1- قوم سبا: لَقَدْ كَانَ لِسَبَاٍ فِیْ مَسْكَنِهِمْ اٰیَةٌۚ-جَنَّتٰنِ عَنْ یَّمِیْنٍ وَّ شِمَالٍ۬ؕ-كُلُوْا مِنْ رِّزْقِ رَبِّكُمْ وَ اشْكُرُوْا لَهٗؕ-بَلْدَةٌ طَیِّبَةٌ وَّ رَبٌّ غَفُوْرٌ(۱۵) (پ 22، السبا: 15) ترجمہ:بے شک قومِ سبا کیلئے ان کی آبادی میں نشانی تھی۔دو باغ تھے ایک دائیں طرف اور دوسرا بائیں طرف۔اپنے رب کا رزق کھاؤ اور اس کا شکر ادا کر و پاکیزہ شہر اور بخشنے والا رب۔

تفسیر:یمن کے شہر صنعاء سے کچھ فاصلے پر ایک قبیلہ سبا واقع تھا۔ اللہ پاک نے ان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا تھا۔یہ قوم خوشحال اور پر سکون زندگی بسر کر رہی تھیں۔ان کے شہر کے دونوں طرف کثیر باغات تھے۔ اس قوم کے سردار کا لقب حمار تھا وہ اتنا متکبر اور سرکش آدمی تھا کہ جب اس کا لڑکا مر گیا تو اس نے آسمان کی طرف تھوکا اور اپنے کفر کا اعلان کردیا۔ یہ سردار لوگوں کو اعلانیہ کفر کی دعوت دینے لگا، جو کفر کا انکار کرتا اسے قتل کر دیتا تھا۔

جب حمار اور اس کی قوم کی سرکشی بہت زیادہ بڑھ گئی تو اللہ پاک نے ان پر سیلاب کا عذاب بھیجا۔قوم سبا کی بستی کے کنارے ملکہ بلقیس نے ایک ڈیم بنایا تھا جس کے اوپر نیچے تین دروازے تھے۔ ایک چوہے نے اللہ کے حکم سے اس بند میں سوراخ کر دیا جو شگاف بن گیا یہاں تک کہ دیوار ٹوٹ گئی اور اچانک سیلاب آگیا۔ (تعلیمات قرآن،ص169،حصہ:3)

2- وَ اِلٰى عَادٍ اَخَاهُمْ هُوْدًاؕ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-اَفَلَا تَتَّقُوْنَ(۶۵) (پ 8، الاعراف: 65) اور قوم عاد کی طرف اُن کے ہم قوم کو بھیجا (ہود نے) فرمایا:اے میری قوم!اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ تو کیا تم ڈرتے نہیں ؟

حضرت ہود علیہ السلام کا تعلق قوم عاد سے تھا۔ آپ حضرت نوح علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے۔ آپ کا قد طویل،چہرہ حسین و جمیل اور داڑھی لمبی تھی۔آپ کی عمر 472 سال ہوئی۔الله پاک نے آپ کو قومِ عاد کی طرف نبی بنا کر بھیجا۔قوم عاد کئی برائیوں میں مبتلا تھی۔انہوں نے مختلف ناموں کے بت بنائے اور ان کی پوجا کرتے تھے۔ پہاڑوں میں مضبوط گھر بنا کر سمجھتے کہ ہم ہمیشہ زندہ رہیں گے۔لوگوں پر ظلم کرتے تھے۔اپنی طاقت و قوت پر غرور و تکبر کرتے تھے وغیرہ۔

حضرت ہود علیہ السلام نے ان سے فرمایا:اللہ پاک پر ایمان لاؤ، اس کے رسول کی تصدیق کرو اور اس کے حضور تو بہ استغفا رکرو تو اللہ پاک بارش بھیجے گا، ان کی زمینوں کو سر سبز و شاداب کر کے تازہ زندگی عطا فرمائے گا اور قوت و اولاد دے گا مگر قومِ عاد نے حضرت ہود علیہ السلام کی بات نہ مانی تو اللہ پاک نے ان پر آندھی کا عذاب بھیجا جو مسلسل سات راتیں آٹھ دن جاری رہی اور قوم عادکے کفار کا نام و نشان مٹ گیا۔

3-بنی اسرائیل اور حضرت موسیٰ علیہ السلام: وَ ظَلَّلْنَا عَلَیْكُمُ الْغَمَامَ وَ اَنْزَلْنَا عَلَیْكُمُ الْمَنَّ وَ السَّلْوٰىؕ-كُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْؕ-وَ مَا ظَلَمُوْنَا وَ لٰكِنْ كَانُوْۤا اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ(۵۷) ( 1، البقرة: 57) ترجمہ: اور ہم نے تمہارے اوپر بادل کو سایہ بنا دیا اور تمہارےاوپر من و سلویٰ اتارا (کہ) ہماری دی ہوئی پا کیزہ چیزیں کھاؤ اور انہوں نے ہمارا کچھ نہ بگاڑ ا بلکہ اپنی جانوں پر ہی ظلم کرتے رہے۔

فرعون کے غرق ہونے کے بعد بنی اسرائیل دوبارہ مصر میں آباد ہو گئے۔کچھ عرصے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام نے انہیں کلامِ الٰہی سنایا کہ ملک شام کی طرف ہجرت کرو کہ اسی میں بیت المقدس ہے۔اسے قوم عمالقہ سے آزاد کرانے کے لئے جہاد کرو اور مصر چھوڑ کر وہیں وطن بناؤ۔مصر چھوڑنا بنی اسرائیل کیلئے بڑا تکلیف دہ تھا۔ایک میدان میں موسیٰ علیہ السلام کی دعا سے انہیں من و سلویٰ ملنا شروع ہو گیا جو ہفتہ کو نہ آتا تھا۔ انہیں حکم تھا کہ جمعہ کو ہفتہ کے لئے بھی جمع کرلینا لیکن زیادہ جمع نہ کریں۔ بنی اسرائیل نے حکم الٰہی کی نا فرمانی کی اور ایک دن سے زیادہ کے لئے جمع کیا تو وہ جمع کیا ہوا کھانا سڑ گیا اور اللہ پاک کی طرف سے نعمت آنا بند ہو گئی۔

4 –حضرت یونس اور ان کی قوم:ترجمہ:توکیوں ایسا نہ ہوا کہ کوئی قوم ایمان لے آتی تا کہ اس کا ایمان اسے نفع دیتا لیکن یونس کی قوم جب ایمان لائی تو ہم نے ان سے دنیا کی زندگی میں رسوائی کا عذاب ہٹا دیا اور ایک وقت تک انہیں فائدہ اٹھا نے دیا۔

حضرت یونس علیہ السلام کا اسمِ گرامی یونس بن متی ہے۔ آپ کو موصل کے شہر نینوی کی طرف رسول بنا کے بھیجاگیا۔نینوی شہر کے لوگ بتوں کی عبادت کرتے تھے۔اللہ پاک کے ایک ہونے کا انکار کرنے کے شرک میں متلاتھے۔ یونس علیہ السلام ان کے پاس آئے،انہیں بت پرستی سے منع کیا اور اللہ کے عذاب سے ڈرایا۔ ان لوگوں نےآپ کی بات ماننے سے انکار کر دیا اور آپ پر پتھراؤ کیا۔ آپ نے ان کو الله پاک کےحکم سے عذاب آنے کی خبر دی اور خود وہاں سے چلے گئے۔ پھر ان لوگوں نے اخلاص کے ساتھ توبہ کی، ایمان لائے تو الله کو ان پر رحم آگیا اور ان کا عذاب ٹل گیا۔ (تعلیمات قرآن، حصہ:3)

نصیحت: ہمیں اس سے یہ سبق حاصل ہوا کہ ہمیں الله پاک اور اس کے رسولوں کی نافرمانی سے بچنا چاہئے۔ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا چاہیے اور اخلاص کے ساتھ سچی توبہ کرنی چاہیے کہ الله پاک بخشنے والا مہربان ہے اور اپنے گنا ہوں پر ہمیں نادم ہوتے رہنا چاہیے۔ 


انبیائے کرام علیہم الصلوۃ والسلام اللہ پاک کےمخلص اور چنے ہوئے بندے ہوتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ پاک نے قرآنِ پاک میں مطلق انبیائے کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے بارے میں ارشاد فرمایا: وَ اِنَّهُمْ عِنْدَنَا لَمِنَ الْمُصْطَفَیْنَ الْاَخْیَارِؕ(۴۷) (پ23،صٓ:47) ترجمہ کنز العرفان: اور بیشک وہ ہمارے نزدیک بہترین چنے ہوئے بندوں میں سے ہیں۔

انبیائے کرام علیہم الصلوۃ والسلام اللہ پاک کے معصوم بندے ہیں۔یہ تمام مخلوق حتی کہ فرشتوں سے بھی افضل ہوتے ہیں۔ یہ وہ عظیم ہستیاں ہیں جنہیں الله پاک نے مخلوق کی ہدایت کے لیے مبعوث فرمایا۔یہ زمین میں اللہ پاک کے نائب اور خلیفہ ہیں۔انہوں نے اپنے فرائض ِمنصبی کو بہترین اور احسن انداز سے پورا کیا۔ان کی تبلیغ کا بنیادی موضوع توحید و رسالت اور احکاماتِ الٰہی ہوتا تھا۔ مختلف ادوار میں مختلف انبیائے کرام کو مخصوص قوموں کی طرف بھیجا گیا۔اس ضمن میں آج ہم 5 انبیائے کرام اور ان کی قوموں کا مختصراً ذکر کریں گے۔

1-حضرت الیاس علیہ السلام اور قرآن: وَ اِنَّ اِلْیَاسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَؕ(۱۲۳) (پ23، الصّٰفّٰت: 123) ترجمہ کنز الایمان:اور بیشک الیاس پیغمبروں میں سے ہے۔

سورۃ الصّٰفّٰت کی آیت 123 میں واضح طور پر حضرت الیاس علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پیغمبر ہو نے کا بیان کیا گیا اور اس کی بعد والی آیتوں میں ان کے قوم کو تبلیغ کرنے اور قوم کے ان کو جھٹلانے کو بیان کیا گیا۔حضرت الیاس علیہ السلام کی بعثت کے بارے میں مفسرین ومؤرخین کا اتفاق ہے کہ وہ شام کے باشندوں کی ہدایت کے لئے بھیجے گئے اور بعلبک کا مشہور شہر ان کی رسالت و ہدایت کا مرکز تھا۔(غرائب القرآن،ص296)

2-حضرت یونس علیہ السلام اور قرآن:ارشاد باری ہے: فَلَوْ لَا كَانَتْ قَرْیَةٌ اٰمَنَتْ فَنَفَعَهَاۤ اِیْمَانُهَاۤ اِلَّا قَوْمَ یُوْنُسَؕ-لَمَّاۤ اٰمَنُوْا (پ11، یونس: 98) ترجمہ کنز الایمان: تو ہوئی ہوتی نہ کوئی بستی کہ ایمان لاتی تو اس کا ایمان کام آتا ہاں یونس کی قوم جب ایمان لائے۔

آیت کے اس حصے میں حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کے ایمان لانے کا بیان کیا گیا کہ حضرت یونس علیہ السلام کی قوم پر عذاب کی بدلیاں آجانے کے بعد بھی جب وہ لوگ ایمان لائے تو ان سے عذاب اٹھا لیا گیا تھا جبکہ جب کسی قوم پر عذاب آجاتا تو اس کے بعد ان کا ایمان لانا مفید نہ ہوتا۔آیت کے اس حصے سے ہمیں معلوم ہوا کہ حضرت یونس علیہ السلام بھی اللہ پاک کے پیغمبر تھے۔ ان کو اللہ پاک نے شہر نینوی کے باشندوں کی ہدایت کے لئے رسول بنا کر بھیجا۔(غرائب القرآن،ص123-124)

