انبیائے
کرام اور ان کی قومیں قرآن کی روشنی میں از بنتِ مبشر حسین،جامعہ ناظم آباد لاہور
انبیائے کرام علیہم الصلوۃ والسلام اللہ پاک کےمخلص اور چنے
ہوئے بندے ہوتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ پاک نے قرآنِ پاک میں مطلق انبیائے کرام علیہم
الصلوۃ والسلام کے بارے میں ارشاد فرمایا: وَ اِنَّهُمْ عِنْدَنَا لَمِنَ الْمُصْطَفَیْنَ
الْاَخْیَارِؕ(۴۷) (پ23،صٓ:47) ترجمہ
کنز العرفان: اور بیشک وہ ہمارے نزدیک بہترین چنے ہوئے بندوں میں سے ہیں۔
انبیائے کرام علیہم الصلوۃ والسلام
اللہ پاک کے معصوم بندے ہیں۔یہ تمام مخلوق حتی کہ فرشتوں سے بھی افضل ہوتے ہیں۔ یہ
وہ عظیم ہستیاں ہیں جنہیں الله پاک نے مخلوق کی ہدایت کے لیے مبعوث فرمایا۔یہ زمین
میں اللہ پاک کے نائب اور خلیفہ ہیں۔انہوں نے اپنے فرائض ِمنصبی کو بہترین اور
احسن انداز سے پورا کیا۔ان کی تبلیغ کا بنیادی موضوع توحید و رسالت اور احکاماتِ
الٰہی ہوتا تھا۔ مختلف ادوار میں مختلف انبیائے کرام کو مخصوص قوموں کی طرف بھیجا
گیا۔اس ضمن میں آج ہم 5 انبیائے کرام اور ان کی قوموں کا مختصراً ذکر کریں گے۔
1-حضرت
الیاس علیہ السلام اور قرآن: وَ اِنَّ اِلْیَاسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَؕ(۱۲۳) (پ23، الصّٰفّٰت: 123) ترجمہ کنز الایمان:اور بیشک الیاس پیغمبروں
میں سے ہے۔
سورۃ الصّٰفّٰت کی آیت 123 میں واضح طور پر حضرت الیاس علیہ
الصلوٰۃ والسلام کے پیغمبر ہو نے کا بیان کیا گیا اور اس کی بعد والی آیتوں میں ان
کے قوم کو تبلیغ کرنے اور قوم کے ان کو جھٹلانے کو بیان کیا گیا۔حضرت الیاس علیہ
السلام کی بعثت کے بارے میں مفسرین ومؤرخین کا اتفاق ہے کہ وہ شام کے باشندوں کی
ہدایت کے لئے بھیجے گئے اور بعلبک کا مشہور شہر ان کی رسالت و ہدایت کا مرکز تھا۔(غرائب
القرآن،ص296)
2-حضرت
یونس علیہ السلام اور قرآن:ارشاد
باری ہے: فَلَوْ لَا كَانَتْ قَرْیَةٌ اٰمَنَتْ
فَنَفَعَهَاۤ اِیْمَانُهَاۤ اِلَّا قَوْمَ یُوْنُسَؕ-لَمَّاۤ اٰمَنُوْا (پ11، یونس: 98) ترجمہ کنز الایمان: تو ہوئی
ہوتی نہ کوئی بستی کہ ایمان لاتی تو اس کا ایمان کام آتا ہاں یونس کی قوم جب ایمان
لائے۔
آیت کے اس حصے میں حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کے ایمان
لانے کا بیان کیا گیا کہ حضرت یونس علیہ السلام کی قوم پر عذاب کی بدلیاں آجانے کے
بعد بھی جب وہ لوگ ایمان لائے تو ان سے عذاب اٹھا لیا گیا تھا جبکہ جب کسی قوم پر
عذاب آجاتا تو اس کے بعد ان کا ایمان لانا مفید نہ ہوتا۔آیت کے اس حصے سے ہمیں
معلوم ہوا کہ حضرت یونس علیہ السلام بھی اللہ پاک کے پیغمبر تھے۔ ان کو اللہ پاک
نے شہر نینوی کے باشندوں کی ہدایت کے لئے رسول بنا کر بھیجا۔(غرائب القرآن،ص123-124)
3
-حضرت موسی علیہ السلام اور قرآن:قرآنِ
پاک میں بہت سی جگہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نبوت و معجزات اور ان کی قوم بنی
اسرائیل کے واقعات کو بیان کیا گیا ہے،چنانچہ ارشادِ باری ہے: وَ اِذِ اسْتَسْقٰى مُوْسٰى
لِقَوْمِهٖ فَقُلْنَا اضْرِبْ بِّعَصَاكَ الْحَجَرَؕ-فَانْفَجَرَتْ مِنْهُ
اثْنَتَا عَشْرَةَ عَیْنًاؕ-(پ1،البقرة:60)
ترجمہ کنزالایمان: اور جب موسی نے اپنی قوم کے لیے پانی مانگا تو ہم نے فرمایا:اس
پتھر پر اپنا عصامارو فوراً اس میں سے بارہ چشمے بہہ نکلے۔
آیت مبارکہ کے اس حصے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عظیم
