اللہ پاک نے مخلوق کی ہدایت و رہنمائی کے لیے جن بندوں کو پیدا کیا انہیں انبیا کہتے ہیں۔یہ گناہوں سے پاک ہوتے ہیں۔انہیں کامل عقل عطا کی گئی ہے۔انہیں اس لیے بھیجا گیا ہے کہ وہ اپنی قوموں کو کفر و شرک اور صغیرہ، کبیرہ گناہوں سے بچائیں۔ خدا کی راہ کا راستہ انبیائے کرام علیہم السلام کے ذریعے ہی ملتا ہے۔ انبیائے کرام علیہم السلام ہی وہ بشر ہیں جن کے پاس اللہ پاک کی طرف سے وحی نازل ہوتی ہے۔انبیائے کرام علیہم السلام بُرے کاموں اور بُری چیزوں سے بچنے کا حکم دیتے ہیں اور ان کو بھیجنے کا مقصد قرآن ِپاک میں موجود ہے۔

قرآن پاک کی روشنی میں انبیائے کرام علیہم السلام کی فضیلت: وَ مَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّا مُبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَۚ-فَمَنْ اٰمَنَ وَ اَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ(۴۸) (پ7،الانعام: 48) ترجمہ کنز الایمان:اور ہم نہیں بھیجتے رسولوں کو مگر خوشی اور ڈر سناتے تو جو ایمان لائے اور سنورے ان کو نہ کچھ اندیشہ نہ کچھ غم۔

اسمائے انبیا:حضرت آدم،حضرت نوح،حضرت ابراہیم،حضرت اسماعیل،حضرت اسحاق،حضرت یعقوب، حضرت یوسف،حضرت موسیٰ،حضرت ہارون،حضرت خضر،حضرت لوط،حضرت داؤد،حضرت سلیمان، حضرت ایوب،حضرت زکریا،حضرت یحییٰ،حضرت عیسی ٰ،حضرت الیاس،حضرت یونس،حضرت ادریس، حضرت ذوالکفل، حضرت صالح، حضرت عُزیر اور خاتم ُالانبیاء، محمد رسول اللہ ﷺ۔

1۔حضرت نوح علیہ السلام کی قوم:حضرت موسیٰ علیہ السلام دنیا میں چوتھے نبی اور کفار کی طرف بھیجے جانے والے پہلے رسول ہیں۔ طوفان کے بعد آپ علیہ السلام سے نسلِ انسانی چلی،اس لئے آدمِ ثانی کہلاتے ہیں۔ آپ علیہ السلام نے کئی سو سال تک اپنی قوم کو خفیہ،اعلانیہ ہر طرح سے تبلیغ فرمائی اور اس دوران قوم کی طرف سے پہنچنے والی تکلیف کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا اور صبر و تحمل کا مظاہرہ فرمایا۔قوم کو نصیحت کرنے کے باوجود اسّی افراد نے اسلام قبول کیا۔ جب قوم کے ایمان لانے اور راہ راست پر آنے کی کوئی امید باقی نہ رہی تو آپ علیہ السلام نے ان کے خلاف دعا کی جو قبول ہوئی۔اللہ پاک نے اہلِ ایمان کو کشتی میں سوار کر کے نجات بخشی اور کافروں کو طوفان کا عذاب بھیج کر ہلاک کر دیا۔(سیرتُ الانبیاء،ص 159)

2۔حضرت صالح علیہ السلام:قومِ عاد کی ہلاکت کے بعد قومِ ثمود ان کے قائم مقام ہوئے۔اللہ پاک نے انہیں بھی طویل عمریں اور کثیر نعمتیں عطا فرمائی تھیں، لیکن یہ بھی آخر کار اللہ پاک کی نافرمانی میں مبتلا ہوگئے اور ان کی اصلاح کے لئے اللہ پاک نے حضرت صالح علیہ السلام کو رسول بنا کر بھیجا۔ آپ علیہ السلام نے توحید کو ماننے،صرف اللہ پاک کی عبادت کرنے اور بتوں کی پوجا چھوڑ دینے کی دعوت دی تو چند لوگ ایمان لے آئے اور اکثریت کفر پر ہی قائم رہی۔قوم کے مطالبے پر حضرت صالح علیہ السلام نے اونٹنی کی صورت میں معجزہ بھی دکھایا لیکن وہ لوگ ایمان نہیں لائے۔(سیرت الانبیاء،ص 231)

3۔ حضرت سلیمان علیہ السلام:حضرت سلیمان علیہ السلام حضرت داؤد علیہ السلام کے فرزند ہیں۔یہ اپنے والدِ ماجد کے جانشین ہوئے اور اللہ پاک نے انہیں بھی علمِ نبوت سے نوازا اور عظیم الشان سلطنت کا حاکم بنایا۔آپ تختِ سلطنت پر چالیس برس جلوہ گر رہے۔جن و انسان،شیاطین و پرند وغیرہ سب پر آپ کی حکومت تھی اور سب کی زبانوں کا آپ علیہ السلام کو علم عطا کیا گیا تھا۔ آپ علیہ السلام کے زمانے میں عجیب و غریب صنعتوں کا ظہور ہوا۔(سیرت الانبیاء،ص 692)

4۔ حضرت یوشع علیہ السلام:حضرت یوشع علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اصحاب میں حضرت ہارون علیہ السلام کے بعد سب سے عظیم المرتبہ ساتھی تھے۔حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لائے اور ان کی تصدیق کی۔حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات کے سفر میں آپ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تھے اور ان کے وصالِ ظاہری تک ساتھ ہی رہے۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات کے بعد آپ کو نبوت عطا فرمائی۔ آپ نے جبارین کے خلاف جہاد فرمایا اور فتح حاصل کی۔ (سیرت الانبیاء،ص 655)

5۔حضرت عزیر علیہ السلام:آپ علیہ السلام اللہ پاک کے برگزیدہ نبی تھے۔آپ کو اللہ پاک نے مُردوں کو زندہ کرنے پر اپنی قدرت کا مشاہدہ کروایا، جس سے آپ عینُ الیقین رکھنے والوں کے منصب پر فائز ہوئے۔ آپ کو بنی اسرائیل کے لیے اپنی قدرت کی ایک حیرت انگیز نشانی بنا دیا کہ سو سال تک حالتِ وفات میں رہنے کے باوجود آپ 40 سال والی حالت پر رہے اور جب اپنے فرزندوں کے درمیان تشریف فرما ہوتے تو وہ بوڑھے نظر آتے اور آپ علیہ السلام جوان۔(سیرت الانبیاء،ص 730)