3 -حضرت موسی علیہ السلام اور قرآن:قرآنِ پاک میں بہت سی جگہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نبوت و معجزات اور ان کی قوم بنی اسرائیل کے واقعات کو بیان کیا گیا ہے،چنانچہ ارشادِ باری ہے: وَ اِذِ اسْتَسْقٰى مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ فَقُلْنَا اضْرِبْ بِّعَصَاكَ الْحَجَرَؕ-فَانْفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَیْنًاؕ-(پ1،البقرة:60) ترجمہ کنزالایمان: اور جب موسی نے اپنی قوم کے لیے پانی مانگا تو ہم نے فرمایا:اس پتھر پر اپنا عصامارو فوراً اس میں سے بارہ چشمے بہہ نکلے۔

آیت مبارکہ کے اس حصے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عظیم معجزے کا ذکر کیا گیا کہ جب ان کی قوم بنی اسرائیل نے میدان تیہ میں پیاس کی شدت سے بے تاب ہو کر ان سے پانی مانگا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پتھر پر اپنا عصا مارا تو اس میں سے بارہ چشمے بہہ نکلے۔( عجائب القرآن، ص25)

4-حضرت داؤد علیہ السلام اور قرآن:حضرت داؤد علیہ السلام کو اللہ پاک نے سلطنت اور نبوت سے سرفراز فرمایا۔آپ علیہ السلام سے پہلے یہ دونوں اعزاز ایک ساتھ کسی کو نہ ملے تھے۔ چنانچہ ارشاد باری ہے: وَ قَتَلَ دَاوٗدُ جَالُوْتَ وَ اٰتٰىهُ اللّٰهُ الْمُلْكَ وَ الْحِكْمَةَ وَ عَلَّمَهٗ مِمَّا یَشَآءُؕ-(پ2، البقرة:251) ترجمہ کنز الایمان:اور قتل کیا داؤد نے جالوت کو اللہ نے اسے سلطنت اور حکمت عطافرمائی اور اسے جو چاہا سکھایا۔

اس آیتِ مبارکہ میں داؤد علیہ السلام کو سلطنت ملنے کے واقعے کو مختصر بیان کیا گیا ہے کہ جب بنی اسرائیل کے بادشاہ طالوت نے جالوت سے جہاد کیا تو حضرت داؤد علیہ السلام نے جالوت کو قتل کر دیا اس پر بادشاہ نے اپنے اعلان کے مطابق آپ علیہ السلام کو اپنی آدھی سلطنت دی اور اپنی بیٹی کا نکاح بھی ان سے فرمایا۔ بادشاہ کے انتقال کے بعد آپ علیہ السلام پوری سلطنت کے سلطان بن گئے۔ اس واقعے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرت داؤد علیہ السلام بنی سرائیل کی طرف مبعوث فرمائے گئے تھے۔ (عجائب القرآن، ص62-63)

5-حضرت محمد ﷺاور قرآن:اصلاً سارا قرآن، اس کا ایک ایک حرف ہمارے آخری نبی ﷺکی نبوت و صداقت پر دلالت کرتا ہے۔قرآن ِکریم کی بیسیوں آیتیں آپ ﷺ کی نبوت و صداقت کی واضح دلیلیں ہیں، چنانچہ اللہ پاک سورة الاحزاب کی آیت نمبر 40 میں ارشاد فرماتا ہے: مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠(۴۰) (پ 22، الاحزاب: 40) ترجمہ کنز العرفان:محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن الله کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے آخر میں تشریف لانے والے ہیں اور اللہ سب کچھ جاننے والا ہے۔

اس آیت مبارکہ کی روشنی میں جہاں پیارے آقا ﷺکے رسول ہونے کو واضح کیا گیا وہیں یہ بھی واضح ہوا کہ آپ ﷺ سب سے آخری نبی ہیں۔آپﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ جیسا کہ حدیثِ پاک میں ہے:اے لوگو!بیشک میرے بعد کوئی نبی نہیں اور تمہارے بعد کوئی امت نہیں۔(معجم کبیر،8/115، حدیث:7535)

یہ ہمارے پیارے آخری نبی حضرت محمد ﷺ کی ہی خصوصیت ہے کہ آپﷺ کو خاتم النبیین کا رتبہ ملا اور آپﷺکو مخصوص وقت اور مخصوص قوم پر نہیں بلکہ تمام جہانوں اور تمام مخلوق پر قیامت تک کے لیے نبی ورسول بنا کر بھیجا گیا۔ آپ ﷺ پچھلی تمام شریعتوں کے ناسخ ہیں۔ اب قیامت تک صرف آپ ﷺ کی شریعت پر عمل کرنے والا ہی مسلمان کہلائے گا۔ جو آپ ﷺ کو آخری نبی نہ مانے بلکہ اس میں شک کرے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ پیارے آقا ﷺکی خاتم النبین کی صفت / خصوصیت کو اپنی رباعی میں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

آتے رہے انبیا کَمَا قِیْلَ لَھُمْ وَالْخَاتَمُ حَقُّکُمْ کہ خاتم ہوئے تم

یعنی جو ہوا دفتر تنزیل تمام آخر میں ہوئی مُہر کہ اَكْمَلْتُ لَكُمْ


حضرت یونس علیہ السلام:حضرت یونس علیہ السلام کو نینوی کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا تھا۔ قرآنِ مجید میں آپ کا نام چار مرتبہ آیا ہے۔ اللہ پاک نے قرآنِ کریم میں ذوالنون اور صاحبِ حوت (مچھلی والے) کے لقب سے آپ کا ذکر کیا۔

قرآن کی روشنی میں: فَلَوْ لَا كَانَتْ قَرْیَةٌ اٰمَنَتْ فَنَفَعَهَاۤ اِیْمَانُهَاۤ اِلَّا قَوْمَ یُوْنُسَؕ-لَمَّاۤ اٰمَنُوْا (پ11، یونس: 98) ترجمہ کنز الایمان: تو ہوئی ہوتی نہ کوئی بستی کہ ایمان لاتی تو اس کا ایمان کام آتا ہاں یونس کی قوم جب ایمان لائے۔ وَ اِنَّ یُوْنُسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَؕ(۱۳۹) اِذْ اَبَقَ اِلَى الْفُلْكِ الْمَشْحُوْنِۙ(۱۴۰) (پ 23، الصّٰفّٰت: 139 -140) ترجمہ: اور بیشک یونس ضرور رسولوں میں سے ہے جب وہ بھری کشتی کی طرف نکل گیا۔

حضرت ہود علیہ السلام:حضرت ہود علیہ السلام کو قومِ عاد کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا۔سورۂ ہود مکیہ ہے۔ اس میں 10 رکوع اور 123 آیتیں اور 1600 کلمے اور 9567 حرف ہیں۔

قرآن کی روشنی میں:یہ ایک کتاب ہے جس کی آیتیں حکمت بھری ہیں۔ پھر تفصیل کی گئیں حکمت والے خبردار کی طرف سے کہ بندگی نہ کرو مگر الله کی بے شک میں تمہارے لئے اس کی طرف سے ڈر اور خوشی سنانے والا ہوں اور یہ کہ اپنے رب سے معافی مانگو پھر اس کی طرف توبہ کرو تمہیں بہت اچھا بر تنا( فائدہ) دے گا ایک ٹھہرائے وعدے تک اور ہر فضیلت والے کو اس کا فضل پہنچائے گا اور اگر منہ پھیر و تو میں تم پر بڑے دن کے عذاب کا خوف کرتا ہوں تمہیں الله ہی کی طرف پھرنا ہے۔(پ11،ہود:2تا8)

حضرت صالح علیہ السلام: حضرت صالح علیہ السلام کو قومِ ثمود کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا۔

قرآن کی روشنی میں: اور یاد کرو تم کو عاد کا جانشین کیا اور ملک میں جگہ دی کہ نرم زمین میں محل بناتے ہو اور پہاڑوں میں مکان تراشتے ہو تو الله کی نعمتیں یاد کرو اور زمین میں فساد مچائے نہ پھرو اس کی قوم کے تکبر والے کمزور مسلمانوں سے بولے:کیا تم جانتے ہو کہ صالح اپنے رب کے رسول ہیں۔بولے وہ جو کچھ لے کر بھیجے گئے ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں متکبربولے جس پرتم ایمان لائے ہمیں اس سے انکار ہے۔( پ8،الاعراف: 73-76)

حضرت شعیب علیہ السلام:حضرت شعیب علیہ السلام کو مدین کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا تھا۔

قرآن کی روشنی میں: اور یہود بے شک اس میں ضرور نشانی ہے اور ان میں بہت مسلمان نہ تھے اور بے شک تمہارا رب ہی عزت والا مہربان ہے۔ ان جنگل والوں نے رسولوں کو جھٹلایا جب ان سے شعیب نے فرمایا کیا ڈرتے نہیں بے شک میں تمہارے لیے اللہ کا امانت دار رسول ہوں تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو اور میں اس پر کچھ تم سے اُجرت نہیں مانگتابے شک میں تمہارے لیے الله کا امانت دار رسول ہوں میرا اجر تو اسی پر ہے جو سارےجہان کا رب ہے۔(پ19: 183)

حضرت موسی علیہ السلام:حضرت موسیٰ علیہ السلام کو قوم فرعون کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا تھا اور بنی اسرائیل کی طرف بھی بھیجا گیا۔


الله پاک نے انبیائےکرام کو مختلف قوموں کی طرف بھیجاتا کہ وہ دین کی تبلیغ کریں اور دین اسلام عام ہو۔ جیسا کہ جاہلیت میں لوگ بتوں کی پوجا کرتے تھے یا آگ کی پوجا کرتے تھے تو اللہ پاک نے ان کو سیدھا راستہ دکھانے کے لئے انبیائےکر ام ان کی طرف بھیجے۔

کس نبی کوکس قوم کی طرف بھیجا گیا:(1) حضرت ہود علیہ السلام کو قومِ عاد کی طرف(2) حضرت صالح علیہ السلام کو قوم ثمود کی طرف(3) حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کی قوم کی طرف(4) حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بنی اسرائیل کی قوم کی طرف(5) حضرت نوح علیہ السلام کو بتوں کی پوجاکرنے والی قوم کی طرف۔

(1) حضرت ہود علیہ السلام:قومِ عاد:ایک قبیلہ جنوب کی جانب سے متوجہ ہوا اور جزیرہ عرب کے جنوبی طرف یمن کے ریتیلے ٹیلوں والے علاقے” احقاف“ میں قیام پذیر ہو گیا۔یہ قبیلہ اپنے والد یا بادشاہ”عاد“کی نسبت سے قوم عاد کے نام سے معروف ہوا۔

قوم عاد کے بہت سارے لوگ گناہگارتھے اور وہ دین کو ماننے کے لیے تیار ہی نہیں تھے۔ جب حضرت ہود علیہ السلام تشریف لائے تو الله پاک نے قوم عاد کو سلطنت دی اور بدنی قوت بھی وافر عطافرمائی۔قوم عادنے حضرت ہود سے مطالبہ کیا جیسا کہ قرآنِ پاک میں ارشاد ہو تا ہے: قَالُوْۤا اَجِئْتَنَا لِتَاْفِكَنَا عَنْ اٰلِهَتِنَاۚ-فَاْتِنَا بِمَا تَعِدُنَاۤ26، الاحقاف: 22) ترجمہ:انہوں نے کہا: کیا تم اس لیے آئے ہو کہ ہمیں ہمارے معبودوں سے پھیر دو، اگر تم سچے ہو تو ہم پر لے آؤ جس کی تم ہمیں وعیدیں سناتے ہو۔اس پر حضرت ہود نے فرمایا: اِنَّمَا الْعِلْمُ عِنْدَ اللّٰهِ ﳲ وَ اُبَلِّغُكُمْ مَّاۤ اُرْسِلْتُ بِهٖ وَ لٰكِنِّیْۤ اَرٰىكُمْ قَوْمًا تَجْهَلُوْنَ(۲۳) (پ26، الاحقاف:23) ترجمہ: علم تو الله ہی کے پاس ہے اور میں تمہیں اس چیز کی تبلیغ کرتا ہوں جس کے ساتھ مجھے بھیجا گیا ہے لیکن میں تمہیں ایک جاہل قوم سمجھتا ہوں۔