معجزے کا ذکر کیا گیا کہ جب ان کی قوم بنی اسرائیل نے میدان تیہ میں پیاس کی شدت
سے بے تاب ہو کر ان سے پانی مانگا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پتھر پر اپنا عصا
مارا تو اس میں سے بارہ چشمے بہہ نکلے۔( عجائب القرآن، ص25)
4-حضرت
داؤد علیہ السلام اور قرآن:حضرت
داؤد علیہ السلام کو اللہ پاک نے سلطنت اور نبوت سے سرفراز فرمایا۔آپ علیہ السلام
سے پہلے یہ دونوں اعزاز ایک ساتھ کسی کو نہ ملے تھے۔ چنانچہ ارشاد باری ہے: وَ قَتَلَ دَاوٗدُ جَالُوْتَ
وَ اٰتٰىهُ اللّٰهُ الْمُلْكَ وَ الْحِكْمَةَ وَ عَلَّمَهٗ مِمَّا یَشَآءُؕ-(پ2، البقرة:251) ترجمہ کنز الایمان:اور قتل کیا
داؤد نے جالوت کو اللہ نے اسے سلطنت اور حکمت عطافرمائی اور اسے جو چاہا سکھایا۔
اس آیتِ مبارکہ میں داؤد علیہ السلام کو سلطنت ملنے کے
واقعے کو مختصر بیان کیا گیا ہے کہ جب بنی اسرائیل کے بادشاہ طالوت نے جالوت سے
جہاد کیا تو حضرت داؤد علیہ السلام نے جالوت کو قتل کر دیا اس پر بادشاہ نے اپنے
اعلان کے مطابق آپ علیہ السلام کو اپنی آدھی سلطنت دی اور اپنی بیٹی کا نکاح بھی
ان سے فرمایا۔ بادشاہ کے انتقال کے بعد آپ علیہ السلام پوری سلطنت کے سلطان بن گئے۔
اس واقعے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرت داؤد علیہ السلام بنی سرائیل کی طرف مبعوث
فرمائے گئے تھے۔ (عجائب القرآن، ص62-63)
5-حضرت
محمد ﷺاور قرآن:اصلاً سارا قرآن، اس کا ایک ایک حرف ہمارے آخری
نبی ﷺکی نبوت و صداقت پر دلالت کرتا ہے۔قرآن ِکریم کی بیسیوں آیتیں آپ ﷺ کی نبوت و
صداقت کی واضح دلیلیں ہیں، چنانچہ اللہ پاک سورة الاحزاب کی آیت نمبر 40 میں ارشاد
فرماتا ہے: مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ
اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ
النَّبِیّٖنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠(۴۰) (پ 22، الاحزاب: 40) ترجمہ کنز العرفان:محمد
تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن الله کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے آخر
میں تشریف لانے والے ہیں اور اللہ سب کچھ جاننے والا ہے۔
اس آیت مبارکہ کی
روشنی میں جہاں پیارے آقا ﷺکے رسول ہونے کو واضح کیا گیا وہیں یہ بھی واضح ہوا کہ
آپ ﷺ سب سے آخری نبی ہیں۔آپﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ جیسا کہ حدیثِ پاک میں
ہے:اے لوگو!بیشک میرے بعد کوئی نبی نہیں اور تمہارے بعد کوئی امت نہیں۔(معجم کبیر،8/115، حدیث:7535)
یہ ہمارے پیارے آخری نبی حضرت محمد ﷺ کی ہی خصوصیت ہے کہ آپﷺ
کو خاتم النبیین کا رتبہ ملا اور آپﷺکو مخصوص وقت اور مخصوص قوم پر نہیں بلکہ تمام
جہانوں اور تمام مخلوق پر قیامت تک کے لیے نبی ورسول بنا کر بھیجا گیا۔ آپ ﷺ پچھلی
تمام شریعتوں کے ناسخ ہیں۔ اب قیامت تک صرف آپ ﷺ کی شریعت پر عمل کرنے والا ہی
مسلمان کہلائے گا۔ جو آپ ﷺ کو آخری نبی نہ مانے بلکہ اس میں شک کرے وہ دائرہ اسلام
سے خارج ہے۔اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ پیارے آقا ﷺکی خاتم النبین کی صفت / خصوصیت
کو اپنی رباعی میں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
آتے رہے انبیا کَمَا قِیْلَ لَھُمْ وَالْخَاتَمُ حَقُّکُمْ کہ
خاتم ہوئے تم
یعنی جو ہوا دفتر تنزیل تمام آخر میں ہوئی مُہر کہ اَكْمَلْتُ
لَكُمْ