انبیائے
کرام اور ان کی قومیں قرآن کی روشنی میں از بنتِ جاوید احمد،فیضانِ ماریہ قطبیہ مورو
کئی قوموں کی
طرف کئی نبی بھیجے گئے۔ اللہ پاک نے قرآنِ مجید میں بھی ان کا تذکرہ
فرمایا۔انبیائے کرام علیہم السلام کے تذکروں میں سے کچھ تذکرے یہ ہیں:
1-بنی اسرائیل
کی طرف کئی نبی بھیجے گئے جن میں سے ایک حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی ہیں کیونکہ اس
زمانے میں اندھے اور کوڑھ کے مریض بہت تھے۔اسی لئے اللہ پاک نے حضرت عیسیٰ علیہ
السلام کو کئی معجزات عطا کیے،ان میں سے ایک معجزہ مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو
شفا دینا بھی عطا فرمایا تھا۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کے سامنے اپنی
نبوت اور معجزات کا اعلان کرتے ہوئے یہ تقریر فرمائی جو قرآنِ مجید کی سورۂ الِ
عمرٰن میں ہے:ترجمہ کنز الایمان:اور رسول ہوگا بنی اسرائیل کی طرف یہ فرماتا ہوا
کہ میں تمہارے پاس ایک نشانی لایا ہوں تمہارے رب کی طرف سے کہ میں تمہارے لیے مٹی سے
پرندے کی سی مورت بناتا ہوں پھر اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ فوراً پرند ہوجاتی
ہے اللہ کے حکم سے اور میں شفا دیتا ہوں مادر زاد اندھے اور سپید داغ والے کو۔
اس تقریر میں
آپ نے اپنے معجزات میں سے ایک معجزہ مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو شفا دینے کا
اعلان بھی فرمایا۔روایت ہے کہ ایک دن میں پچاس اندھوں اور کوڑھیوں کو آپ کی دعا سے
اس شرط پر شفا حاصل ہوئی کہ وہ ایمان لے آئیں۔(تفسیر جمل، 1 /419)
2-دوسری قوم”قوم
ِعاد“ہے۔قومِ عاد مقامِ احقاف میں رہتی تھی جو عمان و حضر موت کے درمیان ایک بڑا
ریگستان ہے۔ اس کے مُورث ِاعلیٰ کا نام عادبن عوص بن ارم بن سام بن نوح ہے۔
یہ لوگ بت پرست اور بہت بد اعمال و بد کردارتھے۔
اللہ پاک نے اپنے پیغمبر حضرت ہود علیہ السلام کو ان لوگوں کی ہدایت کے لیے بھیجا
مگر اس قوم نے اپنے تکبر اور سرکشی کی وجہ سے حضرت ہود علیہ السلام کو جھٹلایا اور
اپنے کفر پر اڑے رہے۔ پھر عذابِ الٰہی کی جھلکیاں شروع ہوگئیں۔تین سال تک بارش ہی
نہ ہوئی اور ہر طرف قحط اور خشک سالی کا دور دورہ ہو گیا یہاں تک کہ لوگ اناج کے
دانے دانے کو ترس گئے۔ زمانے کا یہ دستور تھا کہ جب کوئی بَلایا مصیبت آتی تھی تو
لوگ مکہ معظمہ جا کر خانہ کعبہ میں دعائیں مانگتےتھے تو بَلائیں ٹل جاتی تھیں۔چنانچہ
ایک جماعت مکہ معظمہ گئی۔ اس جماعت میں مرثد بن سعد نامی ایک شخص بھی تھا جو مومن
تھا، مگر اپنے ایمان کو قوم سے چھپائے ہوئے تھا۔ جب ان لوگوں نے کعبہ معظمہ میں
دعا مانگنا شروع کی تو مرثد بن سعد کا ایمانی جذبہ بیدار ہو گیا۔ اس نے تڑپ کر کہا
کہ اے میری قوم !تم لاکھ دعائیں مانگو مگر خدا کی قسم !اس وقت تک پانی نہ برسے گا
جب تک نبی حضرت ہود علیہ السلام پر ایمان نہ لے آؤ۔ حضرت مرثد بن سعد نے جب اپنا
ایمان ظاہر کردیا تو قومِ عاد کے شریروں نے آپ کو مار پیٹ کر الگ کر دیا اور
دعائیں مانگنے لگے۔ اس وقت اللہ پاک نے تین بدلیاں بھیجیں:ایک سفید،ایک سرخ، ایک
سیاہ اور آسمان سے ایک آواز آئی کہ اےقومِ عاد تم لوگ اپنی قوم کے لئے ان تینوں
بدلیوں میں سے ایک بدلی کو پسند کرو،انہوں نے کالی بدلی پسند کر لی اور یہ لوگ اس
