کیف عطّاری (درجہ ثانیہ جامعۃُ المدینہ فیضان حسن خطیب
چشتی دھولکہ احمدآباد ہند)
تمام تعریفیں اللہ پاک ہی کے لئے جس نے زمین اور آسمان پیدا
فرمائے اور اپنا پیارا کلام کلامِ ربانی قراٰن مجید کو اپنے پیارے حبیب صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر نازل فرمایا اور اس میں عبرت کے لئے پچھلی قوموں کے قصے
بیان کئے اور کہیں کافروں کے لئے آخرت میں عذاب کی وعیدیں بیان کیں تو کہیں ایمان
والوں کے لیے آخرت میں ملنے والی بشارتیں سنائیں۔
آئیں قراٰن مجید میں انبیاء کرام علیہم السّلام اور ان کی
قوموں کا تذکرہ پڑھتے ہیں :۔
حضرت نوح علیہ السّلام: حضرت
نوح علیہ السّلام دنیا میں چوتھے نبی اور کفار کی طرف بھیجے جانے پہلے رسول ہیں۔
طوفانِ نوح کے بعد چونکہ آپ علیہ السّلام سے ہی نسلِ انسانی چلی اس لئے آپ آدمِ
ثانی کہلاتے ہیں ، آپ علیہ السّلام نے کئی سو سال تک اپنی قوم کو خفیہ، اعلانیہ ہر
طرح سے تبلیغ فرمائی اور اس دوران قوم کی طرف سے پہنچنے والی اذیتوں کو خندہ
پیشانی سے برداشت کیا اور صبر و تحمل کا مظاہرہ فرمایا ، عرصہ دراز تک قوم کو نصیحت
کرنے کے باوجود صرف 80 افراد نے ایمان قبول کیا اور جب قوم کے ایمان لانے اور راہِ
راست پر آنے کی کوئی امید باقی نہ رہی تو آپ علیہ السّلام نے ان کے خلاف دعا کی جو
قبول ہوئی اللہ پاک نے اہل ایمان کو کشتی میں سوار کر کے نجات بخشی اور کافروں کو
طوفان کے عذاب میں مبتلا کرکے ہلاک کردیا ۔جس کو اللہ پاک نے قراٰن مجید ہوں بیان
کیا: كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ
قَوْمُ نُوْحٍ فَكَذَّبُوْا عَبْدَنَا وَ قَالُوْا مَجْنُوْنٌ وَّ ازْدُجِرَ(۹) فَدَعَا
رَبَّهٗۤ اَنِّیْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ(۱۰) فَفَتَحْنَاۤ اَبْوَابَ السَّمَآءِ بِمَآءٍ
مُّنْهَمِرٍ٘ۖ(۱۱) وَّ فَجَّرْنَا
الْاَرْضَ عُیُوْنًا فَالْتَقَى الْمَآءُ عَلٰۤى اَمْرٍ قَدْ قُدِرَۚ(۱۲) وَ حَمَلْنٰهُ عَلٰى
ذَاتِ اَلْوَاحٍ وَّ دُسُرٍۙ(۱۳) تَجْرِیْ بِاَعْیُنِنَاۚ-جَزَآءً لِّمَنْ كَانَ كُفِرَ (۱۴) وَ
لَقَدْ تَّرَكْنٰهَاۤ اٰیَةً فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ(۱۵) ترجمۂ کنزالایمان: ان سے
پہلے نوح کی قوم نے جھٹلایا تو ہمارے بندے کو جھوٹا بتایا اور بولے وہ مجنون ہے
اور اُسے جھڑکا۔تو اس نے اپنے رب سے دعا کی کہ میں مغلوب ہوں تو میرا بدلہ لے۔ تو ہم نے آسمان
کے دروازے کھول دئیے زور کے بہتے پانی سے۔اور زمین چشمے کرکے بہا دی تو دونوں پانی
مل گئے اس مقدار پر جو مقدر تھی۔ اور ہم نے نوح کو سوار کیا تختوں اور کیلوں والی پر ۔کہ
ہماری نگاہ کے روبرو بہتی اس کے صلہ میں جس کے ساتھ کفر کیا گیا تھا ۔ اور ہم نے اسے
نشانی چھوڑا تو ہے کوئی دھیان کرنے والا ۔(پ27،القمر:9تا15)
حضرت ہود علیہ
السّلام: حضرت نوح علیہ السّلام کے برسوں بعد اللہ پاک ایک قوم پیدا
کی جسے اس زمانے میں قومِ عاد کہا جاتا ہے یہ لوگ صحت مند ، طاقتور ، بڑے قد کے
