میں بھی کچھ خصوصیت ہوتی ہے آپ ان کی حوصلہ افزائی کیجئے
اگر کسی بچے کے اندر کوئی اچھی خصوصیت ہے تو اس کا تذکرہ کیجیے ہم برائیاں تو بہت
بیان کرتے ہیں لیکن اس کی خصوصیات بیان کریں یاد رکھئے! فن گفتگو میں یہ بات کہی
جاتی ہے کہ جتنا آپ گفتگو میں اچھی چیزوں کاتذکرہ کرتے ہیں اتنا ہی ماحول میں اچھی چیزوں کا اضافہ ہوتا ہے
اسی طرح جس ماحول میں بری چیزوں کا تذکرہ زیادہ ہوگا وہ برائیاں repeat
ہوتی رہیں گی بار بار ہوتی رہیں گی۔
سائنسی
تحقیق کے مطابق ہم وہی کرتے ہیں جو ہمارے دل و دماغ میں ہوتا ہے اور حقیقت بھی یہی
ہے کہ بات کرنے سے پہلے دماغ حکم دیتا ہے پھر منہ گفتگو کرتا ہے ہم جو بھی کرتے
ہیں اپنے ذہن کے مطابق کرتے ہیں اگر ہم اپنے بچے کو، ماتحت کو، ساتھی کو کسی بھی
شخص کو برے القابات سے پکاریں گے تو بار بار وہ بات اس کے دماغ میں مضبوط اور پختہ
ہوتی چلی جائے گی۔
ایک
تحقیق کی گئی ناکام لوگوں پر تو معلوم ہوا کہ بچپن میں انکے ماں باپ ان کو کہا
کرتے تھے کہ تو کچھ بھی نہیں بن سکتا، تو کسی کام کا نہیں اب اس کی وجہ کیا بنی کہ
ان کے ماں باپ بچپن میں ان کو اس طرح کے جملہ بکثرت کہا کرتے تھے تو یہ باتیں انکے
ذہن میں بیٹھ گئیں اور ان کا ذہن بھی خود کہنےلگا کہ واقعی تو تو کسی کام کا نہیں،
تو تو کچھ بھی نہیں کر سکتا تو واقعی انہوں نے کچھ نہیں کیا اور وہ کچھ نہیں بنے۔
اور
وہ لوگ جو زندگی میں کامیاب ہوئےتو بچپن میں انکے ماں باپ، انکے اساتذہ، انکے
دوستوں نے انہیں کہا تھا کہ بھائی تیرے اندر فلاں بننے کی صلاحیت نظر آتی ہے، تو
تو بہت آگے جائے گا، آپ کی کیا بات ہے آپ تو بہت بڑے آدمی بنیں گے اسی لئے بعض
اوقات ایک جملہ کسی کی زندگی کا turning point بن جاتا ہے۔