خیال میں مگن تھے کہ کالی بدلی خوب زیادہ بارش دے گی۔ چنانچہ وہ ابرِ سیاہ قومِ
عاد کی آبادیوں کی طرف چل پڑا۔ یہ لوگ کالی بدلی کو دیکھ کر بہت خوش تھے۔حضرت ہود علیہ
السلام نے فرمایا کہ وہ عذابِ الٰہی ابر کی صورت میں تمہاری طرف بڑھ رہا ہے۔ مگر
قوم کے گستاخوں نے اپنے نبی کو جھٹلا دیا اور کہا: کہاں کا عذاب؟ اور کیسا عذاب ؟(تفسیرروح
البیان،3/187)
ناگہاں اس میں سے ایک آندھی آئی جو اتنی شدید
تھی کہ اونٹوں کو ان کے سواروں سمیت اٹھا کر کہیں سے کہیں پھینک دیتی اور پھر اتنی
زوردار ہوگئی کہ درختوں کو جڑ سے اکھاڑ کر اڑا لے گئی۔یہ دیکھ کر قومِ عاد کے
لوگوں نے اپنے سنگین مرحلوں میں داخلوں کے دروازے بند کر دیے مگر آندھی کے جھو کے
نہ صرف دروازوں کو اکھاڑ کر لے گئے بلکہ پوری عمارتوں کو جھنجھوڑ کر ان کی اینٹ سے
اینٹ بجادی۔ سات رات اور آٹھ دن مسلسل چلتی رہی حتی کہ قوم ِعاد کا ایک ایک آدمی
مر کر فنا ہو گیا اور اس قوم کا ایک بچہ بھی باقی نہ رہا۔چنانچہ ارشادِ ربانی ہے:ترجمہ
کنز الایمان:اور رہے عاد وہ ہلاک کیے گئے نہایت سخت گرجتی آندھی سے وہ ان پر قوت سے لگادی سات راتیں اور آٹھ دن لگاتارتو ان
لوگوں کو ان میں دیکھو پچھڑے ہوئے گویا وہ کھجور کے ڈنڈ ہیں گرے ہوئے۔ تو تم ان
میں کسی کو بچا ہوا دیکھتے ہو۔(تفسیر صاوی،2/686)
3-تیسری قوم
شہر نینویٰ کے باشندے کہ ان کی طرف حضرت یونس علیہ السلام کو اللہ پاک نے ہدایت کے
لئے رسول بنا کر بھیجا۔نینویٰ اور موصل کے علاقے کا ایک بڑا شہر تھا۔ یہاں کے لوگ
بت پرستی کرتے اور کفر و شرک میں مبتلاتھے۔حضرت یونس علیہ السلام نے ان لوگوں کو
ایمان لانے اور بت پرستی چھوڑنے کا حکم دیا مگر ان لوگوں نے اپنی سرکشی کی وجہ سے
اللہ پاک کے رسول علیہ السلام کو جھٹلایا اور ایمان لانے سے انکار کر دیا۔ حضرت
یونس علیہ السلام نے انہیں خبر دی کہ تم لوگوں پر عنقریب عذاب آنے والا ہے۔ یہ سن
کر شہر کے لوگوں نے آپس میں یہ مشورہ کر لیا کہ حضرت یونس علیہ السلام نےکبھی کوئی
جھوٹی بات نہیں کی۔ اس لئے دیکھو کہ اگر وہ رات کو شہر میں رہیں جب تو سمجھ لو کہ
کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اگر انہوں نے شہر میں رات نہ گزاری تو یقین کر لینا چاہیے کہ
ضرور عذاب آئے گا۔
رات کو لوگوں
نے یہ دیکھا کہ حضرت یونس علیہ السلام شہر سے باہر تشریف لے گئے اور وہاں صبح ہوتے
ہی عذاب کے آثار نظر آنے لگے۔ چاروں طرف سے کالی بدلیاں نمودار ہوئیں اور ہر طرف
سے دھواں اٹھ کر شہر پر چھا گیا۔یہ منظر دیکھ کر شہر کے باشندوں کو یقین ہو گیا کہ
عذاب آنے والا ہی ہے، تو لوگوں کو حضرت یونس علیہ السلام کی تلاش اور جستجو ہوئی مگر
وہ دور دور تک کہیں نظر نہیں آئے۔ اب شہر والوں کو اور زیادہ خطرہ اور اندیشہ ہو
گیا۔ چنانچہ شہر کے تمام لوگ خدا سے ڈر کر کانپ اٹھے اور سب کے سب عورتوں، بچوں
اور مویشیوں کو ساتھ لے کر اور پھٹے پرانے کپڑے پہن کر روتے ہوئے جنگل میں نکل گئے
اور رو رو کر صدقِ دل سے حضرت یونس علیہ السلام پر ایمان لانے کا اعلان کرنے لگے۔اللہ
پاک کو شہر والوں کی بے قراری اور مخلصانہ گریہ و زاری پر رحم آیا اور عذاب اٹھا
لیا گیا۔ ناگہاں دھواں اور عذاب کی بدلیاں رفع ہوگئیں اور تمام لوگ پھر شہر میں
آکر امن اور چین سے رہنے لگے۔ اس کا تذکرہ قرآنِ مجید میں اس طرح اللہ پاک نے فرمایا:ترجمہ
