انبیائے کرام علیہم السلام کائنات کی عظیم ترین ہستیاں اورانسانوں میں ہیروں اور موتیوں کی طرح جگمگاتی شخصیات ہیں،جنہیں خدا نے وحی کے نور سے روشنی بخشی۔حکمتوں کے سر چشمے ان کے دلوں میں جاری فرمائے اور سیرت وکر دار کی وہ بلندیاں عطافرمائیں جن کی تابانی سے مخلوق کی آنکھیں خیرہ ہوجاتی ہیں۔ ارشادِ پاک ہے:وہ اپنی رحمت کے ساتھ جسے چاہتا ہے خاص فرمالیتا ہے اور اللہ بڑےفضل والا ہے۔

اللہ پاک نےخود انبیائے کرام کی بعثت کے مقاصد قرآنِ پاک میں متعدد جگہ بیان فرمائے ہیں۔ بہت سے انبیائے کرام علیہم السلام کا ذکر صراحت کے ساتھ قرآنِ پاک میں موجود ہے۔ان میں سے چند کا تذکرہ پیشِ خدمت ہے۔ جن میں ان کا اور ان کی قوم کا ذکر کیا جائے گا۔

1) حضرت نوح علیہ السلام:آپ علیہ السلام کا اسمِ گرامی یشکریا عبد الغفاراور لقب نوح ہے۔ یہ لقب اس لیے ہوا کہ آپ اللہ کے خوف کی بنا پر کثرت سے گریہ و زاری کیا کرتےتھے۔حضرت نوح اللہ پاک کے اعلیٰ درجے کے کامل ایمان والے بندوں میں سےتھے۔چنانچہ ارشادِ باری ہے: اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۸۱) (پ23، الصّٰفّٰت: 81) ترجمہ:بے شک وہ ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل ایمان والے بندوں میں سے ہے۔

حضرت نوح علیہ السلام نے 950 برس تک اپنی قوم کو خفیہ،اعلانیہ ہر طرح سے تبلیغ فرمائی، مگر ان کی بدنصیب قوم ایمان نہ لائی۔ عرصہ دراز سے قوم کو نصیحت کرنے کے بعد صرف 80 افراد ایمان لائے۔ آپ علیہ السلام نے ان کے خلاف دعا کی اور اہلِ ایمان کو کشتی میں سوار کر کے نجات بخشی اور کافروں کو طوفان کا عذاب بھیج کر ہلاک کر دیا۔ارشادِ باری ہے: اِنَّاۤ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖۤ اَنْ اَنْذِرْ قَوْمَكَ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱) (پ 29،نوح: 1) ترجمہ کنز العرفان:بیشک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا کہ اس وقت سے پہلے اپنی قوم کو ڈرا کہ ان پر دردناک عذاب آئے۔

2) حضرت ہود علیہ السلام اور ان کی قوم:گمراہی کی تاریکیوں میں بھٹکنے والی اس قوم کو راہِ ہدایت پر لانے کے لیے اللہ پاک نے اسی قوم سے حضرت ہود علیہ السلام کو رسول بنا کر ان کی طرف بھیجا۔آپ علیہ السلام حضرت نوح علیہ السلام کے پوتے ارم کی اولاد سے ہیں۔علامہ بیضاوی رحمۃ اللہ علیہ نے آپ علیہ السلام کا نسب نامہ اس طرح بیان کیا ہے: ہود بن عبد اللہ بن رباح بن خلود بن عاد بن عوص بن ارم بن سام بن حضرت نوح علیہ السلام۔

حضرت نوح علیہ السلام کے برسوں بعد اللہ پاک نے ایک قوم پیدا فرمائی جسے اس زمانے میں قومِ عاد کہا جاتا ہے۔یہ لوگ صحت مند، طاقتور، بڑے قد کاٹھ اور لمبی عمروں والےتھے۔ان کے قد کاٹھ سے متعلق قرآنِ کریم میں ہے: اِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِﭪ(۷) الَّتِیْ لَمْ یُخْلَقْ مِثْلُهَا فِی الْبِلَادِﭪ(۸) ( پ30، الفجر: 7-8) ترجمہ:ارم (کے لوگ) ستونوں (جیسے قد) والے کہ ان جیسا شہروں میں پیدا نہ ہوا۔

3) حضرت صالح اور ان کی قوم:حضرت صالح علیہ السلام حضرت نوح علیہ السلام کے پوتے ارم کی اولاد میں سےتھے۔جیسا کہ ابو عبد اللہ محمد بن احمد قرطبی رحمۃ اللہ علیہ آپ کا نسب نامہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:صالح بن عبید بن آسف بن کا شح بن عبید بن حاذر بن ثمود بن عاد (بن عوص) بن ارم بن سام بن حضرت نوح۔

قومِ عاد کی ہلاکت کے بعد قومِ ثمود ان کے قائم مقام ہوئی۔اللہ پاک نے انہیں بھی طویل عمریں اور کثیر نعمتیں عطا فرمائی تھیں۔لیکن یہ بھی آخر کار اللہ پاک کی نافرمانیوں اور کفر و شرک میں مبتلا ہو گئے۔ ان کی اصلاح کے لیے حضرت صالح علیہ السلام کو رسول بنا کر بھیجا۔ آپ علیہ السلام نے انہیں توحید کو ماننے،صرف اللہ پاک کی عبادت اور بتوں کی پوجا چھوڑ دینے کی دعوت دی تو چند لوگ ایمان لائے۔ اکثریت کفر پر ہی قائم رہی۔ حضرت صالح علیہ السلام نے انہیں اونٹنی کی صورت میں معجزہ بھی دکھایا لیکن وہ ایمان نہ لائے۔ ( سیرت الانبیاء، ص 231) ارشادِ باری ہے: وَ اَنَّهٗۤ اَهْلَكَ عَادَاﰳ الْاُوْلٰىۙ(۵۰) وَ ثَمُوْدَاۡ فَمَاۤ اَبْقٰىۙ(۵۱) (پ 27، النجم: 50- 51) ترجمہ: اور یہ کہ اسی نے پہلی عاد کو ہلاک فرمایا اور ثمود کو تو اس نے (کسی کو) باقی نہ چھوڑا۔ اللہ پاک ہمیں انبیائے کرام کی سیرت کا مطالعہ اور دین کی تبلیغ کے لیے آنے والی مشکلات پر صبر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔جس طرح انبیائےکرام دین کی تبلیغ پر آنے والی مشکلات پر صبر کا مظاہرہ فرمایا کرتےتھے۔