(2) حضرت صالح علیہ السلام: قوم ثمود:حضرت صالح کی قوم نےان سے معجزہ طلب کیا تواللہ پاک نےایک اونٹنی بھیجی جو اس گھاٹی سے باہر آتی اور اس کے اندر چلی جاتی تھی۔ وہ اونٹنی ایک دن لوگوں کے حصے کا پانی پی جاتی اور لوگ اس دن اونٹنی کادودھ پی لیتے تھے۔ پھر انہوں نے اونٹنی کی کونچیں کاٹ دیں تو اللہ پاک نے سب کوہلاک کر دیا سوائے ایک فرد کے وہ حرم پاک میں موجود تھا۔ حضرت صالح نے اپنی قوم سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: لَقَدْ اَبْلَغْتُكُمْ رِسَالَةَ رَبِّیْ وَ نَصَحْتُ لَكُمْ وَ لٰكِنْ لَّا تُحِبُّوْنَ النّٰصِحِیْنَ(۷۹) (پ8،الاعراف:79) اے میری قوم! بیشک میں نے تمہیں اپنے رب کا پیغام پہنچادیا اور میں نے تمہاری خیر خواہی کی لیکن تم خیر خواہوں کو پسند نہیں کرتے۔

(3) حضرت موسیٰ علیہ السلام: جس طرح فارس کے بادشاہ کا لقب کسریٰ،روم کے بادشاہ کا قیصر اور حبشہ کے بادشاہ کا لقب نجاشی ہوتا تھا، اسی طرح قبطی اورعمالقہ قوم سے تعلق رکھنے والے مصرکے بادشاہوں کا لقب ”فرعون“ ہوتا تھا۔

حضرت موسیٰ کی ولادت سے پہلے مصر میں فرعون کا غلب تھا اور ظلم و تکبر اور سرکشی میں اس انتہا کو پہنچ گیا کہ اس نے خدائی کا دعویٰ کردیا تھا۔اس نے مصر کے مختلف گروہ بنا لیے وہ ان کے ہاں پیدا ہونے والے بیٹوں کو ذبح کروا دیتا اور لڑکیوں کو خدمت گاری کے لیے زندہ چھوڑ دیتا تھا۔قرآنِ پاک میں ارشاد ہوتا ہے: اِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِی الْاَرْضِ وَ جَعَلَ اَهْلَهَا شِیَعًا یَّسْتَضْعِفُ طَآىٕفَةً مِّنْهُمْ یُذَبِّحُ اَبْنَآءَهُمْ وَ یَسْتَحْیٖ نِسَآءَهُمْؕ-اِنَّهٗ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ(۴) (پ20،القصص:4) بیشک فرعون نے زمین میں تکبر کیا تھا اور اس نے لوگوں کے مختلف گروہ بنادیے تھے ان میں ایک گروہ(بنی اسرائیل) کو کمزور کر رکھا تھا ان کے بیٹوں کوذبح کرتا اور ان کی عورتوں کو زندہ رکھتا تھا۔ بیشک وہ فسادیوں میں سے تھا۔

(4) حضرت عیسیٰ علیہ السلام:بنی اسرائیل: اللہ پاک نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بنی اسرائیل کی طرف نبی بناکر بھیجا۔ آپ نے ایک موقع پربنی اسرائیل کو یوں نصیحت فرمائی: قَدْ جِئْتُكُمْ بِالْحِكْمَةِ وَ لِاُبَیِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِیْ تَخْتَلِفُوْنَ فِیْهِۚ-فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ(۶۳) (پ25، الزخرف: 63) ترجمہ کنز الایمان: میں تمہارے پاس حکمت لے کر آیا اور اس لیے میں تم سے بیان کردوں بعض وہ باتیں جن میں تم اختلاف رکھتے ہو تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو۔

بنی اسرائیل کے کفار پر مصیبت کا ایک سبب یہ بھی تھا جیسا کہ ارشادِباری ہے: كَانُوْا لَا یَتَنَاهَوْنَ عَنْ مُّنْكَرٍ فَعَلُوْهُؕ-لَبِئْسَ مَا كَانُوْا یَفْعَلُوْنَ(۷۹) (پ 6، المائدۃ:79) ترجمہ: وہ ایک دوسرے کو کسی بُرے کام سے منع نہ کرتے تھے جو وہ کیا کرتے تھے بیشک یہ بہت ہی بُرے کام کرتے تھے۔

حضرت نوح علیہ السلام:اس باب میں قوم کی عملی حالت اور حضرت نوح علیہ السلام کی طرف سے قوم کو توحیدِ خداوندی پر ایمان لانے،اسی کی عبادت کرنے اور اپنی اطاعت کی دعوت دینے کا بیان ہے۔نیز حضرت نوح کی دعوت کے جواب میں قوم کے طرزعمل اور حضرت نوح کی قوم کے خلاف دعاؤں کا ذکر ہے۔وہ بتوں کی پوجا کرتے تھے۔آپ کی یہ دعوت قرآنِ کریم میں ان الفاظ کے ساتھ مذکور ہے۔ فَقَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-اِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ(۵۹) (پ 8، الاعراف:59) ترجمہ کنز الایمان: تو اس نے کہا اے میری قوم!اللہ کو پو جو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں بے شک مجھے تم پر بڑے دن کے عذاب کا ڈر ہے۔ اس قوم نے کہا:بے شک ہم تمہیں کھلی گمراہی میں دیکھتے ہیں۔ (پ8، الاعراف:60)

تو ہے خورشیدِ رسالت پیارے چھپ گئے تیری ضیا میں تارے

انبیا اور ہیں سب مہ پارے تجھ سے ہی نور لیا کرتے ہیں


الله پاک نے اپنی مخلوق کو اس کی اطاعت میں عاجز ہونا جان لیا، پھر ان کو اس کی معرفت کرائی تاکہ جان لیں کہ وہ اس کی خدمت و عبادت صفائی قلب کے ساتھ نہیں کر سکتے۔تو الله پاک نے اپنے اور ان کے درمیان صورتاً مماثلت کر کے ان کی جنس میں سے ایک مخلوق ایسی پیدا فرمائی کہ جن کا وصف ہی یہ ہے کہ وہ ان پر لطف و کرم فرمائیں اور اس مخلوق کو ان لوگوں کے لیے سفیر و واسطہ اور پیامبر بنایا۔ مختلف قوموں کی طرف مختلف انبیا مبعوث فرمائے۔حضرت ہود علیہ السلام قومِ عاد کی طرف،حضرت صالح علیہ السلام قومِ ثمود کی طرف،حضرت یوسف علیہ السلام مصر کی طرف،حضرت موسیٰ، ہارون، الیاس، دانیال، عیسیٰ،یحییٰ علیہم السلام بنی اسرائیل کی طرف اور محبوب ﷺ تمام کائنات کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے۔

1-حضرت نوح علیہ السلام اور ان کی قوم:حضرت نوح علیہ السلام کو 40 سال کی عمر میں اللہ کریم نے نبوت عطا فرمائی۔(سیرت الانبیاء،ص165) آپ علیہ السلام نے جب لوگوں کو ایک اللہ کی طرف بلایا تو انہوں نے انکار کیا اور ایمان نہ لائے اور کہا کہ اگر آپ دین کی دعوت سے باز نہ آئے تو ہم پتھر مار مار کر ہلاک کر دیں گے۔ چنانچہ ارشاد باری ہے: كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوْحٍ فَكَذَّبُوْا عَبْدَنَا وَ قَالُوْا مَجْنُوْنٌ وَّ ازْدُجِرَ(۹) (القمر: 9) ترجمہ: ان سے پہلے نوح کی قوم نے جھٹلا یا تو انہوں نے ہمارے بندے کو جھوٹا کہا اور کہنے لگے: یہ پاگل ہے اور نوح کو جھڑکا۔

آپ علیہ السلام اپنی قوم میں تقریباً 950 سال رہے۔ آپ نے ایک کشتی بنائی جس میں جانور،پرندے اور مسلمان مرد و عورتیں سوار ہو کر عذاب سے بچالئے گئے باقی تمام قوم پانی میں غرق کر دی گئی۔

2-حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی قوم:حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم کو ستاروں اور بتوں کی پوجا کرنے سے منع فرمایا اور توحید کی دعوت دی تو ان کی قوم ان سے جھگڑنے لگی اور کہنے لگی کہ انہیں بُرا نہ کہو کہیں تم پر کوئی مصیبت نہ آن پڑے۔ آپ علیہ السلام نے جواب دیا:مجھے ان بتوں کا کوئی ڈر نہیں۔چنانچہ قر آنِ کریم میں ہے: وَ حَآجَّهٗ قَوْمُهٗؕ-قَالَ اَتُحَآجُّوْٓنِّیْ فِی اللّٰهِ(الانعام: 80) ترجمہ: اور ان کی قوم ان سے جھگڑنے لگی (ابراہیم نے) فرمایا:کیا تم الله کے بارے میں مجھ سے جھگڑتے ہو۔

نمرود نے آپ علیہ السلام کیلئے آگ تیار کی اور اس میں آپ علیہ السلام کو ڈال دیا۔ اللہ پاک کے حکم سے وہ آگ ٹھنڈی ہوگئی اور نمرود عبرتناک موت مرا۔

3-حضرت لوط علیہ السلام اور ان کی قوم:حضرت لوط علیہ السلام کی قوم میں ہم جنس پرستی عام تھی۔آپ علیہ السلام نے دعوتِ حق دی۔ قرآنِ کریم میں ہے: اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ(۸۰) (پ8،الاعراف: 80) ترجمہ کنزالایمان:کیا وہ بے حیائی کرتے ہو جو تم سے پہلے جہان میں کسی نے نہ کی۔ قوم نے جواباً کہا: اَخْرِجُوْهُمْ مِّنْ قَرْیَتِكُمْۚ-اِنَّهُمْ اُنَاسٌ یَّتَطَهَّرُوْنَ(۸۲) (پ8،الاعراف: 82) ترجمہ کنز الایمان: ان کو اپنی بستی سے نکال دو۔ یہ لوگ تو پاکیزگی چاہتے ہیں۔ حضرت لوط علیہ السلام کے دعا کرنے پر قوم پر عذاب آیا۔حضرت جبریل علیہ السلام نے قوم لوط کے شہر کے نیچے اپنا بازو ڈالا،اس کو بہت اونچااٹھایا اور اوندھا کر کے پلٹ دیا۔اس دوران آپ علیہ السلام نے ایک چیخ ماری اور جو لوگ اس وقت بستی میں موجود نہ تھے جہاں کہیں بھی تھے ان پر لگاتار پتھر برسا کر انہیں ہلاک کر دیا گیا۔(سیرت الانبیاء،ص396-395 ملتقطاً)

4-حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم:فرعون اور اس کی قوم کے لوگ طرح طرح کے گناہوں اور جرائم میں مبتلا تھے مثلاً کفر و شرک،خدائی کا دعوی ٰ،تکبر،جادو،ظلم و فساد وغیرہ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دین کی طرف دعوت دی تو انہوں نے سرکشی کی اور دشمن ہوگئے۔ فرعون نے جادوگروں سے مقابلے کی دعوت دی۔ جب جادوگروں کو اندازہ ہوا کہ آپ علیہ السلام جادو گر نہیں تو انہوں نے اسلام قبول کر لیا۔فرعون نے انہیں دھمکی دی جس کا ذکرقرآنِ کریم میں یوں ہے: قَالَ اٰمَنْتُمْ لَهٗ قَبْلَ اَنْ اٰذَنَ لَكُمْؕ-(طہ:71) ترجمہ:کیا تم اس پر ایمان لائے اس سے پہلے کہ میں تمہیں اجازت دوں۔ فَلَاُقَطِّعَنَّ اَیْدِیَكُمْ وَ اَرْجُلَكُمْ مِّنْ خِلَافٍ وَّ لَاُصَلِّبَنَّكُمْ فِیْ جُذُوْعِ النَّخْلِ٘-(طہ:71) ترجمہ: مجھے قسم ہے میں ضرور تمہارے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسری طرف کے پاؤں کاٹ دوں گا اور تمہیں کھجور کے تنوں پر پھانسی دے دوں گا۔

