اللہ
پاک کا بہت بڑا فضل و احسان ہے کہ جس نے ہمیں مسلمان بنایا اور لا تعداد نعمتوں سے
نوازا، ان نعمتوں پر اللہ پاک کا جتنا شکر ادا کریں کم ہے۔ اللہ پاک کی ان نعمتوں
میں سے ایک نعمت زبان بھی ہے اور اس کا اچھا استعمال کرنا اس کا شکر ادا کرنا ہے، جیسا
کہ تصوف کے امام، امام غزالی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: زبان کا شکر یہ ہے کہ اس
نعمت پر اللہ پاک کی حمد و ثنا بیان کی جائے تو اسی طرح گفتگو کرنا بھی ایک بہت
بڑا فن ہے اسکو با قاعدہ سیکھا جاتا ہے اور سیکھنا بھی چاہیے کیونکہ گفتگو ہماری
زندگی کا ایک خاص حصہ ہے۔
گفتگو
بھی ایک فن ہے جسے سیکھا جاتا ہے۔ آپ کی ذات کا پہلا تعارف آپکی گفتگو ہے۔ ایک
کہاوت ہے کہ بول کہ تو پہچانا جائے کبھی بھی شریعت کے خلاف مت بولئے زبان کے خلاف
جتنے بھی ممکنات گناہ ہیں اس سے ہمیں اپنے آپکو بچانا ہے۔ ہماری گفتگو کی سب سے
بڑی خوبی یہ ہونی چاہئے کہ زبان غیبت،چغلی،وعدہ خلافی، گالی گلوچ،حوصلہ شکنی، دھوکا
وغیرہ ان سب چیزوں سے خالی رہے۔
1۔ لوگوں
کی تعریف اور حوصلہ افزائی کیجئے: خواہ آپ کوئی شخصیت ہوں یا آپ کوئی مدنیہ ہوں یا
استاذ ہوں، جب ہماری ما تحت کوئی غلطی کرتی ہے تو ہم اس کی کیسی خبر لیتے ہیں اسے کتنا
ذلیل و رسوا کرتے ہیں اس کا حال برا کر دیتے ہیں، مگر جب وہی ہمارا ما تحت اگر
کوئی اچھا کام کرتا ہے تو ہم اسکی کتنی تعریف کرتے ہیں اور خاص طور پر اگر آپ Leading
منصب پر ہیں تو اپنی گفتگو میں حوصلہ افزائی زیادہ شامل کریں اور دل شکنی عام زبان
میں جسے کھنچائی کرنا کہتے ہیں پوچھ گچھ کرنا، سختی کرنا اس کا فیصد کم رکھنا
چاہیے اور یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کوئی طالب علم ہے وہ سکول نہیں جانا چاہتا اسی
طرح ملازم کام پر جانے سے بھی جی چراتا ہے اسکی کافی وجوہات ہو سکتی ہونگی لیکن
ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ انکی بے عزتی کا خدشہ طالب علم کو استاد سے اور ملازم
کو اپنے مالک سے۔
یاد
رکھیں اگر ہمیں اچھا گفتگو کرنے والا بننا ہے تو ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی گفتگو میں
حوصلہ افزائی زیادہ سے زیادہ رکھیں اسی طرح اگر آپ کسی بڑے منصب پر فائز ہیں Boss
ہیں، استاد ہیں۔ جب کسی سے آپ سختی سے بات کرتے ہیں تو کیوں کرتےہیں؟ کہ میرا ما
تحت صحیح انداز میں کام کرے اسکی Productivity بڑھے۔ یاد رکھئے Productivity
اس وقت بڑھے گی جب وہ ( آپ کاماتحت یا آپ کاطالب علم ) آپ سے محبت کریگا۔ جب وہ آپ
کے ساتھ کام کرنے میں خوشی محسوس کرے گا۔
وہ
ادارے جس میں ماتحت افراد خوش دلی سے کام نہیں کرتے خواہ آپ ان کوگالیاں دے لیں،
خواہ آپ ان کو بے عزت کر لیں، خواہ ان کی کھنچائی کر لیں، خواہ آپ جو مرضی کر لیں
وہ صرف اور صرف اپنی نوکری کو بچانے کی حد تک کام کریگا۔ اس سے بڑھ کر کوئی کام
نہیں کریگا۔ امیر اہلسنت جو ہمارے لئے اس زمانے میں بہترین مثال ہیں، جنہوں نے
لاکھوں کو اپنے پیچھے چلایا آپ فرماتے ہیں: میں نے دعوت اسلامی کا جو کام کیا اور
جو میں نے اسلامی بھائیوں کو آگے بڑھایا دونوں ہاتھوں سے پیٹھ تھپک کر بڑھایا!
