انبیائے کرام علیہم السلام کائنات کی عظیم ترین ہستیاں اورانسانوں میں ہیروں اور موتیوں کی طرح جگمگاتی شخصیات ہیں،جنہیں خدا نے وحی کے نور سے روشنی بخشی۔حکمتوں کے سر چشمے ان کے دلوں میں جاری فرمائے اور سیرت وکر دار کی وہ بلندیاں عطافرمائیں جن کی تابانی سے مخلوق کی آنکھیں خیرہ ہوجاتی ہیں۔ ارشادِ پاک ہے:وہ اپنی رحمت کے ساتھ جسے چاہتا ہے خاص فرمالیتا ہے اور اللہ بڑےفضل والا ہے۔

اللہ پاک نےخود انبیائے کرام کی بعثت کے مقاصد قرآنِ پاک میں متعدد جگہ بیان فرمائے ہیں۔ بہت سے انبیائے کرام علیہم السلام کا ذکر صراحت کے ساتھ قرآنِ پاک میں موجود ہے۔ان میں سے چند کا تذکرہ پیشِ خدمت ہے۔ جن میں ان کا اور ان کی قوم کا ذکر کیا جائے گا۔

1) حضرت نوح علیہ السلام:آپ علیہ السلام کا اسمِ گرامی یشکریا عبد الغفاراور لقب نوح ہے۔ یہ لقب اس لیے ہوا کہ آپ اللہ کے خوف کی بنا پر کثرت سے گریہ و زاری کیا کرتےتھے۔حضرت نوح اللہ پاک کے اعلیٰ درجے کے کامل ایمان والے بندوں میں سےتھے۔چنانچہ ارشادِ باری ہے: اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۸۱) (پ23، الصّٰفّٰت: 81) ترجمہ:بے شک وہ ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل ایمان والے بندوں میں سے ہے۔

حضرت نوح علیہ السلام نے 950 برس تک اپنی قوم کو خفیہ،اعلانیہ ہر طرح سے تبلیغ فرمائی، مگر ان کی بدنصیب قوم ایمان نہ لائی۔ عرصہ دراز سے قوم کو نصیحت کرنے کے بعد صرف 80 افراد ایمان لائے۔ آپ علیہ السلام نے ان کے خلاف دعا کی اور اہلِ ایمان کو کشتی میں سوار کر کے نجات بخشی اور کافروں کو طوفان کا عذاب بھیج کر ہلاک کر دیا۔ارشادِ باری ہے: اِنَّاۤ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖۤ اَنْ اَنْذِرْ قَوْمَكَ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱) (پ 29،نوح: 1) ترجمہ کنز العرفان:بیشک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا کہ اس وقت سے پہلے اپنی قوم کو ڈرا کہ ان پر دردناک عذاب آئے۔

2) حضرت ہود علیہ السلام اور ان کی قوم:گمراہی کی تاریکیوں میں بھٹکنے والی اس قوم کو راہِ ہدایت پر لانے کے لیے اللہ پاک نے اسی قوم سے حضرت ہود علیہ السلام کو رسول بنا کر ان کی طرف بھیجا۔آپ علیہ السلام حضرت نوح علیہ السلام کے پوتے ارم کی اولاد سے ہیں۔علامہ بیضاوی رحمۃ اللہ علیہ نے آپ علیہ السلام کا نسب نامہ اس طرح بیان کیا ہے: ہود بن عبد اللہ بن رباح بن خلود بن عاد بن عوص بن ارم بن سام بن حضرت نوح علیہ السلام۔

حضرت نوح علیہ السلام کے برسوں بعد اللہ پاک نے ایک قوم پیدا فرمائی جسے اس زمانے میں قومِ عاد کہا جاتا ہے۔یہ لوگ صحت مند، طاقتور، بڑے قد کاٹھ اور لمبی عمروں والےتھے۔ان کے قد کاٹھ سے متعلق قرآنِ کریم میں ہے: اِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِﭪ(۷) الَّتِیْ لَمْ یُخْلَقْ مِثْلُهَا فِی الْبِلَادِﭪ(۸) ( پ30، الفجر: 7-8) ترجمہ:ارم (کے لوگ) ستونوں (جیسے قد) والے کہ ان جیسا شہروں میں پیدا نہ ہوا۔

3) حضرت صالح اور ان کی قوم:حضرت صالح علیہ السلام حضرت نوح علیہ السلام کے پوتے ارم کی اولاد میں سےتھے۔جیسا کہ ابو عبد اللہ محمد بن احمد قرطبی رحمۃ اللہ علیہ آپ کا نسب نامہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:صالح بن عبید بن آسف بن کا شح بن عبید بن حاذر بن ثمود بن عاد (بن عوص) بن ارم بن سام بن حضرت نوح۔

قومِ عاد کی ہلاکت کے بعد قومِ ثمود ان کے قائم مقام ہوئی۔اللہ پاک نے انہیں بھی طویل عمریں اور کثیر نعمتیں عطا فرمائی تھیں۔لیکن یہ بھی آخر کار اللہ پاک کی نافرمانیوں اور کفر و شرک میں مبتلا ہو گئے۔ ان کی اصلاح کے لیے حضرت صالح علیہ السلام کو رسول بنا کر بھیجا۔ آپ علیہ السلام نے انہیں توحید کو ماننے،صرف اللہ پاک کی عبادت اور بتوں کی پوجا چھوڑ دینے کی دعوت دی تو چند لوگ ایمان لائے۔ اکثریت کفر پر ہی قائم رہی۔ حضرت صالح علیہ السلام نے انہیں اونٹنی کی صورت میں معجزہ بھی دکھایا لیکن وہ ایمان نہ لائے۔ ( سیرت الانبیاء، ص 231) ارشادِ باری ہے: وَ اَنَّهٗۤ اَهْلَكَ عَادَاﰳ الْاُوْلٰىۙ(۵۰) وَ ثَمُوْدَاۡ فَمَاۤ اَبْقٰىۙ(۵۱) (پ 27، النجم: 50- 51) ترجمہ: اور یہ کہ اسی نے پہلی عاد کو ہلاک فرمایا اور ثمود کو تو اس نے (کسی کو) باقی نہ چھوڑا۔ اللہ پاک ہمیں انبیائے کرام کی سیرت کا مطالعہ اور دین کی تبلیغ کے لیے آنے والی مشکلات پر صبر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔جس طرح انبیائےکرام دین کی تبلیغ پر آنے والی مشکلات پر صبر کا مظاہرہ فرمایا کرتےتھے۔


کفروشرک،گمراہی و بد عقیدگی اور بد عملی سےلوگوں کواللہ پاک کی وحدانیت پر ایمان لانے،شرک سے روکنے،ایمان لانے پر جنت کی بشارت دینےاور کفروانکار پر عذاب کی وعید سنانے کے لیے اللہ پاک نے اپنے مقرب بندوں کو نبوت و رسالت کا منصب عطا فرما کر اِن کے پاس بھیجا۔انبیا علیہم السلام کائنات کی عظیم ترین ہستیاں اور انسانوں میں ہیروں موتیوں کی طرح جگمگاتی شخصیات ہیں جو مختلف قوموں کی طرف اللہ پاک کے پیغام کو پہنچانے کے لیے مبعوث ہوئیں،لیکن ہمارے آخری نبی،محمد عربی ﷺ تمام دنیا کی طرف مبعوث ہوئے۔آئیے! ان میں سے 5 انبیائے کرام اور ان کی اقوام کے بارے میں جانتی ہیں کہ کون سے نبی کس قوم کی طرف مبوث ہوئے۔

حضرت نوح اور ان کی قوم:آپ علیہ السلام کا اسمِ گرامی یشکر یا عبدالغفار اور لقب نوح ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام کی قوم بتوں کی پُجاری تھی۔ اللہ پاک نے حضرت نوح علیہ السلام کو ان کی قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجااور انہیں یہ حکم دیاکہ وہ اپنی قوم کو پہلے سے ہی ڈرادیں کہ اگر وہ ایمان نہ لائے تو ان پر دنیا و آخرت کا دردناک عذاب آئے گا تاکہ ان کے لئے اصلاً کوئی عذر باقی نہ رہے۔یاد رہے!حضرت نوح علیہ السلام وہ سب سے پہلے رسول ہیں جنہوں نے کفار کو تبلیغ کی اور سب سے پہلے آپ علیہ السلام کی قوم پر ہی دُنْیَوی عذاب آیا۔(صراط الجنان،جلد9) اِنَّاۤ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖۤ اَنْ اَنْذِرْ قَوْمَكَ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱) (پ 29،نوح: 1) ترجمہ کنز العرفان:بیشک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا کہ اس وقت سے پہلے اپنی قوم کو ڈرا کہ ان پر دردناک عذاب آئے۔

حضرت ہود اور ان کی قوم:آپ علیہ السلام حضرت نوح علیہ السلام کے پوتے ارم کی اولاد سے ہیں۔علامہ بیضاوی رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کا نسب نامہ اس طرح بیان کیا ہے: ہود بن عبداللہ بن رباح بن خلود بن عاد بن اوص بن ارم بن سام بن نوح علیہ السلام۔