فرعون اور اس کا لشکر دریا میں غرق کر دیئے گئے۔فرعون کی لاش اب بھی محفوظ ہے اور قاہرہ کے میوزیم میں نشان ِعبرت کے طور پر موجو د ہے۔

5-حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم:حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو دعوتِ حق دی؛ بعض ایمان لے آئے اور کئی سرکشی پر اتر آئے یہاں تک کہ شہید کرنے کا منصوبہ بنایا۔اللہ پاک نے آپ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھا لیا اور آپ علیہ السلام کی جگہ ایک اور شخص کو انہوں نے قتل کر دیا۔چنانچہ قرآنِ کریم میں ہے: وَّ قَوْلِهِمْ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیْحَ عِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ رَسُوْلَ اللّٰهِۚ-وَ مَا قَتَلُوْهُ وَ مَا صَلَبُوْهُ وَ لٰكِنْ شُبِّهَ لَهُمْؕ-وَ اِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْهِ لَفِیْ شَكٍّ مِّنْهُؕ- (النساء:157) اور ان کے اس کہنے کی وجہ سے کہ ہم نے مسیح عیسیٰ بن مریم اللہ کے رسول کو شہید کیا حالانکہ انہوں نے نہ تو اسے قتل کیا اور نہ سولی دی بلکہ ان کیلئے ( عیسیٰ سے) ملتا جلتا ( ایک آدمی) بنادیا گیا اور بیشک یہ (یہودی) جو اس عیسیٰ کے بارے میں اختلاف کر رہے ہیں ضرور اس کی طرف سے شبہ میں پڑے ہوئے ہیں۔

پچھلی قوموں کے برباد ہونے کا سبب اپنے نبی کی بے ادبی اور نافرمانی ہے۔ ہمیں چاہئے کہ اپنے آخری نبی ﷺ کی فرما نبر داری کریں۔ یہی دارین کی سعادتوں کا ذریعہ ہے۔


اللہ پاک کو اپنے محبوب بندوں کا ذکر پسند ہے۔اسی لیے الله پاک نے جا بجا قرآنِ عظیم میں اپنے انبیائے کرام کا ذکر فرمایا اور ان پر اپنی نعمتوں کا تذکرہ فرمایا۔الله پاک نے اپنے حبیبِ لبیب ﷺ کو بھی انبیائے کرام کا ذکر فرمانے کا حکم دیا تا کہ انبیائے کرام کا ذکر نبی کریم ﷺ کی سنت ہو جائے۔الله پاک نے بہت سے انبیائے کرام علیہم السلام کو بہت سی قوموں کی تبلیغ کے لیے بھیجا ان میں سے چند کا ذکر یہاں کیا جاتا ہے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام:حضرت ابراہیم علیہ السلام تارخ بن ناحورکے فرزند ہیں۔ آپ کا نام ابراہیم اور آپ علیہ السلام کا لقب ابوالضیفان (بہت بڑےمہمان نواز) ہے۔

آپ علیہ السلام کی قومیں:پہلے آپ علیہ السلام نے مصر کی نمرودی قوم کو نیکی کی دعوت دی۔لیکن وہ قوم حضرت ابرا ہیم علیہ السلام پر ایمان نہ لائی تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ہجرت کا فیصلہ کیا۔رب کریم ارشادفرماتا ہے: وَ قَالَ اِنِّیْ ذَاهِبٌ اِلٰى رَبِّیْ سَیَهْدِیْنِ(۹۹) (پ23، الصّٰفّٰت: 99) ترجمہ کنزالایمان:اور کہا میں اپنے رب کی طرف جانے والا ہوں اب مجھے راہ دے گا۔

اس کے بعد آپ علیہ السلام نے فلسطین کی طرف ہجرت کی۔تو لوگوں نے آپ علیہ السلام کی قدرو منزلت کو سمجھااور ان کے آنے کو باعثِ برکت سمجھا۔اس زمین میں کھیتی باڑی سے اللہ پاک نے بہت برکت عطا فرمائی۔ نیزآپ کے پاس غلہ اور جانور کافی مقدار میں موجود ہوگئے۔آپ علیہ السلام نےپہلے مسافر اور غربا کو رہنے اور کھانے کی سہولیات مہیا کیں۔ اس طرح مہمان نوازی میں آپ علیہ السلام کو منفرد مقام حاصل ہوگیا۔

حضرت لوط علیہ السلام:حضرت لوط علیہ السلام نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ مصر سے فلسطین کی طرف ہجرت کی۔پھر آپ نے حضرت ابر اہیم علیہ السلام کے شہر سے تقریباً اٹھارہ(18) میل دور تک ایک شہر میں تبلیغ شروع کی۔اس شہر کا نام سدوم تھا۔قرآنِ پاک میں اس کو المؤتفکۃسے تعبیرکیا گیا۔(تفسیر روح المعانی، 23/152)

آپ علیہ السلام کی قوم:حضرت لوط علیہ السلام نے اپنی قوم کو صرف بر ائیوں سے باز رہنے کی تبلیغ کی۔ لیکن ان کو عبادت کرنے کا حکم اس طرح نہ دیا جس طرح حضرت ابر اہیم علیہ السلام نے دیا۔حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کی سب سے بڑی برائی لواطت تھی (مَردوں سے بُرائی کرنے کی عادت ان میں کثرت سے پائی جاتی تھی) حضرت لوط علیہ السلام کے روکنے کے باوجود ان کی قوم بُرے افعال سے باز نہ آئی تو آخر کار الله پاک نے فرشتوں کے ذریعے ان پر عذاب نازل فرمایا۔

حضرت ہود علیہ السلام:حضرت ہود علیہ السلام حضرت نوح علیہ السلام سے آٹھ سو (800) سال بعد تشریف لائے اور آپ علیہ السلام کی ہی شریعت پر تھے۔ آپ علیہ السلام کی عمر میں کئی اقوال ہیں لیکن سب سے مشہور 464 والا قول ہے۔

آپ علیہ السلام کی قوم:حضرت ہود علیہ السلام کو قوم ثمود کی طرف بھیجا گیا۔حضرت ہود علیہ السلام نے قوم کو تبلیغ فرمائی۔ قرآنِ مجید میں ارشاد ہوتا ہے: قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-اَفَلَا تَتَّقُوْنَ(۶۵) (پ8، الاعراف:65) ترجمہ کنز الایمان:کہا! اے میری قوم اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔تو کیا تمہیں کوئی ڈر نہیں؟

قومِ عاد کے چھوٹے قد (80 فٹ) اور بڑے فٹ (ایک سو پچاس (150) فٹ) تھے۔ اسی وجہ سے اپنے جسموں اور طاقت کےگھمنڈ میں یہ کہتے کہ ہم سا طاقتور کوئی نہیں۔ جب یہ لوگ اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو الله پاک نے فرشتوں کو حکم دیا جو ہوا چلانے پر مشتمل ہے کہ عاد کی قوم پر اپنی ہواؤں کے خزانوں میں سے ایک انگوٹھی کی مقدار کھول دو۔ اس ہوا سے قومِ ثمو دریت کے ٹیلوں میں دب گئی اور انہوں نے الله پاک کی نافرمانی کی سزا پائی۔

حضرت محمدﷺ: حضرت محمدﷺ کا نام احمد،آپ کے والد کانام عبداللہ اور والدہ کا نام آمنہ ہے۔ ہمارے آخری نبیﷺ تمام انبیائے کرام علیہم السلام سے افضل ہیں۔ رب کریم ارشاد فرماتا ہے: وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷) (پ17،الانبیاء:107) ترجمہ کنز الایمان:اور ہم نے نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت۔ وَ رَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَؕ(۴) (پ30،الم نشرح:4) ترجمہ کنز الایمان:اور ہم نے تمہارے لیے تمہارا ذکر بلند کردیا۔

آپ ﷺ کی قوم:آپ ﷺ کو بیشک تمام اگلوں اور پچھلوں کے لیےرحمت بنا کر بھیجا۔لیکن آپ قومِ عرب کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے۔ آپﷺکے آنے سے قبل عرب جہالت میں گھرا ہوا تھا۔ عورتوں کی عزت نہ تھی۔سود، شراب، بدکاری،ر شوت جیسی چیزیں عام تھی۔لیکن جب آپ ﷺ عرب میں تشریف لائے تو عرب کا نقشہ ہی بدل گیا۔ آپ ﷺنے عورتوں کی عزت کرنے کا حکم دیا۔سود،بدکاری جیسی چیزوں کو روکنے کے لیے حد نافذ کی تاکہ لوگ اس کام سے باز آجائیں اور آپﷺنے اللہ پاک کی وحدانیت کا یقین دلوایا۔ آپ ﷺپر اللہ پاک نے قرآن ِپاک نازل فرمایا جو آج تک مسلمانوں کی رہنمائی کررہا ہے۔


اللہ پاک کو اپنے محبوب بندوں کا ذکر محبوب ہے اس لیے اللہ پاک نے قرآنِ پاک میں جابجا اپنے پیارے بندوں کا ذکر کرتے ہوئے اپنی نعمتوں کے نزول کا تذکرہ فرمایا۔الله پاک نے اپنے حبیب لبیب ﷺ کو بھی انبیا ئے کرام علیہم السلام کا ذکر فرمانے کا حکم دیا تا کہ انبیائے کرام علیہم السلام کا ذکر حضور ﷺ کی سنت ہو جائے اور یہ ذکر سن کر لوگ ان نفوسِ قدسیہ کی پا ک خصلتوں سے نیکیوں کا ذوق و شوق حاصل کریں۔ حدیث شریف میں ہے کہ صالحین کے ذکر سے رحمتِ الٰہی نازل ہوتی ہے۔انبیائے کرام علیہم السلام کے ذکر کے متعلق چند آیاتِ کریمہ کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں۔

وَ اتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاَ نُوْحٍۘ-(یونس:71) ترجمہ کنز الایمان:اور انہیں نوح کی خبر پڑھ کر سناؤ۔ وَ اذْكُرْ عَبْدَنَا دَاوٗدَ ذَا الْاَیْدِۚ-(صٓ:17) ترجمہ کنز الایمان:اور ہمارے بندے داؤد نعمتوں والے کو یاد کرو۔ وَ اذْكُرْ عَبْدَنَاۤ اَیُّوْبَۘ-(صٓ:41) ترجمہ کنز الایمان:اور یاد کرو ہمارے بندے ایوب کو۔

حضرت نوح علیہ السلام:نوح علیہ السلام نے کہا: ثُمَّ اِنِّیْ دَعَوْتُهُمْ جِهَارًاۙ(۸) ثُمَّ اِنِّیْۤ اَعْلَنْتُ لَهُمْ وَ اَسْرَرْتُ لَهُمْ اِسْرَارًاۙ(۹) (پ29،نوح: 9) ترجمہ: پھر میں نے انہیں اعلانیہ بلایا، پھر میں نے ان سے باعلان بھی کہا اور آہستہ خفیفہ بھی کہا۔

