انبیائے
کرام اور ان کی قومیں قرآن کی روشنی میں از بنتِ مصطفٰے حیدر، مدینہ کلاں لالہ موسیٰ
یوں تو سبھی انبیا ومر سلین ہمت والے ہیں اور سبھی نے راہِ
حق میں آنے والی تکالیف پر صبر و تحمل کا شاندار مظاہرہ کیا ہے البتہ اس مقدس
جماعت میں سے5 رسول ایسے ہیں جن کا راہِ خدا میں صبر اور مجاہدہ دیگر انبیا علیہم
السلام سے زیادہ ہے،اسی لیے انہیں بطور خاص اولو العزم رسول کہا جاتا ہے اور جب
بھی او لو العزم رسول کہا جائے تو ان سے ہی پانچوں رسول مراد ہوتے ہیں اور وہ یہ
ہیں:(1) حضرت محمد ﷺ(2) حضرت ابراہیم علیہ السلام(3) حضرت موسیٰ علیہ السلام(4) حضرت
عیسیٰ علیہ السلام(5) حضرت نوح علیہ السلام
سورہ احزاب میں ہے: وَ اِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّبِیّٖنَ مِیْثَاقَهُمْ وَ
مِنْكَ وَ مِنْ نُّوْحٍ وَّ اِبْرٰهِیْمَ وَ مُوْسٰى وَ عِیْسَى ابْنِ
مَرْیَمَ۪-وَ اَخَذْنَا مِنْهُمْ مِّیْثَاقًا غَلِیْظًاۙ(۷) (پ 21، الاحزاب: 7) اور اے
محبوب!یاد کرو جب ہم نے نبیوں سے عہد لیا اور تم سے اور نوح اور ابراہیم اور عیسیٰ
اور موسٰی سے(عہد لیا) اور ہم نے ان سب سےبڑا مضبوط عہد لیا۔
حضرت محمدﷺ:پیارے آقا ﷺ کو تمام انسانیت کو ہدایت اور راہ راست پر لانے
کے لیے بھیجا گیا۔ پیارے آقا ﷺ نے کفار کو اسلام کی دعوت دی۔ زیادہ تر لوگ دائرہ اسلام
میں داخل ہو گئے لیکن بعض بد نصیب کا فروں نے انکار کر دیا۔ هُوَ الْاَوَّلُ وَ
الْاٰخِرُ وَ الظَّاهِرُ وَ الْبَاطِنُۚ-وَ هُوَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ(۳) (الحدید:3) ترجمہ: وہی اول
ہے وہی آخر ہے وہی ظاہر ہے وہی چھپا اوروہ ہر چیز جانتا ہے۔
حضور ہی سب سے اول ہیں۔ ہر چیز میں آپ کواولیت دی گئی۔بروز
قیامت حضورکو اول سجدہ کا حکم ملے گا۔ دنوں میں سب سے افضل دن جمعہ کا آپ کود یا گیا۔وہی
آخر ہیں۔ ان کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔سب سے آخری آسمانی کتاب بھی آپ کودی گئی۔وہی
ظاہر ہیں۔ہر چیز ان پر عیاں ہے۔چاند کھیلا کرتا تھا۔ کفار آپ کی نبوت کی گواہیاں دیتے
تھے۔وہی باطن ہیں۔جس طرح سورج کے نور کو چھپایا گیا کہ کوئی بھی اس کی طرف آنکھ
بھر کرنہیں دیکھ سکتی۔ اسی طرح حضور کی نو رانیت پردہ بن گئی۔حضورﷺہر چیز کو جاننے
والے ہیں۔اولین و آخرین کے سارے علوم حضور میں جمع ہیں۔حضور ہی ہیں جن کی آنکھ نے
خالق عالم کو معراج میں دیکھا ہے۔مخلوق کس طرح اس سے چھپ سکتی ہے!