اور لمبی عمروں والے تھے لیکن ایمان و عمل کے اعتبار سے پستی کے شکار تھے۔ چنانچہ
بتوں کی پوجا کرنا ، لوگوں کا مذاق اڑانا، دوسروں کو تنگ کرنا تھا۔ تو اللہ پاک نے
اس قوم کی ہدایت کے لئے اس قوم میں ہود علیہ السّلام کو رسول بناکر ان کی طرف
بھیجا ، آپ علیہ السّلام نے انہیں وحدانیت الٰہی پر ایمان لانے، بتوں کی پوجا چھوڑ
دینے، صرف اللہ پاک کی عبادت کرنے اور برے اعمال ترک کرنے کی دعوت دی۔ لیکن بہت
تھوڑے افراد نے آپ علیہ السّلام کی تصدیق کی اور اکثر نے تکذیب و مخالفت کی اور بے
بنیاد الزامات لگانے پر کمر باندھ لی اور آپ کو دیوانہ بول کر آپ کا مذاق اڑانے
لگے ۔ جب ہود علیہ السّلام کی پیہم تبلیغ کے با وجود یہ لوگ ایمان نہ لائے اور کفر
و شرک ، انکارِ حق اور سرکشی پر ڈٹے رہے تو ان پر تند و تیز آندھی کی صورت میں
عذاب الہٰی آیا۔ یہ آندھی سات راتیں اور آٹھ دن لگاتار چلتی رہی، یہاں تک کہ قومِ
عاد کو تباہ و برباد کر کے نشانِ عبرت بنا دیا۔ اللہ پاک اس کو قراٰنِ مجید میں
یوں بیان فرمایا ہے: وَ اِلٰى عَادٍ اَخَاهُمْ
هُوْدًاؕ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ
غَیْرُهٗؕ-اَفَلَا تَتَّقُوْنَ(۶۵) قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ
قَوْمِهٖۤ اِنَّا لَنَرٰىكَ فِیْ سَفَاهَةٍ وَّ اِنَّا لَنَظُنُّكَ مِنَ
الْكٰذِبِیْنَ(۶۶) قَالَ یٰقَوْمِ لَیْسَ بِیْ سَفَاهَةٌ وَّ لٰكِنِّیْ رَسُوْلٌ
مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ(۶۷) اُبَلِّغُكُمْ
رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَ اَنَا لَكُمْ نَاصِحٌ اَمِیْنٌ(۶۸)
اَوَ عَجِبْتُمْ اَنْ جَآءَكُمْ ذِكْرٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَلٰى رَجُلٍ مِّنْكُمْ
لِیُنْذِرَكُمْؕ-وَ اذْكُرُوْۤا اِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَآءَ مِنْۢ بَعْدِ قَوْمِ
نُوْحٍ وَّ زَادَكُمْ فِی الْخَلْقِ بَصْۜطَةًۚ-فَاذْكُرُوْۤا اٰلَآءَ اللّٰهِ
لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ(۶۹) قَالُوْۤا اَجِئْتَنَا لِنَعْبُدَ اللّٰهَ وَحْدَهٗ
وَ نَذَرَ مَا كَانَ یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَاۚ-فَاْتِنَا بِمَا تَعِدُنَاۤ اِنْ كُنْتَ
مِنَ الصّٰدِقِیْنَ(۷۰) قَالَ قَدْ وَ قَعَ عَلَیْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ رِجْسٌ
وَّ غَضَبٌؕ-اَتُجَادِلُوْنَنِیْ فِیْۤ اَسْمَآءٍ سَمَّیْتُمُوْهَاۤ اَنْتُمْ وَ
اٰبَآؤُكُمْ مَّا نَزَّلَ اللّٰهُ بِهَا مِنْ سُلْطٰنٍؕ-فَانْتَظِرُوْۤا اِنِّیْ مَعَكُمْ
مِّنَ الْمُنْتَظِرِیْنَ(۷۱) فَاَنْجَیْنٰهُ وَ الَّذِیْنَ مَعَهٗ بِرَحْمَةٍ
مِّنَّا وَ قَطَعْنَا دَابِرَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ مَا كَانُوْا
مُؤْمِنِیْنَ۠(۷۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور عاد کی طرف ان
