قارئین!
ہماری سوشل لائف میں خوبیوں کیساتھ ساتھ بہت سی کمزوریاں بھی موجود ہیں جن میں سے
ایک حوصلہ شکنی بھی ہے یاد رکھیے! ہماری ایک تھپکی کسی ہو پہاڑ پر چڑھنے کا حوصلہ
بھی دے سکتی ہے جبکہ ایک دل شکنی کھائی میں گرا سکتی ہے کسی کی زندگی سنوارنے
کیلیے بہت محنت کرنا پڑتی اور مشکلوں سے گزرنا پڑتا ہے جبکہ بگاڑنا بہت آسان ہے
صرف اسکی ہمت توڑنے کی دیر ہوتی ہے اسی کو حوصلہ شکنی کہتے ہیں۔
حوصلہ شکنی کے نقصانات: حوصلہ افزائی سے مثبت سوچ پروان چڑھتی
ہے جبکہ حوصلہ شکن رویوں سے منفی سوچ پیدا ہوتی ہے جسکی وجہ سے نفسیاتی اور
معاشرتی نقصانات ہوتے ہیں مثلا:ناامیدی، احساس کمتری، ڈپریشن، پست ہمتی اور ناکامی
کا خوف پھیلتا ہے گھر، دفتر، اور کلاس روم کا ماحول خراب ہوتا ہے جسکی آپ حوصلہ
شکنی کرتے ہیں وہ آئندہ آپکے قریب آنے سے کتراتا ہے اور آپ سے اور آپ سب اپنے
مسائل شیئر کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔
ہمارا
شمار کن لوگوں میں ہوتا ہے اس دنیا میں دونوں طرح کے لوگ ہیں: حوصلہ افزائی کرنے
والے اور حوصلہ شکنی کرنے والے ہم غور کریں ہمارا شمار کن لوگوں میں ہوتا؟ شاید آپ
یہ کہیں کہ کے ہم نے کبھی کسی کی حوصلہ شکنی نہیں کی تو گزارش ہے کہ یہ کہہ کر کسی
کا حوصلہ نہیں توڑا جاتا کہ میں تمہاری حوصلہ شکنی کر رہی ہوں بلکہ حوصلہ شکنی
کیسے ہوتی ہے؟ میں آپکے سامنے چند صورتیں اور مثالیں رکھتی ہوں کہ کس کس طرح حوصلہ
شکنی ہو سکتی ہے چنانچہ
اچھی
کارکردگی پر حوصلہ افزائی نہ کرنا، مختلف
تبصرے کرنا مثلا تو نہیں پڑھ سکتا، تجھ سے نہیں ہوگا، تیرے بس کی بات نہیں، تم
نکمے ہو، نا اہل ہو وغیرہ، کسی کی پہلی غلطی پر ناکام قرار دے دینا۔ ایسوں کو
سوچنا چاہیے کی انسان پچپن میں پہلا قدم اٹھاتے ہی دوڑنے نہیں لگ جاتا بلکہ گرتا
ہے پھر اٹھتا ہے اور ایک وقت آتا ہے کہ وہ دوڑنا شروع کرتا ہے، کلاس روم میں سنانے
میں اٹکنے پر اسکو اپنی غلطی دور کرنے کا موقع دیئے بغیر کسی اور طالب علم کو سبق
پڑھنے کا کہہ دینا، کسی کی معذرت قبول نہ کرنا بلکہ بہانے قرار دینا، دوسروں کے
سامنے اپنے پچوں کی صرف خامیاں ہی بیان کرنا اور کسی سے اہم بات کے دوران فون یا
کسی اور کے ساتھ غیر اہم باتوں میں مصروف ہو جانا۔
ہمیں
غور کرنا چاہیے کہ آج تک ہم سے کتنے لوگوں کی حوصلہ شکنی ہو چکی ہے بلکہ بعضوں کی
دل آزاری بھی ہوئی ہو گی، چلئے! جب آنکھ
کھلی ہوا سویرا اب جاگ جائیے اور اپنا
حوصلہ شکن رویہ تبدیل کر لیجیے، جنکا دل دکھایا ان سے معافی مانگ لیجیے بالخصوص وہ
حضرات جن کے ماتحت کچھ نہ کچھ لوگ ہوتے ہیں جیسے ماں باپ، استاد، مرشد، نگران،
پرنسپل، انہیں خوب احتیاط کرنی چائیے کہ انکی بات زیادہ اثر کرتی ہے۔
حوصلہ
شکنی کے منفی اثرات اور نقصانات سے بچنے کیلیے مفید ٹپس پیش خدمت ہیں:
1۔
جہاں سے حوصلہ افزائی کی امید ہو وہیں سے حوصلہ شکنی ہو جائے تو خود کو سنبھالنا
مشکل ہو جاتا اس لیے اگر اس شعر کے مصداق بن جائیں گے تو ایزی رہیں گے
نہ ستائش کی تمنا مجھے نہ خطرۂ ذم
نہ کسی واہ کی خواہش نہ کسی آہ کا غم
(یعنی