حضرت نوح علیہ السلام کے والد کا نام لمک بن متوشلخ میں اخنوخ ہے۔آپ کو چالیس سال کے بعد اعلانِ نبوت کا حکم دیا گیا اور ساڑھے نو سو سال آپ اپنی قوم میں ٹھہرے اور اپنی قوم کو تبلیغ فرمائی۔ لیکن قوم قریب آنے کی بجائے دور ہوتی گئی۔ آپ کی تقریر کونہ سننے کی غرض سے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے (معاذ اللہ) آپ سے نفرت کرتے ہوتے اپنے چہرے ڈھانپ لیتے۔ اللہ کے نبی کی قوم پر شفقت کا یہ عالم کہ آپ ان کو اس راہ پر چلانا چاہتے جس پر چلنے سے ان کو نجات حاصل ہو، اللہ ان کی مغفرت کرے اور ان سے راضی ہو جائے۔ لیکن قوم کی بدبختی کا یہ عالم کہ وہ آپ سے نفرت کرتے اور آپ کی بات تک نہ سنتے۔ اتنا عرصہ تبلیغ کرنے کے باوجود ایمان لانے والوں کی مختصر تعداد نظر آئی، تین آپ کے بیٹے اور تین ان کی بیویاں اور آپ کی ایک زوجہ اور ستر مرد عورتیں، یہی ایماندار لوگ کشتی پر بھی سوار تھے یعنی حضرت نوح علیہ السلام سمیت کل 78 آدمی کشتی میں سوار تھے۔(تذكرة الانبیاء)

حضرت یونس علیہ السلام:حضرت یونس علیہ السلام کا اسم گرامی یونس بن متی ہے۔آپ حضرت ہود علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔ قرآنِ پاک میں آپ کا نام چار مرتبہ آیا ہے۔ آپ کو نینوی شہر کے لوگوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا۔آپ کی قوم وہ واحد قوم ہے جس پر عذاب کے آثار ظاہر ہونے کے بعد بھی عذاب ٹل گیا حالانکہ جب بھی قوم پر عذاب کے آثارہوئے توان پر عذاب آ کر ہی رہا۔

آپ کی قوم بتوں کی عبادت کرتی تھی۔ اللہ پاک کے ایک ہونے کا انکار کرتے۔آپ ان لوگوں کے پاس آئے،انہیں بت پرستی سے منع فرمایا، بات ماننے کی بجائے انہوں نے آپ پر پتھر برسائے اور ایسا تین مرتبہ ہوا تو آپ نے اللہ پاک کے حکم سے تین دن بعد عذاب نازل ہونے کی خبر دی۔ رات کو آپ شہر سے باہر تشریف لے گئے۔ صبح کو قوم نے عذاب کے آثار دیکھے تو انہیں یقین ہو گیا کہ اب عذاب آنے والا ہے۔ انہوں نے اپنے سب گنا ہوں سے توبہ کرلی،ایک دوسرے سے معافی مانگ لی اور تلافیاں بھی کی تو اللہ کو ان پر رحم آگیا اور ان کی توبہ قبول فرمائی۔ جس دن ان کی توبہ قبول ہوئی وہ عاشورا (دس محرم الحرام) اور جمعہ کا دن تھا۔

جب آپ سمندر میں گئے توکشتی سے نکل کر آپ کو سمندر میں ڈال دیاگیا۔ تو آپ کو ایک بڑی مچھلی نے نگل لیا اور آپ کو آیت ِکریمہ لَّاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنْتَ سُبْحٰنَكَ ﳓ اِنِّیْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَۚۖ(۸۷) کی برکت سے مچھلی کے پیٹ سے نجات ملی۔اس کے بعد آپ کو اللہ پاک نے موصل کے شہر نینوی کے ایک لاکھ سے زائد لوگوں کی طرف بھیج دیا جو ایمان لاچکے تھے۔ (تعلیماتِ قرآن،حصہ3)

حضرت ہود علیہ السلام:حضرت ہود علیہ السلام کاتعلق قوم عاد کے قبیلے سے ہے۔ آپ حضرت نوح علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔ آپ کا قد طویل، چہر ہ حسین وجمیل اور داڑھی لمبی تھی۔ آپ کی عمر 472 سال ہوئی۔

قوم عاد کے لوگ بتوں کی پوجا کرتے، راہ گیروں کو تنگ کرتے،پہاڑوں میں مضبوط گھر بنا کر یہ سمجھتے کہ ہم ہمیشہ زندہ رہیں گے۔غرور و تکبر کرتے اور طرح طر ح کی برائیوں میں مبتلا تھے۔ جب اللہ پاک نے حضرت ہود علیہ السلام کو ان کی طرف بھیجا تو انہوں نے آپ کی شان میں گستاخی کی،آپ نے ان کو بہت سمجھا یا مگر انہوں نے جواب دیا:تمہارا نصیحت کرنا یا نہ کرنا برا بر ہے،ہم پر کوئی عذاب نہیں آئے گا۔ان پر پہلے تین سال تک بارش نہ ہوئی تو انہوں نے مکہ معظمہ جا کر دعا مانگی تو سفید، سرخ اور سیاہ رنگ کے تین بادل ظاہر ہوئے، تو انہوں نے سیاہ بادل چُنا جو ان پر عذاب تھا۔ آپ پر ایمان لانے والوں کی تعداد چار ہزار تھی۔( تعلیماتِ قرآن، حصہ3)

حضرت ذوالکفل علیہ السلام: وَ اذْكُرْ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-وَ كُلٌّ مِّنَ الْاَخْیَارِؕ(۴۸) (پ23،صٓ:48) ترجمہ: یادکرواسماعیل اور یسع اور ذوالکفل کو اور سب اچھے ہیں۔

آپ کا نام” بشر “یا ”شرف “ہے۔ آپ حضرت ایوب علیہ السلام کے بیٹے ہیں۔ اللہ پاک نے حضرت ایوب علیہ السلام کے بعد آپ کو نبی بنا کر بھیجااو رحکم دیا کہ آپ لوگوں کو میری وحدانیت پر ایمان لانے کی طرف بلائیں کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں۔ آپ عمربھر شام کے علاقہ میں ہی رہے۔آپ کا وصال 75 سال کی عمر میں ہوا۔ آپ نے اپنے بیٹے کو وصیت کی تھی کہ میری وفات کے بعد نیکی کے عمل پر قائم رہنا، لوگوں کو بھی ایمان اور نیک اعمال کی ترغیب دینا۔آپ یتیموں، محتاجوں، غریبوں اور بیوہ عورتوں پر رحم فرماتے، ان کی کفالت کرتے،اسی وجہ سے آپ کا نام ذوالکفل(کفالت کرنے والا) پڑ گیا۔

حضرت یسع علیہ السلام: آپ کو اللہ یاک نے نبوت عطا فرمائی اورا س کے ساتھ ہی آپ کو بادشاہت بھی عطا فرمائی۔ آپ علیہ السلام دن کو روزہ رکھا کرتے اوررات کو اللہ پاک کے حضور کھڑے ہو کر نوافل ادا کرتے تھے۔ آپ کو کسی بات پر غصہ نہیں آتا تھا، خصوصاً آپ اپنی امت کے معاملات میں بڑی مفاہمت سے فیصلہ فرماتے۔

آپ علیہ السلام کی وفات کا وقت قریب آیا توبنی اسرائیل کے کچھ بڑے آدمی مل کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ بادشاہت میں اپنا جانشین کسی کو مقرر کر دیں، اس پر آپ نے فرمایاکہ میں ملک کی بھاگ دوڑ اس کے حوالے کروں گا جومجھے تین چیزوں کی ضمات دے۔ سب چپ ہو گئے سوائے ایک نوجوان کے اس نے ذمہ داری قبول کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ آپ نے کہا: ٹھیک ہے،تین چیزوں کی ذمہ داری قبول کرو:ایک یہ کہ تمام رات عبادت میں گزارنی ہے،سونانہیں۔دوسری بات یہ ہے کہ ہر روز روزہ رکھنا ہے۔ تیسری چیز یہ ہے کہ غصہ کی حالت میں کبھی فیصلہ نہیں کرنا۔

جب اس نوجوان نے تینوں چیزوں کی ذمہ داری قبول کرلی تو آپ نے بادشاہت کا نظام اس کے سپرد کر دیا۔ خیال رہے!نبوت میں خلیفہ نہیں بنا یا جا سکتا، اللہ پاک جسے چاہے نبی بنادے۔ اَللّٰهُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَهٗؕ-اللہ خوب جانتا ہے کہ اس نے منصبِ رسالت کسے عطا کرنا ہے۔ (تفسیر روح المعانی،2/82) 


انبیائے کرام علیہم السلام کا ئنات کی عظیم ترین ہستیاں اور انسانوں میں ہیروں کی طرح جگمگاتی شخصیات ہیں جنہیں خدا نے وحی کے نور سے روشنی بخشی،حکمتوں کے سر چشمے ان کے دلوں میں جاری فرمائے اور سیرت و کردار کی وہ بلندیاں عطا فرمائیں جن کی تا بانی سے مخلوق کی آنکھیں خیرہ ہوجاتی ہیں۔ان کی ربانی سیرتوں، راہ خدا میں کاوشوں اور خدائی پیغام پہنچانے میں اٹھائی گئی مشقوں میں تمام انسانوں کیلئے کردار، ہمت، حوصلے اور استقامت کا عظیم درس موجود ہے

نبی اور رسول کی تعریف:نبی اس بشر یعنی انسان کو کہتے ہیں جس کی طرف اللہ پاک نے مخلوق کی ہدایت و رہنمائی کے لیے وحی بھیجی ہو،ان میں جو نئی شریعت یعنی اسلامی قانون اور خدائی احکام لے کر آئے اسے رسول کہتے ہیں۔

انبیا و مرسلین کی تعداد: انبیائے کرام کی درست تعداد کے بارے میں اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ہمارے لیےحکم یہ ہے کہ ہم ان کی کوئی تعداد معین نہ کریں کیونکہ معین تعداد پر ایمان لانے میں کسی نبی کی نبوت کا انکار اور کسی غیر نبی کو نبی مان لینے کا احتمال موجو د ہے۔ اور یہ دونوں باتیں بذات خود کفر ہیں۔

1-حضرت نوح علیہ السلام:حضرت نوح علیہ السلام دنیا میں چو تھے نبی اور اولوالعزم رسولوں میں سے ایک رسول ہیں۔ آپ کو آدمِ ثانی بھی کہا جاتا ہے۔حضرت نوح علیہ السلام اللہ پاک کے کامل ایمان والے بندوں میں سے تھے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۸۱) (پ23، الصّٰفّٰت: 81) ترجمہ: بے شک وہ ہمارا اعلیٰ درجہ کے کامل ایمان والے بندوں میں سے ہے۔

قوم نوح: حضرت نوح علیہ السلام نے کئی سو سال تک اپنی قوم کو تبلیغ کی مگر اتنے عرصے میں صرف 80 لوگ ایمان لائے۔ جب آپ کو قوم کے راہ راست پر آنے کی کوئی امید نظر نہ آئی تو آپ نے قوم کے لیے دعا کی تو اللہ پاک نے طوفان کا عذاب بھیج کر اس نافرمان قوم کو ہلاک فرما دیا۔

2-حضرت ابراہیم علیہ السلام:حضرت ابراہیم علیہ السلام اولوالعزم رسولوں میں سے ایک رسول ہیں۔ آپ کو اللہ پاک نے اپنا خلیل بنایا، اس لیے آپ کو خلیل الله کہا جاتا ہے۔ آپ کے بعد والے انبیا ور سل آپ ہی کی نسل میں سے ہوئے۔ اس اعتبار سے آپ کا لقب ابوالانبیاء ہے۔

آپ علیہ السلام عبادت کی ادائیگی میں ممتاز مقام رکھتے تھے۔ آپ حسنِ اخلاق میں بھی مثالی تھے۔آپ علیہ السلام صدیق اور نبی تھے۔آپ علیہ السلام کو الله پاک کی طرف سے جو بھی حکم آیا آپ نے اس حکم پر لبیک کہا۔آپ نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل کو راہِ خدا میں قربان کرنے کے حکم پر عمل کیا اور آپ نے اپنے لختِ جگر اور اپنی زوجہ بی بی ہاجرہ کواللہ کے حکم سے زمینِ مکہ میں چھوڑ دیا۔

غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم نہایت اس کی حَسیں ابتدا ہے اسماعیل

