اللہ پاک کو اپنے محبوب بندوں کا ذکر محبوب ہے اس لیے اللہ پاک نے قرآنِ پاک میں جابجا اپنے پیارے بندوں کا ذکر کرتے ہوئے اپنی نعمتوں کے نزول کا تذکرہ فرمایا۔الله پاک نے اپنے حبیب لبیب ﷺ کو بھی انبیا ئے کرام علیہم السلام کا ذکر فرمانے کا حکم دیا تا کہ انبیائے کرام علیہم السلام کا ذکر حضور ﷺ کی سنت ہو جائے اور یہ ذکر سن کر لوگ ان نفوسِ قدسیہ کی پا ک خصلتوں سے نیکیوں کا ذوق و شوق حاصل کریں۔ حدیث شریف میں ہے کہ صالحین کے ذکر سے رحمتِ الٰہی نازل ہوتی ہے۔انبیائے کرام علیہم السلام کے ذکر کے متعلق چند آیاتِ کریمہ کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں۔

وَ اتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاَ نُوْحٍۘ-(یونس:71) ترجمہ کنز الایمان:اور انہیں نوح کی خبر پڑھ کر سناؤ۔ وَ اذْكُرْ عَبْدَنَا دَاوٗدَ ذَا الْاَیْدِۚ-(صٓ:17) ترجمہ کنز الایمان:اور ہمارے بندے داؤد نعمتوں والے کو یاد کرو۔ وَ اذْكُرْ عَبْدَنَاۤ اَیُّوْبَۘ-(صٓ:41) ترجمہ کنز الایمان:اور یاد کرو ہمارے بندے ایوب کو۔

حضرت نوح علیہ السلام:نوح علیہ السلام نے کہا: ثُمَّ اِنِّیْ دَعَوْتُهُمْ جِهَارًاۙ(۸) ثُمَّ اِنِّیْۤ اَعْلَنْتُ لَهُمْ وَ اَسْرَرْتُ لَهُمْ اِسْرَارًاۙ(۹) (پ29،نوح: 9) ترجمہ: پھر میں نے انہیں اعلانیہ بلایا، پھر میں نے ان سے باعلان بھی کہا اور آہستہ خفیفہ بھی کہا۔

حضرت نوح علیہ السلام کے والد کا نام لمک بن متوشلخ میں اخنوخ ہے۔آپ کو چالیس سال کے بعد اعلانِ نبوت کا حکم دیا گیا اور ساڑھے نو سو سال آپ اپنی قوم میں ٹھہرے اور اپنی قوم کو تبلیغ فرمائی۔ لیکن قوم قریب آنے کی بجائے دور ہوتی گئی۔ آپ کی تقریر کونہ سننے کی غرض سے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے (معاذ اللہ) آپ سے نفرت کرتے ہوتے اپنے چہرے ڈھانپ لیتے۔ اللہ کے نبی کی قوم پر شفقت کا یہ عالم کہ آپ ان کو اس راہ پر چلانا چاہتے جس پر چلنے سے ان کو نجات حاصل ہو، اللہ ان کی مغفرت کرے اور ان سے راضی ہو جائے۔ لیکن قوم کی بدبختی کا یہ عالم کہ وہ آپ سے نفرت کرتے اور آپ کی بات تک نہ سنتے۔ اتنا عرصہ تبلیغ کرنے کے باوجود ایمان لانے والوں کی مختصر تعداد نظر آئی، تین آپ کے بیٹے اور تین ان کی بیویاں اور آپ کی ایک زوجہ اور ستر مرد عورتیں، یہی ایماندار لوگ کشتی پر بھی سوار تھے یعنی حضرت نوح علیہ السلام سمیت کل 78 آدمی کشتی میں سوار تھے۔(تذكرة الانبیاء)

حضرت یونس علیہ السلام:حضرت یونس علیہ السلام کا اسم گرامی یونس بن متی ہے۔آپ حضرت ہود علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔ قرآنِ پاک میں آپ کا نام چار مرتبہ آیا ہے۔ آپ کو نینوی شہر کے لوگوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا۔آپ کی قوم وہ واحد قوم ہے جس پر عذاب کے آثار ظاہر ہونے کے بعد بھی عذاب ٹل گیا حالانکہ جب بھی قوم پر عذاب کے آثارہوئے توان پر عذاب آ کر ہی رہا۔

آپ کی قوم بتوں کی عبادت کرتی تھی۔ اللہ پاک کے ایک ہونے کا انکار کرتے۔آپ ان لوگوں کے پاس آئے،انہیں بت پرستی سے منع فرمایا، بات ماننے کی بجائے انہوں نے آپ پر پتھر برسائے اور ایسا تین مرتبہ ہوا تو آپ نے اللہ پاک کے حکم سے تین دن بعد عذاب نازل ہونے کی خبر دی۔ رات کو آپ شہر سے باہر تشریف لے گئے۔ صبح کو قوم نے عذاب کے آثار دیکھے تو انہیں یقین ہو گیا کہ اب عذاب آنے والا ہے۔ انہوں نے اپنے سب گنا ہوں سے توبہ کرلی،ایک دوسرے سے معافی مانگ لی اور تلافیاں بھی کی تو اللہ کو ان پر رحم آگیا اور ان کی توبہ قبول فرمائی۔ جس دن ان کی توبہ قبول ہوئی وہ عاشورا (دس محرم الحرام) اور جمعہ کا دن تھا۔

