الله پاک نے اپنی مخلوق کو اس کی اطاعت میں عاجز ہونا جان لیا، پھر ان کو اس کی معرفت کرائی تاکہ جان لیں کہ وہ اس کی خدمت و عبادت صفائی قلب کے ساتھ نہیں کر سکتے۔تو الله پاک نے اپنے اور ان کے درمیان صورتاً مماثلت کر کے ان کی جنس میں سے ایک مخلوق ایسی پیدا فرمائی کہ جن کا وصف ہی یہ ہے کہ وہ ان پر لطف و کرم فرمائیں اور اس مخلوق کو ان لوگوں کے لیے سفیر و واسطہ اور پیامبر بنایا۔ مختلف قوموں کی طرف مختلف انبیا مبعوث فرمائے۔حضرت ہود علیہ السلام قومِ عاد کی طرف،حضرت صالح علیہ السلام قومِ ثمود کی طرف،حضرت یوسف علیہ السلام مصر کی طرف،حضرت موسیٰ، ہارون، الیاس، دانیال، عیسیٰ،یحییٰ علیہم السلام بنی اسرائیل کی طرف اور محبوب ﷺ تمام کائنات کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے۔

1-حضرت نوح علیہ السلام اور ان کی قوم:حضرت نوح علیہ السلام کو 40 سال کی عمر میں اللہ کریم نے نبوت عطا فرمائی۔(سیرت الانبیاء،ص165) آپ علیہ السلام نے جب لوگوں کو ایک اللہ کی طرف بلایا تو انہوں نے انکار کیا اور ایمان نہ لائے اور کہا کہ اگر آپ دین کی دعوت سے باز نہ آئے تو ہم پتھر مار مار کر ہلاک کر دیں گے۔ چنانچہ ارشاد باری ہے: كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوْحٍ فَكَذَّبُوْا عَبْدَنَا وَ قَالُوْا مَجْنُوْنٌ وَّ ازْدُجِرَ(۹) (القمر: 9) ترجمہ: ان سے پہلے نوح کی قوم نے جھٹلا یا تو انہوں نے ہمارے بندے کو جھوٹا کہا اور کہنے لگے: یہ پاگل ہے اور نوح کو جھڑکا۔

آپ علیہ السلام اپنی قوم میں تقریباً 950 سال رہے۔ آپ نے ایک کشتی بنائی جس میں جانور،پرندے اور مسلمان مرد و عورتیں سوار ہو کر عذاب سے بچالئے گئے باقی تمام قوم پانی میں غرق کر دی گئی۔

2-حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی قوم:حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم کو ستاروں اور بتوں کی پوجا کرنے سے منع فرمایا اور توحید کی دعوت دی تو ان کی قوم ان سے جھگڑنے لگی اور کہنے لگی کہ انہیں بُرا نہ کہو کہیں تم پر کوئی مصیبت نہ آن پڑے۔ آپ علیہ السلام نے جواب دیا:مجھے ان بتوں کا کوئی ڈر نہیں۔چنانچہ قر آنِ کریم میں ہے: وَ حَآجَّهٗ قَوْمُهٗؕ-قَالَ اَتُحَآجُّوْٓنِّیْ فِی اللّٰهِ(الانعام: 80) ترجمہ: اور ان کی قوم ان سے جھگڑنے لگی (ابراہیم نے) فرمایا:کیا تم الله کے بارے میں مجھ سے جھگڑتے ہو۔

نمرود نے آپ علیہ السلام کیلئے آگ تیار کی اور اس میں آپ علیہ السلام کو ڈال دیا۔ اللہ پاک کے حکم سے وہ آگ ٹھنڈی ہوگئی اور نمرود عبرتناک موت مرا۔