قرآنِ پاک میں ارشاد ہوتا ہے: وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِبْرٰهِیْمَ۬ؕ-اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا(۴۱) (پ16،مریم:41) ترجمہ:اور کتاب میں ابراہیم کو یاد کرو بے شک وہ بہت ہی سچے نبی تھے۔

قوم:حضرت ابراہیم کی قوم ستاروں اوربتوں کی پجاری تھی۔دوسری طرف بادشاہِ وقت نمرود بھی خدائی کا دعویٰ کرتا اور لوگوں سے اپنی عبادت کرواتا تھا،قوم اللہ پر ایمان نہ لائی اُلٹا آپ علیہ السلام کو آگ میں ڈال دیا، آگ آپ علیہ السلام کے لیے گلِ گلزار بن گئی۔

3-حضرت موسیٰ علیہ السلام:حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ کے انتہائی برگزیدہ پیغمبر اور اولوالعزم رسول ہیں۔ آپ کو(کلیمُ اللہ) کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ارشادِ باری ہے: وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱) ( پ16، مریم:51) ترجمہ: اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو، بے شک وہ چنا ہوا بندہ تھا، وہ نبی رسول تھا۔

قوم: آپ علیہ السلام بنی اسرائیل کی طرف نبی بنا کر بھیجے گئے۔آپ نے فرعون کے گھر میں پرورش پائی جو کہ آپ کا دشمن تھا۔ اللہ پاک نے قوم اور فرعون کو نافرمانی کی وجہ سے غرق کر دیا۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام:حضرت عیسیٰ علیہ السلام الله پاک کے برگزیدہ بندے اور نبی ہیں۔ آپ کی ولادت قدرتِ الٰہی کا حیرت انگیز نمونہ ہے۔آپ بغیر باپ کے حضرت مریم رضی اللہ عنہا کے شکمِ اطہر سے پیدا ہوئے۔آپ کا ایک لقب مسیح بھی ہے۔آپ چونکہ بیماروں کو مس یعنی چھو کر شفا یاب کر تے تھے اسی لیے آپ کو مسیح کہتے ہیں۔آپ علیہ السلام کو ان کی رسالت حق ہونے پر روشن نشانیاں عطا کی اور روحُ القدس یعنی حضرت جبرائیل کے ذریعے ان کی مدد فرمائی۔ارشاد ہوتا ہے: وَ اٰتَیْنَا عِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنٰتِ وَ اَیَّدْنٰهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِؕ- (پ1،البقرۃ:87) ترجمہ:اور ہم نے عیسیٰ بن مریم کو کھلی نشانیاں عطا کی اور پاک روح کے ذریعے ان کی مدد کی۔

قوم:آپ علیہ السلام بھی بنی اسرائیل کی طرف نبی بناکر بھیجے گئے۔ یہودیوں نے آپ کے قتل کی سازش کی تو آپ کو زندہ آسمان پر اٹھا لیا گیا۔اب قرب ِقیامت میں آپ دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے اور حضور ﷺ کے امتی بن کر اور آپ ﷺ کی شریعت پر عمل کروائیں گے۔

5-حضرت محمد ﷺ:سیدالانبیاء،احمدِ مجتبیٰ،حبیبِ خدا،محمدِ مصطفٰے ﷺ وہ عظیم ہستی ہیں جن کی سیرت اور اوصاف کا بیان چند صفحات میں ممکن نہیں۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

زندگیاں ختم ہوئیں اور قلم ٹوٹ گئے پر تیرے اوصاف کا ایک باب بھی پورانہ ہوا

حضور اکرم ﷺکا خاندان دنیا کے تمام خاندانوں میں عظمت و شرافت اور نسب میں دنیا کے تمام خاندانوں سے افضل و بلند مرتبہ ہے۔آپ کا جھولا فرشتے ہلاتے اور جھولے میں چاند کی طرف انگلی اٹھا کر جدھر اشارہ کرتے چاند ادھر جھک جاتا۔

چاند جھک جاتا جدھر انگلی اٹھاتےمہد میں کیا ہی چلتا تھا اشاروں پر کھلونا نور کا

امت محمدیہ:اب قیامت تک حضور اکرم ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، یہ اہلِ سنت کا عقیدہ ہے، اس کا انکار کرنے والا کافر ہے۔اب قیامت تک حضور اکرم ﷺ کی شریعت کو آگے لے کر چلنے کا کام امتِ محمدیہ پر ہے۔ حضور اکرم ﷺ کا فرمان ہے:لَا نَبِیَّ بَعْدِی میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ 


اللہ تبارک وتعالیٰ نے اقوام کی فلاح، بہبود و رہنمائی کے لیے انبیاء و رسل علیہم السلام کو مبعوث فرمایا تاکہ وہ اپنی اپنی امتوں و اقوام کو صراطِ مستقیم و دین و شریعت کی صحیح تعلیم دے سکیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کروا سکیں۔ اس کا ذکر اللہ پاک نے سورۃ النساء کی آیت نمبر 165 میں ارشاد فرمایا ہے، ترجمہ: بشارت دینے والے اور ڈرانے والے رسول بھیجے تاکہ رسول کے آنے کے بعد لوگوں کے لیے اللہ کے خلاف عذر کی گنجائش نہ رہے۔

نبی کی تعریف: علامہ ابن ہمام لکھتے ہیں کہ نبی وہ انسان ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اس کی طرف کی ہوئی وحی کی تبلیغ کے لیے بھیجا ہو۔ ( مسامرہ، ص 270)

انبیاء کرام کی کل تعداد: حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آپ ﷺ تک بےشمار انبیاء کرام علیہم السلام تشریف لائے اور ان کی کل تعداد بعض علماء کے نزدیک ایک لاکھ چوبیس ہزار ہے جن میں سے 313 رسول ہیں۔

پانچ انبیاء کرام کے اذکار: 5 انبیاء کرام کا ذکر قرآن مجید کی روشنی میں درج ذیل ہیں؛

1۔ حضرت آدم: حضرت آدم علیہ السلام دنیا میں آنے والے سب سے پہلے بشر و پیغمبر ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 30 میں ارشاد فرمایا۔ وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةًؕ- ترجمہ: اور جب کہا تیرے رب نے فرشتوں کوکہ میں زمین میں اپنا ایک نائب بنانے والا ہوں۔ حضرت آدم علیہ السلام پہلے انسان تھے جو بِن ماں باپ کے تخلیق کیے گئے تھے اس لیے آپ کو ابوالبشر یعنی تمام آنے والے انسانوں کا والد بنایا گیا اور اب قیامت تک جو بھی انسان اس دنیا میں آئیں گے وہ سب آپ علیہ السلام کی اولاد ہیں۔

شیطان منکر ہوگیا: اللہ تعالیٰ نے جب حضرت آدم علیہ السلام کو مٹی سے تخلیق کیا تو فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ آپ کو سجدۂ تعظیمی کریں۔ چنانچہ ارشاد ہوا: فَسَجَدَ الْمَلٰٓىٕكَةُ كُلُّهُمْ اَجْمَعُوْنَۙ(۷۳) اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-اِسْتَكْبَرَ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ(۷۴) (صٓ: 70) ترجمہ: بس تمام فرشتوں نے سجدہ کیا، سوائے ابلیس کے، اس نے گھمنڈ کیا اور کافروں میں سے ہوگیا۔

2۔ حضرت موسیٰ: حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ پیغمبر تھے۔ کوہِ طور پر اللہ تعالیٰ سے آپ براہِ راست کلام فرمایا کرتے تھے اور اس کا تذکرہ اللہ پاک نے قرآن مجید میں یوں ارشاد فرمایا، ترجمہ:اور موسیٰ سے اللہ تعالیٰ نے صاف طور پر کلام کیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ اور آپ کی قوم کی رہنمائی کے لیے آسمانی کتاب توریت نازل فرمائی اور آپ کو لاٹھی جیسے معجزات سے بھی نوازا تھا۔

فرعون کا خاتمہ: فرعون ملک مصر کا بادشاہ تھا جو بنی اسرائیل پر بے تحاشا ظلم و ستم کرتا تھا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذریعے اس کو ہدایت، نشانیاں و معجزات دکھائے پر وہ سرکش و ملعون ایمان نہ لایا اور دریائے نیل میں غرق ہوگیا اور اس ملعون سے عبرت حاصل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس کو دنیا میں رکھا۔

بنی اسرائیل: حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم بنی اسرائیل حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولادوں میں سے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو تمام عالم میں فضیلت دی تھی۔چنانچہ سورۂ بقرہ کی آیت نمبر 122میں ارشاد ہوا: یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتُ عَلَیْكُمْ وَ اَنِّیْ فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعٰلَمِیْنَ(۱۲۲) ترجمہ کنز الایمان: اے اولادِ یعقوب یاد کرو میرا احسان جو میں نے تم پر کیا او ر وہ جو میں نے اس زمانہ کے سب لوگوں پر تمہیں بڑائی دی۔

ایک واقعہ کے مطابق بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی غیر حاضری میں بچھڑے کی پوجا کی اور اللہ تعالیٰ نے ان کی اس بت پرستی کے باعث دنیا و آخرت میں انہیں ذلیل ورسوا کیا۔ چنانچہ ارشاد فرمایا، ترجمہ کنزالایمان: جن لوگوں نے بچھڑے کو معبود بنایا ان پر بہت جلد ان کے رب کا غضب نازل ہوگا اور دنیا کی زندگی میں ذلت نصیب ہوگی۔

3۔ حضرت ادریس: آپ علیہ السلام کا اصل نام اخنوع تھا، لیکن درس وتدریس کی کثرت کرنے سے آپ کو ادریس کے لقب سے جانا جانے لگا۔ آپ ہر وقت ذکر و اذکار میں مشغول رہتے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے اخلاقِ مبارکہ کے بارے میں یوں ارشاد فرمایا، ترجمہ:اور اس کتاب میں ادریس کا بھی ذکر کر وہ بھی نیک کردار کے نبی تھے۔

دینِ حق کے لیے جہاد: اللہ تعالیٰ نے آپ کو حضرت شیث علیہ السلام کی اولاد میں سے پیدا فرمایا تھا۔ اس لیے آپ علیہ السلام نے ہی پہلے درس و تدریس سے دین اسلام کی تبلیغ شروع کی تھی اور قابیل کی قوم کو دین و شریعت کی راہ دکھائی، لیکن جب انہوں نے نافرمانی کی اور ایک اللہ پر ایمان نہیں لائے تو آپ نے اپنے پیروکاروں کے ساتھ بت پرستوں کے خلاف جہاد کیا۔

آپ علیہ السلام کی وفات مبارک: روایتوں کے مطابق اللہ پاک نے آپ کی روح چوتھے آسمان مبارک میں قبض کرنے کا حکم دیا تھا اور اس کا ذکر قرآن مجید میں موجود ہے، ترجمہ: ہم نے انہیں بلند مقام پر اٹھایا۔ اور آپ کی روح کو چوتھے آسمان مبارک سے اٹھایا گیا۔

4۔حضرت نوح: حضرت نوح علیہ السلام کا نام گرامی شکر تھا،لیکن آپ علیہ السلام اپنی قوم کو سیدھی راہ دکھانے کے لیے بہت نوحہ کرتے تھے۔ قرآن مجید میں آپ کو نوح کے نام سے پکارا گیا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اور بھیجا ہم نے نوح کو اس کی قوم کے پاس پھر رہا ان میں ہزار برس۔( قصص الانبیاء، ص44)

نوح علیہ السلام کی قوم بہت سرکش و نافرمان تھی آپ ان کے یہاں ساڑھے نو سو برس تک اللہ کا پیغام پہنچاتے رہے، لیکن وہ ایمان نہیں لائی اور آپ کو نعوذ باللہ دیوانہ کہتے اور آپ پر پتھروں وغیرہ سے ظلم و ستم کیا کرتے۔