جب آپ سمندر میں گئے توکشتی سے نکل کر آپ کو سمندر میں ڈال دیاگیا۔ تو آپ کو ایک بڑی مچھلی نے نگل لیا اور آپ کو آیت ِکریمہ لَّاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنْتَ سُبْحٰنَكَ ﳓ اِنِّیْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَۚۖ(۸۷) کی برکت سے مچھلی کے پیٹ سے نجات ملی۔اس کے بعد آپ کو اللہ پاک نے موصل کے شہر نینوی کے ایک لاکھ سے زائد لوگوں کی طرف بھیج دیا جو ایمان لاچکے تھے۔ (تعلیماتِ قرآن،حصہ3)

حضرت ہود علیہ السلام:حضرت ہود علیہ السلام کاتعلق قوم عاد کے قبیلے سے ہے۔ آپ حضرت نوح علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔ آپ کا قد طویل، چہر ہ حسین وجمیل اور داڑھی لمبی تھی۔ آپ کی عمر 472 سال ہوئی۔

قوم عاد کے لوگ بتوں کی پوجا کرتے، راہ گیروں کو تنگ کرتے،پہاڑوں میں مضبوط گھر بنا کر یہ سمجھتے کہ ہم ہمیشہ زندہ رہیں گے۔غرور و تکبر کرتے اور طرح طر ح کی برائیوں میں مبتلا تھے۔ جب اللہ پاک نے حضرت ہود علیہ السلام کو ان کی طرف بھیجا تو انہوں نے آپ کی شان میں گستاخی کی،آپ نے ان کو بہت سمجھا یا مگر انہوں نے جواب دیا:تمہارا نصیحت کرنا یا نہ کرنا برا بر ہے،ہم پر کوئی عذاب نہیں آئے گا۔ان پر پہلے تین سال تک بارش نہ ہوئی تو انہوں نے مکہ معظمہ جا کر دعا مانگی تو سفید، سرخ اور سیاہ رنگ کے تین بادل ظاہر ہوئے، تو انہوں نے سیاہ بادل چُنا جو ان پر عذاب تھا۔ آپ پر ایمان لانے والوں کی تعداد چار ہزار تھی۔( تعلیماتِ قرآن، حصہ3)

حضرت ذوالکفل علیہ السلام: وَ اذْكُرْ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-وَ كُلٌّ مِّنَ الْاَخْیَارِؕ(۴۸) (پ23،صٓ:48) ترجمہ: یادکرواسماعیل اور یسع اور ذوالکفل کو اور سب اچھے ہیں۔

آپ کا نام” بشر “یا ”شرف “ہے۔ آپ حضرت ایوب علیہ السلام کے بیٹے ہیں۔ اللہ پاک نے حضرت ایوب علیہ السلام کے بعد آپ کو نبی بنا کر بھیجااو رحکم دیا کہ آپ لوگوں کو میری وحدانیت پر ایمان لانے کی طرف بلائیں کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں۔ آپ عمربھر شام کے علاقہ میں ہی رہے۔آپ کا وصال 75 سال کی عمر میں ہوا۔ آپ نے اپنے بیٹے کو وصیت کی تھی کہ میری وفات کے بعد نیکی کے عمل پر قائم رہنا، لوگوں کو بھی ایمان اور نیک اعمال کی ترغیب دینا۔آپ یتیموں، محتاجوں، غریبوں اور بیوہ عورتوں پر رحم فرماتے، ان کی کفالت کرتے،اسی وجہ سے آپ کا نام ذوالکفل(کفالت کرنے والا) پڑ گیا۔

حضرت یسع علیہ السلام: آپ کو اللہ یاک نے نبوت عطا فرمائی اورا س کے ساتھ ہی آپ کو بادشاہت بھی عطا فرمائی۔ آپ علیہ السلام دن کو روزہ رکھا کرتے اوررات کو اللہ پاک کے حضور کھڑے ہو کر نوافل ادا کرتے تھے۔ آپ کو کسی بات پر غصہ نہیں آتا تھا، خصوصاً آپ اپنی امت کے معاملات میں بڑی مفاہمت سے فیصلہ فرماتے۔

آپ علیہ السلام کی وفات کا وقت قریب آیا توبنی اسرائیل کے کچھ بڑے آدمی مل کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ بادشاہت میں اپنا جانشین کسی کو مقرر کر دیں، اس پر آپ نے فرمایاکہ میں ملک کی بھاگ دوڑ اس کے حوالے کروں گا جومجھے تین چیزوں کی ضمات دے۔ سب چپ ہو گئے سوائے ایک نوجوان کے اس نے ذمہ داری قبول کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ آپ نے کہا: ٹھیک ہے،تین چیزوں کی ذمہ داری قبول کرو:ایک یہ کہ تمام رات عبادت میں گزارنی ہے،سونانہیں۔دوسری بات یہ ہے کہ ہر روز روزہ رکھنا ہے۔ تیسری چیز یہ ہے کہ غصہ کی حالت میں کبھی فیصلہ نہیں کرنا۔

جب اس نوجوان نے تینوں چیزوں کی ذمہ داری قبول کرلی تو آپ نے بادشاہت کا نظام اس کے سپرد کر دیا۔ خیال رہے!نبوت میں خلیفہ نہیں بنا یا جا سکتا، اللہ پاک جسے چاہے نبی بنادے۔ اَللّٰهُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَهٗؕ-اللہ خوب جانتا ہے کہ اس نے منصبِ رسالت کسے عطا کرنا ہے۔ (تفسیر روح المعانی،2/82)