3-حضرت لوط علیہ السلام اور ان کی قوم:حضرت لوط علیہ السلام کی قوم میں ہم جنس پرستی عام تھی۔آپ علیہ السلام نے دعوتِ حق دی۔ قرآنِ کریم میں ہے: اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ(۸۰) (پ8،الاعراف: 80) ترجمہ کنزالایمان:کیا وہ بے حیائی کرتے ہو جو تم سے پہلے جہان میں کسی نے نہ کی۔ قوم نے جواباً کہا: اَخْرِجُوْهُمْ مِّنْ قَرْیَتِكُمْۚ-اِنَّهُمْ اُنَاسٌ یَّتَطَهَّرُوْنَ(۸۲) (پ8،الاعراف: 82) ترجمہ کنز الایمان: ان کو اپنی بستی سے نکال دو۔ یہ لوگ تو پاکیزگی چاہتے ہیں۔ حضرت لوط علیہ السلام کے دعا کرنے پر قوم پر عذاب آیا۔حضرت جبریل علیہ السلام نے قوم لوط کے شہر کے نیچے اپنا بازو ڈالا،اس کو بہت اونچااٹھایا اور اوندھا کر کے پلٹ دیا۔اس دوران آپ علیہ السلام نے ایک چیخ ماری اور جو لوگ اس وقت بستی میں موجود نہ تھے جہاں کہیں بھی تھے ان پر لگاتار پتھر برسا کر انہیں ہلاک کر دیا گیا۔(سیرت الانبیاء،ص396-395 ملتقطاً)

4-حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم:فرعون اور اس کی قوم کے لوگ طرح طرح کے گناہوں اور جرائم میں مبتلا تھے مثلاً کفر و شرک،خدائی کا دعوی ٰ،تکبر،جادو،ظلم و فساد وغیرہ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دین کی طرف دعوت دی تو انہوں نے سرکشی کی اور دشمن ہوگئے۔ فرعون نے جادوگروں سے مقابلے کی دعوت دی۔ جب جادوگروں کو اندازہ ہوا کہ آپ علیہ السلام جادو گر نہیں تو انہوں نے اسلام قبول کر لیا۔فرعون نے انہیں دھمکی دی جس کا ذکرقرآنِ کریم میں یوں ہے: قَالَ اٰمَنْتُمْ لَهٗ قَبْلَ اَنْ اٰذَنَ لَكُمْؕ-(طہ:71) ترجمہ:کیا تم اس پر ایمان لائے اس سے پہلے کہ میں تمہیں اجازت دوں۔ فَلَاُقَطِّعَنَّ اَیْدِیَكُمْ وَ اَرْجُلَكُمْ مِّنْ خِلَافٍ وَّ لَاُصَلِّبَنَّكُمْ فِیْ جُذُوْعِ النَّخْلِ٘-(طہ:71) ترجمہ: مجھے قسم ہے میں ضرور تمہارے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسری طرف کے پاؤں کاٹ دوں گا اور تمہیں کھجور کے تنوں پر پھانسی دے دوں گا۔

فرعون اور اس کا لشکر دریا میں غرق کر دیئے گئے۔فرعون کی لاش اب بھی محفوظ ہے اور قاہرہ کے میوزیم میں نشان ِعبرت کے طور پر موجو د ہے۔

5-حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم:حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو دعوتِ حق دی؛ بعض ایمان لے آئے اور کئی سرکشی پر اتر آئے یہاں تک کہ شہید کرنے کا منصوبہ بنایا۔اللہ پاک نے آپ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھا لیا اور آپ علیہ السلام کی جگہ ایک اور شخص کو انہوں نے قتل کر دیا۔چنانچہ قرآنِ کریم میں ہے: وَّ قَوْلِهِمْ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیْحَ عِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ رَسُوْلَ اللّٰهِۚ-وَ مَا قَتَلُوْهُ وَ مَا صَلَبُوْهُ وَ لٰكِنْ شُبِّهَ لَهُمْؕ-وَ اِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْهِ لَفِیْ شَكٍّ مِّنْهُؕ- (النساء:157) اور ان کے اس کہنے کی وجہ سے کہ ہم نے مسیح عیسیٰ بن مریم اللہ کے رسول کو شہید کیا حالانکہ انہوں نے نہ تو اسے قتل کیا اور نہ سولی دی بلکہ ان کیلئے ( عیسیٰ سے) ملتا جلتا ( ایک آدمی) بنادیا گیا اور بیشک یہ (یہودی) جو اس عیسیٰ کے بارے میں اختلاف کر رہے ہیں ضرور اس کی طرف سے شبہ میں پڑے ہوئے ہیں۔

پچھلی قوموں کے برباد ہونے کا سبب اپنے نبی کی بے ادبی اور نافرمانی ہے۔ ہمیں چاہئے کہ اپنے آخری نبی ﷺ کی فرما نبر داری کریں۔ یہی دارین کی سعادتوں کا ذریعہ ہے۔