ایک
غلط فہمی کا ازالہ: ایسا نہ ہو کہ استاد اپنے شاگرد سے پوچھ گچھ ہی نہ کرے اگر Boss ہے تو ماتحت سے کچھ بھی نہ پوچھے۔ جب آئے، جب جائے، ایسا بھی نہیں
ہوناچاہیے۔ پوچھ گچھ کیجئے، سوالات کیجئے، مگر اصولوں کے ساتھ، طریقہ سے یاد رکھئے!
پوچھ گچھ کرنا الگ ہے بے عزتی کرنا الگ ہے وقت پر کام طلب کرنا اور ہے بے عزتی
کرنا اور ہے اصلاح کرنی ہو تو سب کے سامنے مت کیجئے اور حوصلہ افزائی کرنا ہو تو
سب کے سامنے کیجئے۔
میرے
پیارے آقا مدینے کے داتا ﷺ جب کوئی غلطی دیکھتے یا کوئی ایسا کام دیکھتے جو مناسب
نہ ہوتا تو منبر اقدس پر تشریف لاتے اور لوگوں کو جمع فرماتے بغیر نام لئے ہوئے
ارشاد فرماتے: لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ ایسا ایسا کرتے ہیں۔ (ابو داود، 4/ 328، حدیث: 4788)مطلب
یہ ہے کہ There
is something wrong کچھ مسئلہ ہے مگر جس نے غلط
کیا سب کے سامنے اس کا بیان بھی نہ ہو۔ نہ جانے وہ اس وقت موجود ہو یا اگرنہ ہو تو
بھی اصلاح کرلے گا۔ ہم غور کریں کہ ہمارا انداز کیسا ہوتاہے کہ سب کے سامنے جھاڑ
دیتے ہیں اصلاح کی نیت سے۔
2۔
قطع تعلق والے جملے استعمال نہ کیجئے: بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ لوگ ایسا کہہ
دیتے ہیں کہ آج کے بعد تم کتنے ہی اچھے بن کر آجاؤ میرے دل میں جگہ نہیں بن سکتی
یقین کریں کہ یہ کہنے کے بعد گویا کہ آپ نے اس شخص کو ہمیشہ کے لیے اپنے آپ سے دور
کر لیا اب تم سونے (Gold) کے بھی بن کر آجاؤ میرے کسی کام کے نہیں پھر
ایسی گفتگو کرنے کے باعث لوگ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ کوئی میرے قریب نہیں آتا
معاشرہ سارا خراب ہو گیا و غیره۔ معاشرہ خراب ہوا یا نہیں ہوا الگ بات ہے مگر ان
کی گفتگو ضرور خراب ہوگئی یاد رکھئے! ایسے جملے کبھی نہیں کہنے چاہئیں جس سے آپ لوگوں
کو ہمیشہ کے لئےدور کر دیں۔
جب آپ
کسی کو اس طرح کے جملے ادا کر کے اپنے آپ سے دور کر دیتےہیں تو آہستہ آہستہ اکیلے
پن کا شکار ہونا شروع ہو جاتے ہیں
خاص
طور پر جو بڑے افراد ہوتے ہیں جن کی قدر Value ہوتی ہے جن کی گفتگو کو serious
لیا جاتا ہے انہیں اس بات کا احساس کرنا چاہیے دھیان رکھنا چاہیے والدین اپنے بچوں
کو بعض اوقات اس طرح کی باتیں کہہ دیتے ہیں بچے بڑےحساس ہوتے ہیں وہ والدین کی ایک
ایک بات کو بڑا اہمserious تصور کرتے ہیں۔ کیا پتہ آپ کا بچپن میں کہا
گیا کوئی ایک جملہ انہیں بڑے ہونے تک یاد رہ جائے اور وہ آپ سے دوری کا سبب ہو
جائے لہذا ہمیں اس طرح کے جملوں سے بچناچاہیے اگر اس rule
کو ہم follow
کریں گے تو لوگوں کو خود سے دور کرنے سے بچیں گے۔
