حضور ﷺ کی
اپنی نواسیوں سے محبت از بنتِ از بنتِ مدثر، فیضان فاطمۃ الزہراء ،صدر راولپنڈی
نبی کریم ﷺ کی مبارک زندگی کے بارے میں قرآنِ کریم فرماتا
ہے:لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ(پ21،الاحزاب:21) ترجمۂ کنز الایمان:بے شک تمہیں رسول اللہ
کی پیروی بہتر ہے۔ مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب شانِ حبیب الرحمن میں اس آیت
پر بہت پیارا کلام فرمایا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ سرکارِ ابدِ قرار ﷺ کی مبارک
ذات ہردرجے اور ہر مرتبے کے انسان کے لئے نمونہ ہے۔ مزید لکھتے ہیں:اگر کسی کی
زندگی اہل و عیال کی زندگی ہے تو وہ یہ خیال کرے کہ میری تو ایک یا دو یا زیادہ سے
زیادہ چار بیویاں ہیں اور کچھ اولاد مگر محبوب ﷺ کی 9 بیویاں ہیں،اولاد اور اولاد
کی اولاد،غلام باندیاں،متوسلین اور مہمانوں کا ہجوم ہے،پھر کس طرح ان سے برتاؤ
فرمایا اور اس کے ساتھ ساتھ کس طرح رب کی یاد فرمائی۔ (شانِ حبیب الرحمن، ص160-158 ملخصاً)
سب کو ان کے مقام و مرتبے کے اعتبار سے شفقتوں سے
نوازاخصوصا بیٹیوں کے فضائل بیان فرما کر عرب کے معاشرے کو وحشت و بربریت سے نکالا
اور عملی طور پر بھی اس کا مظاہرہ فرمایا۔اپنی شہزادیوں بلکہ نواسیوں کو بھی پیار
و محبت عطاسے نوازا۔سیرتِ نبی کی کتب میں نبی کریم ﷺ کی چار نواسیوں کا ذکر ملتا
ہے: سیدہ امامہ،سیدہ زینب،سیدہ امِّ کلثوم اور سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہن۔سیدہ امامہ
رضی اللہ عنہا نبی کریم ﷺ کی بڑی شہزادی حضرت بی بی زینب رضی اللہ عنہا کی بیٹی ہیں
جبکہ بقیہ تینوں خاتونِ جنت بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا کی اولادِ پاک ہیں۔آئیے!آخری
نبی ﷺ کے گلشنِ نبوت کی مہکتی کلیوں کے ساتھ محبت و شفقت بھرے انداز کی کچھ جھلکیاں
ملاحظہ کیجئے۔چنانچہ
تحفہ عطا فرمایا:ایک مرتبہ نجاشی بادشاہ نے سرورِ کائنات ﷺ کی خدمتِ بابرکت میں کچھ زیورات کی
سوغات بھیجی اس میں ایک بیش قیمت حبشی نگینے
والی انگوٹھی بھی تھی۔ اللہ پاک کے پیارے نبی،مکی مدنی ﷺ نے اُس انگوٹھی کو چھڑی یا
مبارک انگلی سے مس کیا یعنی چھوا اور اپنی بڑی شہزادی زینب رضی اللہ عنہا کی پیاری بیٹی یعنی اپنی نواسی حضرت امامہ
رضی اللہ عنہا کو بلایا اور فرمایا:اے
چھوٹی بچی!اسے تم پہن لو۔
(ابو داود،4/125، حدیث:2225)
اسی طرح ایک مرتبہ ایک بہت ہی خوبصورت سونے کا ہار کسی نے
حضور اقدس ﷺ کو نذر کیا جس کی خوبصورتی کو دیکھ کر تمام ازواجِ مطہرات رضی
اللہ عنہن حیران رہ گئیں۔آپ نے اپنی مقدس
بیویوں سے فرمایا کہ میں یہ ہار اس کو دوں گا جو میرے گھر والوں میں مجھے سب سے زیادہ
محبوب ہے۔تمام ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن
نے یہ خیال کر لیا کہ یقیناً یہ ہار حضرت بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا کو عطا فرمائیں گے مگر حضور ﷺ نے حضرت
امامہ رضی اللہ عنہا کو قریب بلایا اور
اپنی پیاری نواسی کے گلے میں اپنے دستِ مبارک سے یہ ہار ڈال دیا۔ (شرح زرقانی،3/197)
کندھوں پر
سوار فرمالیا:حضرت ابو قتادہ رضی
اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : اللہ پاک کے
محبوب ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے تو آپ اپنی
نواسی امامہ بنتِ ابوالعاص رضی اللہ عنہا
کو اپنے مبارک کندھے پر اٹھائے ہوئے تھے۔پھر آپ نماز پڑھانے لگے تو رکوع میں جاتے
وقت انہیں اتار دیتے اور جب کھڑے ہوتے تو انہیں اٹھا لیتے۔( بخاری،2/100،حدیث:5996)
سبحان اللہ! کیا پیار ومحبت بھرا انداز ہے۔ یہ نبی کریم ﷺ کی
حیاتِ طیبہ کے ساتھ ہی خاص نہیں بلکہ وصالِ ظاہری شریف کے بعد بھی واقعۂ
کربلا میں اس کی جھلک نظر آتی ہے۔