مجھے تعریف کی خواہش ہے نا مذمت کا خوف اسی طرح مجھے اپنی واہ واہ کروانے کی تمنا
نہ کسی آہ کا غم ہے)
2۔ اپنا
مزاج دریا کی طرح بنا لیجیے جو رکتا نہیں ہے بلکہ پتھروں اور چٹانوں کے درمیان سے
راستہ بنا کر چلتا رہتا ہے
3۔ دل
بڑا رکھیے، چکنا شیشہ نہیں بلکہ فوم کے گدے کی طرح بنیں جس پر گرم یا ٹھنڈا جو بھی
پانی گرے اسے پی جاتا ہے۔
4۔
ناکامی اور حوصلہ شکنی کامیابی کے راستے میں آنے والے نوکیلے پتھر ہیں، ان سے
خوفزدہ ہوں گے تو کامیابی کا سفر رک جائے گا اس لئے اپنے دل سے ناکامی کا خوف اور
حوصلہ شکنی کا ڈر جتنا نکال سکتے ہیں نکال دیجیے۔
5۔
حوصلہ شکنی اسی کی ہوتی ہے جس سے غلطی ہوتی ہے اور غلطی اسی سے ہوتی ہے جو کام
کرتا، حادثہ اسی کار کو پیش آسکتا ہے جو روڈ پر آتی ہے گیرج میں کھڑی گاڑی کو نہیں
اس لئے ہمت بڑی رکھئے۔
6۔ آپ
پہلے اور آخری فرد نہیں جسکی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ حوصلہ شکنی کے واقعات سے تاریخ
بھری پڑی ہے۔
ہمارے
مکی مدنی آقا ﷺ کی کفار کیطرف سے کیسی کیسی حوصلہ شکنی کی گئی (معاذ اللہ) مجنون
کہہ کر پکارا گیا، یہی نہیں بلکہ بعض رشتی دار مخالفت پر اتر آئے جن میں ابو لہب
جو آپکا چچا تھا پیش پیش تھا، طائف کے سفر میں آپ پر پتھر برسائے گئے مشرکین کے
ناروا سلوک کیوجہ سے اپنا شہرمیلاد مکہ مکرمہ چھوڑ کر مدینہ جانا پڑا، آپکو اتنا
ستایا گیا کہ فرمایا اللہ کی راہ میں، میں سب سے زیادہ ستایا گیا ہوں۔ (ترمذی، 4/213،
حدیث: 2480) لیکن آپ نے اس ہمت اور صبر سے حالات سے مقابلہ کیا کہ عقلیں حیران رہ
جاتی ہیں۔
پھر
صحابہ کرام علیہم الرضوان کو اسلام پر حوصلہ شکن رویوں کا سامنا کرنا پڑا، کسی کی
ماں نے بات چیت چھوڑ دی تو کسی کو باپ نے ظلم کا نشانہ بنایا، کسی کو تپتی ریت پر
لٹا کر سینے پر وزن رکھ دیا جاتا اور مطالبہ کیا جاتا اسلام چھوڑ دو لیکن راہ حق
پر چلنے والوں کے قد ذرا بھی نا ڈگمگائے۔
بزرگان
دین کے حالات و واقعات پڑھیے تو آپکو سینکڑوں مثالیں مل جائیں گی کہ حوصلہ شکنی کو
خاطر میں نہیں لائے اور اپنے مقصد کو پانے میں کامیاب رہے۔ موجودہ زمانے میں
امیراہلسنت علامہ محمد الیاس قادری دامت برکاتہم العالیہ کو دیکھ لیجیے آپ دنیائے
اسلام کی عظیم تحریک دعوت اسلامی کے بانی اور امیر ہیں، کم و بیش 43 سال پہلے جب
دعوت اسلامی کے کام کو بڑھانے کیلیے کوشاں تھے حوصلہ افزائی کرنے والے کم اور
حوصلہ شکنی کرنے والے لوگ زیادہ تھے لیکن امیراہلسنت دامت برکاتہم العالیہ کی اپنے
مقصد سے سچی لگن، کام کرنے کی دھن اور مسلمانوں کو نیکی کے راستے پر گامزن کرنے کی
کڑھن رنگ لائی اور الحمد للہ آج دنیا بھر میں دعوت اسلامی سے لاکھوں کروڑوں عاشقان
رسول وابستہ ہیں۔
پیاری
پیاری اسلامی بہنو! اس طرح کے کئی واقعات خود آپ یا آپکے جاننے والوں کیساتھ پیش
آئے ہوں گے۔ اس لیے دل بڑا رکھیے اور اپنا ذہن بنا لیجیے کہ حوصلہ شکنی کرنے والے
نے اپنا کام کیا، اسکے بعد آپکو چاہیے کہ کامیابی کیطرف اپنا سفر تیز کر دیں۔ اللہ
کریم ہمیں نیک و جائز مقاصد میں کامیابی نصیب فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین