انبیائے
کرام اور ان کی قومیں قرآن کی روشنی میں از بنتِ عبد الستار،فیضان عائشہ صدیقہ نندپور
سیالکوٹ
انبیائے
کرام اور ان کی قومیں قرآن کی روشنی میں از بنتِ عبد الستار،فیضان عائشہ صدیقہ نندپور
سیالکوٹ
الله پاک نے انبیائےکرام کو مختلف قوموں کی طرف بھیجاتا کہ
وہ دین کی تبلیغ کریں اور دین اسلام عام ہو۔ جیسا کہ جاہلیت میں لوگ بتوں کی پوجا
کرتے تھے یا آگ کی پوجا کرتے تھے تو اللہ پاک نے ان کو سیدھا راستہ دکھانے کے لئے
انبیائےکر ام ان کی طرف بھیجے۔
کس
نبی کوکس قوم کی طرف بھیجا گیا:(1) حضرت
ہود علیہ السلام کو قومِ عاد کی طرف(2) حضرت صالح علیہ السلام کو قوم ثمود کی طرف(3)
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کی قوم کی طرف(4) حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بنی
اسرائیل کی قوم کی طرف(5) حضرت نوح علیہ السلام کو بتوں کی پوجاکرنے والی قوم کی
طرف۔
(1)
حضرت ہود علیہ السلام:قومِ عاد:ایک قبیلہ
جنوب کی جانب سے متوجہ ہوا اور جزیرہ عرب کے جنوبی طرف یمن کے ریتیلے ٹیلوں والے
علاقے” احقاف“ میں قیام پذیر ہو گیا۔یہ قبیلہ اپنے والد یا بادشاہ”عاد“کی نسبت سے
قوم عاد کے نام سے معروف ہوا۔
قوم عاد کے بہت سارے لوگ گناہگارتھے
اور وہ دین کو ماننے کے لیے تیار ہی نہیں تھے۔ جب حضرت ہود علیہ السلام تشریف لائے
تو الله پاک نے قوم عاد کو سلطنت دی اور بدنی قوت بھی وافر عطافرمائی۔قوم عادنے
حضرت ہود سے مطالبہ کیا جیسا کہ قرآنِ پاک میں ارشاد ہو تا ہے: قَالُوْۤا اَجِئْتَنَا
لِتَاْفِكَنَا عَنْ اٰلِهَتِنَاۚ-فَاْتِنَا بِمَا تَعِدُنَاۤ(پ26، الاحقاف: 22) ترجمہ:انہوں نے کہا:
کیا تم اس لیے آئے ہو کہ ہمیں ہمارے معبودوں سے پھیر دو، اگر تم سچے ہو تو ہم پر لے
آؤ جس کی تم ہمیں وعیدیں سناتے ہو۔اس پر حضرت ہود نے فرمایا: اِنَّمَا الْعِلْمُ عِنْدَ اللّٰهِ ﳲ وَ اُبَلِّغُكُمْ
مَّاۤ اُرْسِلْتُ بِهٖ وَ لٰكِنِّیْۤ اَرٰىكُمْ قَوْمًا تَجْهَلُوْنَ(۲۳) (پ26، الاحقاف:23)
ترجمہ: علم تو الله ہی کے پاس ہے
اور میں تمہیں اس چیز کی تبلیغ کرتا ہوں جس کے ساتھ مجھے بھیجا گیا ہے لیکن میں تمہیں
ایک جاہل قوم سمجھتا ہوں۔
(2)
حضرت صالح علیہ السلام: قوم ثمود:حضرت
صالح کی قوم نےان سے معجزہ طلب کیا تواللہ پاک نےایک اونٹنی بھیجی جو اس گھاٹی سے
باہر آتی اور اس کے اندر چلی جاتی تھی۔ وہ اونٹنی ایک دن لوگوں کے حصے کا پانی پی
جاتی اور لوگ اس دن اونٹنی کادودھ پی لیتے تھے۔ پھر انہوں نے اونٹنی کی کونچیں کاٹ
دیں تو اللہ پاک نے سب کوہلاک کر دیا سوائے ایک فرد کے وہ حرم پاک میں موجود تھا۔
حضرت صالح نے اپنی قوم سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: لَقَدْ اَبْلَغْتُكُمْ رِسَالَةَ رَبِّیْ وَ
نَصَحْتُ لَكُمْ وَ لٰكِنْ لَّا تُحِبُّوْنَ النّٰصِحِیْنَ(۷۹) (پ8،الاعراف:79) اے میری قوم! بیشک میں نے
تمہیں اپنے رب کا پیغام پہنچادیا اور میں نے تمہاری خیر خواہی کی لیکن تم خیر
خواہوں کو پسند نہیں کرتے۔
(3)
حضرت موسیٰ علیہ السلام: جس طرح فارس کے بادشاہ