حضرت نوح علیہ السلام کے برسوں بعد اللہ پاک نے ایک قوم پیدافرمائی جسے اس زمانے میں قومِ عاد کہا جا تا تھا۔ یہ لوگ صحت مند، طاقتور، بڑے قد کاٹھ اور لمبی عمروں والےتھے،لیکن ایمان و عمل کے اعتبار سے پستی کا شکارتھے۔چنانچہ بتوں کی پوجا کرنا،لوگوں کا مذاق اڑانا،دوسروں کو تنگ کرنا اور لمبی زندگی کی امید پر مضبوط محل بنانا ان کے عام معمولات تھے۔ کفر و شرک، جہالت و ضلالت اور غفلت کی وادی میں بھٹکنے والی اس قوم کی ہدایت و رہنمائی کے لیے اللہ پاک نے ان کےہم قوم حضرت ہود علیہ السلام کو رسول بنا کر بھیجا۔ (سیرت الانبیاء،ص203) اِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِﭪ(۷) الَّتِیْ لَمْ یُخْلَقْ مِثْلُهَا فِی الْبِلَادِﭪ(۸) ( پ30، الفجر: 7-8) ترجمہ:ارم (کے لوگ) ستونوں (جیسے قد) والے کہ ان جیسا شہروں میں پیدا نہ ہوا۔ ترجمہ:ارم(کے لوگ) ستونوں (جیسے قد) والےکہ ان جیسا شہروں میں پیدا نہ ہوا۔ (پ30،الفجر:7-8) سَخَّرَهَا عَلَیْهِمْ سَبْعَ لَیَالٍ وَّ ثَمٰنِیَةَ اَیَّامٍۙ-حُسُوْمًاۙ-فَتَرَى الْقَوْمَ فِیْهَا صَرْعٰىۙ-كَاَنَّهُمْ اَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِیَةٍۚ(۷) فَهَلْ تَرٰى لَهُمْ مِّنْۢ بَاقِیَةٍ(۸) (پ29،الحاقہ:7-8) ترجمہ:وہ ان پر قوت سے لگادی سات راتیں اور آٹھ دن لگاتارتو ان لوگوں کو ان میں دیکھو پچھڑے ہوئے گویا وہ کھجور کے ڈنڈ ہیں گرے ہوئے۔ تو تم ان میں کسی کو بچا ہوا دیکھتے ہو۔

حضرت صالح اور ان کی قوم:آپ علیہ السلام بھی حضرت نوح علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔ آپ کا نام صالح بن عبید بن آسف ہے۔آپ علیہ السلام کی قوم کا نام قومِ ثمود ہے۔ایک عرصے تک قومِ ثمود سرکشی و گمراہی کی دلدل میں دھنستی رہی،پھر اللہ پاک نے انہیں اس سے نجات دلانے اور ہدایت پر گامزن کرنے کیلیے ایک عظیم ہستی حضرت صالح علیہ السلام کو ان کی طرف رسول بنا کر بھیجا۔(سیرت الانبیاء،ص233-234) وَ اِلٰى ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًاۘ-(پ8،الاعراف: 73) ترجمہ:اور قومِ ثمود کی طرف ان کی برادری سے صالح کو بھیجا۔

حضرت شعیب اور ان کی قوم:آپ علیہ السلام کا اسمِ گرامی شعیب ہے اور حُسنِ بیان کی وجہ سے آپ کو خطیبُ الانبیاء کہا جاتا ہے۔ اللہ پاک نے آپ علیہ السلام کو دو قوموں کی طرف رسول بنا کر بھیجا:(1) اہلِ مدین(2) اصحابُ الایکہ۔حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:اللہ پاک نے حضرت شعیب علیہ السلام کے علاوہ کسی نبی کو دو بار مبعوث نہیں فرمایا،آپ علیہ السلام کو ایک بار اہلِ مدین کی طرف بھیجا جن کی اللہ پاک نے ہولناک چیخ ( اور زلزلے کے عذاب) کے ذریعے گرفت فرمائی اور دوسری بار اصحابُ الایکہ کی طرف بھیجا جن کی اللہ پاک نے شامیانے والے دن کے عذاب سے گرفت فرمائی۔(سیرت الانبیاء، ص505) ترجمہ:اور مدین کی طرف ان کے ہم قوم شعیب کو بھیجا انہوں نے فرمایا: وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًاؕ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-قَدْ جَآءَتْكُمْ بَیِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ (پ 8، الاعراف:85) ترجمہ کنز الایمان: اور مدین کی طرف ان کی بر ادری سے شعیب کو بھیجا کہا، اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے روشن دلیل آئی۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم:آپ علیہ السلام کا مبارک نام عیسیٰ اور آپ کا نسب حضرت داود علیہ السلام سے جا ملتا ہے۔(سیرت الانبیاء،ص793) آپ علیہ السلام بنی اسرائیل کی طرف مبعوث ہوئے۔ جب اللہ پاک نے آپ کو بنی اسرائیل کی طرف رسول بنا کر بھیجا تو آپ علیہ السلام نے ان سے فرمایا: اَنِّیْ قَدْ جِئْتُكُمْ بِاٰیَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ ﳐ اَنِّیْۤ اَخْلُقُ لَكُمْ مِّنَ الطِّیْنِ كَهَیْــٴَـةِ الطَّیْرِ فَاَنْفُخُ فِیْهِ فَیَكُوْنُ طَیْرًۢا بِاِذْنِ اللّٰهِۚ-وَ اُبْرِئُ الْاَكْمَهَ وَ الْاَبْرَصَ وَ اُحْیِ الْمَوْتٰى بِاِذْنِ اللّٰهِۚ-وَ اُنَبِّئُكُمْ بِمَا تَاْكُلُوْنَ وَ مَا تَدَّخِرُوْنَۙ-فِیْ بُیُوْتِكُمْؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَۚ(۴۹) (پ3،اٰل عمرٰن:49) ترجمہ:میں تمہارے پاس ایک نشانی لایا ہوں تمہارے رب کی طرف سے کہ میں تمہارے لئے مٹی سے پرند کی سی مورت بناتا ہوں پھر اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ فوراً پرند ہوجاتی ہے اللہ کے حکم سے اور میں شفا دیتا ہوں مادر زاد اندھے اور سپید داغ والے کو اور میں مُردے جِلاتا ہوں اللہ کے حکم سے اور تمہیں بتاتا ہوں جو تم کھاتے اور جو اپنے گھروں میں جمع کر رکھتے ہو بیشک ان باتوں میں تمہارے لئے بڑی نشانی ہے اگر تم ایمان رکھتے ہو۔اللہ کریم سے دعا ہے کہ اللہ کریم ہم سب کو انبیائے کرام علیہم السلام کی سیرت پڑھنے کی توفیق عطا فرمائےاور جیسے ہر نبی نے دین کی تبلیغ کے لیے مشکلات برداشت کیں اللہ پاک ہمیں بھی امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی توفیق عطا فرمائے۔ اس سلسلے میں آنے والی آزمائشوں پر صبر کی توفیق عطا فرمائے۔ اللہ پاک ہمارا انبیائے کرام کے متعلق ایمان پختہ رکھے۔ آمین یا رب العالمین

توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے آسان نہی مٹانا نام و نشاں ہمارا


اللہ پاک نے اپنا پیغام پہنچانے اور لوگوں کو گمراہی سے بچانے کے لیے وقفہ وقفہ سے بہت سے نبیوں اور رسولوں کو معبوث فرمایا۔انبیائےکرام کی بعثت کا یہ سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوا اور حضرت محمد ﷺ پر ختم ہوا۔ قرآنِ کریم میں صرف چند انبیا علیہم السلام اور ان کی قوموں کا تذکرہ ہے جو ملاحظہ ہو۔

وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًاؕ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-(الاعراف:85) ترجمہ کنزالایمان: اور مدین کی طرف ان کی برادری سے شعیب کو بھیجا کہا اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے۔اللہ پاک نے حضرت شعیب علیہ السلام کو مدین والوں کی اصلاح کے لیے رسول بنا کر بھیجا۔جس بستی کی جانب حضرت شعیب کو معبوث کیا گیا اس کا نام مدین ہے۔( صراط الجنان، الاعراف: 85)

اہلِ مدین کو اللہ پاک نے بہت سی نعمتیں عطا فرمائیں۔ ان کی تجارت میں بھی برکت رکھی،مگر اس قوم نے اللہ کا شکر ادا کرنے کی بجائےناشکری کی اور اللہ پاک کے ساتھ شرک کیا اور ناپ تول میں کمی کی۔حضرت شعیب علیہ السلام نے ان کو ناپ تول میں کمی نہ کرنے اور اللہ پاک کے ساتھ شرک نہ کرنے کی نصیحت کی مگر انہوں نے آپ کے حکم کی نافرمانی کی جس پر ان کو عذاب نے گھیر لیا۔