کی برادری سے ہود کو بھیجا کہا اے میری قوم اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا
کوئی معبود نہیں تو کیا تمہیں ڈر نہیں اس کی قوم کے سردار بولے بے شک ہم تمہیں بیوقوف
سمجھتے ہیں اور بے شک ہم تمہیں جھوٹوں میں گمان کرتے ہیں کہا اے میری قوم مجھے بے
وقوفی سے کیا علاقہ(تعلق) میں تو پروردگار عالم کا رسول ہوں۔ تمہیں اپنے رب کی
رسالتیں پہنچاتا ہوں اور تمہارا مُعَتَمد خیر خواہ ہوں۔ اور کیا تمہیں اس کا
اَچَنبھا(تعجب)ہوا کہ تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک نصیحت آئی تم میں کے ایک
مرد کی معرفت کہ وہ تمہیں ڈرائے اور یاد کرو جب اس نے تمہیں قوم نوح کا جانشین کیا
اور تمہارے بدن کا پھیلاؤ بڑھایا تو اللہ کی نعمتیں یاد کرو کہ کہیں تمہارا بھلا
ہو۔ بولے کیا تم ہمارے پاس اس لیے آئے ہو کہ ہم ایک اللہ کو پوجیں اور جو ہمارے
باپ دادا پوجتے تھے انہیں چھوڑ دیں تو لاؤ جس کا ہمیں وعدہ دے رہے ہو اگر سچے ہو۔
کہا ضرور تم پر تمہارے رب کا عذاب اور غضب پڑ گیا کیا مجھ سے خالی ان ناموں میں
جھگڑ رہے ہو جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لیے اللہ نے ان کی کوئی سند نہ
اُتاری تو راستہ دیکھو میں بھی تمہارے ساتھ دیکھتا ہوں۔ تو ہم نے اُسے اور اس کے ساتھ والوں کو اپنی
ایک بڑی رحمت فرما کر نجات دی اور جو ہماری آیتیں جھٹلاتے تھے ان کی جڑ کاٹ دی اور
وہ ایمان والے نہ تھے۔(پ8،الاعراف:65تا 72)
حضرت صالح علیہ
السّلام: قومِ عاد کے بعد قومِ ثمود قائم ہوئی اللہ پاک نے انہیں بھی
طویل عمریں اور کثیر نعمتیں عطا فرمائی تھیں۔ لیکن یہ بھی آخر کار اللہ پاک کی
نافرمانیوں اور کفر و شرک میں مبتلا ہو گئے۔ ان کی اصلاح و رہنمائی کے لئے اللہ
پاک نے حضرت صالح علیہ السّلام کو رسول بنا کر بھیجا آپ علیہ السّلام نے انہیں
توحید کو ماننے، صرف اللہ کی عبادت کرنے اور بتوں کی پوجا چھوڑ دینے کی دعوت دی۔
تو چند لوگ ایمان لے آئے اور اکثریت کفر و شرک پر ہی قائم رہی۔ قوم کے مطالبے پر
حضرت صالح علیہ السّلام نے اونٹنی کی صورت میں معجزہ بھی دکھایا۔ لیکن وہ لوگ
ایمان نہ لائے۔ حضرت صالح علیہ السّلام نے انہیں اونٹنی کے متعلق چند احکامات دئیے
جن سے کچھ عرصے بعد قوم نے رو گردانے کرلی اور موقع پاکر اونٹنی کو قتل کردیا۔ پھر
ایک گروہ نے حضرت صالح علیہ السّلام کے گھر پر حملہ کر کے انہیں قتل کرنے کی سازش
کی تو نتیجے میں وہ سازشی گروہ عذابِ الہٰی میں ہلاک ہو گیا۔ جبکہ منکرین تین دن
کے بعد عذابِ الہٰی کے شکار ہوگئے
۔جسے اللہ پاک نے قراٰنِ مجید یوں بیان فرمایا ہے: وَ اِلٰى ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًاۘ-قَالَ یٰقَوْمِ
اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-قَدْ جَآءَتْكُمْ بَیِّنَةٌ
مِّنْ رَّبِّكُمْؕ-هٰذِهٖ نَاقَةُ اللّٰهِ لَكُمْ اٰیَةً فَذَرُوْهَا تَاْكُلْ
فِیْۤ اَرْضِ اللّٰهِ وَ لَا تَمَسُّوْهَا بِسُوْٓءٍ فَیَاْخُذَكُمْ عَذَابٌ