کا لقب کسریٰ،روم کے بادشاہ کا قیصر اور حبشہ کے بادشاہ کا لقب نجاشی ہوتا تھا، اسی
طرح قبطی اورعمالقہ قوم سے تعلق رکھنے والے مصرکے بادشاہوں کا لقب ”فرعون“ ہوتا
تھا۔
حضرت موسیٰ کی ولادت سے پہلے مصر میں فرعون کا غلب تھا اور
ظلم و تکبر اور سرکشی میں اس انتہا کو پہنچ گیا کہ اس نے خدائی کا دعویٰ کردیا
تھا۔اس نے مصر کے مختلف گروہ بنا لیے وہ ان کے ہاں پیدا ہونے والے بیٹوں کو ذبح
کروا دیتا اور لڑکیوں کو خدمت گاری کے لیے زندہ چھوڑ دیتا تھا۔قرآنِ پاک میں ارشاد
ہوتا ہے: اِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِی
الْاَرْضِ وَ جَعَلَ اَهْلَهَا شِیَعًا یَّسْتَضْعِفُ طَآىٕفَةً مِّنْهُمْ
یُذَبِّحُ اَبْنَآءَهُمْ وَ یَسْتَحْیٖ نِسَآءَهُمْؕ-اِنَّهٗ كَانَ مِنَ
الْمُفْسِدِیْنَ(۴) (پ20،القصص:4) بیشک
فرعون نے زمین میں تکبر کیا تھا اور اس نے لوگوں کے مختلف گروہ بنادیے تھے ان میں
ایک گروہ(بنی اسرائیل) کو کمزور کر رکھا تھا ان کے بیٹوں کوذبح کرتا اور ان کی عورتوں
کو زندہ رکھتا تھا۔ بیشک وہ فسادیوں میں سے تھا۔
(4) حضرت عیسیٰ علیہ
السلام:بنی اسرائیل: اللہ پاک نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام
کو بنی اسرائیل کی طرف نبی بناکر بھیجا۔ آپ نے ایک موقع پربنی اسرائیل کو یوں نصیحت
فرمائی: قَدْ جِئْتُكُمْ
بِالْحِكْمَةِ وَ لِاُبَیِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِیْ تَخْتَلِفُوْنَ
فِیْهِۚ-فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ(۶۳) (پ25، الزخرف: 63) ترجمہ کنز الایمان: میں تمہارے پاس حکمت لے کر آیا اور اس لیے میں تم
سے بیان کردوں بعض وہ باتیں جن میں تم اختلاف رکھتے ہو تو اللہ سے ڈرو اور میرا
حکم مانو۔
بنی اسرائیل کے کفار پر مصیبت کا ایک سبب یہ بھی تھا جیسا کہ
ارشادِباری ہے: كَانُوْا
لَا یَتَنَاهَوْنَ عَنْ مُّنْكَرٍ فَعَلُوْهُؕ-لَبِئْسَ مَا كَانُوْا یَفْعَلُوْنَ(۷۹)
(پ 6، المائدۃ:79) ترجمہ: وہ ایک دوسرے کو کسی بُرے
کام سے منع نہ کرتے تھے جو وہ کیا کرتے تھے بیشک یہ بہت ہی بُرے کام کرتے تھے۔
حضرت نوح علیہ السلام:اس باب میں قوم کی عملی حالت اور حضرت
نوح علیہ السلام کی طرف سے قوم کو توحیدِ خداوندی پر ایمان لانے،اسی کی عبادت کرنے
اور اپنی اطاعت کی دعوت دینے کا بیان ہے۔نیز حضرت نوح کی دعوت کے جواب میں قوم کے
طرزعمل اور حضرت نوح کی قوم کے خلاف دعاؤں کا ذکر ہے۔وہ بتوں کی پوجا کرتے تھے۔آپ
کی یہ دعوت قرآنِ کریم میں ان الفاظ کے ساتھ مذکور ہے۔ فَقَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ
مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-اِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ(۵۹) (پ 8،
الاعراف:59) ترجمہ کنز الایمان: تو اس نے کہا اے میری قوم!اللہ کو پو جو اس کے سوا
تمہارا کوئی معبود نہیں بے شک مجھے تم پر بڑے دن کے عذاب کا ڈر ہے۔ اس قوم نے کہا:بے
شک ہم تمہیں کھلی گمراہی میں دیکھتے ہیں۔ (پ8، الاعراف:60)
تو ہے خورشیدِ رسالت پیارے چھپ گئے تیری ضیا میں تارے
انبیا اور ہیں سب مہ پارے تجھ سے ہی نور لیا کرتے ہیں