وَ لُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖۤ اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ(۸۰) (پ8،الاعراف:80) ترجمہ کنز الایمان: اور لوط کو بھیجا جب اس نے اپنی قوم سے کہا کیا وہ بے حیائی کرتے ہو جو تم سے پہلے جہان میں کسی نے نہ کی۔حضرت لوط علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے ہیں۔ آپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ ملکِ شام تشریف لائے اور آپ علیہ السلام کی بہت خدمت کی۔حضرت ابراہیم کی دعا سے نبی بنائے گئے۔حضرت لوط علیہ السلام اہلِ سدوم کے نبی تھے۔( قوم لوط کی تباہ کاریاں) حضرت لوط کی قوم شرک جیسے کبیرہ گناہ کے ساتھ ساتھ بد فعلی کے گناہ میں مبتلا تھی۔ آپ علیہ السلام نے ان کو اللہ پاک کے ساتھ شرک نہ کرنے اور گناہوں سے باز آجانے کا فرمایا تو اس قوم نے بجائے اس کے کہ آپ علیہ السلام کے حکم پر سر خم کرے نہایت بے باکی سے آپ کو دھمکی دی کہ ان کو اپنی بستی سے نکال دو یہ لوگ تو پاکیزگی چاہتے ہیں۔جب اس قوم کی سرکشی اور بُرائیاں قابلِ ہدایت نہ رہیں تو یہ اللہ پاک کے ایسے عذاب سے دو چار ہوئےکہ ان کی بستیاں آج بھی عبرت کا نشان ہیں۔( صراط الجنان)

وَ اِلٰى ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًاۘ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ- الاعراف:73) ترجمہ کنز العرفان:اور قوم ثمود کی طرف ان کے ہم قوم صالح کو بھیجا۔ صالح نے فرمایا:اے میری قوم!اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ ثمود عرب کا ایک علاقہ ہےجو حجاز اور شام کے درمیان سر زمین حجر میں رہتےتھے۔یہ لوگ ثمود بن رام بن سام بن نوح کی اولاد ہیں۔اللہ نے ان کی ہدایت کی خاطر ان کی طرف حضرت صالح کو معبوث فرمایا۔ یہ قوم بت پرست تھی۔جب آپ علیہ السلام نے ان کو واحدِ حقیقی اور اپنے رسول ہونے کی خبر دی تو انہوں نے آپ سے معجزہ طلب کیا کہ فلاں پتھر سے فلاں صفات کی اونٹنی کا ظہور ہو تو ہم آپ پر ایمان لائے گے۔چنانچہ آپ کی دعا سے یہ معجزہ ظاہر ہوا اور اس پتھر سے وہی صفات والی اونٹنی ظاہر ہوئی جس کو دیکھ کر کچھ لوگ ایمان لائے مگر ایک جماعت نے انکار کیا۔آپ علیہ السلام نے ان سے فرمایا کہ اس اونٹنی کو تکلیف نہ دو مگر ان لوگوں نے دنیاوی نفع کی خاطر اس اونٹنی کو قتل کر دیا اور اپنے نبی کے حکم کی اطاعت نہ کرنے کی وجہ سے عذاب ِالٰہی میں گرفتار ہوئے۔

4۔ترجمہ کنزالایمان:اور عاد کی طرف ان کی برادری سے ہود کو بھیجا کہا اے میری قوم اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں تو کیا تمہیں ڈر نہیں۔(الاعراف: 65) اللہ پاک نے حضرت ہود علیہ السلام کو قوم ِعاد کی طرف معبوث فرمایا۔ عاد عرب کا قبیلہ تھا جو یمن کے قریب میں رہتےتھے۔( صراط الجنان) اللہ پاک نے قومِ دعا کو سلطنت اور بدنی قوت عطا فرمائی۔یہ بہت لمبے قد والے اور بھاری ڈیل ڈول والے تھے۔ یہ قوم بت پرست اور ظالم تھی۔ حضرت ہود علیہ السلام نے ان کو واحد حقیقی کا پیغام دیا تو انہوں نے آپ کی تکذیب کی اور آپ علیہ السلام کی شان میں گستاخیاں کیں۔ان میں سے کچھ لوگ ہی آپ علیہ السلام پر ایمان لائےتھے۔جب یہ قوم آپ کے سمجھانے کے باوجود بُرائی سے باز نہ آئی تو اللہ پاک نے ان کو قحط میں مبتلا کر دیا۔ پھر ان میں سے کچھ لوگوں نے مکہ مکرمہ میں جا کر دعا کی تو 3 قسم کے بادل نمودار ہوئے۔ قوم بادل کو دیکھ کر خوش ہوئی کہ اب بارش ہو گی! مگر یہ اللہ پاک کا عذاب تھا۔ ان پر ایسی آندھی چلی کہ یہ سب ہلاک ہوگئے۔ ( صراط الجنان)

وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖۤ٘-اِنِّیْ لَكُمْ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌۙ(۲۵) ( ہود: 25) ترجمہ کنزالایمان: اور بے شک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا کہ میں تمہارے لیے صریح ڈر سنانے والا ہوں۔اللہ پاک نے حضرت نوح علیہ السلام کو ایسی قوم کی طرف بھیجا جو بت پرست تھی۔ آپ نے ان کو اللہ کی عبادت کرنے اور اللہ پاک کے حکم کی مخالفت کرنے پر عذاب کی خبر دی مگر اس قوم نے آپ کی نہ سنی بلکہ آپ علیہ السلام کو طرح طرح کی تکلیفیں پہنچائیں۔ جب قوم کی نافرمانی بڑھی تو اللہ پاک نے ان پر عذاب نازل کرنے کا ارادہ کیا تو آپ علیہ السلام کو ایک کشتی بنانے کا فرمایا۔ جب اس قوم پر اللہ کے عذاب میں مبتلا ہونے کا وقت آیا تو اللہ پاک کے حکم سے آپ علیہ السلام اپنے گھر والوں، ایمان والوں اور جانوروں اور پرندوں کے ایک ایک جوڑے لے کر کشتی میں سوار ہو گئے پھر نافرمان قوم پانی کے طوفان میں غرق ہو گئی۔اللہ پاک ہمیں گزشتہ قوموں کے واقعات سے عبرت حاصل کرنے، اللہ اور اس رسول ﷺ کی اطاعت کرنے کی توفیق بخشے۔ آمین


کئی قوموں کی طرف کئی نبی بھیجے گئے۔ اللہ پاک نے قرآنِ مجید میں بھی ان کا تذکرہ فرمایا۔انبیائے کرام علیہم السلام کے تذکروں میں سے کچھ تذکرے یہ ہیں:

1-بنی اسرائیل کی طرف کئی نبی بھیجے گئے جن میں سے ایک حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی ہیں کیونکہ اس زمانے میں اندھے اور کوڑھ کے مریض بہت تھے۔اسی لئے اللہ پاک نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو کئی معجزات عطا کیے،ان میں سے ایک معجزہ مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو شفا دینا بھی عطا فرمایا تھا۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کے سامنے اپنی نبوت اور معجزات کا اعلان کرتے ہوئے یہ تقریر فرمائی جو قرآنِ مجید کی سورۂ الِ عمرٰن میں ہے:ترجمہ کنز الایمان:اور رسول ہوگا بنی اسرائیل کی طرف یہ فرماتا ہوا کہ میں تمہارے پاس ایک نشانی لایا ہوں تمہارے رب کی طرف سے کہ میں تمہارے لیے مٹی سے پرندے کی سی مورت بناتا ہوں پھر اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ فوراً پرند ہوجاتی ہے اللہ کے حکم سے اور میں شفا دیتا ہوں مادر زاد اندھے اور سپید داغ والے کو۔

اس تقریر میں آپ نے اپنے معجزات میں سے ایک معجزہ مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو شفا دینے کا اعلان بھی فرمایا۔روایت ہے کہ ایک دن میں پچاس اندھوں اور کوڑھیوں کو آپ کی دعا سے اس شرط پر شفا حاصل ہوئی کہ وہ ایمان لے آئیں۔(تفسیر جمل، 1 /419)

2-دوسری قوم”قوم ِعاد“ہے۔قومِ عاد مقامِ احقاف میں رہتی تھی جو عمان و حضر موت کے درمیان ایک بڑا ریگستان ہے۔ اس کے مُورث ِاعلیٰ کا نام عادبن عوص بن ارم بن سام بن نوح ہے۔

یہ لوگ بت پرست اور بہت بد اعمال و بد کردارتھے۔ اللہ پاک نے اپنے پیغمبر حضرت ہود علیہ السلام کو ان لوگوں کی ہدایت کے لیے بھیجا مگر اس قوم نے اپنے تکبر اور سرکشی کی وجہ سے حضرت ہود علیہ السلام کو جھٹلایا اور اپنے کفر پر اڑے رہے۔ پھر عذابِ الٰہی کی جھلکیاں شروع ہوگئیں۔تین سال تک بارش ہی نہ ہوئی اور ہر طرف قحط اور خشک سالی کا دور دورہ ہو گیا یہاں تک کہ لوگ اناج کے دانے دانے کو ترس گئے۔ زمانے کا یہ دستور تھا کہ جب کوئی بَلایا مصیبت آتی تھی تو لوگ مکہ معظمہ جا کر خانہ کعبہ میں دعائیں مانگتےتھے تو بَلائیں ٹل جاتی تھیں۔چنانچہ ایک جماعت مکہ معظمہ گئی۔ اس جماعت میں مرثد بن سعد نامی ایک شخص بھی تھا جو مومن تھا، مگر اپنے ایمان کو قوم سے چھپائے ہوئے تھا۔ جب ان لوگوں نے کعبہ معظمہ میں دعا مانگنا شروع کی تو مرثد بن سعد کا ایمانی جذبہ بیدار ہو گیا۔ اس نے تڑپ کر کہا کہ اے میری قوم !تم لاکھ دعائیں مانگو مگر خدا کی قسم !اس وقت تک پانی نہ برسے گا جب تک نبی حضرت ہود علیہ السلام پر ایمان نہ لے آؤ۔ حضرت مرثد بن سعد نے جب اپنا ایمان ظاہر کردیا تو قومِ عاد کے شریروں نے آپ کو مار پیٹ کر الگ کر دیا اور دعائیں مانگنے لگے۔ اس وقت اللہ پاک نے تین بدلیاں بھیجیں:ایک سفید،ایک سرخ، ایک سیاہ اور آسمان سے ایک آواز آئی کہ اےقومِ عاد تم لوگ اپنی قوم کے لئے ان تینوں بدلیوں میں سے ایک بدلی کو پسند کرو،انہوں نے کالی بدلی پسند کر لی اور یہ لوگ اس خیال میں مگن تھے کہ کالی بدلی خوب زیادہ بارش دے گی۔ چنانچہ وہ ابرِ سیاہ قومِ عاد کی آبادیوں کی طرف چل پڑا۔ یہ لوگ کالی بدلی کو دیکھ کر بہت خوش تھے۔حضرت ہود علیہ السلام نے فرمایا کہ وہ عذابِ الٰہی ابر کی صورت میں تمہاری طرف بڑھ رہا ہے۔ مگر قوم کے گستاخوں نے اپنے نبی کو جھٹلا دیا اور کہا: کہاں کا عذاب؟ اور کیسا عذاب ؟(تفسیرروح البیان،3/187)