کنز الایمان:تو ہوئی ہوتی نہ کوئی بستی کہ ایمان لاتی تو اس کا ایمان کام آتا ہاں
یونس کی قوم جب ایمان لائے ہم نے ان سے رسوائی کا عذاب دنیا کی زندگی میں ہٹا دیا
اور ایک وقت تک برتنے دیا۔
4-قومِ ثمود جن کی طرف حضرت صالح علیہ السلام نبی بنا کر بھیجے گئے۔آپ نے
جب قومِ ثمود کو خدا پاک کا فرمان سنا کر ایمان کی دعوت دی تو اس سرکش قوم نے آپ
سے یہ معجزہ طلب کیا کہ آپ اس پہاڑ کی چٹان سے ایک گابھن اونٹنی نکالئے، جو خوب
فربہ اور ہر قسم کے عیوب و نقائص سے پاک ہو۔چنانچہ آپ نے چٹان کی طرف اشارہ فرمایا
تو وہ فوراً ہی پھٹ گیا اور اس میں سے ایک نہایت ہی خوبصورت اور تن درست اور خوب
بلند قامت اونٹنی نکل پڑی جو گابھن تھی۔آپ نے فرمایا کہ اے لوگو! دیکھو یہ معجزہ کی اونٹنی ہے۔
ایک روز تمہارے تالاب کا سارا پانی یہ پی ڈالے گی اور ایک روز تم لوگ پینا۔قوم
نے اس کو مان لیا۔ پھر آپ نے قومِ ثمود کے سامنے تقریر فرمائی:ترجمہ کنزالایمان:اے
میری قوم اللہ کو پوجوں اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں بے شک تمہارے پاس تمہارے
رب کی طرف سے روشن دلیل آئی یہ اللہ کا ناقہ ہے تمہارے لئے نشانی تو اسے چھوڑ دو
کہ اللہ کی زمین میں کھائے اور اسے بُرائی سے ہاتھ نہ لگاؤ تمہیں دردناک عذاب آئے
گا۔
چند دن تو قومِ ثمود نے اس تکلیف کو برداشت کیا کہ ایک دن ان کو پانی نہیں
پینے کو ملتا کیونکہ اس دن تالاب کا سارا پانی اونٹنی پی جاتی تھی۔ اس لئے ان
لوگوں نے طے کرلیا کہ اس اونٹنی کو قتل کر ڈالیں۔چنانچہ اس قوم میں قدار بن سالف
جو سرخ رنگ کا بھوری آنکھوں والا اور پستہ قد آدمی تھا، ایک بدکار عورت کا لڑکا
تھا، ساری قوم کے حکم سے اس اونٹنی کو قتل کرنے کے لئے تیار ہو گیا۔ حضرت صالح
علیہ السلام منع کرتے رہے لیکن قدار نے پہلے تو اونٹنی کے چاروں پاؤں کو کاٹ ڈالا،پھر
اس کو ذبح کردیا اور انتہائی سرکشی کے ساتھ حضرت صالح علیہ السلام سے بے ادبانہ
گفتگو کرنے لگا۔خداوندِ قدوس کا ارشاد ہے:ترجمہ کنزالایمان:پس ناقہ کی کوچیں کاٹ
دیں اور اپنے رب کے حکم سے سرکشی کی اور بولے صالح ہم پر لے آؤ جس کا تم وعدہ دے
رہے ہو اگر تم رسول ہو۔
قومِ ثمود کی
سرکشی پر عذابِ خداوندی کا ظہور اس طرح ہوا کہ پہلے ایک زبردست چنگھاڑ کی خوفناک
آواز آئی، پھر شدید زلزلہ آیا، جس سے پوری آبادی چکنا چور ہو گئی۔ تمام عمارتیں
ٹوٹ پھوٹ کر تہس نہس ہو گئیں اور قومِ ثمود کا ایک ایک آدمی گھٹنوں کے بل اوندھا گر
کر مر گیا۔قرآنِ مجید نے فرمایا:ترجمہ کنز الایمان:تو انہیں زلزلہ نے آلیا تو صبح
کو اپنے گھروں میں اوندھے رہ گئے تو صالح نے ان سے منہ پھیرا۔
حضرت صالح
علیہ السلام نے جب دیکھا کہ پوری بستی زلزلوں کے جھٹکوں سے تباہ و برباد ہو کر اینٹ
پتھروں کا ڈھیر بن گئی اور پوری قوم ہلاک ہوگئی تو آپ کو بڑا صدمہ ہوا اور آپ کو
قومِ ثمود اور ان کی بستی کے ویرانوں سے اس قدر نفرت ہوگئی کہ آپ نے لوگوں کی طرف
سے منہ پھیر لیا۔اس بستی کو چھوڑ کر دوسری جگہ تشریف لے گئے اور چلتے وقت مردہ
لاشوں سے یہ فرما کر روانہ ہو گئے: ترجمہ کنز الایمان:اے میری قوم بے شک میں نے
تمہیں اپنے رب کی رسالت پہنچا دی اور تمہارا بھلا چاہا مگر تم خیر خواہی کے غرضی
ہی نہیں۔(پ8،الاعراف:79)