نوح علیہ السلام کی قوم پر عذاب: حضرتِ نوح نے جب یہ سب دیکھا تو بارگاہِ الٰہی میں ان کے لیے دعا فرمائی اور عرض کیا:اور کہا نوح نے اے رب نہ چھوڑ زمین پر منکروں کا ایک گھر بھی بسنے والا کہ نسل کافروں کی باقی نہ رہے۔ ( قصص الانبیاء، ص 45)

آسمان سے اللہ کی فریاد آئی:بنا کشتی روبرو ہمارے حکم سے اور نہ بول مجھ سے ظالموں کے واسطے یہ البتہ غرق ہوں گے تو ان تختوں سے کشتی بنا۔ (قصص الانبیاء، ص 46)

البتہ نوح علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق کشتی تعمیر کی اور قوم پر سیلاب کا عذاب آتے ہی وہاں سے روانہ ہوگئے۔

5۔حضرت شیث: حضرت شیث علیہ السلام حضرت آدم کے تیسرے بیٹے اور بعد آنے والے دوسرے نبی تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ پر 50 آسمانی صحیفے نازل فرمائے۔

حضرت شیث کی قوم: حضرت شیث کی قوم اولادِ قابیل میں سے تھی جو بہت فساد، فتنہ، بدکاری و شراب نوشی کیا کرتی، حالانکہ یہ سب چیزیں حضرت شیث علیہ السلام کی شریعت میں حرام تھی، لیکن وہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی پیروی نہیں کرتی اور بتوں کو پوجتی اللہ تعالیٰ نے ان پر حضرت شیث علیہ السلام کی نسب میں سے کئی انبیاء کرام علیہم السلام کو ان کی ہدایت کے لئے بھیجا لیکن وہ نافرمانی و بدکاری میں لگی رہی اور تھوڑے سے لوگ ہی ایمان لے کر آئے۔ آخر میں اللہ تعالیٰ نے انہیں طوفانِ نوح سے ہلاک و برباد فرمایا۔

ہم آخری امتی ہیں: امت مسلمہ ذرا ہم غور کریں تو آپ ﷺ کے آنے سے قبل بہت سی اقوام آئیں اور اپنی سرکشی و نافرمانی کی وجہ سے ہلاک و تباہ ہوئی۔ ویسا ہی ہمارا بھی کچھ حال ہے کہ ہم بھی اپنی زندگی نافرمانیوں و گناہوں میں بسر کرتےہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ہم پر کتنا فضل وکرم ہے کہ وہ ہمارے دن بھر کے گناہوں کی فورا سزا نہیں دیتا اور نہ حساب کرتا۔ ہمیں چاہیے کہ جب تک ہماری سانسیں بحال ہیں اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری و پیارے نبی ﷺ کی سنتوں پر عمل کرکے گزاریں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں صحیح طریقہ سے دین اسلام و شریعت پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


نبوت ورسالت کا رتبہ کوشش و محنت سے حاصل نہیں ہوتا بلکہ یہ عطائے الٰہی ہے۔اللہ پاک اپنے فضل و کرم سے جسے چاہے نبوت ورسالت سے سرفراز فرما دیتا ہے اور جنہیں نبوت ورسالت سے سرفراز فرماتا ہے وہ اپنے وقت کے تمام انسانوں سے افضل ہوتے ہیں۔

مقصد:سب انبیائےکرام علیہم السلام کا یہی ایک مقصد تھا کہ وہ مخلوق کو اللہ پاک کی عبادت کی دعوت دیں۔ نیک اعمال کرنے والوں کو اچھی جزاکی بشارت سناکر مطمئن کریں اور یہ بیان کردیں کہ دنیا میں عذاب یافتہ امتیں آخرت میں اللہ پاک کی طرف ضرور لوٹیں گی اور جہنم کے عذاب میں مبتلا ہوں گی۔ہر نبی کسی نہ کسی قوم کی طرف تشریف لائے مگر ہمارے آخری نبی ﷺ کی شان ہی اعلیٰ ہے ؛آپ ﷺپوری دنیا کی طرف رحمۃ للعالمین بن کر تشریف لائے۔ اب انبیائے کرام علیہم السلام میں سے 5 انبیائے کرام علیہم السلام کے بارے میں جان لیتی ہیں کہ کون سے نبی کس قوم کی طرف تشریف لائے۔

1۔حضرت ہود علیہ السلام:اللہ پاک نے حضرت ہود علیہ السلام کوقومِ عاد کی طرف رسول بنا کر بھیجا۔یہ لوگ صحت مند،طاقتور اور لمبی عمروں والےتھے۔ بتوں کی پوجا کرنا،لوگوں کا مزاق اڑانا،دوسروں کو تنگ کرنا ان کے معاملات میں شامل تھا۔ تو آپ علیہ السلام نے انہیں صرف اللہ پاک کی عبادت کرنے،بُرے افعال کو ترک کرنے کی دعوت دی۔لیکن بہت تھوڑے افراد نے آپ کی تصدیق کی اور اکثر نے تکذیب ومخالفت کی۔اللہ پاک پارہ 29،سورہ حاقہ،آیت نمبر 6 میں ارشاد فرماتا ہے: وَ اَمَّا عَادٌ فَاُهْلِكُوْا بِرِیْحٍ صَرْصَرٍ عَاتِیَةٍۙ(۶) ترجمہ کنز الایمان: اور رہے عاد وہ ہلاک کئےگئے نہایت سخت گر جتی آندھی سے۔

2۔حضرت صالح علیہ السلام:اللہ پاک نے حضرت صالح علیہ السلام کوقومِ ثمودکی طرف رسول بنا کر بھیجا۔ اللہ پاک نے انہیں کثیر نعمتیں،طویل عمریں عطا فرمائی تھیں۔ لیکن یہ بھی اللہ پاک کی نافرمانیوں،کفروشرک میں مبتلا ہو گئے۔ تو آپ علیہ السلام نے انہیں صرف اللہ پاک کی عبادت کرنے اور بتوں کو چھوڑ دینے کی دعوت دی تو چند لوگ ایمان لائے اور اکثریت کفروشرک پر ہی قائم رہی۔پارہ 30، سورۂ شمس،آیت نمبر 11 میں فرماتا ہے: كَذَّبَتْ ثَمُوْدُ بِطَغْوٰىهَاۤﭪ(۱۱) ترجمہ: قومِ ثمود نے اپنی سرکشی سے جھٹلایا۔

3۔حضرت اسماعیل علیہ السلام:اللہ پاک نے آپ علیہ السلام کو قبیلہ جُرہم اور سرزمینِ حجاز میں رہنے والی قومِ عمالیق کی طرف مبعوث فرمایا، جنہیں آپ علیہ السلام نے تبلیغ و نصیحت فرمائی۔ تو کچھ لوگ آپ پر ایمان لے آئے اور کچھ کافر ہی رہے۔ اللہ پاک پارہ 1، سورۂ بقرہ،آیت نمبر 136 میں فرماتا ہے: قُوْلُوْۤا اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْنَا وَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلٰۤى اِبْرٰهٖمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ وَ الْاَسْبَاطِترجمہ: (اے مسلمانو!) تم کہو: ہم اللہ پر اور جو ہماری طرف نازل کیا گیا ہے اس پر ایمان لائے اور اس پر جو ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب اور ان کی اولاد کی طرف نازل کیا گیا۔

4۔حضرت یونس علیہ السلام:اللہ پاک نے حضرت یونس علیہ السلام کو بستی نینوٰی کی طرف مبعوث فرمایا۔ آپ نے 40 سال تک لوگوں کو بت پرستی سے روکا اور توحید کی دعوت دی۔لیکن وہ باز نہ آئے تو آپ علیہ السلام نے اللہ پاک کے حکم سے انہیں عذاب کی خبر دی۔قوم نے علاماتِ عذاب کا سامنا کر کے بارگاہِ الٰہی میں سچی توبہ کر لی۔ اللہ پاک پارہ 11،سورہ ٔیونس، آیت نمبر 98 میں فرماتا ہے: اِلَّا قَوْمَ یُوْنُسَؕ-لَمَّاۤ اٰمَنُوْا كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَذَابَ الْخِزْیِ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ مَتَّعْنٰهُمْ اِلٰى حِیْنٍ(۹۸) ترجمہ:لیکن یونس کی قوم جب ایمان لائی توہم نے ان سے دنیا کی زندگی میں رُسوائی کا عذاب ہٹادیا اور ایک وقت تک انہیں فائدہ اٹھانے دیا۔

5۔حضرت الیاس علیہ السلام: اللہ پاک نے آپ علیہ السلام کو بنی اسرائیل کی طرف مبعوث فرمایا تو آپ علیہ السلام نے اس قوم کو تبلیغ و نصیحت فرمائی۔ اللہ پاک نے ظالم بادشاہ کے شَر سے بچاتے ہوئے انہیں لوگوں کی نظروں سے اوجھل فرما دیا۔ اللہ پاک پارہ 23، سورۃ الصّٰفّٰت، آیت نمبر 123 میں فرماتا ہے: وَ اِنَّ اِلْیَاسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَؕ(۱۲۳) ترجمہ کنز الایمان:اور بیشک الیاس پیغمبروں میں سے ہے۔

نوٹ: انبیائے کرام علیہم السلام کی سیرت کا مزید مطالعہ کرنے کے لیے صراط الجنان اور سیرت الانبیاء کا مطالعہ فرمائیے۔

دعا:اللہ پاک ہمیں انبیائے کرام علیہم السلام کی سیرت کا مطالعہ کرنے کی توفیق عطا فرمائےاور انبیائے کرام علیہم السلام کے متعلق ہمارا ایمان کامل و پختہ رکھے۔ آمین


نبیوں کو اللہ پاک نے مخلوق کی ہدایت و رہنمائی کے لیے بھیجا ہے جو شریعت کے قانون اور خدائی احکام لے کر آئے ہیں۔وحی نبوت انبیا علیہم السلام کے لئے خاص ہے، جو اسے غیر نبی کے لئے مانے وہ کافر ہے۔ ان کی سیرت کا مطالعہ آنکھوں کو روشنی، روح کو قوت،دلوں کو ہمت،عقل کو نور،سوچ کو وسعت،کردار کو حسن، زندگی کو معنویت، بندوں کو نیاز اور قوموں کو عروج بخشا ہے۔

قرآن کی روشنی میں انبیائے کرام کی فضیلت: لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَ یُزَكِّیْهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَۚ-وَ اِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ(۱۶۴) (پ4، اٰل عمرٰن:164) ترجمہ:بے شک اللہ نے ایمان والوں پر بڑا احسان فرمایا جب ان میں ایک رسول مبعوث فرمایا جو انہی میں سے ہے وہ ان کے سامنے اللہ کی آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے اگرچہ یہ لوگ اس سے پہلے یقیناً کھلی گمراہی میں پڑے ہوئےتھے۔

اسمائے انبیا:حضرت آدم،حضرت نوح،حضرت ابراہیم،حضرت اسماعیل،حضرت اسحاق،حضرت یعقوب، حضرت یوسف،حضرت موسیٰ، حضرت ہارون،حضرت شعیب،حضرت لوط،حضرت ہود، حضرت داود، حضرت سلیمان،حضرت ایوب،حضرت زکریا،حضرت عیسیٰ، حضرت الیاس،حضرت یسع،حضرت یونس، حضرت ادریس،حضرت ذوالکفل،حضرت صالح،حضرت عزیر علیہم السلام اور خاتم الانبیا،محمد مصطفٰے ﷺ۔

1-حضرت آدم علیہ السلام:حضرت آدم علیہ السلام سب سے پہلے انسان اور تمام انسانوں کے باپ ہیں، اس لیے آپ کا لقب ابو البشر ہے۔اللہ پاک نے خاص اپنے دستِ قدرت سے آپ کا جسم ِمبارک بنایا اور اپنی طرف سے ایک خاص روح پھونک کر پسندیدہ صورت پر پیدا فرمایا۔ ان کو تمام اشیا کے ناموں، ان کی صفات اور ان کی حکمتوں کا علم عطا فرمایا۔ فرشتوں نے ان کی علمی فضیلت کا اقرار کر کے انہیں سجدہ کیا، جبکہ ابلیس سجدے سے انکار کرکے مردود ہوا۔ حضرت آدم علیہ السلام کثیر فضائل سے مشرف ہیں اور قرآن و حدیث میں آپ کا کثرت سے تذکرہ موجود ہے۔اللہ پاک ہمیں حضرت آدم علیہ السلام کی سیرت سے علم و عمل کی برکتیں حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔(سیرت الانبیاء،ص 65)

