الله پاک کے وہ بندے جو اللہ پاک کی بارگاہ میں سب سے زیادہ مقبول اور محبوب ہیں” یعنی انبیائے کرام علیہم السلام “ ان کی مبارک ذاتوں کو لیں تو ان کی زندگیوں کا سب سے بنیادی مقصد ہی یہ تھا کہ اللہ پاک کے احکام اور نیکی کی دعوت لوگوں تک پہنچائیں۔ پھر جن لوگوں نے اپنے نبی علیہم السلام کی پیروی کی اور ان کا حکم بجالائے انہوں نے دنیا و آخرت میں کا میابی حاصل کر لی مگر وہ لوگ جنہوں نے سرکشی اور نافرمانی کی وہ عذابِ الٰہی میں مبتلا ہوئے۔

الله پاک نے قرآنِ پاک میں بہت سے انبیائےکرام کا ذکر خیر بلکہ ان کی قوموں کا بھی ذکر کیا ہے۔ چند کا ذکر کیا جاتا ہے۔

(1) ان میں سے ایک نبی حضرت ہود علیہ السلام ہیں۔ یہ نبی قوم عاد کی طرف بھیجے گئے۔قوم عاد مقام احقاف میں رہتی تھی جو عمان و حضر موت کے درمیان ایک بڑا ریگستان ہے۔ان کے مورث اعلیٰ کا نام عاد بن عوص بن ارم بن سام بن نوح ہے۔ پوری قوم کے لوگ ان کواعلیٰ عاد کے نام سے پکارنے لگے۔ یہ لوگ بت پرست اور بہت بد اعمال وبد کر دار تھے۔ اللہ پاک نے اپنے پیغمبر حضرت ہود علیہ السلام کو ان لوگوں کی ہدایت کے لئے بھیجا مگر اس قوم نے اپنے تکبر اور سر کشی کی وجہ سے حضرت ہود علیہ السلام کو جھٹلایا اور اپنے کفر پر اڑے رہے۔ حضرت ہود علیہ السلام بار باران سرکشوں کو عذابِ الٰہی سے ڈراتے رہے مگر اس شریر قوم نے نہایت ہی بے باکی اور گستاخی کے ساتھ اپنے نبی سے یہ کہہ دیا کہ قَالُوْۤا اَجِئْتَنَا لِنَعْبُدَ اللّٰهَ وَحْدَهٗ وَ نَذَرَ مَا كَانَ یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَاۚ-فَاْتِنَا بِمَا تَعِدُنَاۤ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ(۷۰) (پ 8، الاعراف:70) ترجمہ کنز الایمان: بولے کیا تم ہمارے پاس اس لئےآئے ہو کہ ہم ایک الله کو پوجیں اور جو ہمارے باپ دادا پوجتے تھے انہیں چھوڑ دیں تو لاؤ جس کا ہمیں وعدہ دے رہے ہو اگر سچے ہو۔ (عجائب القرآن مع غرائب القرآن، ص85)

آخر عذابِ الٰہی کی جھلکیاں شروع ہوگئیں۔ تین سال تک بارش نہیں ہوئی اور ہر طرف قحط سالی کا دور دورہ ہو گیا۔ وَ اَمَّا عَادٌ فَاُهْلِكُوْا بِرِیْحٍ صَرْصَرٍ عَاتِیَةٍۙ(۶) (پ 29، الحاقۃ:6) ترجمہ کنز الایمان: اور رہے عاد وہ ہلاک کئےگئے نہایت سخت گر جتی آندھی سے۔

قرآنِ کریم کے اس دردناک واقعہ سے یہ سبق ملتا ہے کہ قوم عاد جو بڑی طاقتور قوم تھی،مگر کفر اور بد اعمالیوں وبدکاریوں کی منحوسیت نے ان لوگوں کو قہر الٰہی کے عذاب میں اس طرح گرفتار کر دیا کہ ان آندھی کے جھونکوں اور جھٹکوں نے ان کی پوری آبادی کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔

