قارئین!
ہماری سوشل لائف میں خوبیوں کے ساتھ ساتھ بہت سی کمزوریاں بھی موجود ہیں، جن میں
سے ایک حوصلہ شکنی بھی ہے۔ یاد رکھیے! ہماری تھپکی کسی کو پہاڑ پر چڑھنے کا حوصلہ
بھی دے سکتی ہے، جبکہ دل شکنی کسی کو کھائی میں گرا سکتی ہے۔ کسی کی زندگی سنوارنے
کے لیے بہت محنت کرنا پڑتی ہے اور مشکلوں سے گزرنا پڑتا ہے جبکہ صرف اس کی ہمت
توڑنے کی دیر ہوتی ہے اسے حوصلہ شکنی کہتے ہیں۔
حوصلہ
شکنی ایک ایسا عمل ہے جس میں کسی دوسرے کے حوصلے یا اعتماد کو توڑا جاتا ہے، جس سے
وہ شخص ذہنی یا جذباتی طور پر کمزور پڑ جاتا ہے یہ عمل نہ صرف فرد کی خود اعتمادی
کو متاثر کرتا ہے بلکہ اس سے معاشرتی تعلقات میں بھی دراڑیں آ سکتی ہیں۔
حوصلہ
شکنی کئی صورتوں میں ہو سکتی ہے، جیسے
1) زبان سے: کسی کو اپنی گفتگو سے نیچا دکھانا یا کسی کا مذاق
اڑانا وغیرہ۔
2) منفی رائے یا تنقید: کوشش کرنے والے کی کوشش اور محنت پر
داد نہ دینا یا اس کی اس کاوش کو تسلیم نہ کرنا یا اس پر مسلسل منفی رائے دینا۔
3) نظر انداز کرنا: کسی کی کوششوں اور کامیابیوں کو مسلسل
نظر انداز کرنا یا کسی کے خیالات اور رائے کو مسلسل بے وقعت سمجھنا۔
اسلام میں حوصلہ شکنی کی مذمت: اسلام میں
حوصلہ شکنی کی مذمت کی گئی ہے اور مسلمانوں کو ایک دوسرے کی حوصلہ افزائی کرنے کی
ترغیب دی گئی ہے، چنانچہ اللہ پاک قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ
اٰمَنُوْا لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰۤى اَنْ یَّكُوْنُوْا خَیْرًا
مِّنْهُمْ وَ لَا نِسَآءٌ مِّنْ نِّسَآءٍ عَسٰۤى اَنْ یَّكُنَّ خَیْرًا
مِّنْهُنَّۚ-وَ لَا تَلْمِزُوْۤا اَنْفُسَكُمْ (پ 26،
الحجرات: 11)ترجمہ کنز العرفان: اے ایمان والو! مرد دوسرے مردوں پر نہ ہنسیں،
ہوسکتا ہے کہ وہ ان ہنسنے والوں سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں دوسری عورتوں پر ہنسیں،
ہوسکتا ہے کہ وہ ان ہنسنے والیوں سے بہتر ہوں اور آپس میں کسی کو طعنہ نہ دو۔
بسا
اوقات کسی مسلمان سے بغض ہونے کی وجہ سے بھی اسکی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے، چنانچہ
مسلمان سے بغض رکھنے سے متعلق حدیث مبارکہ میں ہے: آپس کے بغض و عداوت سے بچو
کیونکہ یہ (دین کو) مونڈنے والی(یعنی تباہ کر دینے والی) ہے۔ (گناہوں کی معلومات،
ص 130)
اسی
طرح ارشاد پاک ہے: جو کسی مومن کو ضرر پہنچائے یا اس کے ساتھ مکر اور دھوکہ بازی
کرے وہ ملعون (لعنت کیا گیا) ہے۔ (گناہوں کی معلومات، ص 160) کسی کی حوصلہ شکنی