ناگہاں اس میں سے ایک آندھی آئی جو اتنی شدید تھی کہ اونٹوں کو ان کے سواروں سمیت اٹھا کر کہیں سے کہیں پھینک دیتی اور پھر اتنی زوردار ہوگئی کہ درختوں کو جڑ سے اکھاڑ کر اڑا لے گئی۔یہ دیکھ کر قومِ عاد کے لوگوں نے اپنے سنگین مرحلوں میں داخلوں کے دروازے بند کر دیے مگر آندھی کے جھو کے نہ صرف دروازوں کو اکھاڑ کر لے گئے بلکہ پوری عمارتوں کو جھنجھوڑ کر ان کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ سات رات اور آٹھ دن مسلسل چلتی رہی حتی کہ قوم ِعاد کا ایک ایک آدمی مر کر فنا ہو گیا اور اس قوم کا ایک بچہ بھی باقی نہ رہا۔چنانچہ ارشادِ ربانی ہے:ترجمہ کنز الایمان:اور رہے عاد وہ ہلاک کیے گئے نہایت سخت گرجتی آندھی سے وہ ان پر قوت سے لگادی سات راتیں اور آٹھ دن لگاتارتو ان لوگوں کو ان میں دیکھو پچھڑے ہوئے گویا وہ کھجور کے ڈنڈ ہیں گرے ہوئے۔ تو تم ان میں کسی کو بچا ہوا دیکھتے ہو۔(تفسیر صاوی،2/686)

3-تیسری قوم شہر نینویٰ کے باشندے کہ ان کی طرف حضرت یونس علیہ السلام کو اللہ پاک نے ہدایت کے لئے رسول بنا کر بھیجا۔نینویٰ اور موصل کے علاقے کا ایک بڑا شہر تھا۔ یہاں کے لوگ بت پرستی کرتے اور کفر و شرک میں مبتلاتھے۔حضرت یونس علیہ السلام نے ان لوگوں کو ایمان لانے اور بت پرستی چھوڑنے کا حکم دیا مگر ان لوگوں نے اپنی سرکشی کی وجہ سے اللہ پاک کے رسول علیہ السلام کو جھٹلایا اور ایمان لانے سے انکار کر دیا۔ حضرت یونس علیہ السلام نے انہیں خبر دی کہ تم لوگوں پر عنقریب عذاب آنے والا ہے۔ یہ سن کر شہر کے لوگوں نے آپس میں یہ مشورہ کر لیا کہ حضرت یونس علیہ السلام نےکبھی کوئی جھوٹی بات نہیں کی۔ اس لئے دیکھو کہ اگر وہ رات کو شہر میں رہیں جب تو سمجھ لو کہ کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اگر انہوں نے شہر میں رات نہ گزاری تو یقین کر لینا چاہیے کہ ضرور عذاب آئے گا۔

رات کو لوگوں نے یہ دیکھا کہ حضرت یونس علیہ السلام شہر سے باہر تشریف لے گئے اور وہاں صبح ہوتے ہی عذاب کے آثار نظر آنے لگے۔ چاروں طرف سے کالی بدلیاں نمودار ہوئیں اور ہر طرف سے دھواں اٹھ کر شہر پر چھا گیا۔یہ منظر دیکھ کر شہر کے باشندوں کو یقین ہو گیا کہ عذاب آنے والا ہی ہے، تو لوگوں کو حضرت یونس علیہ السلام کی تلاش اور جستجو ہوئی مگر وہ دور دور تک کہیں نظر نہیں آئے۔ اب شہر والوں کو اور زیادہ خطرہ اور اندیشہ ہو گیا۔ چنانچہ شہر کے تمام لوگ خدا سے ڈر کر کانپ اٹھے اور سب کے سب عورتوں، بچوں اور مویشیوں کو ساتھ لے کر اور پھٹے پرانے کپڑے پہن کر روتے ہوئے جنگل میں نکل گئے اور رو رو کر صدقِ دل سے حضرت یونس علیہ السلام پر ایمان لانے کا اعلان کرنے لگے۔اللہ پاک کو شہر والوں کی بے قراری اور مخلصانہ گریہ و زاری پر رحم آیا اور عذاب اٹھا لیا گیا۔ ناگہاں دھواں اور عذاب کی بدلیاں رفع ہوگئیں اور تمام لوگ پھر شہر میں آکر امن اور چین سے رہنے لگے۔ اس کا تذکرہ قرآنِ مجید میں اس طرح اللہ پاک نے فرمایا:ترجمہ کنز الایمان:تو ہوئی ہوتی نہ کوئی بستی کہ ایمان لاتی تو اس کا ایمان کام آتا ہاں یونس کی قوم جب ایمان لائے ہم نے ان سے رسوائی کا عذاب دنیا کی زندگی میں ہٹا دیا اور ایک وقت تک برتنے دیا۔

4-قومِ ثمود جن کی طرف حضرت صالح علیہ السلام نبی بنا کر بھیجے گئے۔آپ نے جب قومِ ثمود کو خدا پاک کا فرمان سنا کر ایمان کی دعوت دی تو اس سرکش قوم نے آپ سے یہ معجزہ طلب کیا کہ آپ اس پہاڑ کی چٹان سے ایک گابھن اونٹنی نکالئے، جو خوب فربہ اور ہر قسم کے عیوب و نقائص سے پاک ہو۔چنانچہ آپ نے چٹان کی طرف اشارہ فرمایا تو وہ فوراً ہی پھٹ گیا اور اس میں سے ایک نہایت ہی خوبصورت اور تن درست اور خوب بلند قامت اونٹنی نکل پڑی جو گابھن تھی۔آپ نے فرمایا کہ اے لوگو! دیکھو یہ معجزہ کی اونٹنی ہے۔ ایک روز تمہارے تالاب کا سارا پانی یہ پی ڈالے گی اور ایک روز تم لوگ پینا۔قوم نے اس کو مان لیا۔ پھر آپ نے قومِ ثمود کے سامنے تقریر فرمائی:ترجمہ کنزالایمان:اے میری قوم اللہ کو پوجوں اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے روشن دلیل آئی یہ اللہ کا ناقہ ہے تمہارے لئے نشانی تو اسے چھوڑ دو کہ اللہ کی زمین میں کھائے اور اسے بُرائی سے ہاتھ نہ لگاؤ تمہیں دردناک عذاب آئے گا۔

چند دن تو قومِ ثمود نے اس تکلیف کو برداشت کیا کہ ایک دن ان کو پانی نہیں پینے کو ملتا کیونکہ اس دن تالاب کا سارا پانی اونٹنی پی جاتی تھی۔ اس لئے ان لوگوں نے طے کرلیا کہ اس اونٹنی کو قتل کر ڈالیں۔چنانچہ اس قوم میں قدار بن سالف جو سرخ رنگ کا بھوری آنکھوں والا اور پستہ قد آدمی تھا، ایک بدکار عورت کا لڑکا تھا، ساری قوم کے حکم سے اس اونٹنی کو قتل کرنے کے لئے تیار ہو گیا۔ حضرت صالح علیہ السلام منع کرتے رہے لیکن قدار نے پہلے تو اونٹنی کے چاروں پاؤں کو کاٹ ڈالا،پھر اس کو ذبح کردیا اور انتہائی سرکشی کے ساتھ حضرت صالح علیہ السلام سے بے ادبانہ گفتگو کرنے لگا۔خداوندِ قدوس کا ارشاد ہے:ترجمہ کنزالایمان:پس ناقہ کی کوچیں کاٹ دیں اور اپنے رب کے حکم سے سرکشی کی اور بولے صالح ہم پر لے آؤ جس کا تم وعدہ دے رہے ہو اگر تم رسول ہو۔

قومِ ثمود کی سرکشی پر عذابِ خداوندی کا ظہور اس طرح ہوا کہ پہلے ایک زبردست چنگھاڑ کی خوفناک آواز آئی، پھر شدید زلزلہ آیا، جس سے پوری آبادی چکنا چور ہو گئی۔ تمام عمارتیں ٹوٹ پھوٹ کر تہس نہس ہو گئیں اور قومِ ثمود کا ایک ایک آدمی گھٹنوں کے بل اوندھا گر کر مر گیا۔قرآنِ مجید نے فرمایا:ترجمہ کنز الایمان:تو انہیں زلزلہ نے آلیا تو صبح کو اپنے گھروں میں اوندھے رہ گئے تو صالح نے ان سے منہ پھیرا۔

حضرت صالح علیہ السلام نے جب دیکھا کہ پوری بستی زلزلوں کے جھٹکوں سے تباہ و برباد ہو کر اینٹ پتھروں کا ڈھیر بن گئی اور پوری قوم ہلاک ہوگئی تو آپ کو بڑا صدمہ ہوا اور آپ کو قومِ ثمود اور ان کی بستی کے ویرانوں سے اس قدر نفرت ہوگئی کہ آپ نے لوگوں کی طرف سے منہ پھیر لیا۔اس بستی کو چھوڑ کر دوسری جگہ تشریف لے گئے اور چلتے وقت مردہ لاشوں سے یہ فرما کر روانہ ہو گئے: ترجمہ کنز الایمان:اے میری قوم بے شک میں نے تمہیں اپنے رب کی رسالت پہنچا دی اور تمہارا بھلا چاہا مگر تم خیر خواہی کے غرضی ہی نہیں۔(پ8،الاعراف:79) 


پیارے پیارے اسلامی بھائیوں! امت محمد یہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم یعنی ہم سب سے آخری امت ہیں۔ ہم سے پہلے بھی کئیں امتیں اللہ پاک نے دنیا بھیجی لیکن انہوں نے اپنے نبی کا انکار کیا اور اللہ پاک کی نافرمانی کی جس کی وجہ سے اللہ پاک نے ان پر عذاب نازل فرما کر ہلاک کردیا اور اللہ پاک نے ان قوموں کا قراٰن میں تذکرہ فرمایا تاکہ امت محمدیہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اسے پڑھے اور اسے عبرت حاصل کر کے اللہ پاک کی نافرمانی سے بچتے رہیں۔ آئیں ہم ان میں سے چند قوم کے بارے میں سنتے ہیں:۔حضرت نوح علیہ السّلام کی قوم: حضرت نوح علیہ السّلام نے چالیس یا پچاس سال کی عمر میں نبوت کا اعلان فرمایا حضرت نوح علیہ السّلام نے قوم کو ایک خدا کی طرف بلایا اور عذابِ خدا سے ڈراتے ہوئے شرک سے منع فرمایا، تو قوم نے کہا کہ ہم تو آپ کو اپنے ہی جیسا آدمی دیکھتے ہیں، تمہاری ہم پر کوئی فضیلت نہیں سمجھتے اور ہم آپ کو جھوٹا خیال کرتے ہیں۔ کافروں نے یہاں تک کہہ دیا کہ جس عذاب سے تم ہمیں ڈراتے ہو، لے آؤ۔ آپ نے اپنی قوم کو نو سو پچاس سال دعوت دی۔ دعوت پر صرف اسّی لوگ مسلمان ہوئے۔ اس کے بعد اللہ پاک نے کشتی بنانے کا حکم فرمایا اور چند نشانیاں بیان فرما دی۔ نوح علیہ السّلام نے علامت ملاحظہ فرمایا تو کشتی میں اپنے ساتھیوں اور ہر جنس سے ایک جوڑا نر اور مادہ کو لے کر سوار ہوئے اور قوم ہلاک کر دی گئی۔ کشتی عذابِ الہی ختم ہونے کے بعد جودی پہاڑ پر ٹھہر گئی۔ طوفان کے بعد آپ علیہ السّلام ساٹھ برس دنیا میں رہے۔ ایک ہزار سال کی عمر میں آپ نے وفات پائی۔ ( القراٰن الکریم مع صراط الجنان سورہ ہود آیت،25تا 43)

حضرت صالح علیہ السّلام کی قوم: حضرت صالح علیہ السّلام کو قومِ ثمود طرف بھیجا گیا۔ حضرت صالح علیہ السّلام نے انہیں ایک اللہ پاک کی عبادت کرنے کا حکم دیا۔ قوم نے کہا تم ہمیں ہمارے آباء کے معبودوں کو عبادت سے منع کرتے ہو۔ قوم نے معجزہ طلب کیا۔ حضرت صالح علیہ السّلام نے دعا کی تو پتھر سے اونٹنی پیدا ہوئی۔ آپ نے ارشاد فرمایا : اسے زمین میں چرنے دو اور کوئی تکلیف نہ پہنچاؤ ورنہ دنیا ہی میں گرفتار ِعذاب ہوجاؤگے اور مہلت نہ پاؤ گے۔ لیکن قوم نے اونٹنی کی ٹانگوں کی رگیں کاٹ ڈالی حضرت صالح علیہ السّلام نے فرمایا تین دن انتظار کرو۔ تین دن بعد ظالموں کو چنگھاڑ یعنی سخت چیخ کی آواز نے آلیا جس سے قوم ہلاک کر دی گئی ۔(سورہ ہود آیت: ۶۱61تا 67)

حضرت شعیب علیہ السّلام کی قوم: حضرت شعیب علیہ السّلام کو ان کی قوم کی طرف بھیجا گیا جو مدین میں رہتے تھے۔ شعب علیہ السّلام نے فرمایا اے میری قوم! اللہ پاک کی عبادت کرو۔ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور ناپ تول میں انصاف کرو گھٹا کر نہ دو قوم نے کہا کیا تمہاری نماز یہ حکم دیتی ہے کہ ہم اپنے آبا کے دین کو چھوڑ دیں حضرت شعیب علیہ السّلام نے انہیں قوم ہود اور قومِ صالح پر آئے ہوئے عذاب سے ڈرایا تو قوم نے کہا: ہم تمہیں کمزور دیکھتے ہیں۔ اگر تمہارا کنبہ نہ ہوتا تو تمہیں پتھراؤ کرتے۔ حضرت شعیب علیہ السّلام نے فرمایا تم اپنا کام کرو میں اپنا کام کرتا ہوں۔ معلوم ہو جائے گا کہ رسوا کرنے والا عذاب کس پر آتا ہے؟ پھر اللہ کا عذاب آیا اور ظالموں کو چنگھاڑ نے آ لیا۔ (سورہ ہود آیت: 84تا94 )

پیارے پیارے اسلامی بھائیوں! آپ نے سنا کہ کئیں قومیں انبیاء علیہ السّلام کی بات نہ ماننے اور خدا کی نافرمانیوں کی وجہ سے ہلاک کر دی گئی۔ اب غور کریں کہ کیا ہم اللہ پاک کے احکامات پر عمل اور کیا ہم نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنتوں پر عمل کر رہے ہیں? اگرہم اللہ پاک کے احکامات کی نافرمانی اور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سنتوں کو چھوڑ رہے ہیں تو اس پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اللہ پاک ہمیں اس کے احکامات اور اس کے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سنتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


تمام تعریفیں اللہ پاک ہی کے لئے جس نے زمین اور آسمان پیدا فرمائے اور اپنا پیارا کلام کلامِ ربانی قراٰن مجید کو اپنے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر نازل فرمایا اور اس میں عبرت کے لئے پچھلی قوموں کے قصے بیان کئے اور کہیں کافروں کے لئے آخرت میں عذاب کی وعیدیں بیان کیں تو کہیں ایمان والوں کے لیے آخرت میں ملنے والی بشارتیں سنائیں۔

آئیں قراٰن مجید میں انبیاء کرام علیہم السّلام اور ان کی قوموں کا تذکرہ پڑھتے ہیں :۔

حضرت نوح علیہ السّلام: حضرت نوح علیہ السّلام دنیا میں چوتھے نبی اور کفار کی طرف بھیجے جانے پہلے رسول ہیں۔ طوفانِ نوح کے بعد چونکہ آپ علیہ السّلام سے ہی نسلِ انسانی چلی اس لئے آپ آدمِ ثانی کہلاتے ہیں ، آپ علیہ السّلام نے کئی سو سال تک اپنی قوم کو خفیہ، اعلانیہ ہر طرح سے تبلیغ فرمائی اور اس دوران قوم کی طرف سے پہنچنے والی اذیتوں کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا اور صبر و تحمل کا مظاہرہ فرمایا ، عرصہ دراز تک قوم کو نصیحت کرنے کے باوجود صرف 80 افراد نے ایمان قبول کیا اور جب قوم کے ایمان لانے اور راہِ راست پر آنے کی کوئی امید باقی نہ رہی تو آپ علیہ السّلام نے ان کے خلاف دعا کی جو قبول ہوئی اللہ پاک نے اہل ایمان کو کشتی میں سوار کر کے نجات بخشی اور کافروں کو طوفان کے عذاب میں مبتلا کرکے ہلاک کردیا ۔جس کو اللہ پاک نے قراٰن مجید ہوں بیان کیا: كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوْحٍ فَكَذَّبُوْا عَبْدَنَا وَ قَالُوْا مَجْنُوْنٌ وَّ ازْدُجِرَ(۹) فَدَعَا رَبَّهٗۤ اَنِّیْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ(۱۰) فَفَتَحْنَاۤ اَبْوَابَ السَّمَآءِ بِمَآءٍ مُّنْهَمِرٍ٘ۖ(۱۱) وَّ فَجَّرْنَا الْاَرْضَ عُیُوْنًا فَالْتَقَى الْمَآءُ عَلٰۤى اَمْرٍ قَدْ قُدِرَۚ(۱۲) وَ حَمَلْنٰهُ عَلٰى ذَاتِ اَلْوَاحٍ وَّ دُسُرٍۙ(۱۳) تَجْرِیْ بِاَعْیُنِنَاۚ-جَزَآءً لِّمَنْ كَانَ كُفِرَ (۱۴) وَ لَقَدْ تَّرَكْنٰهَاۤ اٰیَةً فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ(۱۵) ترجمۂ کنزالایمان: ان سے پہلے نوح کی قوم نے جھٹلایا تو ہمارے بندے کو جھوٹا بتایا اور بولے وہ مجنون ہے اور اُسے جھڑکا۔تو اس نے اپنے رب سے دعا کی کہ میں مغلوب ہوں تو میرا بدلہ لے۔ تو ہم نے آسمان کے دروازے کھول دئیے زور کے بہتے پانی سے۔اور زمین چشمے کرکے بہا دی تو دونوں پانی مل گئے اس مقدار پر جو مقدر تھی۔ اور ہم نے نوح کو سوار کیا تختوں اور کیلوں والی پر ۔کہ ہماری نگاہ کے روبرو بہتی اس کے صلہ میں جس کے ساتھ کفر کیا گیا تھا ۔ اور ہم نے اسے نشانی چھوڑا تو ہے کوئی دھیان کرنے والا ۔(پ27،القمر:9تا15)

