اللہ پاک نے اپنا پیغام پہنچانے اور لوگوں کو گمراہی سے بچانے کے لیے وقفہ وقفہ سے بہت سے نبیوں اور رسولوں کو معبوث فرمایا۔انبیائےکرام کی بعثت کا یہ سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوا اور حضرت محمد ﷺ پر ختم ہوا۔ قرآنِ کریم میں صرف چند انبیا علیہم السلام اور ان کی قوموں کا تذکرہ ہے جو ملاحظہ ہو۔

وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًاؕ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-(الاعراف:85) ترجمہ کنزالایمان: اور مدین کی طرف ان کی برادری سے شعیب کو بھیجا کہا اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے۔اللہ پاک نے حضرت شعیب علیہ السلام کو مدین والوں کی اصلاح کے لیے رسول بنا کر بھیجا۔جس بستی کی جانب حضرت شعیب کو معبوث کیا گیا اس کا نام مدین ہے۔( صراط الجنان، الاعراف: 85)

اہلِ مدین کو اللہ پاک نے بہت سی نعمتیں عطا فرمائیں۔ ان کی تجارت میں بھی برکت رکھی،مگر اس قوم نے اللہ کا شکر ادا کرنے کی بجائےناشکری کی اور اللہ پاک کے ساتھ شرک کیا اور ناپ تول میں کمی کی۔حضرت شعیب علیہ السلام نے ان کو ناپ تول میں کمی نہ کرنے اور اللہ پاک کے ساتھ شرک نہ کرنے کی نصیحت کی مگر انہوں نے آپ کے حکم کی نافرمانی کی جس پر ان کو عذاب نے گھیر لیا۔

وَ لُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖۤ اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ(۸۰) (پ8،الاعراف:80) ترجمہ کنز الایمان: اور لوط کو بھیجا جب اس نے اپنی قوم سے کہا کیا وہ بے حیائی کرتے ہو جو تم سے پہلے جہان میں کسی نے نہ کی۔حضرت لوط علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے ہیں۔ آپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ ملکِ شام تشریف لائے اور آپ علیہ السلام کی بہت خدمت کی۔حضرت ابراہیم کی دعا سے نبی بنائے گئے۔حضرت لوط علیہ السلام اہلِ سدوم کے نبی تھے۔( قوم لوط کی تباہ کاریاں) حضرت لوط کی قوم شرک جیسے کبیرہ گناہ کے ساتھ ساتھ بد فعلی کے گناہ میں مبتلا تھی۔ آپ علیہ السلام نے ان کو اللہ پاک کے ساتھ شرک نہ کرنے اور گناہوں سے باز آجانے کا فرمایا تو اس قوم نے بجائے اس کے کہ آپ علیہ السلام کے حکم پر سر خم کرے نہایت بے باکی سے آپ کو دھمکی دی کہ ان کو اپنی بستی سے نکال دو یہ لوگ تو پاکیزگی چاہتے ہیں۔جب اس قوم کی سرکشی اور بُرائیاں قابلِ ہدایت نہ رہیں تو یہ اللہ پاک کے ایسے عذاب سے دو چار ہوئےکہ ان کی بستیاں آج بھی عبرت کا نشان ہیں۔( صراط الجنان)