2۔ حضرت نوح علیہ السلام:حضرت نوح علیہ السلام دنیا میں چوتھے نبی اور کفار کی طرف بھیجے جانے والے پہلے رسول ہیں۔ طوفان کے بعد چونکہ آپ علیہ السلام سے نسلِ انسانی چلی،اس لیے آدمِ ثانی کہلاتے ہیں۔ آپ علیہ السلام نے کئی سو سال تک اپنی قوم کو خفیہ و اعلانیہ ہر طرح سے تبلیغ فرمائی اور اس دوران قوم کی طرف سے پہنچنے والی تکلیف کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا اور صبر و تحمل کا مظاہرہ فرمایا۔ عرصۂ دراز تک قوم کو نصیحت کرنے کے باوجود صرف 80 افراد نے ایمان قبول کیا اور جب قوم کے ایمان لانے اور راہِ راست پر لانے کی کوئی امید باقی نہ رہی تو آپ علیہ السلام نے ان کے خلاف دعا کی جو قبول ہوئی۔اللہ پاک نے اہلِ ایمان کو کشتی میں سوار کر کے نجات بخشی اور کافروں کو طوفان کا عذاب بھیج کر ہلاک کردیا۔ قرآن و حدیث میں حضرت نوح علیہ السلام کا کثرت سے تذکرہ موجود ہے۔اللہ پاک ہمیں حضرت نوح علیہ السلام کی مبارک سیرت سے علم و عمل کی برکتیں عطا فرمائے۔ آمین۔(سیرت الانبیاء، ص159)

3۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام:حضرت ابراہیم علیہ السلام اولوا العزم رسولوں میں سے ایک رسول ہیں۔ آپ کو اللہ پاک نے اپنا خلیل بنایا، اس لیے آپ کو خلیلُ اللہ کہا جاتا ہے۔ آپ کے بعد والے تمام انبیااور رسل آپ ہی کی نسل سے ہوئے، اسی اعتبار سے آپ کا لقب ابو الانبیاء ہے۔ آپ کی قوم ستاروں اور بتوں کی پجاری تھی؛چچا آزار بھی بتوں کا پجاری بلکہ بیوپاری تھا۔دوسری طرف بادشاہِ وقت نمرود بھی خدائی کا دعوی کرتا اور لوگوں سے اپنی عبادت کرواتا تھا۔آپ نے چچا اور قوم کو تبلیغ و نصیحت فرمائی اور بہت خوبصورت اور آسان دلائل سے سمجھایا کہ اللہ پاک ہی معبود اور خالق و قادر ہے جبکہ بت بہت بے بس اور لاچار ہیں؛ ان کی بے بسی ظاہر کرنے کے لئے ایک مرتبہ آپ نے بتوں کے ٹکڑے ٹکڑے بھی کیے۔ قرآن و حدیث اور دیگر کتابوں میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سیرت کا تفصیلی ذکر موجود ہے۔ (سیرت الانبیاء،ص256)

4۔حضرت اسماعیل علیہ السلام:آپ علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بڑے فرزند اور سیدُ المرسلین ﷺ کے جد ِّاعلیٰ ہیں۔حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا کے بطنِ پاک سے پیدا ہوئے۔ ولادت سے پہلے ہی اللہ پاک نے آپ کی بشارت دیدی۔ ننھی عمر میں ہی حکمِ الٰہی سے والدِ محترم آپ اور آپ کی والدہ کو اس سرزمین پر چھوڑ آئے جو آج مکہ مکرمہ کے نام سے مشہور ہے۔ یہ اس وقت ایک ویران جگہ تھی، یہاں جب آپ پیاس کی شدت سے بے قرار ہوئے تو والدہ ماجدہ نے پانی کی تلاش میں صفا و مروہ پہاڑوں کے سات چکر لگائے، لیکن کہیں سے پانی نہ ملا۔اس پریشانی کے عالَم میں فرشتے کے پر مارنے یا حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ایڑیاں مبارک لگنے کی برکت سے اللہ پاک نے زم زم کا چشمہ جاری کر دیا جو آج تک جاری و ساری ہے اور رہتی دنیا تک رہے گا۔ قرآن و حدیث اور دیگر کتب میں آپ علیہ السلام کے مختلف احوال مذکور ہیں۔ (سیرت الانبیاء،ص 344)

5-حضرت اسحاق علیہ السلام:آپ علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے چھوٹے فرزند اور حضرت سارہ رضی اللہ عنہا کے بیٹے ہیں۔آپ علیہ السلام کی دنیا میں تشریف آوری سے پہلے ہی اللہ پاک نے آپ کی ولادت و نبوت اور صالحین میں سے ہونے کی بشارت دیدی تھی۔ بنی اسرائیل میں آنے والے تمام انبیاء علیہم السلام آپ ہی کی نسل پاک سے ہوئے۔قرآن و حدیث،بائبل اور کتبِ تاریخ وغیرہ میں آپ کا تذکرہ موجود ہے۔اللہ پاک ہمیں آپ علیہ السلام کے ذکرِ خیر سے فیوض و برکات حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


اللہ پاک نے مخلوق کی ہدایت و رہنمائی کے لیے جن بندوں کو پیدا کیا انہیں انبیا کہتے ہیں۔یہ گناہوں سے پاک ہوتے ہیں۔انہیں کامل عقل عطا کی گئی ہے۔انہیں اس لیے بھیجا گیا ہے کہ وہ اپنی قوموں کو کفر و شرک اور صغیرہ، کبیرہ گناہوں سے بچائیں۔ خدا کی راہ کا راستہ انبیائے کرام علیہم السلام کے ذریعے ہی ملتا ہے۔ انبیائے کرام علیہم السلام ہی وہ بشر ہیں جن کے پاس اللہ پاک کی طرف سے وحی نازل ہوتی ہے۔انبیائے کرام علیہم السلام بُرے کاموں اور بُری چیزوں سے بچنے کا حکم دیتے ہیں اور ان کو بھیجنے کا مقصد قرآن ِپاک میں موجود ہے۔

قرآن پاک کی روشنی میں انبیائے کرام علیہم السلام کی فضیلت: وَ مَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّا مُبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَۚ-فَمَنْ اٰمَنَ وَ اَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ(۴۸) (پ7،الانعام: 48) ترجمہ کنز الایمان:اور ہم نہیں بھیجتے رسولوں کو مگر خوشی اور ڈر سناتے تو جو ایمان لائے اور سنورے ان کو نہ کچھ اندیشہ نہ کچھ غم۔

اسمائے انبیا:حضرت آدم،حضرت نوح،حضرت ابراہیم،حضرت اسماعیل،حضرت اسحاق،حضرت یعقوب، حضرت یوسف،حضرت موسیٰ،حضرت ہارون،حضرت خضر،حضرت لوط،حضرت داؤد،حضرت سلیمان، حضرت ایوب،حضرت زکریا،حضرت یحییٰ،حضرت عیسی ٰ،حضرت الیاس،حضرت یونس،حضرت ادریس، حضرت ذوالکفل، حضرت صالح، حضرت عُزیر اور خاتم ُالانبیاء، محمد رسول اللہ ﷺ۔

1۔حضرت نوح علیہ السلام کی قوم:حضرت موسیٰ علیہ السلام دنیا میں چوتھے نبی اور کفار کی طرف بھیجے جانے والے پہلے رسول ہیں۔ طوفان کے بعد آپ علیہ السلام سے نسلِ انسانی چلی،اس لئے آدمِ ثانی کہلاتے ہیں۔ آپ علیہ السلام نے کئی سو سال تک اپنی قوم کو خفیہ،اعلانیہ ہر طرح سے تبلیغ فرمائی اور اس دوران قوم کی طرف سے پہنچنے والی تکلیف کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا اور صبر و تحمل کا مظاہرہ فرمایا۔قوم کو نصیحت کرنے کے باوجود اسّی افراد نے اسلام قبول کیا۔ جب قوم کے ایمان لانے اور راہ راست پر آنے کی کوئی امید باقی نہ رہی تو آپ علیہ السلام نے ان کے خلاف دعا کی جو قبول ہوئی۔اللہ پاک نے اہلِ ایمان کو کشتی میں سوار کر کے نجات بخشی اور کافروں کو طوفان کا عذاب بھیج کر ہلاک کر دیا۔(سیرتُ الانبیاء،ص 159)

2۔حضرت صالح علیہ السلام:قومِ عاد کی ہلاکت کے بعد قومِ ثمود ان کے قائم مقام ہوئے۔اللہ پاک نے انہیں بھی طویل عمریں اور کثیر نعمتیں عطا فرمائی تھیں، لیکن یہ بھی آخر کار اللہ پاک کی نافرمانی میں مبتلا ہوگئے اور ان کی اصلاح کے لئے اللہ پاک نے حضرت صالح علیہ السلام کو رسول بنا کر بھیجا۔ آپ علیہ السلام نے توحید کو ماننے،صرف اللہ پاک کی عبادت کرنے اور بتوں کی پوجا چھوڑ دینے کی دعوت دی تو چند لوگ ایمان لے آئے اور اکثریت کفر پر ہی قائم رہی۔قوم کے مطالبے پر حضرت صالح علیہ السلام نے اونٹنی کی صورت میں معجزہ بھی دکھایا لیکن وہ لوگ ایمان نہیں لائے۔(سیرت الانبیاء،ص 231)

3۔ حضرت سلیمان علیہ السلام:حضرت سلیمان علیہ السلام حضرت داؤد علیہ السلام کے فرزند ہیں۔یہ اپنے والدِ ماجد کے جانشین ہوئے اور اللہ پاک نے انہیں بھی علمِ نبوت سے نوازا اور عظیم الشان سلطنت کا حاکم بنایا۔آپ تختِ سلطنت پر چالیس برس جلوہ گر رہے۔جن و انسان،شیاطین و پرند وغیرہ سب پر آپ کی حکومت تھی اور سب کی زبانوں کا آپ علیہ السلام کو علم عطا کیا گیا تھا۔ آپ علیہ السلام کے زمانے میں عجیب و غریب صنعتوں کا ظہور ہوا۔(سیرت الانبیاء،ص 692)

4۔ حضرت یوشع علیہ السلام:حضرت یوشع علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اصحاب میں حضرت ہارون علیہ السلام کے بعد سب سے عظیم المرتبہ ساتھی تھے۔حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لائے اور ان کی تصدیق کی۔حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات کے سفر میں آپ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تھے اور ان کے وصالِ ظاہری تک ساتھ ہی رہے۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات کے بعد آپ کو نبوت عطا فرمائی۔ آپ نے جبارین کے خلاف جہاد فرمایا اور فتح حاصل کی۔ (سیرت الانبیاء،ص 655)

5۔حضرت عزیر علیہ السلام:آپ علیہ السلام اللہ پاک کے برگزیدہ نبی تھے۔آپ کو اللہ پاک نے مُردوں کو زندہ کرنے پر اپنی قدرت کا مشاہدہ کروایا، جس سے آپ عینُ الیقین رکھنے والوں کے منصب پر فائز ہوئے۔ آپ کو بنی اسرائیل کے لیے اپنی قدرت کی ایک حیرت انگیز نشانی بنا دیا کہ سو سال تک حالتِ وفات میں رہنے کے باوجود آپ 40 سال والی حالت پر رہے اور جب اپنے فرزندوں کے درمیان تشریف فرما ہوتے تو وہ بوڑھے نظر آتے اور آپ علیہ السلام جوان۔(سیرت الانبیاء،ص 730)