اللہ پاک نے مخلوق کی ہدایت و رہنمائی کے لیے جن پاک بندوں کو پیدا کیا انہیں انبیا کہتے ہیں۔انبیائے کرام ہی وہ بشر ہیں جن کے پاس الله پاک کی طرف سے وحی آتی تھی۔انبیائے کرام خدا کے خاص و معصوم بندے ہوتے ہیں جن کی نگرانی و تربیت اللہ پاک خود فرماتا ہے۔یہ صغیرہ کبیرہ گنا ہوں سے پاک ہوتے ہیں۔ انہیں عقلِ کامل عطا کی گئی ہے۔ کسی فلسفی، حکیم اور سائنسدان کی عقل ان کی عقل کے لاکھویں حصے تک بھی نہیں پہنچ سکتی۔ عقل کی ایسی بلندی کیوں نہ ہو! کہ یہ الله کے لاڈلے اور محبوب بندے ہوتے ہیں۔ خدا کی راہ کا راستہ انبیائے کرام کے ذریعے سے ہی ملتا ہے۔ قرآنِ پاک میں ارشاد ہوتا ہے: وَ مَا كَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّكَلِّمَهُ اللّٰهُ اِلَّا وَحْیًا اَوْ مِنْ وَّرَآئِ حِجَابٍ اَوْ یُرْسِلَ رَسُوْلًا فَیُوْحِیَ بِاِذْنِهٖ مَا یَشَآءُؕ-اِنَّهٗ عَلِیٌّ حَكِیْمٌ(۵۱) (پ25،الشوریٰ: 51) ترجمہ:اور کسی کیلئے ممکن نہیں کہ اللہ اس سے کلام فرمائے مگر وحی کے طور پر یا پردے کے پچھلے ہو یا (یہ کہ) اللہ کوئی فرشتہ بھیجے تو وہ فرشتہ اس کے حکم سے وحی پہنچائے۔ جو اللہ چاہے بیشک وہ بلندی والا حکمت والا ہے۔

قرآنِ کریم میں انبیائے کرام کے کثیر معجزات کا ذکر ہے جیسے حضرت صالح کی اونٹنی جو پہاڑ سے نکلی، حضرت موسیٰ کے عصا کا سانپ بن جانا، آقا ﷺ کے معجزات بے شمار مثلاً انگلیوں سے پانی کے چشمے جاری ہونا وغیرہ۔

اعلیٰ حضرت کیا خوب فرماتے ہیں:

اُنگلیاں پائیں وہ پیاری پیاری جن سے دریائے کرم ہیں جاری

جوش پر آتی ہے جب غم خواری تشنے سیراب ہوا کرتے ہیں

حضرت ادریس:آپ کا نام خنوخ یا اخنوخ اور لقب ادریس ہے۔اللہ پاک نے آپ پر تیس صحیفے نازل فرمائے، ان صحیفوں کا کثرت سے درس دینے کی وجہ سے آپ کا لقب ادریس(بہت درس دینے والا) ہوا۔ سب سے پہلے آپ نے ہی قلم سے لکھا۔قرآنِ کریم میں آپ علیہ السلام کے 114 اوصاف ہیں۔ آپ بہت ہی سچے نبی تھے۔ قرآنِ پاک میں آتا ہے:کتاب میں ادریس کو یادکر وہ بہت سچانبی ہے۔ (شرح نووی،3/123)

حضرت نوح:آپ علیہ السلام کا اسمِ گرامی یشکر یا عبدالغفار اور لقب نوح تھا۔ یہ لقب اس لیے ہوا کہ آپ علیہ السلام اللہ کے خوف کی بنا پر کثرت سے گریہ وزاری کیا کرتے تھے نیز آپ کو آدمِ ثانی بھی کہتے ہیں۔ اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فرماتے ہیں:پسماندگاہ طوفان سے کسی کی نسل نہ بڑھی، صرف نوح کی نسل تمام دنیا میں ہے۔ الله پاک فرماتا ہے: وَ جَعَلْنَا ذُرِّیَّتَهٗ هُمُ الْبٰقِیْنَ٘ۖ(۷۷) (پ23، الصافات:77) ترجمہ: ہم نے اسی کی اولاد باقی رکھی۔

حضرت نوح کی قوم:الله پاک نے جب حضرت نوح علیہ السلام کو نبی بنا کر بھیجا اس وقت آپ کی عمر مبارک تقریباً چالیس سال تھی۔ اللہ پاک نے حضرت نوح علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہ اپنی قوم کو عذابِ الٰہی سے ڈرائیں کہ وہ لوگ ایمان لے آئیں ورنہ ان پر دنیا میں خوفناک عذاب آئے گا اور آخرت میں بھی درد ناک عذاب کا شکار ہوں گے۔ (سیرت الانبیاء،ص 165)

بیشک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا کہ اس وقت سے پہلے اپنی قوم کو ڈراؤکہ ان پر درد ناک عذاب آئے۔(تفسیرروح المعانی،15/22)

حضرت نوح نے حکم الٰہی کی تعمیل میں قوم سے فرمایا:اے میری قوم! میں تمہیں الله پاک کے عذاب سے بہت واضح انداز میں خبردار کرنے اور ڈر سنانے والا ہوں اور تمہیں کہتا ہوں کہ اللہ پاک کی وحدانیت کا اقرار کرو۔ شرک نہ کر و۔ خدا کے غضب سے بچنے کیلئے اس کی نافرمانی سے دور رہو۔لیکن حضرت نوح کی تبلیغ کے جواب میں قوم نے سر کشی کا مظاہرہ کیا، آپ علیہ السلام کو جھوٹا قرار دیاحتی کہ دھمکی بھی دی کہ اگر وہ ان کو دین کی دعوت دینے سے منع نہ ہوئے توپتھر مارمار کر قتل کر دیں گےنیز انہوں نے آپ کو بہت برا بھلا کہا لیکن آپ علیہ السلام اولو العزم یعنی انتہائی باہمت رسول تھے۔ فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ26، الاحقاف: 35) ترجمہ:تو( اے حبیب!) تم صبر کرو جیسے ہمت والے رسولوں نے صبر کیا۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام:آپ کا مشہور نام ابراہیم ہے جس کے معنی ہیں”مہربان باپ“آپ بہت مہربان تھے۔آپ علیہ السلام نے اللہ پاک کی طرف سے ملنے والے حکم کو پوری طرح ادا کیا۔ارشاد باری ہے: وَ اِبْرٰهِیْمَ الَّذِیْ وَفّٰۤىۙ(۳۷) (پ27، النجم: 37) ترجمہ:اور ابراہیم کہ جس نے(احکام کو) پوری طرح ادا کیا۔

حضرت ابراہیم کی قوم کے لوگ اپنے گمراہ باپ دادا کی پیروی میں بتوں اور ستاروں کی پوجا کرتے تھے۔ آپ کے چچا آزر جو بت پرستی کے ساتھ ساتھ بت سازی بھی کرتے تھے،جب آپ نے تبلیغ و نصیحت کا سلسلہ شروع فرمایا تو سب سے پہلے اپنے گھر سے ابتدا کی۔ اَتَتَّخِذُ اَصْنَامًا اٰلِهَةًۚ-اِنِّیْۤ اَرٰىكَ وَ قَوْمَكَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ(۷۴) (پ 7،الانعام:74) ترجمہ: کیا تم بتوں کو(اپنا) معبود بناتے ہو۔بیشک میں تمہیں اور تمہاری قوم کو گمراہی میں دیکھ رہا ہوں۔