(2) دوسری قوم ثمود ہے۔ حضرت صالح علیہ السلام قوم ثمود کی طرف نبی بنا کر بھیجے گئے۔آپ نے جب قوم ثمود کو خدا کا فرمان سنا کر ایمان کی دعوت دی تو اس سر کش قوم نے آپ سے معجزہ طلب کیا کہ آپ اس پہاڑ کی چٹان سے ایک گا بھن اونٹنی نکالیے جو خوب فربہ اور ہر قسم کے عیوب ونقائص سے پاک ہو، چنانچہ آپ نے چٹان کی طرف اشارہ کیا تو وہ فوراً پھٹ گئی اور اس میں سے ایک نہایت ہی خوبصورت و تندرست اور خوب بلند قامت اونٹنی نکل پڑی اور اس نے بچہ بھی جنا اور یہ اپنے بچے کے ساتھ میدانوں میں چرتی پھرتی رہی۔ چنانچہ اس قوم میں قداربن سالف آدمی تھا۔ ساری قوم کے حکم سے اس اونٹنی کو قتل کرنے کیلئے تیار ہو گیا۔ حضرت صالح علیہ السلام منع کرتے رہے لیکن اس نے پہلے تو اونٹی کے چاروں پاؤں کو کاٹ ڈالا،پھر اس کوذبح کردیااور انتہائی سرکشی کے ساتھ حضرت صالح علیہ السلام سے بے ادبا نہ گفتگو کرنے لگا۔ فَعَقَرُوا النَّاقَةَ وَ عَتَوْا عَنْ اَمْرِ رَبِّهِمْ وَ قَالُوْا یٰصٰلِحُ ائْتِنَا بِمَا تَعِدُنَاۤ اِنْ كُنْتَ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ(۷۷) فَاَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دَارِهِمْ جٰثِمِیْنَ(۷۸) فَتَوَلّٰى عَنْهُمْ وَ قَالَ یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُكُمْ رِسَالَةَ رَبِّیْ وَ نَصَحْتُ لَكُمْ وَ لٰكِنْ لَّا تُحِبُّوْنَ النّٰصِحِیْنَ(۷۹) (پ8،الاعراف:77-79) ترجمہ کنز الایمان:پس ناقہ کی کوچیں کاٹ دیں اور اپنے رب کے حکم سے سرکشی کی اور بولے اے صالح ہم پر لے آؤ جس کا تم وعدہ دے رہے ہو اگر تم رسول ہو توانہیں زلزلہ نےآلیا تو صبح کو اپنے گھروں میں اوندھے رہ گئے تو صالح نے ان سے منہ پھیرا اور کہا اے میری قوم بیشک میں نے تمہیں اپنے رب کی رسالت پہنچادی اور تمہارا بھلا چاہا مگر تم خیر خواہوں کے غرضی ہی نہیں۔ ( صراط الجنان)

3-تیسری قوم لوط علیہ السلام کی قوم ہے یہ قوم شہرسدوم میں رہتی تھی۔ شہر سدوم کی بستیاں بہت آباد اور نہایت سر سبز و شاداب تھیں۔شہر کی خوشحالی کی وجہ سے اکثر لوگ مہمان بن کر آیا کرتے تھے۔اس ماحول میں ابلیس لعین ایک بوڑھے کی صورت میں نمودار ہوا اور ان سے کہنے لگا کہ تم لوگ مہمانوں کی آمد سے نجات چاہتے ہو تو اس کی تو تدبیریہ ہے کہ تم لوگ زبردستی اس کے ساتھ بد فعلی کرو اس طرح اس قوم میں بد فعلی شروع ہوگئی اور پھر رفتہ رفتہ اس برے کام کے یہ لوگ اس قدر عادی بن گئے کہ عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے اپنی شہوت پوری کر نے لگے۔(تفسیرروح البیان،3 /197) چنانچہ حضرت لوط علیہ السلام نے ان لوگوں کو فعل بد سے منع کرتے ہوئے اس طرح و عظ فر مایا: اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ(۸۰) (پ8،الاعراف: 80) ترجمہ کنزالایمان:کیا وہ بے حیائی کرتے ہو جو تم سے پہلے جہان میں کسی نے نہ کی۔یہ وعظ سن کر اس قوم نے نہایت بے باکی سے ان کی گستاخی کی اور کہا: اَخْرِجُوْهُمْ مِّنْ قَرْیَتِكُمْۚ-اِنَّهُمْ اُنَاسٌ یَّتَطَهَّرُوْنَ(۸۲) (پ8،الاعراف: 82) ترجمہ کنز الایمان: ان کو اپنی بستی سے نکال دو۔ یہ لوگ تو پاکیزگی چاہتے ہیں۔

جب قوم لوط کی سرکشی اور بد فعلی قابل ہدایت نہ رہی تو اللہ کا عذاب آگیا۔ فَاَنْجَیْنٰهُ وَ اَهْلَهٗۤ اِلَّا امْرَاَتَهٗ ﳲ كَانَتْ مِنَ الْغٰبِرِیْنَ(۸۳) وَ اَمْطَرْنَا عَلَیْهِمْ مَّطَرًاؕ-فَانْظُرْ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُجْرِمِیْنَ۠(۸۴) (پ8،الاعراف: 83-84) ترجمہ کنز الایمان: تو ہم نے اسے اور اس کے گھر والوں کو نجات دی مگر اس کی عورت وہ رہ جانے والوں میں ہوئی اور ہم نے ان پر ایک مینہ برسایا تو دیکھو کیسا انجام ہوا مجرموں کا۔

جو پتھر اس قوم پر بر سائے گئے وہ کنکروں کے ٹکڑے تھے اور ہر پتھر پر اس شخص کا نام لکھا ہوا تھا جو اس سے

ہلاک ہوا۔ (تفسیرصاوی،2 /76)