کرنا اسے نقصان پہنچانے کا سبب ہے۔
حوصلہ شکنی کی صورتیں: اب یہاں آپ کے سامنے حوصلہ شکنی کی
ایسی مثالیں پیش کی جائیں گی جن سے حوصلہ شکنی ہو سکتی ہے:
1)
اچھی کارکردگی پر حوصلہ افزائی نہ کرنا۔ 2) دوسروں کے سامنے اپنے بچوں کی صرف منفی
باتیں بیان کرنا اور مثبت باتوں کو چھوڑ دینا۔ 3) بچوں کو نئے نئے تجربات کرنے سے
ڈرانا۔ 4)کوئی مشورہ دے تو اس کا مذاق اڑانا۔ 5) کسی کی پہلی غلطی پر اسے مکمل
ناکام قرار دے دینا۔ 6) کسی کا دوسروں سے بلا ضرورت تقابل کرنا۔
غلطی کی نشاندہی کا طریقہ: حوصلہ شکنی سے بچنے کا ہرگز یہ
مطلب نہیں کہ کسی کو کچھ سمجھایا ہی نہ جائے، نہ اسے اس کی غلطیاں بتا کر درستگی
کی طرف اس کی رہنمائی کی جائے بلکہ کسی کی غلطی کی نشاندہی کرنے کا احسن انداز
ہونا چاہیے کہ سب سے پہلے اس کے کام میں اس کی سچی خوبیوں کو شمار کر کے اس کی
حوصلہ افزائی کی جائے، پھر مناسب انداز و الفاظ سے اسے اس کے کام میں ہونے والی
خرابیوں اور خامیوں کی طرف توجہ دلائی جائے۔ سبحان اللہ! اصلاح کرنے کا یہی انداز
میرے پیر و مرشد کا ہے جنہیں آج کے اس پرفتن دور میں دنیا امیر اہلسنت، امیر دعوت
اسلامی کے نام سے جانتی ہے۔
اصلاح کا حسین انداز: آخری نبی محمد عربی ﷺ کو جب کسی کی
کوئی نا گوار بات معلوم ہوتی تو اس کا پردہ بھی رکھتے اور اصلاح کے لیے یوں فرماتے
(یعنی) لوگوں کو کیا ہو گیا جو ایسی ایسی بات کہتے ہیں۔(ابو داود، 4/ 328، حدیث: 4788)
حوصلہ شکنی کے نقصانات: حوصلہ افزائی سے مثبت سوچ پروان چڑھتی
ہے جبکہ حوصلہ شکن رویوں سے منفی سوچ پیدا ہوتی ہے، جس کی وجہ سے معاشرتی و
نفسیاتی نقصانات ہوتے ہیں مثلاً نا امیدی، احساس کمتری، ڈپریشن، ذہنی تناؤ اور
ناکامی کا خوف بڑھتا ہے۔ گھر، دفتر اور اداروں کا ماحول خراب ہوتا ہے۔ جس کی حوصلہ
شکنی کی جاتی ہے وہ آئندہ آپ کے قریب آنے سے بھی کتراتا ہے اور آپ سے اپنے مسائل
بھی کہنا چھوڑ دیتا ہے۔
کس کی حوصلہ شکنی ضروری ہے؟ اگر کسی کا کوئی برا کام دیکھیں
تو اسکی حوصلہ شکنی ضرور کریں تاکہ وہ آئندہ اس کام سے باز رہے مثلاً بچے نے کسی
کو مارا، گالی دی یا اسکول میں دوسرے بچے کی کوئی چیز چرا لی تو والدین کو چاہیے
کہ اسکا نوٹس لیں تا کہ بچہ آئندہ کبھی ایسی حرکت نہ کرے، اگر ابھی بچے کی غلطی
نظر انداز کر دی تو وہ آئندہ اس سے بھی بڑی بڑی غلطیاں کر سکتے ہیں۔ اللہ نہ کرے
وہ بچے بڑے ہو کر چوریاں کریں، ڈکیتیاں کریں۔پھر پچھتانے سے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