اَلِیْمٌ(۷۳) وَ اذْكُرُوْۤا اِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَآءَ مِنْۢ بَعْدِ
عَادٍ وَّ بَوَّاَكُمْ فِی الْاَرْضِ تَتَّخِذُوْنَ مِنْ سُهُوْلِهَا قُصُوْرًا
وَّ تَنْحِتُوْنَ الْجِبَالَ بُیُوْتًاۚ-فَاذْكُرُوْۤا اٰلَآءَ اللّٰهِ وَ لَا
تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ(۷۴) قَالَ الْمَلَاُ
الَّذِیْنَ اسْتَكْبَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ لِلَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِمَنْ
اٰمَنَ مِنْهُمْ اَتَعْلَمُوْنَ اَنَّ صٰلِحًا مُّرْسَلٌ مِّنْ
رَّبِّهٖؕ-قَالُوْۤا اِنَّا بِمَاۤ اُرْسِلَ بِهٖ مُؤْمِنُوْنَ(۷۵) قَالَ الَّذِیْنَ اسْتَكْبَرُوْۤا اِنَّا بِالَّذِیْۤ
اٰمَنْتُمْ بِهٖ كٰفِرُوْنَ(۷۶) فَعَقَرُوا النَّاقَةَ وَ عَتَوْا عَنْ اَمْرِ
رَبِّهِمْ وَ قَالُوْا یٰصٰلِحُ ائْتِنَا بِمَا تَعِدُنَاۤ اِنْ كُنْتَ مِنَ
الْمُرْسَلِیْنَ(۷۷) فَاَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دَارِهِمْ
جٰثِمِیْنَ(۷۸) فَتَوَلّٰى عَنْهُمْ وَ قَالَ یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُكُمْ
رِسَالَةَ رَبِّیْ وَ نَصَحْتُ لَكُمْ وَ لٰكِنْ لَّا تُحِبُّوْنَ النّٰصِحِیْنَ(۷۹)
ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ثمود کی طرف
ان کی برادری سے صالح کو بھیجا کہا اے میری قوم اللہ کو پوجو اس کے سوا تمہارا کوئی
معبود نہیں بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے روشن دلیل آئی یہ اللہ کا ناقہ
ہے تمہارے لیے نشانی تو اسے چھوڑ دو کہ اللہ کی زمین میں کھائے اور اسے برائی سے
ہاتھ نہ لگاؤ کہ تمہیں دردناک عذاب آلے گا۔ اور یاد کرو جب تم کو عاد کا جانشین کیا
اور ملک میں جگہ دی کہ نرم زمین میں محل بناتے ہو ۔اور پہاڑوں میں مکان تراشتے ہو
تو اللہ کی نعمتیں یاد کرو اور زمین میں فساد مچاتے نہ پھرو۔ اس کی قوم کے تکبر
والے کمزور مسلمانوں سے بولے کیا تم جانتے ہو کہ صالح اپنے رب کے رسول ہیں بولے وہ
جو کچھ لے کر بھیجے گئے ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں۔ متکبر بولے جس پر تم ایمان لائے
ہمیں اس سے انکار ہے۔ پس ناقہ کی کوچیں(قدم) کاٹ دیں اور اپنے رب کے حکم سے سرکشی
کی اور بولے اے صالح ہم پر لے آؤ جس کا تم وعدہ دے رہے ہو اگر تم رسول ہو تو اُنہیں
زلزلہ نے آلیا تو صبح کو اپنے گھروں میں اوندھے رہ گئے۔ تو صالح نے ان سے منہ پھیرا
اور کہا اے میری قوم بے شک میں نے تمہیں اپنے رب کی رسالت پہنچادی اور تمہارا بھلا
چاہا مگر تم خیر خواہوں کے غرضی(پسند کرنے والے) ہی نہیں۔(پ8،الاعراف:73تا 79)
خاتمُ الانبیاء سیدُ
المرسلین محمد عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : سید الانبیاء احمدِ مجتبیٰ حبیبِ خدا محمدِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم وہ عظیم ہستی ہیں جن کی سیرت اور اوصاف کا چند صفحات میں ذکر ممکن نہیں
بلکہ اس کے لئے ہزارہا صفحات بھی ناکافی ہیں کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے
زندگیا ختم ہوئیں اور قلم ٹوٹ
گئے
پر تیرے اوصاف کا ایک باب بھی
پورا نہ ہوا
محمدِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اللہ پاک کے
آخری نبی اور سب سے افضل ہیں۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے چالیس سال کی
عمر میں نبوت کا اعلان فرمایا اور تین سال پوشیدہ طور پر تبلیغ اسلام کا فریضہ
انجام دیتے رہے اور چوتھے سال آپ علانیہ طور پر دینِ اسلام کی تبلیغ اور شرک و بت
پرستی کی کھلم کھلا برائی فرمانے لگے۔ جس کی وجہ سے کفار آپ کی مخالفت پر کمر بستہ
ہو گئے اور پھر حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو شہید تو نہ کر سکے لیکن طرح
طرح کی تکالیف اور آپ کے کاہن ، جادو گر ، شاعر ، مجنون ہونے کا پروپیگنڈہ کرنے
لگے۔ کفار آپ کے راستوں میں پتھر اور نوکیلے کانٹے بچھاتے، کبھی آپ پر پتھر
پھینکتے، تو کبھی آپ کو گالی دیتے، تو کبھی آپ کے ساتھ ساتھ غریب مسلمانوں پر بھی
ظلم و ستم کرتے، لیکن آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم صبر و تحمل اور احتیاط فی
الدین سے کام لیتے رہے۔ کیونکہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم لوگو کے لئے رحمت
بناکر بھیجے گئے تھے اسی لئے کافروں پر عذابِ الہٰی نازل نہ ہوا۔ جیسا کہ اللہ پاک
قراٰن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ہم نے تمہیں
نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لیے۔) آخر کار لوگ آپ کی امانت اور آپ کے صبر و
تحمل کو دیکھ کر جوق در جوق اسلام میں داخل ہونے لگے اور کفر و شرک کا سد باب ہونے
لگا۔ دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کے ہر کونے میں پرچمِ اسلام لہرانے لگا ۔ آپ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور آپ کی امت کا تذکرہ قراٰن کی روشنی میں کیا ہی کریں
کیونکہ پورا قراٰنِ کریم ہی آپ کی شان میں نازل ہوا ہے ۔
پیارے اسلامی بھائیو ! دیکھا آپ نے کہ اللہ پاک نے قوموں کی
اصلاح و ہدایت کے لئے کتنے انبیاء علیہم السّلام کو بھیجا لیکن پوری قوم میں سے
کچھ ہی ایمان لاتے تھے اکثریت کفر و شرک پر ڈٹی رہتی تھی۔ جس کی وجہ ان پر عذابِ
الہٰی نازل ہوا۔ لیکن ہمارے مکی مدنی آقا محمد مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم دونوں جہاں کے لئے رحمت بنا کر بھیجے گئے، اسی وجہ سے اللہ پاک ہم پر بھی
اپنا عذاب نازل نہیں فرماتا۔ ورنہ ہم نے تو ہر وہ کام کر رکھا ہے جس کام کی وجہ سے
پچھلی قومیں عذابِ الہٰی سے ہلاک و برباد ہوگئیں۔ تو ہمیں بھی چاہیے کہ اپنے
گناہوں سے توبہ کر کے زیادہ سے زیادہ نیکیاں کریں اور خدا کا شکر ادا کریں کہ اس
نے ہمیں اپنے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی امت میں پیدا فرمایا۔
اللہ پاک ہمیں اپنی اور اپنے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سچی
محبت عطا فرمائے ۔اٰمین یا رب العالمین۔