حضرت ہود علیہ السّلام: حضرت نوح علیہ السّلام کے برسوں بعد اللہ پاک ایک قوم پیدا کی جسے اس زمانے میں قومِ عاد کہا جاتا ہے یہ لوگ صحت مند ، طاقتور ، بڑے قد کے اور لمبی عمروں والے تھے لیکن ایمان و عمل کے اعتبار سے پستی کے شکار تھے۔ چنانچہ بتوں کی پوجا کرنا ، لوگوں کا مذاق اڑانا، دوسروں کو تنگ کرنا تھا۔ تو اللہ پاک نے اس قوم کی ہدایت کے لئے اس قوم میں ہود علیہ السّلام کو رسول بناکر ان کی طرف بھیجا ، آپ علیہ السّلام نے انہیں وحدانیت الٰہی پر ایمان لانے، بتوں کی پوجا چھوڑ دینے، صرف اللہ پاک کی عبادت کرنے اور برے اعمال ترک کرنے کی دعوت دی۔ لیکن بہت تھوڑے افراد نے آپ علیہ السّلام کی تصدیق کی اور اکثر نے تکذیب و مخالفت کی اور بے بنیاد الزامات لگانے پر کمر باندھ لی اور آپ کو دیوانہ بول کر آپ کا مذاق اڑانے لگے ۔ جب ہود علیہ السّلام کی پیہم تبلیغ کے با وجود یہ لوگ ایمان نہ لائے اور کفر و شرک ، انکارِ حق اور سرکشی پر ڈٹے رہے تو ان پر تند و تیز آندھی کی صورت میں عذاب الہٰی آیا۔ یہ آندھی سات راتیں اور آٹھ دن لگاتار چلتی رہی، یہاں تک کہ قومِ عاد کو تباہ و برباد کر کے نشانِ عبرت بنا دیا۔ اللہ پاک اس کو قراٰنِ مجید میں یوں بیان فرمایا ہے: وَ اِلٰى عَادٍ اَخَاهُمْ هُوْدًاؕ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-اَفَلَا تَتَّقُوْنَ(۶۵) قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖۤ اِنَّا لَنَرٰىكَ فِیْ سَفَاهَةٍ وَّ اِنَّا لَنَظُنُّكَ مِنَ الْكٰذِبِیْنَ(۶۶) قَالَ یٰقَوْمِ لَیْسَ بِیْ سَفَاهَةٌ وَّ لٰكِنِّیْ رَسُوْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ(۶۷) اُبَلِّغُكُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَ اَنَا لَكُمْ نَاصِحٌ اَمِیْنٌ(۶۸) اَوَ عَجِبْتُمْ اَنْ جَآءَكُمْ ذِكْرٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَلٰى رَجُلٍ مِّنْكُمْ لِیُنْذِرَكُمْؕ-وَ اذْكُرُوْۤا اِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَآءَ مِنْۢ بَعْدِ قَوْمِ نُوْحٍ وَّ زَادَكُمْ فِی الْخَلْقِ بَصْۜطَةًۚ-فَاذْكُرُوْۤا اٰلَآءَ اللّٰهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ(۶۹) قَالُوْۤا اَجِئْتَنَا لِنَعْبُدَ اللّٰهَ وَحْدَهٗ وَ نَذَرَ مَا كَانَ یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَاۚ-فَاْتِنَا بِمَا تَعِدُنَاۤ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ(۷۰) قَالَ قَدْ وَ قَعَ عَلَیْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ رِجْسٌ وَّ غَضَبٌؕ-اَتُجَادِلُوْنَنِیْ فِیْۤ اَسْمَآءٍ سَمَّیْتُمُوْهَاۤ اَنْتُمْ وَ اٰبَآؤُكُمْ مَّا نَزَّلَ اللّٰهُ بِهَا مِنْ سُلْطٰنٍؕ-فَانْتَظِرُوْۤا اِنِّیْ مَعَكُمْ مِّنَ الْمُنْتَظِرِیْنَ(۷۱) فَاَنْجَیْنٰهُ وَ الَّذِیْنَ مَعَهٗ بِرَحْمَةٍ مِّنَّا وَ قَطَعْنَا دَابِرَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ مَا كَانُوْا مُؤْمِنِیْنَ۠(۷۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور عاد کی طرف ان کی برادری سے ہود کو بھیجا کہا اے میری قوم اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں تو کیا تمہیں ڈر نہیں اس کی قوم کے سردار بولے بے شک ہم تمہیں بیوقوف سمجھتے ہیں اور بے شک ہم تمہیں جھوٹوں میں گمان کرتے ہیں کہا اے میری قوم مجھے بے وقوفی سے کیا علاقہ(تعلق) میں تو پروردگار عالم کا رسول ہوں۔ تمہیں اپنے رب کی رسالتیں پہنچاتا ہوں اور تمہارا مُعَتَمد خیر خواہ ہوں۔ اور کیا تمہیں اس کا اَچَنبھا(تعجب)ہوا کہ تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک نصیحت آئی تم میں کے ایک مرد کی معرفت کہ وہ تمہیں ڈرائے اور یاد کرو جب اس نے تمہیں قوم نوح کا جانشین کیا اور تمہارے بدن کا پھیلاؤ بڑھایا تو اللہ کی نعمتیں یاد کرو کہ کہیں تمہارا بھلا ہو۔ بولے کیا تم ہمارے پاس اس لیے آئے ہو کہ ہم ایک اللہ کو پوجیں اور جو ہمارے باپ دادا پوجتے تھے انہیں چھوڑ دیں تو لاؤ جس کا ہمیں وعدہ دے رہے ہو اگر سچے ہو۔ کہا ضرور تم پر تمہارے رب کا عذاب اور غضب پڑ گیا کیا مجھ سے خالی ان ناموں میں جھگڑ رہے ہو جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لیے اللہ نے ان کی کوئی سند نہ اُتاری تو راستہ دیکھو میں بھی تمہارے ساتھ دیکھتا ہوں۔ تو ہم نے اُسے اور اس کے ساتھ والوں کو اپنی ایک بڑی رحمت فرما کر نجات دی اور جو ہماری آیتیں جھٹلاتے تھے ان کی جڑ کاٹ دی اور وہ ایمان والے نہ تھے۔(پ8،الاعراف:65تا 72)

