اللہ پاک کو اپنے محبوب بندوں کا ذکر پسند ہے۔اسی لیے الله پاک نے جا بجا قرآنِ عظیم میں اپنے انبیائے کرام کا ذکر فرمایا اور ان پر اپنی نعمتوں کا تذکرہ فرمایا۔الله پاک نے اپنے حبیبِ لبیب ﷺ کو بھی انبیائے کرام کا ذکر فرمانے کا حکم دیا تا کہ انبیائے کرام کا ذکر نبی کریم ﷺ کی سنت ہو جائے۔الله پاک نے بہت سے انبیائے کرام علیہم السلام کو بہت سی قوموں کی تبلیغ کے لیے بھیجا ان میں سے چند کا ذکر یہاں کیا جاتا ہے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام:حضرت ابراہیم علیہ السلام تارخ بن ناحورکے فرزند ہیں۔ آپ کا نام ابراہیم اور آپ علیہ السلام کا لقب ابوالضیفان (بہت بڑےمہمان نواز) ہے۔

آپ علیہ السلام کی قومیں:پہلے آپ علیہ السلام نے مصر کی نمرودی قوم کو نیکی کی دعوت دی۔لیکن وہ قوم حضرت ابرا ہیم علیہ السلام پر ایمان نہ لائی تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ہجرت کا فیصلہ کیا۔رب کریم ارشادفرماتا ہے: وَ قَالَ اِنِّیْ ذَاهِبٌ اِلٰى رَبِّیْ سَیَهْدِیْنِ(۹۹) (پ23، الصّٰفّٰت: 99) ترجمہ کنزالایمان:اور کہا میں اپنے رب کی طرف جانے والا ہوں اب مجھے راہ دے گا۔

اس کے بعد آپ علیہ السلام نے فلسطین کی طرف ہجرت کی۔تو لوگوں نے آپ علیہ السلام کی قدرو منزلت کو سمجھااور ان کے آنے کو باعثِ برکت سمجھا۔اس زمین میں کھیتی باڑی سے اللہ پاک نے بہت برکت عطا فرمائی۔ نیزآپ کے پاس غلہ اور جانور کافی مقدار میں موجود ہوگئے۔آپ علیہ السلام نےپہلے مسافر اور غربا کو رہنے اور کھانے کی سہولیات مہیا کیں۔ اس طرح مہمان نوازی میں آپ علیہ السلام کو منفرد مقام حاصل ہوگیا۔

حضرت لوط علیہ السلام:حضرت لوط علیہ السلام نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ مصر سے فلسطین کی طرف ہجرت کی۔پھر آپ نے حضرت ابر اہیم علیہ السلام کے شہر سے تقریباً اٹھارہ(18) میل دور تک ایک شہر میں تبلیغ شروع کی۔اس شہر کا نام سدوم تھا۔قرآنِ پاک میں اس کو المؤتفکۃسے تعبیرکیا گیا۔(تفسیر روح المعانی، 23/152)

آپ علیہ السلام کی قوم:حضرت لوط علیہ السلام نے اپنی قوم کو صرف بر ائیوں سے باز رہنے کی تبلیغ کی۔ لیکن ان کو عبادت کرنے کا حکم اس طرح نہ دیا جس طرح حضرت ابر اہیم علیہ السلام نے دیا۔حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کی سب سے بڑی برائی لواطت تھی (مَردوں سے بُرائی کرنے کی عادت ان میں کثرت سے پائی جاتی تھی) حضرت لوط علیہ السلام کے روکنے کے باوجود ان کی قوم بُرے افعال سے باز نہ آئی تو آخر کار الله پاک نے فرشتوں کے ذریعے ان پر عذاب نازل فرمایا۔

حضرت ہود علیہ السلام:حضرت ہود علیہ السلام حضرت نوح علیہ السلام سے آٹھ سو (800) سال بعد تشریف لائے اور آپ علیہ السلام کی ہی شریعت پر تھے۔ آپ علیہ السلام کی عمر میں کئی اقوال ہیں لیکن سب سے مشہور 464 والا قول ہے۔

آپ علیہ السلام کی قوم:حضرت ہود علیہ السلام کو قوم ثمود کی طرف بھیجا گیا۔حضرت ہود علیہ السلام نے قوم کو تبلیغ فرمائی۔ قرآنِ مجید میں ارشاد ہوتا ہے: قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-اَفَلَا تَتَّقُوْنَ(۶۵) (پ8، الاعراف:65) ترجمہ کنز الایمان:کہا! اے میری قوم اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔تو کیا تمہیں کوئی ڈر نہیں؟

قومِ عاد کے چھوٹے قد (80 فٹ) اور بڑے فٹ (ایک سو پچاس (150) فٹ) تھے۔ اسی وجہ سے اپنے جسموں اور طاقت کےگھمنڈ میں یہ کہتے کہ ہم سا طاقتور کوئی نہیں۔ جب یہ لوگ اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو الله پاک نے فرشتوں کو حکم دیا جو ہوا چلانے پر مشتمل ہے کہ عاد کی قوم پر اپنی ہواؤں کے خزانوں میں سے ایک انگوٹھی کی مقدار کھول دو۔ اس ہوا سے قومِ ثمو دریت کے ٹیلوں میں دب گئی اور انہوں نے الله پاک کی نافرمانی کی سزا پائی۔

حضرت محمدﷺ: حضرت محمدﷺ کا نام احمد،آپ کے والد کانام عبداللہ اور والدہ کا نام آمنہ ہے۔ ہمارے آخری نبیﷺ تمام انبیائے کرام علیہم السلام سے افضل ہیں۔ رب کریم ارشاد فرماتا ہے: وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷) (پ17،الانبیاء:107) ترجمہ کنز الایمان:اور ہم نے نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت۔ وَ رَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَؕ(۴) (پ30،الم نشرح:4) ترجمہ کنز الایمان:اور ہم نے تمہارے لیے تمہارا ذکر بلند کردیا۔

آپ ﷺ کی قوم:آپ ﷺ کو بیشک تمام اگلوں اور پچھلوں کے لیےرحمت بنا کر بھیجا۔لیکن آپ قومِ عرب کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے۔ آپﷺکے آنے سے قبل عرب جہالت میں گھرا ہوا تھا۔ عورتوں کی عزت نہ تھی۔سود، شراب، بدکاری،ر شوت جیسی چیزیں عام تھی۔لیکن جب آپ ﷺ عرب میں تشریف لائے تو عرب کا نقشہ ہی بدل گیا۔ آپ ﷺنے عورتوں کی عزت کرنے کا حکم دیا۔سود،بدکاری جیسی چیزوں کو روکنے کے لیے حد نافذ کی تاکہ لوگ اس کام سے باز آجائیں اور آپﷺنے اللہ پاک کی وحدانیت کا یقین دلوایا۔ آپ ﷺپر اللہ پاک نے قرآن ِپاک نازل فرمایا جو آج تک مسلمانوں کی رہنمائی کررہا ہے۔