حضرت
ابراہیم علیہ السلام:آپ علیہ السلام کی
قوم بتوں اور ستاروں کی پوجاکرتی تھی۔ چچاآزر بھی بتوں کا پجاری تھا۔دوسری طرف
امام بادشاہ وقت نمرود بھی خدائی کا دعویٰ کرتا تھا۔آپ نے اپنی قوم کو نصیحت کی
اور اسلام کی دعوت دی اور ان کو سمجھایا۔ وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِبْرٰهِیْمَ۬ؕ-اِنَّهٗ
كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا(۴۱) (پ16،مریم:41)
ترجمہ:اور کتاب میں ابراہیم کو یاد کرو بے شک وہ بہت ہی سچے نبی تھے۔
آپ علیہ السلام کےسچے
ہونے کے وصف کو بطورِ خاص بیان کرنے میں یہ بھی حکمت ہو سکتی ہے کہ ان لوگوں کی تفہیم
ہو جائے جنہیں چند واقعات کی بنا پر شبہ ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا
کلام ان مواقع پر حقیقت کے مطابق نہیں تھا۔آپ علیہ السلام بے شمار خوبیوں کے مالک
تھے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام:آپ علیہ السلام کی ولادت کا سن کر فرعون نے ہزاروں بچے ذبح
کر دیے لیکن وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکا۔ آپ علیہ السلام کو بنی اسرائیل کی طرف بھیجا
گیا۔آپ علیہ السلام نے فرعون کو دعوت تبلیغ دی لیکن اس نے انکار کر دیا۔ اِنَّكَ لَغَوِیٌّ
مُّبِیْنٌ(۱۸) (پ20،القصص:18) ترجمہ: بے شک تو ضرور کھلا
گمراہ ہے۔
حضرت
عیسیٰ علیہ السلام: آپ علیہ السلام
بن باپ کے پیدا ہوئے تھے۔آپ بنی اسرائیل کی طرف نبی بنا کر بھیجے گئے۔ یہودیوں نے
آپ کے قتل کی سازش کی تو اللہ پاک نے آپ کو بچا کر آسمان پر زندہ اٹھا لیا اور اب
قرب قیامت میں دوبارہ زمین پر تشریف لائیں گے۔
یٰعِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ هَلْ یَسْتَطِیْعُ
رَبُّكَ اَنْ یُّنَزِّلَ عَلَیْنَا مَآىٕدَةً مِّنَ السَّمَآءِؕ-(پ7،المائده:112) ترجمہ:اے عیسیٰ بن مریم !کیا
آپ کا رب ایسا کرے گا کہ ہم پر آسمان سے ایک دستر خوان اتار دے؟ اس سے ان کی مراد یہ
تھی کہ کیا اللہ پاک اس بارے میں آپ کی دعا قبول فرمائے گا؟ یہ مراد نہیں تھی کہ
آپ کا رب ایسا کر سکتا ہے یانہیں؟ کیونکہ یہ حضرات اللہ پاک پر ایمان رکھتے تھے۔
آپ علیہ السلام نے فرمایا: اتَّقُوا اللّٰهَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(۱۱۲)
(پ7،المائدہ:112) ترجمہ:اللہ سے ڈرو اگر ایمان رکھتے ہو۔ یعنی اگر ایمان
رکھتے ہو تواللہ پاک سے ڈرو اور تقویٰ اختیار کرو تا کہ یہ مراد حاصل ہو جائے۔
حضرت نوح علیہ السلام:حضرت نوح علیہ السلام دنیا میں چوتھے نبی اور کفار کی طرف بھیجے
جانے والے پہلے رسول ہیں۔آپ نے اسلام کی تبلیغ کی لیکن آپ کی قوم نے انکار کر دیا
تو آپ نےان کے خلاف دعا کی جو قبول ہو گئی۔ وَ جَعَلْنَا ذُرِّیَّتَهٗ هُمُ الْبٰقِیْنَ٘ۖ(۷۷)
(پ23، الصافات:77) ترجمہ:
ہم نے اسی کی اولاد باقی رکھی۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مر وی ہے کہ حضرت
نوح علیہ السلام کے کشتی سے اترنے کے بعد آپ علیہ السلام کی اولاد اوران کی بیویوں
کے علاوہ جتنے مرد و عورت تھے سبھی آگے کوئی نسل چلائے بغیر فوت ہوگئے۔ آپ علیہ
السلام کی اولا دسے نسلیں چلیں۔