4- چوتھی قوم فرعونی قوم ہے جن کو ایمان کی دعوت دینے کیلئے اللہ پاک نے حضرت موسی علیہ السلام کو مبعوث فرمایا۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نےاپنی قوم کو ایمان کی دعو ت دی اور کثیر معجزات بھی دکھائے مگر صرف چند لوگوں نے ہی ایمان قبول کیا اور جو ایمان نہ لائے وہ اپنے کفر اور سر کشی میں حد سے بڑھ گئے تو تب حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا سے ان پہ پانچ عذاب مسلسل آئے۔اس کے بارے میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمُ الطُّوْفَانَ وَ الْجَرَادَ وَ الْقُمَّلَ وَ الضَّفَادِعَ وَ الدَّمَ اٰیٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍ- فَاسْتَكْبَرُوْا وَ كَانُوْا قَوْمًا مُّجْرِمِیْنَ(۱۳۳) (پ 9، الاعراف: 133) ترجمہ کنزالایمان:تو بھیجا ہم نے ان پر طوفان اور ٹڈی اور گھن اور مینڈک اور خون جدا جدا نشانیاں تو انہوں نے تکبر کیا اور وہ مجرم قوم تھی۔

5-پانچویں حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں۔ اللہ پاک نے انہیں قوم بنی اسرائیل کی طرف بھیجا۔ انہوں نے بنی اسرائیل کی طرف اپنی نبوت اور معجزات کا اعلان کرتے ہوئے فر مایا: وَ رَسُوْلًا اِلٰى بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ ﳔ اَنِّیْ قَدْ جِئْتُكُمْ بِاٰیَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ ﳐ اَنِّیْۤ اَخْلُقُ لَكُمْ مِّنَ الطِّیْنِ كَهَیْــٴَـةِ الطَّیْرِ فَاَنْفُخُ فِیْهِ فَیَكُوْنُ طَیْرًۢا بِاِذْنِ اللّٰهِۚ-وَ اُبْرِئُ الْاَكْمَهَ وَ الْاَبْرَصَ وَ اُحْیِ الْمَوْتٰى بِاِذْنِ اللّٰهِۚ-وَ اُنَبِّئُكُمْ بِمَا تَاْكُلُوْنَ وَ مَا تَدَّخِرُوْنَۙ-فِیْ بُیُوْتِكُمْؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَۚ(۴۹) (پ3،اٰل عمران: 49) ترجمہ کنزالایمان: اور رسول ہوگا بنی اسرائیل کی طرف یہ فرماتا ہوا کہ میں تمہارے پاس ایک نشانی لایا ہوں تمہارے رب کی طرف سے کہ میں تمہارے لیے مٹی سے پرند کی سی مورت بناتا ہوں پھر اس میں پھونک پھونک مارتا ہوں تو وہ فوراً پرند ہوجاتی ہے اللہ کے حکم سے اور میں شفا دیتا ہوں مادر زاد اندھے اور سپید داغ والے کو اور میں مُردے جلاتا ہوں اللہ کے حکم سے اور تمہیں بتاتا ہوں جو تم کھاتے اور جو اپنے گھروں میں جمع کررکھتے ہو بے شک ان باتوں میں تمہارے لیے بڑی نشانی ہے اگر تم ایمان رکھتے ہو۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جب یہودیوں کے سامنے اپنی نبوت کا اعلان فرمایا تو چونکہ یہودی تورات میں پڑھ چکے تھے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ان کے دین کو منسوخ کریں گے اس لئے یہودی آپ کے دشمن ہو گئے اور آپ کو قتل کرنے کا منصوبہ بنانے لگے اور ایک شخص جس کا نام ططیانوس تھا آپ کے مکان میں آپ کو قتل کر دینے کیلئے بھیجاگیا۔اتنے میں الله پاک نے حضرت عیسٰی علیہ السلام کو اپنی طرف اٹھالیا اورططیانسوس کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شکل کا بنادیااور پھر اس کا انجام یہ ہواکہ یہودیوں نے ططیانوس کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام سمجھ کہ قتل کر دیا۔ اس کے بعد جب ان کو معلوم ہوا کہ چہرہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کاہے اور بدن ططیانوس کا تو اس پر جنگ و جدال کی نوبت آگئی اور خود یہودیوں نے ایک دوسرے کو قتل کرنا شروع کر دیا اور بہت سے یہودی قتل ہوگئے۔ وَ مَكَرُوْا وَ مَكَرَ اللّٰهُؕ-وَ اللّٰهُ خَیْرُ الْمٰكِرِیْنَ۠(۵۴) (پ5،اٰل عمران: 54) ترجمہ کنز الایمان: اور کافروں نے مکر کیا اور الله نے ان کے ہلاک کی خفیہ تدبیر فرمائی اور اللہ سب سے بہتر چھپی تدبیر والا ہے۔

ان سب واقعات سے ہمیں معلوم ہوا کہ اللہ پاک کے انبیائے کرام علیہم السلام کے ساتھ سر کشی کرنا خود کی ہی ہلاکت و بر بادی ہے۔ اللہ پاک ہمیں انبیائے کرام کی شان میں گستاخی کرنے سے محفوظ فرمائے۔آمین