3۔ القاب
استعمال کیجئے: ہمیں یہ خیال رکھنا ہوتا ہے کہ ہم جس کے ساتھ بات کر رہے ہیں اگر
وہ کوئی قابل قدر شخص ہے جس کا کوئی لقب Title بنتا ہے تو ہمیں وہ لقب Title
استعمال کرناچاہیے اس کی بنیاد یہ ہے کہ دنیا میں 2 چیزیں ایسی ہیں جو خرچ کرنے سے
بڑھتی ہیں:
(1)
علم: جتنا آپ خرچ کریں گے جتنا آپ share کریں گے جتنا آپ لوگوں کودیں گے اللہ کی
رحمت سے اس سے بڑھ کر آپ کو ملے گا۔
(2)
عزت: عزت دینے سے بڑھتی ہے اگر آپ کسی کو عزت دیں گے آپکی عزت میں کمی نہیں ہوگی
بلکہ آپکی عزت میں اضافہ ہو گا جتنی محبت دیں گے جتنی عزت دیں گے ان شاء اللہ اس
سے بڑھ کر آپ کو ملے گا۔ بعض لوگ جب گفتگو کرتے ہیں تو یہ سوچتے ہیں جب تک آگے
والے کو نیچا نہ دکھائے اس کی بے عزتی اگر نہ کی دل آزاری نہ کی تو انکو لگتا ہے
مزہ نہیں آیا اور بعض لوگ تو معاذ اللہ گالیاں دیتے ہیں، دل شکنی کرتے ہیں برے نام
رکھتےہیں اور بعض لوگ کسی آگے والے کا مذاق اڑانا اسکے عادی ہوتے ہیں اگر چار لوگ
بیٹھے ہوں تو کسی نہ کسی ایک کو نشانہ target بنا لیتے ہیں مثلا اس کے لباس پر، اس کی شکل
پر، اس گفتگو پر کسی کمزور چیز کو لے کر اس کو برا بھلا کہیں گے۔ اور یہ سمجھتے
ہیں کہ میں بڑا فنکار ہوں، زبردست گفتگو کرنے والاہوں مگر ایسا نہیں۔
ہو
سکتا ہے کہ آپ کے سامنے مسکرا رہا ہے لیکن یاد رکھیں! یہ خوشی کی ہنسی نہیں بلکہ
کھسیانی ہنسی ہوتی ہے۔ کون چاہتا ہے کہ چار لوگوں کے سامنے کوئی اسکی بے عزتی کرے،
اسکا برا نام رکھاجائے، اسکا مذاق اڑایا جائے جیسے آپ نہیں چاہتے کہ کوئی آپ کے
ساتھ ایسا کرے اسی طرح کوئی بھی نہیں چاہتا کہ اس کے ساتھ یہ معاملہ ہو۔
فرمان
امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ: چھوٹے سے بچے کو بھی حوصلہ افزائی کی ضرورت
ہوتی ہے اور بڑی عمر کے شخص، بزرگ کو بھی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہوتی ہے حوصلہ
افزائی کا سب سے اہم حصہ وہ الفاظ ہوتے ہیں۔
اسکے چند طریقے:
(1)
سب سے پہلے ہمیں اپنا یہ ذہن بنانا ہے کہ آج کے بعد مجھے اپنی گفتگو میں حوصلہ
افزائی کرنی ہے ایک اس کا طریقہ یہ ہے کہ سامنے والے کا اگر کوئی لقب title
ہے تو اس کو پکاراجائے مثلا اگر کوئی مفتی صاحب ہے انکا کوئی نام بھی تو ہو گا آپ ان
کا نام لیکر بات کریں یا مفتی صاحب کہہ کر بات کریں یقینا انکا نام استعمال ہونے
پر اتنا خوش نہیں ہونگے جتنا ان کا لقب (مفتی صاحب)استعمال کرنے پر خوش ہونگے، اسی
طرح اگر کوئی حافظ قرآن ہے تو اگر اس کا نام لے کر بھی پکاریں گے تو بھی بات ہو
جائے گی لیکن جب ان کو حافظ صاحب کہہ کر مخاطب کریں گے تو بہت خوشی ملے گی۔ تو جس