وَ اِلٰى ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًاۘ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ- الاعراف:73) ترجمہ کنز العرفان:اور قوم ثمود کی طرف ان کے ہم قوم صالح کو بھیجا۔ صالح نے فرمایا:اے میری قوم!اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ ثمود عرب کا ایک علاقہ ہےجو حجاز اور شام کے درمیان سر زمین حجر میں رہتےتھے۔یہ لوگ ثمود بن رام بن سام بن نوح کی اولاد ہیں۔اللہ نے ان کی ہدایت کی خاطر ان کی طرف حضرت صالح کو معبوث فرمایا۔ یہ قوم بت پرست تھی۔جب آپ علیہ السلام نے ان کو واحدِ حقیقی اور اپنے رسول ہونے کی خبر دی تو انہوں نے آپ سے معجزہ طلب کیا کہ فلاں پتھر سے فلاں صفات کی اونٹنی کا ظہور ہو تو ہم آپ پر ایمان لائے گے۔چنانچہ آپ کی دعا سے یہ معجزہ ظاہر ہوا اور اس پتھر سے وہی صفات والی اونٹنی ظاہر ہوئی جس کو دیکھ کر کچھ لوگ ایمان لائے مگر ایک جماعت نے انکار کیا۔آپ علیہ السلام نے ان سے فرمایا کہ اس اونٹنی کو تکلیف نہ دو مگر ان لوگوں نے دنیاوی نفع کی خاطر اس اونٹنی کو قتل کر دیا اور اپنے نبی کے حکم کی اطاعت نہ کرنے کی وجہ سے عذاب ِالٰہی میں گرفتار ہوئے۔

4۔ترجمہ کنزالایمان:اور عاد کی طرف ان کی برادری سے ہود کو بھیجا کہا اے میری قوم اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں تو کیا تمہیں ڈر نہیں۔(الاعراف: 65) اللہ پاک نے حضرت ہود علیہ السلام کو قوم ِعاد کی طرف معبوث فرمایا۔ عاد عرب کا قبیلہ تھا جو یمن کے قریب میں رہتےتھے۔( صراط الجنان) اللہ پاک نے قومِ دعا کو سلطنت اور بدنی قوت عطا فرمائی۔یہ بہت لمبے قد والے اور بھاری ڈیل ڈول والے تھے۔ یہ قوم بت پرست اور ظالم تھی۔ حضرت ہود علیہ السلام نے ان کو واحد حقیقی کا پیغام دیا تو انہوں نے آپ کی تکذیب کی اور آپ علیہ السلام کی شان میں گستاخیاں کیں۔ان میں سے کچھ لوگ ہی آپ علیہ السلام پر ایمان لائےتھے۔جب یہ قوم آپ کے سمجھانے کے باوجود بُرائی سے باز نہ آئی تو اللہ پاک نے ان کو قحط میں مبتلا کر دیا۔ پھر ان میں سے کچھ لوگوں نے مکہ مکرمہ میں جا کر دعا کی تو 3 قسم کے بادل نمودار ہوئے۔ قوم بادل کو دیکھ کر خوش ہوئی کہ اب بارش ہو گی! مگر یہ اللہ پاک کا عذاب تھا۔ ان پر ایسی آندھی چلی کہ یہ سب ہلاک ہوگئے۔ ( صراط الجنان)

وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖۤ٘-اِنِّیْ لَكُمْ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌۙ(۲۵) ( ہود: 25) ترجمہ کنزالایمان: اور بے شک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا کہ میں تمہارے لیے صریح ڈر سنانے والا ہوں۔اللہ پاک نے حضرت نوح علیہ السلام کو ایسی قوم کی طرف بھیجا جو بت پرست تھی۔ آپ نے ان کو اللہ کی عبادت کرنے اور اللہ پاک کے حکم کی مخالفت کرنے پر عذاب کی خبر دی مگر اس قوم نے آپ کی نہ سنی بلکہ آپ علیہ السلام کو طرح طرح کی تکلیفیں پہنچائیں۔ جب قوم کی نافرمانی بڑھی تو اللہ پاک نے ان پر عذاب نازل کرنے کا ارادہ کیا تو آپ علیہ السلام کو ایک کشتی بنانے کا فرمایا۔ جب اس قوم پر اللہ کے عذاب میں مبتلا ہونے کا وقت آیا تو اللہ پاک کے حکم سے آپ علیہ السلام اپنے گھر والوں، ایمان والوں اور جانوروں اور پرندوں کے ایک ایک جوڑے لے کر کشتی میں سوار ہو گئے پھر نافرمان قوم پانی کے طوفان میں غرق ہو گئی۔اللہ پاک ہمیں گزشتہ قوموں کے واقعات سے عبرت حاصل کرنے، اللہ اور اس رسول ﷺ کی اطاعت کرنے کی توفیق بخشے۔ آمین