حضرت صالح علیہ السّلام: قومِ عاد کے بعد قومِ ثمود قائم ہوئی اللہ پاک نے انہیں بھی طویل عمریں اور کثیر نعمتیں عطا فرمائی تھیں۔ لیکن یہ بھی آخر کار اللہ پاک کی نافرمانیوں اور کفر و شرک میں مبتلا ہو گئے۔ ان کی اصلاح و رہنمائی کے لئے اللہ پاک نے حضرت صالح علیہ السّلام کو رسول بنا کر بھیجا آپ علیہ السّلام نے انہیں توحید کو ماننے، صرف اللہ کی عبادت کرنے اور بتوں کی پوجا چھوڑ دینے کی دعوت دی۔ تو چند لوگ ایمان لے آئے اور اکثریت کفر و شرک پر ہی قائم رہی۔ قوم کے مطالبے پر حضرت صالح علیہ السّلام نے اونٹنی کی صورت میں معجزہ بھی دکھایا۔ لیکن وہ لوگ ایمان نہ لائے۔ حضرت صالح علیہ السّلام نے انہیں اونٹنی کے متعلق چند احکامات دئیے جن سے کچھ عرصے بعد قوم نے رو گردانے کرلی اور موقع پاکر اونٹنی کو قتل کردیا۔ پھر ایک گروہ نے حضرت صالح علیہ السّلام کے گھر پر حملہ کر کے انہیں قتل کرنے کی سازش کی تو نتیجے میں وہ سازشی گروہ عذابِ الہٰی میں ہلاک ہو گیا۔ جبکہ منکرین تین دن کے بعد عذابِ الہٰی کے شکار ہوگئے ۔جسے اللہ پاک نے قراٰنِ مجید یوں بیان فرمایا ہے: وَ اِلٰى ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًاۘ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-قَدْ جَآءَتْكُمْ بَیِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْؕ-هٰذِهٖ نَاقَةُ اللّٰهِ لَكُمْ اٰیَةً فَذَرُوْهَا تَاْكُلْ فِیْۤ اَرْضِ اللّٰهِ وَ لَا تَمَسُّوْهَا بِسُوْٓءٍ فَیَاْخُذَكُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۷۳) وَ اذْكُرُوْۤا اِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَآءَ مِنْۢ بَعْدِ عَادٍ وَّ بَوَّاَكُمْ فِی الْاَرْضِ تَتَّخِذُوْنَ مِنْ سُهُوْلِهَا قُصُوْرًا وَّ تَنْحِتُوْنَ الْجِبَالَ بُیُوْتًاۚ-فَاذْكُرُوْۤا اٰلَآءَ اللّٰهِ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ(۷۴) قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ اسْتَكْبَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ لِلَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِمَنْ اٰمَنَ مِنْهُمْ اَتَعْلَمُوْنَ اَنَّ صٰلِحًا مُّرْسَلٌ مِّنْ رَّبِّهٖؕ-قَالُوْۤا اِنَّا بِمَاۤ اُرْسِلَ بِهٖ مُؤْمِنُوْنَ(۷۵) قَالَ الَّذِیْنَ اسْتَكْبَرُوْۤا اِنَّا بِالَّذِیْۤ اٰمَنْتُمْ بِهٖ كٰفِرُوْنَ(۷۶) فَعَقَرُوا النَّاقَةَ وَ عَتَوْا عَنْ اَمْرِ رَبِّهِمْ وَ قَالُوْا یٰصٰلِحُ ائْتِنَا بِمَا تَعِدُنَاۤ اِنْ كُنْتَ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ(۷۷) فَاَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دَارِهِمْ جٰثِمِیْنَ(۷۸) فَتَوَلّٰى عَنْهُمْ وَ قَالَ یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُكُمْ رِسَالَةَ رَبِّیْ وَ نَصَحْتُ لَكُمْ وَ لٰكِنْ لَّا تُحِبُّوْنَ النّٰصِحِیْنَ(۷۹) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ثمود کی طرف ان کی برادری سے صالح کو بھیجا کہا اے میری قوم اللہ کو پوجو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے روشن دلیل آئی یہ اللہ کا ناقہ ہے تمہارے لیے نشانی تو اسے چھوڑ دو کہ اللہ کی زمین میں کھائے اور اسے برائی سے ہاتھ نہ لگاؤ کہ تمہیں دردناک عذاب آلے گا۔ اور یاد کرو جب تم کو عاد کا جانشین کیا اور ملک میں جگہ دی کہ نرم زمین میں محل بناتے ہو ۔اور پہاڑوں میں مکان تراشتے ہو تو اللہ کی نعمتیں یاد کرو اور زمین میں فساد مچاتے نہ پھرو۔ اس کی قوم کے تکبر والے کمزور مسلمانوں سے بولے کیا تم جانتے ہو کہ صالح اپنے رب کے رسول ہیں بولے وہ جو کچھ لے کر بھیجے گئے ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں۔ متکبر بولے جس پر تم ایمان لائے ہمیں اس سے انکار ہے۔ پس ناقہ کی کوچیں(قدم) کاٹ دیں اور اپنے رب کے حکم سے سرکشی کی اور بولے اے صالح ہم پر لے آؤ جس کا تم وعدہ دے رہے ہو اگر تم رسول ہو تو اُنہیں زلزلہ نے آلیا تو صبح کو اپنے گھروں میں اوندھے رہ گئے۔ تو صالح نے ان سے منہ پھیرا اور کہا اے میری قوم بے شک میں نے تمہیں اپنے رب کی رسالت پہنچادی اور تمہارا بھلا چاہا مگر تم خیر خواہوں کے غرضی(پسند کرنے والے) ہی نہیں۔(پ8،الاعراف:73تا 79)

خاتمُ الانبیاء سیدُ المرسلین محمد عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : سید الانبیاء احمدِ مجتبیٰ حبیبِ خدا محمدِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم وہ عظیم ہستی ہیں جن کی سیرت اور اوصاف کا چند صفحات میں ذکر ممکن نہیں بلکہ اس کے لئے ہزارہا صفحات بھی ناکافی ہیں کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے ؂

زندگیا ختم ہوئیں اور قلم ٹوٹ گئے

پر تیرے اوصاف کا ایک باب بھی پورا نہ ہوا

محمدِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اللہ پاک کے آخری نبی اور سب سے افضل ہیں۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے چالیس سال کی عمر میں نبوت کا اعلان فرمایا اور تین سال پوشیدہ طور پر تبلیغ اسلام کا فریضہ انجام دیتے رہے اور چوتھے سال آپ علانیہ طور پر دینِ اسلام کی تبلیغ اور شرک و بت پرستی کی کھلم کھلا برائی فرمانے لگے۔ جس کی وجہ سے کفار آپ کی مخالفت پر کمر بستہ ہو گئے اور پھر حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو شہید تو نہ کر سکے لیکن طرح طرح کی تکالیف اور آپ کے کاہن ، جادو گر ، شاعر ، مجنون ہونے کا پروپیگنڈہ کرنے لگے۔ کفار آپ کے راستوں میں پتھر اور نوکیلے کانٹے بچھاتے، کبھی آپ پر پتھر پھینکتے، تو کبھی آپ کو گالی دیتے، تو کبھی آپ کے ساتھ ساتھ غریب مسلمانوں پر بھی ظلم و ستم کرتے، لیکن آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم صبر و تحمل اور احتیاط فی الدین سے کام لیتے رہے۔ کیونکہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم لوگو کے لئے رحمت بناکر بھیجے گئے تھے اسی لئے کافروں پر عذابِ الہٰی نازل نہ ہوا۔ جیسا کہ اللہ پاک قراٰن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لیے۔) آخر کار لوگ آپ کی امانت اور آپ کے صبر و تحمل کو دیکھ کر جوق در جوق اسلام میں داخل ہونے لگے اور کفر و شرک کا سد باب ہونے لگا۔ دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کے ہر کونے میں پرچمِ اسلام لہرانے لگا ۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور آپ کی امت کا تذکرہ قراٰن کی روشنی میں کیا ہی کریں کیونکہ پورا قراٰنِ کریم ہی آپ کی شان میں نازل ہوا ہے ۔

پیارے اسلامی بھائیو ! دیکھا آپ نے کہ اللہ پاک نے قوموں کی اصلاح و ہدایت کے لئے کتنے انبیاء علیہم السّلام کو بھیجا لیکن پوری قوم میں سے کچھ ہی ایمان لاتے تھے اکثریت کفر و شرک پر ڈٹی رہتی تھی۔ جس کی وجہ ان پر عذابِ الہٰی نازل ہوا۔ لیکن ہمارے مکی مدنی آقا محمد مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم دونوں جہاں کے لئے رحمت بنا کر بھیجے گئے، اسی وجہ سے اللہ پاک ہم پر بھی اپنا عذاب نازل نہیں فرماتا۔ ورنہ ہم نے تو ہر وہ کام کر رکھا ہے جس کام کی وجہ سے پچھلی قومیں عذابِ الہٰی سے ہلاک و برباد ہوگئیں۔ تو ہمیں بھی چاہیے کہ اپنے گناہوں سے توبہ کر کے زیادہ سے زیادہ نیکیاں کریں اور خدا کا شکر ادا کریں کہ اس نے ہمیں اپنے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی امت میں پیدا فرمایا۔ اللہ پاک ہمیں اپنی اور اپنے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سچی محبت عطا فرمائے ۔اٰمین یا رب العالمین۔


مقصد بعثتِ انبیائے کرام : بعثت یعنی بھیجنا۔ ظہورِ نبوت کو بعثت کہا جاتا ہے۔انبیا نبی کی جمع ہے نبی اس انسان کو کہتے ہیں جسے اللہ پاک نے لوگوں کی ہدایت کے لئے وحی بھیجی ہو۔ حضرت آدم علیہ السّلام سے لے کر حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تک جتنے بھی انبیائے کرام علیہم السّلام تشریف لائے سب کو اللہ پاک نے اس لئے بھیجا تا کہ وہ لوگوں کو اللہ پاک کی عبادت اور وحدانیت کی طرف بلائیں اور غیر اللہ کی عبادت سے روکیں۔ اس کے علاوہ اللہ پاک نے مخلوق کی رہنمائی کے لئے ان کی طرف انبیا اور رسولوں کو بھیجا۔ ان پر کتابیں نازل فرمائیں۔ تمام لوگوں پر ان کو فضیلت بخشی اور ان میں بعض کو بعض پر فضیلت عطا فرمائی۔ قراٰنِ پاک میں ہے: تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍۘ ترجمۂ کنزالعرفان: یہ رسول ہیں ہم نے ان میں ایک کو دوسرے پرفضیلت عطا فرمائی ۔(پ3، ، البقرۃ:253)نبیوں میں سب سے پہلے نبی حضرت آدم علیہ السّلام اور سب سے آخری حضرت محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہیں۔ کچھ انبیائے کرام کا ذکر قراٰنِ پاک میں آیا ہے کچھ کا نہیں۔ جن کا ذکر قراٰن میں آیا ہے ان میں سے نام درج ذیل ہیں۔