کا title
ہو لیکن جھوٹ نہیں ہونا چاہیے بلا وجہ مبالغہ نہیں ہونا چاہیے اور وہ واقعی اس لقب
کا مستحق ہے تو استعمال کرنا چاہیے۔
کسی
نے کہا کہ ایک وقت تھا کہ لوگوں کو دیکھ کر القاب title
بنائے جاتے تھے کہ شمس العلماء (یعنی علماء میں مثل سورج ) یہ ایک بہت بڑے فقیہ کا
لقب ہے کہ انکا علم اتنازیادہ تھا کہ انکو شمس العلماء کا لقب خطاب دیا گیا اور آج
زمانہ یہ ہے کہ لوگ لقب کے ذریعے اپنی شخصیت بنانا چاہتے ہیں یہ خرابی ہے جسے ہمیں
اصلاح کرنی ہے کہ خواہ مخواہ کے لقب نہیں دینے کہ وہ مستحق ہی نہیں قابل ہی
نہیں ہم کہہ رہے ہیں علامہ صاحب اور اس کو
دو مسئلہ بھی نہیں آتے جو غلط ہے وہ غلط ہیں سب آگے نہیں بڑھانا ہے۔
اعتراض
کہ یہ تو علماء دین دار لوگوں کی بات ہو گی اب عام لوگوں میں بھی کیا یہی معاملہ
رکھنا ہے؟ جی ہاں! آپ کے بچوں میں بھی کچھ خصوصیت ہوتی ہے آپ ان کی حوصلہ افزائی کیجئے
اگر کسی بچے کے اندر کوئی اچھی خصوصیت ہے تو اس کا تذکرہ کیجیے ہم برائیاں تو بہت
بیان کرتے ہیں لیکن اس کی خصوصیات بیان کریں یاد رکھئے! فن گفتگو میں یہ بات کہی
جاتی ہے کہ جتنا آپ گفتگو میں اچھی چیزوں کاتذکرہ کرتے ہیں اتنا ہی ماحول میں اچھی چیزوں کا اضافہ ہوتا ہے
اسی طرح جس ماحول میں بری چیزوں کا تذکرہ زیادہ ہوگا وہ برائیاں repeat
ہوتی رہیں گی بار بار ہوتی رہیں گی۔
سائنسی
تحقیق کے مطابق ہم وہی کرتے ہیں جو ہمارے دل و دماغ میں ہوتا ہے اور حقیقت بھی یہی
ہے کہ بات کرنے سے پہلے دماغ حکم دیتا ہے پھر منہ گفتگو کرتا ہے ہم جو بھی کرتے
ہیں اپنے ذہن کے مطابق کرتے ہیں اگر ہم اپنے بچے کو، ماتحت کو، ساتھی کو کسی بھی
شخص کو برے القابات سے پکاریں گے تو بار بار وہ بات اس کے دماغ میں مضبوط اور پختہ
ہوتی چلی جائے گی۔
ایک
تحقیق کی گئی ناکام لوگوں پر تو معلوم ہوا کہ بچپن میں انکے ماں باپ ان کو کہا
کرتے تھے کہ تو کچھ بھی نہیں بن سکتا، تو کسی کام کا نہیں اب اس کی وجہ کیا بنی کہ
ان کے ماں باپ بچپن میں ان کو اس طرح کے جملہ بکثرت کہا کرتے تھے تو یہ باتیں انکے
ذہن میں بیٹھ گئیں اور ان کا ذہن بھی خود کہنےلگا کہ واقعی تو تو کسی کام کا نہیں،
تو تو کچھ بھی نہیں کر سکتا تو واقعی انہوں نے کچھ نہیں کیا اور وہ کچھ نہیں بنے۔
اور
وہ لوگ جو زندگی میں کامیاب ہوئےتو بچپن میں انکے ماں باپ، انکے اساتذہ، انکے
دوستوں نے انہیں کہا تھا کہ بھائی تیرے اندر فلاں بننے کی صلاحیت نظر آتی ہے، تو
تو بہت آگے جائے گا، آپ کی کیا بات ہے آپ تو بہت بڑے آدمی بنیں گے اسی لئے بعض
اوقات ایک جملہ کسی کی زندگی کا turning point بن جاتا ہے۔