(1) حضرت صالح علیہ السّلام اور ان کی قوم کا ذکر: اللہ نے قراٰن میں کچھ یوں فرمایا: وَ اِلٰى ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًاۘ- (پ8،الاعراف:73)

(2) حضرت آدم علیہ السّلام : وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا (پ1،البقرۃ:31)

(3) حضرت ابراہیم علیہ السّلام: وَ اِذِ ابْتَلٰۤى اِبْرٰهٖمَ رَبُّهٗ بِكَلِمٰتٍ فَاَتَمَّهُنَّؕ (پ1، البقرۃ:124)

(4) حضرت نوح علیہ السّلام : اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰۤى اٰدَمَ وَ نُوْحًا (پ3،آل عمرٰن:33)

(5) حضرت اسماعیل علیہ السّلام : وَ عَهِدْنَاۤ اِلٰۤى اِبْرٰهٖمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ (پ1،البقرۃ:125)

(6) حضرت اسحاق علیہ السّلام : وَ اِسْحٰقَ اِلٰهًا وَّاحِدًاۖ- (پ1،البقرۃ:133)

(7) حضرت بعقوب علیہ السّلام: وَ وَصّٰى بِهَاۤ اِبْرٰهٖمُ بَنِیْهِ وَ یَعْقُوْبُؕ (پ1، البقرۃ: 132 )

(8) حضرت یوسف علیہ السّلام : اِذْ قَالَ یُوْسُفُ لِاَبِیْهِ (پ12،یوسف:4)

(9) حضرت موسیٰ علیہ السّلام : وَ اِذْ وٰعَدْنَا مُوْسٰۤى اَرْبَعِیْنَ لَیْلَةً (پ1،البقرۃ:51)

(10) حضرت هارون علیہ السّلام : وَ هٰرُوْنَ (پ6،النسآء:163)

(11) حضرت شعیب علیہ السّلام : وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًاؕ (پ8،الاعراف:85)

(12) حضرت لوط علیہ السّلام : (پ12،ھود:77)

(13) حضرت ھود علیہ السّلام : وَ اِلٰى عَادٍ اَخَاهُمْ هُوْدًاؕ (پ8،الاعراف:65)

(14) حضرت داؤد علیہ السّلام : وَ قَتَلَ دَاوٗدُ جَالُوْتَ وَ اٰتٰىهُ اللّٰهُ الْمُلْكَ وَ الْحِكْمَةَ (پ2،البقرۃ:251)

(15) حضرت سلیمان علیہ السّلام : وَ مَا كَفَرَ سُلَیْمٰنُ وَ لٰكِنَّ الشَّیٰطِیْنَ كَفَرُوْا (پ1،البقرۃ:102)

(16) حضرت ایوب علیہ السّلام : وَ اَیُّوْبَ (پ6،النسآء:163)

(17) حضرت زکریا علیہ السّلام: وَّ كَفَّلَهَا زَكَرِیَّاؕ (پ3،اٰل عمرٰن:37)

(18) حضرت یونس علیہ السّلام : وَ یُوْنُسَ (پ6، النسآء:163)

(19،20،21) حضرت یحیٰ ، عیسیٰ ، الیاس علیہم السّلام : وَ یَحْیٰى وَ عِیْسٰى وَ اِلْیَاسَؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَۙ(۸۵) (پ7،الانعام:85)

(22) حضرت ادریس علیہ السّلام: وَ اِدْرِیْسَ (پ17،الانبیا:85)

(23) حضرت ذَو الکفل علیہ السّلام: وَ ذَا الْكِفْلِؕ (پ17،الانبیا:85)

( 24) حضرت عزیر علیہ السّلام : وَ قَالَتِ الْیَهُوْدُ عُزَیْرُ ﰳابْنُ اللّٰهِ (پ10،التوبۃ:30)

(25) حضرت الیسع علیہ السّلام : وَ الْیَسَعَ (پ7،الانعام:86)

(26) حضرت محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِؕ (پ26،الفتح:29)

بعض انبیا کی قوموں کے نام: حضرت موسی علیہ السّلام کو بنی اسرائیل کی طرف بھیجا گیا، حضرت هود کو قومِ عاد کی طرف، حضرت صالح کو قومِ ثمود کی طرف، حضرت لوط کو قوم لوط کی طرف، حضرت اسحاق علیہ السّلام کو اہل کنعان کی طرف، حضرت شعیب اور عیسیٰ علیہما السّلام کو اہل مدین کی طرف بھیجا گیا۔

اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں تمام انبیائے کرام سے سچی پکی محبت عطا فرمائے، ان کی سیرت کو پڑھنے اور پڑھ کر اس کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یوں تو سارے نبی محترم ہیں مگر سرورِ انبیا تیری کیا بات ہے۔


الله پاک نے انسان کو پیدا فرمایا تو انسان کی راہِ راست کا انتظام بھی فرمایا تاکہ قیامت کے دن انسان عذر نہ بنا سکے، لہٰذا وقتاً فوقتاً خوشخبری دینے اور ڈر سنانےوالے انبیائے کرام علیہم السّلام کو لوگوں کی ہدایت کیلئے مبعوث فرمایا: چنانچہ خود ہی ارشاد فرماتا ہے:﴿رُسُلًا مُّبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَ لِئَلَّا یَكُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَى اللّٰهِ حُجَّةٌۢ بَعْدَ الرُّسُلِؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ عَزِیْزًا حَكِیْمًا(۱۶۵)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: رسول خوشخبری دیتے اور ڈر سناتے کہ رسولوں کے بعد اللہ کے یہاں لوگوں کو کوئی عذر نہ رہے اور اللہ غالب حکمت والا ہے۔(پ6،النسآء:165)

انبیائےکرام علیہم الصّلوٰۃُوالسّلام کو مختلف اقوام کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا جن میں سے بعض کا تذکرہ قراٰن نے قوموں کے نام اور بعض کا ان کے علاقوں کے نام کے ساتھ کیا ہےجبکہ بعض اقوام کا ذکر ان کےسرداروں کے نام سے، بعض کا ان کی تعداد اور بعض کا ان کے انبیا کی طرف نسبت کر کے ذکر فرمایاہے۔آیئے قراٰنِ پاک میں ذکر ہونے والی اقوام اور ان کے انبیائے کرام علیہم الصّلوٰۃُ والسّلام کے بارے میں پڑھتے ہیں:

(1)حضرت ھود علیہ السّلام کی قوم: ﴿ وَ اِلٰى عَادٍ اَخَاهُمْ هُوْدًاؕ- ﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور عاد کی طرف ان کی برادری سے ہود کوبھیجا۔(پ8،الاعراف:65)

(2)حضرت صالح علیہ السّلام کی قوم: ﴿ وَ اِلٰى ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًاۘ- ﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور ثمود کی طرف ان کی برادری سے صالح کو بھیجا۔(پ8،الاعراف:73)

(3)حضرت شعیب علیہ السّلام کی قوم: ﴿وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًاؕ-﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان:اور مَدیَن کی طرف ان کی برادری سے شعیب کو بھیجا۔ (پ8،الاعراف:85)

(4)حضرت لوط علیہ السّلام کی قوم: ﴿ كَذَّبَتْ قَوْمُ لُوْطٍۭ بِالنُّذُرِ(۳۳)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: لوط کی قوم نے رسولوں کو جھٹلایا۔ (پ27،القمر:33)

(5)حضرت نوح علیہ السّلام کی قوم: ﴿ لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖ﴾ ترجمۂ کنزالایمان: بیشک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا۔(پ8،الاعراف:59)

(6) حضرت یونس علیہ السّلام کی قوم: ﴿ وَ اَرْسَلْنٰهُ اِلٰى مِائَةِ اَلْفٍ اَوْ یَزِیْدُوْنَۚ(۱۴۷) ﴾ترجمۂ کنزالایمان:اور ہم نے اسے لاکھ آدمیوں کی طرف بھیجا بلکہ زیادہ۔(پ23، الصّٰفّٰت:147)

(7)حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی قوم: ﴿ وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى بِاٰیٰتِنَاۤ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَ مَلَاۡىٕهٖ ﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور بے شک ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیوں کے ساتھ فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف بھیجا۔(پ25،الزخرف:46)

(8)حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی قوم: ﴿ وَ اِذْ قَالَ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ ﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور یاد کرو جب عیسٰی بن مریم نے کہا اے بنی اسرائیل میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں۔ (پ28،الصف:6)

(9)حضور نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی قوم: ﴿ قُلْ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ جَمِیْعًا﴾ترجمۂ کنزالعرفان: تم فرماؤ: اے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں۔ (پ9،الاعراف:158)

دیگر انبیا کو خاص قوم یا علاقے کی طرف مبعوث کیا گیا جبکہ آقا کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو تمام لوگوں کی طرف مبعوث فرمایا گیا ۔پھر ان میں سے بعض لوگ انبیاکی نافرمانی کے سبب ہلاک ہوئے اور بعض لوگ انبیا کی پیروی کے سبب فلاح پاگئے۔الله تعالیٰ ہمیں فلاح پانے والوں میں سے بنائے اور روزِ قیامت سرکار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شفاعت سے حصہ عطا فرمائے۔ اٰمین